الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
مسنَدِ المَدَنِیِّینَ رَضِیَ اللَّه عَنهم اَجمَعِینَ
416. حَدِيثُ رَسُولِ قَيْصَرَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
حدیث نمبر: 16693
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) قال عبد الله بن احمد: حدثني سريج بن يونس من كتابه، قال: حدثنا عباد بن عباد يعني المهلبي ، عن عبد الله بن عثمان ابن خثيم ، عن سعيد بن ابي راشد مولى لآل معاوية، قال: قدمت الشام، فقيل لي: في هذه الكنيسة رسول قيصر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فدخلنا الكنيسة، فإذا انا بشيخ كبير، فقلت له: انت رسول قيصر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم؟، فقال: نعم، قال: قلت: حدثني عن ذلك، قال: إنه لما غزا تبوك، كتب إلى قيصر كتابا، وبعث مع رجل، يقال له: دحية بن خليفة، فلما قرا كتابه وضعه معه على سريره، وبعث إلى بطارقته ورءوس اصحابه، فقال: إن هذا الرجل قد بعث إليكم رسولا، وكتب إليكم كتابا يخيركم إحدى ثلاث إما ان تتبعوه على دينه، او تقروا له بخراج يجري له عليكم ويقركم على هيئتكم في بلادكم، او ان تلقوا إليه بالحرب، قال: فنخروا نخرة حتى خرج بعضهم من برانسهم، وقالوا: لا نتبعه على دينه، وندع ديننا ودين آبائنا، ولا نقر له بخراج يجري له علينا، ولكن نلقي إليه الحرب، فقال: قد كان ذاك، ولكني كرهت ان افتات دونكم بامر، قال عباد: فقلت لابن خثيم: اوليس قد كان قارب وهم بالإسلام فيما بلغنا؟، قال: بلى، لولا انه راى منهم، قال: فقال: ابغوني رجلا من العرب اكتب معه إليه جواب كتابه، قال: فاتيت وانا شاب، فانطلق بي إليه، فكتب جوابه، وقال لي: مهما نسيت من شيء فاحفظ عني ثلاث خلال انظر إذا هو قرا كتابي هل يذكر الليل والنهار، وهل يذكر كتابه إلي، وانظر هل ترى في ظهره علما، قال: فاقبلت حتى اتيته وهو بتبوك في حلقة من اصحابه منتجين فسالت فاخبرت به، فدفعت إليه الكتاب، فدعا معاوية فقرا عليه الكتاب، فلما اتى على قوله: دعوتني إلى جنة عرضها السموات والارض، فاين النار؟، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا جاء الليل فاين النهار؟"، قال: فقال:" إني قد كتبت إلى النجاشي فخرقه، فخرقه الله مخرق الملك"، قال عباد: فقلت لابن خثيم: اليس قد اسلم النجاشي، ونعاه رسول الله صلى الله عليه وسلم بالمدينة إلى اصحابه، فصلى عليه؟، قال: بلى، ذاك فلان بن فلان، وهذا فلان ابن فلان، قد ذكرهم ابن خثيم جميعا ونسيتهما" وكتبت إلى كسرى كتابا، فمزقه، فمزقه الله تمزيق الملك، وكتبت إلى قيصر كتابا، فاجابني فيه، فلم تزل الناس يخشون منهم باسا ما كان في العيش خير"، ثم قال لي:" من انت؟"