الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب الطلاق واللعان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: طلاق اور لعان کے احکام و مسائل
The Book on Divorce and Li'an
2. باب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ الْبَتَّةَ
باب: آدمی کے اپنی بیوی کو قطعی طلاق (بتہ) دینے کا بیان۔
Chapter: What has been related about a man who divorces his wife irrevocably
حدیث نمبر: 1177
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا قبيصة، عن جرير بن حازم، عن الزبير بن سعيد، عن عبد الله بن يزيد بن ركانة، عن ابيه، عن جده، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، إني طلقت امراتي البتة، فقال: " ما اردت بها؟ " قلت: واحدة، قال: " والله؟ " قلت: والله، قال: " فهو ما اردت ". قال ابو عيسى: هذا حديث لا نعرفه، إلا من هذا الوجه، وسالت محمدا عن هذا الحديث، فقال: فيه اضطراب ويروى، عن عكرمة، عن ابن عباس، ان ركانة طلق امراته ثلاثا، وقد اختلف اهل العلم، من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم في طلاق البتة، فروي عن عمر بن الخطاب، انه جعل البتة واحدة وروي، عن علي انه جعلها ثلاثا، وقال بعض اهل العلم: فيه نية الرجل، إن نوى واحدة فواحدة، وإن نوى ثلاثا فثلاث، وإن نوى ثنتين لم تكن إلا واحدة، وهو قول: الثوري، واهل الكوفة، وقال: مالك بن انس في البتة: إن كان قد دخل بها فهي ثلاث تطليقات، وقال الشافعي: إن نوى واحدة فواحدة يملك الرجعة، وإن نوى ثنتين فثنتان، وإن نوى ثلاثا فثلاث.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ، عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي طَلَّقْتُ امْرَأَتِيَ الْبَتَّةَ، فَقَالَ: " مَا أَرَدْتَ بِهَا؟ " قُلْتُ: وَاحِدَةً، قَالَ: " وَاللَّهِ؟ " قُلْتُ: وَاللَّهِ، قَالَ: " فَهُوَ مَا أَرَدْتَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ، إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: فِيهِ اضْطِرَابٌ وَيُرْوَى، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رُكَانَةَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا، وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ، مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ فِي طَلَاقِ الْبَتَّةِ، فَرُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، أَنَّهُ جَعَلَ الْبَتَّةَ وَاحِدَةً وَرُوِيَ، عَنْ عَلِيٍّ أَنَّهُ جَعَلَهَا ثَلَاثًا، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: فِيهِ نِيَّةُ الرَّجُلِ، إِنْ نَوَى وَاحِدَةً فَوَاحِدَةٌ، وَإِنْ نَوَى ثَلَاثًا فَثَلَاثٌ، وَإِنْ نَوَى ثِنْتَيْنِ لَمْ تَكُنْ إِلَّا وَاحِدَةً، وَهُوَ قَوْلُ: الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، وقَالَ: مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ فِي الْبَتَّةِ: إِنْ كَانَ قَدْ دَخَلَ بِهَا فَهِيَ ثَلَاثُ تَطْلِيقَاتٍ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: إِنْ نَوَى وَاحِدَةً فَوَاحِدَةٌ يَمْلِكُ الرَّجْعَةَ، وَإِنْ نَوَى ثِنْتَيْنِ فَثِنْتَانِ، وَإِنْ نَوَى ثَلَاثًا فَثَلَاثٌ.
رکانہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اپنی بیوی کو قطعی طلاق (بتّہ) دی ہے۔ آپ نے فرمایا: تم نے اس سے کیا مراد لی تھی؟، میں نے عرض کیا: ایک طلاق مراد لی تھی، آپ نے پوچھا: اللہ کی قسم؟ میں نے کہا: اللہ کی قسم! آپ نے فرمایا: تو یہ اتنی ہی ہے جتنی کا تم نے ارادہ کیا تھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس حدیث کو ہم صرف اسی طریق سے جانتے ہیں،
۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: اس میں اضطراب ہے، عکرمہ سے روایت ہے کہ ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں رکانہ نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی تھیں،
۳- اہل علم صحابہ کرام وغیرہم میں سے عمر بن خطاب رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے طلاق بتہ کو ایک طلاق قرار دی ہے،
۴- اور علی رضی الله عنہ سے مروی ہے انہوں نے اسے تین طلاق قرار دی ہے،
۵- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں آدمی کی نیت کا اعتبار ہو گا۔ اگر اس نے ایک کی نیت کی ہے تو ایک ہو گی اور اگر تین کی کی ہے تو تین ہو گی۔ اور اگر اس نے دو کی نیت کی ہے تو صرف ایک شمار ہو گی۔ یہی ثوری اور اہل کوفہ کا قول ہے،
۶- مالک بن انس قطعی طلاق (بتّہ) کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر عورت ایسی ہے کہ اس کے ساتھ دخول ہو چکا ہے تو طلاق بتّہ تین طلاق شمار ہو گی،
۷- شافعی کہتے ہیں: اگر اس نے ایک کی نیت کی ہے تو ایک ہو گی اور اسے رجعت کا اختیار ہو گا۔ اگر دو کی نیت کی ہے تو دو ہو گی اور اگر تین کی نیت کی ہے تو تین شمار ہو گی۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطلاق 14 (2208)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 19 (2051) سنن الدارمی/الطلاق 8 (2318)، (تحفة الأشراف: 3613) (ضعیف) (سند میں زبیر بن سعید اور عبد اللہ بن علی ضعیف ہیں، اور علی بن یزید بن رکانہ مجہول ہیں، نیز بروایتِ ترمذی بقول امام بخاری: اس حدیث میں سخت اضطراب ہے، تفصیل کے لیے دیکھئے: الارواء (رقم 2063)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (2051) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (444)، ضعيف أبي داود (479 / 2206)، الإرواء (2063) //

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.