الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
أبواب السفر
کتاب: سفر کے احکام و مسائل
The Book on Traveling
52. باب مَا جَاءَ مَنْ لَمْ يَسْجُدْ فِيهِ
باب: جو لوگ سورۃ النجم میں سجدے کے قائل نہیں۔
Chapter: What Has Been Related About The One Who Did Not Prostrate For It
حدیث نمبر: 576
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا يحيى بن موسى، حدثنا وكيع، عن ابن ابي ذئب، عن يزيد بن عبد الله بن قسيط، عن عطاء بن يسار، عن زيد بن ثابت، قال: " قرات على رسول الله صلى الله عليه وسلم النجم فلم يسجد فيها ". قال ابو عيسى: حديث زيد بن ثابت حديث حسن صحيح، وتاول بعض اهل العلم هذا الحديث، فقال: " إنما ترك النبي صلى الله عليه وسلم السجود " لان زيد بن ثابت حين قرا فلم يسجد لم يسجد النبي صلى الله عليه وسلم، وقالوا: السجدة واجبة على من سمعها فلم يرخصوا في تركها، وقالوا: إن سمع الرجل وهو على غير وضوء، فإذا توضا سجد، وهو قول: سفيان الثوري واهل الكوفة، وبه يقول إسحاق، وقال بعض اهل العلم: إنما السجدة على من اراد ان يسجد فيها، والتمس فضلها ورخصوا في تركها إن اراد ذلك، واحتجوا بالحديث المرفوع، حديث زيد بن ثابت، حيث قال: قرات على النبي صلى الله عليه وسلم النجم فلم يسجد فيها، فقالوا: لو كانت السجدة واجبة لم يترك النبي صلى الله عليه وسلم زيدا حتى كان يسجد، ويسجد النبي صلى الله عليه وسلم. واحتجوا بحديث عمر، انه قرا سجدة على المنبر فنزل فسجد، ثم قراها في الجمعة الثانية فتهيا الناس للسجود، فقال: إنها لم تكتب علينا إلا ان نشاء، فلم يسجد ولم يسجدوا. فذهب بعض اهل العلم إلى هذا، وهو قول الشافعي، واحمد.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: " قَرَأْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّجْمَ فَلَمْ يَسْجُدْ فِيهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَتَأَوَّلَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ هَذَا الْحَدِيثَ، فَقَالَ: " إِنَّمَا تَرَكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السُّجُودَ " لِأَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ حِينَ قَرَأَ فَلَمْ يَسْجُدْ لَمْ يَسْجُدِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالُوا: السَّجْدَةُ وَاجِبَةٌ عَلَى مَنْ سَمِعَهَا فَلَمْ يُرَخِّصُوا فِي تَرْكِهَا، وَقَالُوا: إِنْ سَمِعَ الرَّجُلُ وَهُوَ عَلَى غَيْرِ وُضُوءٍ، فَإِذَا تَوَضَّأَ سَجَدَ، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، وَبِهِ يَقُولُ إِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِنَّمَا السَّجْدَةُ عَلَى مَنْ أَرَادَ أَنْ يَسْجُدَ فِيهَا، وَالْتَمَسَ فَضْلَهَا وَرَخَّصُوا فِي تَرْكِهَا إِنْ أَرَادَ ذَلِكَ، وَاحْتَجُّوا بِالْحَدِيثِ الْمَرْفُوعِ، حَدِيثِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، حَيْثُ قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّجْمَ فَلَمْ يَسْجُدْ فِيهَا، فَقَالُوا: لَوْ كَانَتِ السَّجْدَةُ وَاجِبَةً لَمْ يَتْرُكِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْدًا حَتَّى كَانَ يَسْجُدَ، وَيَسْجُدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَاحْتَجُّوا بِحَدِيثِ عُمَرَ، أَنَّهُ قَرَأَ سَجْدَةً عَلَى الْمِنْبَرِ فَنَزَلَ فَسَجَدَ، ثُمَّ قَرَأَهَا فِي الْجُمُعَةِ الثَّانِيَةَ فَتَهَيَّأَ النَّاسُ لِلسُّجُودِ، فَقَالَ: إِنَّهَا لَمْ تُكْتَبْ عَلَيْنَا إِلَّا أَنْ نَشَاءَ، فَلَمْ يَسْجُدْ وَلَمْ يَسْجُدُوا. فَذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ.
زید بن ثابت رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سورۃ النجم پڑھی مگر آپ نے سجدہ نہیں کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- زید بن ثابت رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- بعض اہل علم نے اس حدیث کی تاویل کی ہے، انہوں نے کہا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ اس لیے نہیں کیا کہ زید بن ثابت رضی الله عنہ نے جس وقت یہ سورۃ پڑھی تو خود انہوں نے بھی سجدہ نہیں کیا، اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سجدہ نہیں کیا۔ وہ کہتے ہیں: یہ سجدہ ہر اس شخص پر واجب ہے جو اسے سنے، ان لوگوں نے اسے چھوڑنے کی اجازت نہیں دی ہے، وہ کہتے ہیں کہ آدمی اگر اسے سنے اور وہ بلا وضو ہو تو جب وضو کر لے سجدہ کرے۔ اور یہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا قول ہے، اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ اور بعض اہل علم کہتے ہیں: یہ سجدہ صرف اس پر ہے جو سجدہ کرنے کا ارادہ کرے، اور اس کی خیر و برکت کا طلب گار ہو، انہوں نے اسے ترک کرنے کی اجازت دی ہے، اگر وہ ترک کرنا چاہے،
۳- اور انہوں نے حدیث مرفوع یعنی زید بن ثابت رضی الله عنہ کی حدیث سے جس میں ہے میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سورۃ النجم پڑھی، لیکن آپ نے اس میں سجدہ نہیں کیا۔ استدلال کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ سجدہ واجب ہوتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم زید کو سجدہ کرائے بغیر نہ چھوڑتے اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی سجدہ کرتے۔ اور ان لوگوں نے عمر رضی الله عنہ کی حدیث سے بھی استدلال ہے کہ انہوں نے منبر پر سجدہ کی آیت پڑھی اور پھر اتر کر سجدہ کیا، اسے دوسرے جمعہ میں پھر پڑھا، لوگ سجدے کے لیے تیار ہوئے تو انہوں نے کہا: یہ ہم پر فرض نہیں ہے سوائے اس کے کہ ہم چاہیں تو چنانچہ نہ تو انہوں نے سجدہ کیا اور نہ لوگوں نے کیا، بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں اور یہی شافعی اور احمد کا بھی قول ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/سجود القرآن 6 (1072)، صحیح مسلم/المساجد 20 (577)، سنن ابی داود/ الصلاة 329 (1404)، سنن النسائی/الافتتاح 50 (961)، (تحفة الأشراف: 3733)، مسند احمد (5/183)، سنن الدارمی/الصلاة 164 (1513) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (1266)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.