، قلت: من تنوخ، قال:" يا اخا تنوخ، هل لك في الإسلام؟"، قلت: لا، إني اقبلت من قبل قوم وانا فيهم على دين، ولست مستبدلا بدينهم حتى ارجع إليهم، قال: فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم او تبسم، فلما قضيت حاجتي، قمت، فلما وليت دعاني، فقال:" يا اخا تنوخ، هلم فامض للذي امرت به"، قال: وكنت قد نسيتها، فاستدرت من وراء الحلقة، القى بردة كانت عليه عن ظهره، فرايت غضروف كتفه مثل المحجم الضخم.(حديث مرفوع) قال عَبْد اللَّهِ بن أحمد: حَدَّثَنِي سُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ مِنْ كِتَابِهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ يَعْنِي الْمُهَلَّبِيَّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ ابْنِ خُثَيْمٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي رَاشِدٍ مَوْلًى لِآلِ مُعَاوِيَةَ، قَالَ: قَدِمْتُ الشَّامَ، فَقِيلَ لِي: فِي هَذِهِ الْكَنِيسَةِ رَسُولُ قَيْصَرَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَدَخَلْنَا الْكَنِيسَةَ، فَإِذَا أَنَا بِشَيْخٍ كَبِيرٍ، فَقُلْتُ لَهُ: أَنْتَ رَسُولُ قَيْصَرَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، فَقَالَ: نَعَمْ، قَالَ: قُلْتُ: حَدِّثْنِي عَنْ ذَلِكَ، قَالَ: إِنَّهُ لَمَّا غَزَا تَبُوكَ، كَتَبَ إِلَى قَيْصَرَ كِتَابًا، وَبَعَثَ مَعَ رَجُلٍ، يُقَالُ لَهُ: دِحْيَةُ بْنُ خَلِيفَةَ، فَلَمَّا قَرَأَ كِتَابَهُ وَضَعَهُ مَعَهُ عَلَى سَرِيرِهِ، وَبَعَثَ إِلَى بَطَارِقَتِهِ وَرُءُوسِ أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ قَدْ بَعَثَ إِلَيْكُمْ رَسُولًا، وَكَتَبَ إِلَيْكُمْ كِتَابًا يُخَيِّرُكُمْ إِحْدَى ثَلَاثٍ إِمَّا أَنْ تَتَّبِعُوهُ عَلَى دِينِهِ، أَوْ تُقِرُّوا لَهُ بِخَرَاجٍ يَجْرِي لَهُ عَلَيْكُمْ وَيُقِرَّكُمْ عَلَى هَيْئَتِكُمْ فِي بِلَادِكُمْ، أَوْ أَنْ تُلْقُوا إِلَيْهِ بِالْحَرْبِ، قَالَ: فَنَخَرُوا نَخْرَةً حَتَّى خَرَجَ بَعْضُهُمْ مِنْ بَرَانِسِهِمْ، وَقَالُوا: لَا نَتَّبِعُهُ عَلَى دِينِهِ، وَنَدَعُ دِينَنَا وَدِينَ آبَائِنَا، وَلَا نُقِرُّ لَهُ بِخَرَاجٍ يَجْرِي لَهُ عَلَيْنَا، وَلَكِنْ نُلْقِي إِلَيْهِ الْحَرْبَ، فَقَالَ: قَدْ كَانَ ذَاكَ، وَلَكِنِّي كَرِهْتُ أَنْ أَفْتَاتَ دُونَكُمْ بِأَمْرٍ، قَالَ عَبَّادٌ: فَقُلْتُ لِابْنِ خُثَيْمٍ: أَوَلَيْسَ قَدْ كَانَ قَارَبَ وَهَمَّ بِالْإِسْلَامِ فِيمَا بَلَغَنَا؟