الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب الطلاق واللعان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: طلاق اور لعان کے احکام و مسائل
The Book on Divorce and Li'an
23. باب مَا جَاءَ أَيْنَ تَعْتَدُّ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا
باب: شوہر کی وفات کے بعد عورت عدت کہاں گزارے؟
Chapter: What is reported on where the widow observes her 'Iddah
حدیث نمبر: 1204
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا الانصاري، انبانا معن، انبانا مالك، عن سعد بن إسحاق بن كعب بن عجرة، عن عمته زينب بنت كعب بن عجرة، ان الفريعة بنت مالك بن سنان، وهي اخت ابي سعيد الخدري، اخبرتها، انها جاءت رسول الله صلى الله عليه وسلم تساله، ان ترجع إلى اهلها في بني خدرة، وان زوجها خرج في طلب اعبد له، ابقوا حتى إذا كان بطرف القدوم، لحقهم فقتلوه. قالت: فسالت رسول الله صلى الله عليه وسلم، ان ارجع إلى اهلي فإن زوجي لم يترك لي مسكنا يملكه، ولا نفقة، قالت: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " نعم "، قالت: فانصرفت حتى إذا كنت في الحجرة، او في المسجد ناداني رسول الله صلى الله عليه وسلم، او امر بي فنوديت له، فقال: " كيف قلت؟ " قالت: فرددت عليه القصة التي ذكرت له من شان زوجي، قال: " امكثي في بيتك، حتى يبلغ الكتاب اجله ". قالت: فاعتددت فيه اربعة اشهر وعشرا، قالت: فلما كان عثمان ارسل إلي فسالني عن ذلك، فاخبرته، فاتبعه، وقضى به. حدثنا محمد بن بشار، انبانا يحيى بن سعيد، انبانا سعد بن إسحاق بن كعب بن عجرة فذكر نحوه بمعناه. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، والعمل على هذا الحديث عند اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، لم يروا للمعتدة ان تنتقل من بيت زوجها، حتى تنقضي عدتها، وهو قول: سفيان الثوري، والشافعي، واحمد، وإسحاق، وقال بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم: للمراة ان تعتد حيث شاءت، وإن لم تعتد في بيت زوجها. قال ابو عيسى: والقول الاول اصح.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، أَنْبَأَنَا مَعْنٌ، أَنْبَأَنَا مَالِكٌ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِسْحَاق بْنِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، عَنْ عَمَّتِهِ زَيْنَبَ بِنْتِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، أَنَّ الْفُرَيْعَةَ بِنْتَ مَالِكِ بْنِ سِنَانٍ، وَهِيَ أُخْتُ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَخْبَرَتْهَا، أَنَّهَا جَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسْأَلُهُ، أَنْ تَرْجِعَ إِلَى أَهْلِهَا فِي بَنِي خُدْرَةَ، وَأَنَّ زَوْجَهَا خَرَجَ فِي طَلَبِ أَعْبُدٍ لَهُ، أَبَقُوا حَتَّى إِذَا كَانَ بِطَرَفِ الْقَدُومِ، لَحِقَهُمْ فَقَتَلُوهُ. قَالَتْ: فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ أَرْجِعَ إِلَى أَهْلِي فَإِنَّ زَوْجِي لَمْ يَتْرُكْ لِي مَسْكَنًا يَمْلِكُهُ، وَلَا نَفَقَةً، قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَعَمْ "، قَالَتْ: فَانْصَرَفْتُ حَتَّى إِذَا كُنْتُ فِي الْحُجْرَةِ، أَوْ فِي الْمَسْجِدِ نَادَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ أَمَرَ بِي فَنُودِيتُ لَهُ، فَقَالَ: " كَيْفَ قُلْتِ؟ " قَالَتْ: فَرَدَدْتُ عَلَيْهِ الْقِصَّةَ الَّتِي ذَكَرْتُ لَهُ مِنْ شَأْنِ زَوْجِي، قَالَ: " امْكُثِي فِي بَيْتِكِ، حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ ". قَالَتْ: فَاعْتَدَدْتُ فِيهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، قَالَتْ: فَلَمَّا كَانَ عُثْمَانُ أَرْسَلَ إِلَيَّ فَسَأَلَنِي عَنْ ذَلِكَ، فَأَخْبَرْتُهُ، فَاتَّبَعَهُ، وَقَضَى بِهِ. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، أَنْبَأَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَنْبَأَنَا سَعْدُ بْنُ إِسْحَاق بْنِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ فَذَكَرَ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، لَمْ يَرَوْا لِلْمُعْتَدَّةِ أَنْ تَنْتَقِلَ مِنْ بَيْتِ زَوْجِهَا، حَتَّى تَنْقَضِيَ عِدَّتُهَا، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ: لِلْمَرْأَةِ أَنْ تَعْتَدَّ حَيْثُ شَاءَتْ، وَإِنْ لَمْ تَعْتَدَّ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ.
زینب بنت کعب بن عجرہ سے روایت ہے کہ فریعہ بنت مالک بن سنان رضی الله عنہا جو ابو سعید خدری کی بہن ہیں نے انہیں خبر دی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، وہ آپ سے پوچھ رہی تھیں کہ وہ اپنے گھر والوں کے پاس بنی خدرہ میں واپس چلی جائیں (ہوا یہ تھا کہ) ان کے شوہر اپنے ان غلاموں کو ڈھونڈنے کے لیے نکلے تھے جو بھاگ گئے تھے، جب وہ مقام قدوم کے کنارے پر ان سے ملے، تو ان غلاموں نے انہیں مار ڈالا۔ فریعہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤں؟ کیونکہ میرے شوہر نے میرے لیے اپنی ملکیت کا نہ تو کوئی مکان چھوڑا ہے اور نہ کچھ خرچ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، چنانچہ میں واپس جانے لگی یہاں تک کہ میں حجرہ شریفہ یا مسجد نبوی ہی میں ابھی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آواز دی۔ (یا آپ نے حکم دیا کہ مجھے آواز دی جائے) پھر آپ نے پوچھا: تم نے کیسے کہا؟ میں نے وہی قصہ دہرا دیا جو میں نے آپ سے اپنے شوہر کے بارے میں ذکر کیا تھا، آپ نے فرمایا: تم اپنے گھر ہی میں رہو یہاں تک کہ تمہاری عدت ختم ہو جائے، چنانچہ میں نے اسی گھر میں چار ماہ دس دن عدت گزاری۔ پھر جب عثمان رضی الله عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے مجھے بلوایا اور مجھ سے اس بارے میں پوچھا تو میں نے ان کو بتایا۔ چنانچہ انہوں نے اس کی پیروی کی اور اسی کے مطابق فیصلہ کیا۔ محمد بن بشار کی سند سے بھی اس جیسی اسی مفہوم کی حدیث آئی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے، یہ لوگ عدت گزارنے والی عورت کے لیے درست نہیں سمجھتے ہیں کہ اپنے شوہر کے گھر سے منتقل ہو جب تک کہ وہ اپنی عدت نہ گزار لے۔ یہی سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے،
۳- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اگر عورت اپنے شوہر کے گھر میں عدت نہ گزارے تو اس کو اختیار ہے جہاں چاہے عدت گزارے،
۴- (امام ترمذی) کہتے ہیں: پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطلاق 44 (2300)، سنن النسائی/الطلاق 60 (3558)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 8 (2031)، موطا امام مالک/الطلاق 31 (87) (تحفة الأشراف: 18045)، مسند احمد (6/370)، سنن الدارمی/الطلاق 14 (2333) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2031)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.