، قَالَ: بَلَى، لَوْلَا أَنَّهُ رَأَى مِنْهُمْ، قَالَ: فَقَالَ: ابْغُونِي رَجُلًا مِنَ الْعَرَبِ أَكْتُبْ مَعَهُ إِلَيْهِ جَوَابَ كِتَابِهِ، قَالَ: فَأَتَيْتُ وَأَنَا شَابٌّ، فَانْطُلِقَ بِي إِلَيْهِ، فَكَتَبَ جَوَابَهُ، وَقَالَ لِي: مَهْمَا نَسِيتَ مِنْ شَيْءٍ فَاحْفَظْ عَنِّي ثَلَاثَ خِلَالٍ انْظُرْ إِذَا هُوَ قَرَأَ كِتَابِي هَلْ يَذْكُرُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ، وَهَلْ يَذْكُرُ كِتَابَهُ إِلَيَّ، وَانْظُرْ هَلْ تَرَى فِي ظَهْرِهِ عَلَمًا، قَالَ: فَأَقْبَلْتُ حَتَّى أَتَيْتُهُ وَهُوَ بِتَبُوكَ فِي حَلْقَةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ مُنْتِجينَ فَسَأَلْتُ فَأُخْبِرْتُ بِهِ، فَدَفَعْتُ إِلَيْهِ الْكِتَابَ، فَدَعَا مُعَاوِيَةَ فَقَرَأَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ، فَلَمَّا أَتَى عَلَى قَوْلِهِ: دَعَوْتَنِي إِلَى جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَوَاتُ وَالْأَرْضُ، فَأَيْنَ النَّارُ؟، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا جَاءَ اللَّيْلُ فَأَيْنَ النَّهَارُ؟"، قَالَ: فَقَالَ:" إِنِّي قَدْ كَتَبْتُ إِلَى النَّجَاشِيِّ فَخَرَّقَهُ، فَخَرَّقَهُ اللَّهُ مُخَرِّقَ الْمُلْكِ"، قَالَ عَبَّادٌ: فَقُلْتُ لِابْنِ خُثَيْمٍ: أَلَيْسَ قَدْ أَسْلَمَ النَّجَاشِيُّ، وَنَعَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَصَلَّى عَلَيْهِ؟، قَالَ: بَلَى، ذَاكَ فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ، وَهَذَا فُلَانُ ابْنُ فُلَانٍ، قَدْ ذَكَرَهُمْ ابْنُ خُثَيْمٍ جَمِيعًا وَنَسِيتُهُمَا" وَكَتَبْتُ إِلَى كِسْرَى كِتَابًا، فَمَزَّقَهُ، فَمَزَّقَهُ اللَّهُ تَمْزِيقَ الْمُلْكِ، وَكَتَبْتُ إِلَى قَيْصَرَ كِتَابًا، فَأَجَابَنِي فِيهِ، فَلَمْ تَزَلْ النَّاسُ يَخْشَوْنَ مِنْهُمْ بَأْسًا مَا كَانَ فِي الْعَيْشِ خَيْرٌ"، ثُمَّ قَالَ لِي:" مَنْ أَنْتَ؟"، قُلْتُ: مِنْ تَنُوخٍ، قَالَ:" يَا أَخَا تَنُوخٍ، هَلْ لَكَ فِي الْإِسْلَامِ؟"، قُلْتُ: لَا، إِنِّي أَقْبَلْتُ مِنْ قِبَلِ قَوْمٍ وَأَنَا فِيهِمْ عَلَى دِينٍ، وَلَسْتُ مُسْتَبْدِلًا بِدِينِهِمْ حَتَّى أَرْجِعَ إِلَيْهِمْ، قَالَ: فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ تَبَسَّمَ، فَلَمَّا قَضَيْتُ حَاجَتِي، قُمْتُ، فَلَمَّا وَلَّيْتُ دَعَانِي، فَقَالَ:" يَا أَخَا تَنُوخٍ، هَلُمَّ فَامْضِ لِلَّذِي أُمِرْتَ بِهِ"، قَالَ: وَكُنْتُ قَدْ نَسِيتُهَا، فَاسْتَدَرْتُ مِنْ وَرَاءِ الْحَلْقَةِ، أَلْقَى بُرْدَةً كَانَتْ عَلَيْهِ عَنْ ظَهْرِهِ، فَرَأَيْتُ غُضْرُوفَ كَتِفِهِ مِثْلَ الْمِحْجَمِ الضَّخْمِ.
سعید بن ابوراشد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حمص میں میری ملاقات تنوخی سے ہوئی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہرقل کے ایلچی بن کر آئے تھے، وہ میرے پڑوسی تھے، انتہائی بوڑھے ہو چکے تھے اور سٹھیا جانے کی عمر تک پہنچ چکے تھے، میں نے ان سے کہا کہ آپ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام ہرقل کے خط اور ہرقل کے نام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خط کے بارے کچھ بتاتے کیوں نہیں؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم تبوک میں تشریف لائے ہوئے تھے، آپ نے سیدنا دحیہ کلبی کو ہرقل کے پاس بھیجا، جب ہرقل کے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک خط پہنچا تو اس نے رومی پادریوں اور سرداروں کو جمع کیا اور کمرے کا دروازہ بند کر لیا اور ان سے کہنے لگا کہ یہ آدمی میرے پاس آیا ہے جیسا کہ تم نے دیکھ ہی لیا ہے، مجھے جو خط بھیجا گیا ہے، اس میں مجھے تین میں سے کسی ایک صورت کو قبول کرنے کی دعوت دی گئی ہے، یا تو میں ان کے دین کی پیروی کر لوں یا انہیں زمین پر مال کی صورت میں ٹیکس دوں اور زمین ہمارے پاس ہی رہے، یا پھر ان سے جنگ کر وں، اللہ کی قسم! آپ لوگ جو کتابیں پڑھتے ہو، ان کی روشنی میں آپ جانتے ہو کہ وہ میرے ان قدموں کے نیچے کی جگہ بھی حاصل کر لیں گے، تو کیوں نہ ہم ان کے دین کی پیروی کر لیں یا اپنی زمین کا مال کی صورت میں ٹیکس دے دیا کر یں۔ یہ سن کر ان سب کے نرخروں سے ایک جیسی آواز نکلنے لگی، حتی کہ انہوں نے اپنی ٹوپیاں اتاردیں اور کہنے لگے کہ کیا آپ ہمیں عیسائیت چھوڑنے کی دعوت دے رہے ہیں یا یہ کہ ہم کسی دیہاتی کے جو حجاز سے آیا ہے، غلام بن جائیں، جب ہرقل نے دیکھا کہ اگر یہ لوگ اس کے پاس سے اسی حال میں چلے گئے تو وہ پورے روم میں اس کے خلاف فساد برپا کر دیں گے تو اس نے فورا پینترا بدل کر کہا کہ میں نے تو یہ بات محض اس لئے کہی تھی کہ اپنے دین پر تمہارا جماؤ اور مضبوطی دیکھ سکوں۔ پھر اس نے عرب تجیب کے ایک آدمی کو جو نصار عرب پر امیر مقرر تھا، بلایا اور کہا کہ میرے پاس ایسے آدمی کو بلا کر لاؤ جو حافظہ کا قوی ہواور عربی زبان جانتاہو، تاکہ میں اسے اس شخص کی طرف اس کے خط کا جواب دے کر بھیجوں، وہ مجھے بلا لایا، ہرقل نے اپنا خط میرے حوالے کر دیا اور کہنے لگا کہ میرا یہ خط اس شخص کے پاس لے جاؤ، اگر اس کی ساری باتیں تم یاد نہ رکھ سکو تو کم از کم تین چیزیں ضرور یاد رکھ لینا، یہ دیکھنا کہ وہ میری طرف بھیجے ہوئے اپنے خط کا کوئی ذکر کرتے ہیں یا نہیں؟ یہ دیکھنا کہ جب وہ میرا خط پڑھتے ہیں تورات کا ذکر کرتے ہیں یا نہیں؟ اور ان کی پشت پر دیکھنا، تمہیں کوئی عجیب چیز دکھائی دیتی ہے یا نہیں؟ میں ہرقل کا خط لے کر روانہ ہواور تبوک پہنچا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے درمیان پانی کے قریبی علاقے میں اپنی ٹانگوں کے گرد ہاتھوں سے حلقہ بنا کر بیٹھے ہوئے تھے، میں نے لوگوں سے پوچھا کہ تمہارے ساتھی کہاں ہیں؟ انہوں نے مجھے اشارہ سے بتادیا، میں چلتا ہوا آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا، انہیں خط پکڑایا جسے انہوں نے اپنی گود میں رکھ لی اور اور مجھ سے پوچھا کہ تمہارا تعلق کہاں سے ہے؟ میں نے کہا کہ میں ایک تنوخی آدمی ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تمہیں ملت حنیفیہ اسلام جو تمہارے باپ ابراہیم کی ملت ہے میں کوئی رغبت محسوس ہو تی ہے؟ میں نے کہا میں ایک قوم کا قاصد ہوں اور ایک قوم کے دین پر ہوں، میں جب تک ان کے پاس لوٹ نہ جاؤں اس دین سے برگشتہ نہیں ہو سکتا، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا کر یہ آیت پڑھنے لگے کہ، جسے آپ چاہیں اسے ہدایت نہیں دے سکتے، البتہ اللہ جسے چاہتا ہے، ہدایت دے دیتا ہے اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو زیادہ جانتا ہے۔ اے تنوخی بھائی! میں نے ایک خط کسری کی طرف لکھا تھا، اس نے اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، اللہ اسے اور اس کی حکومت کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا، میں نے نجاشی کی طرف بھی خط لکھا تھا، اس نے اسے پھاڑ دیا، اللہ اسے اور اس کی حکومت کو توڑ پھوڑ دے گا، میں نے تمہارے بادشاہ کو بھی خط لکھا لیکن اس نے اسے محفوظ کر لیا، لہذا جب تک زندگی میں کوئی خیر رہے گی، لوگوں پر اس کا رعب ودبدبہ باقی رہے گا، میں نے اپنے دل میں سوچا کہ یہ تین میں سے پہلی بات ہے جس کی مجھے بادشاہ نے وصیت کی تھی، چنانچہ میں اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکالا اور اس سے اپنی تلوار کی جلد پر یہ بات لکھ لی۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ خط اپنی بائیں جانب بیٹھے ہوئے ایک آدمی کو دے دیا، میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ خط پڑھنے والے صاحب کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں، بہرحال! ہمارے بادشاہ کے خط میں لکھا ہوا تھا کہ آپ مجھے اس جنت کی دعوت دیتے ہیں جس کی چوڑائی زمین و آسمان کے برابر ہے جو متقیوں کے لئے تیار کی گئی ہے،

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة سعيد بن أبى راشد
حدیث نمبر: 16694
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الله بن احمد، قال: حدثني ابو عامر حوثرة بن اشرس إملاء علي، قال: اخبرني حماد بن سلمة ، عن عبد الله بن عثمان بن خثيم ، عن سعيد بن ابي راشد ، قال: كان رسول قيصر جارا لي زمن يزيد بن معاوية، فقلت له: اخبرني عن كتاب رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى قيصر ، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم ارسل دحية الكلبي إلى قيصر، وكتب معه إليه كتابا فذكر نحو حديث عباد بن عباد، وحديث عباد اتم واحسن اقتصاصا للحديث، وزاد قال: فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم حين دعاه إلى الإسلام، فابى ان يسلم، وتلا هذه الآية: إنك لا تهدي من احببت ولكن الله يهدي من يشاء سورة القصص آية 56، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنك رسول قوم وإن لك حقا، ولكن جئتنا ونحن مرملون"، فقال عثمان بن عفان: انا اكسوه حلة صفورية، وقال رجل من الانصار: علي ضيافته.حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ بن أحمد، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو عَامِرٍ حَوْثَرَةُ بْنُ أَشْرَسَ إِمْلَاءً عَلَيَّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي رَاشِدٍ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ قَيْصَرَ جَارًا لِي زَمَنَ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ، فَقُلْتُ لَهُ: أَخْبِرْنِي عَنْ كِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى قَيْصَرَ ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَ دِحْيَةَ الْكَلْبِيَّ إِلَى قَيْصَرَ، وَكَتَبَ مَعَهُ إِلَيْهِ كِتَابًا فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ عَبَّادِ بْنِ عَبَّادٍ، وَحَدِيثُ عَبَّادٍ أَتَمُّ وَأَحْسَنُ اقْتِصَاصًا لِلْحَدِيثِ، وَزَادَ قَالَ: فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ دَعَاهُ إِلَى الْإِسْلَامِ، فَأَبَى أَنْ يُسْلِمَ، وَتَلَا هَذِهِ الْآيَةَ: إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ سورة القصص آية 56، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّكَ رَسُولُ قَوْمٍ وَإِنَّ لَكَ حَقًّا، وَلَكِنْ جِئْتَنَا وَنَحْنُ مُرْمِلُونَ"، فَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ: أَنَا أَكْسُوهُ حُلَّةً صَفُورِيَّةً، وَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ: عَلَيَّ ضِيَافَتُهُ.

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة سعيد بن أبى راشد

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.