الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
تتمہ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ
789. حَدِيثُ عَطِيَّةَ الْقُرَظِيِّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ
حدیث نمبر: 19421
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا هشيم ، اخبرنا عبد الملك بن عمير ، عن عطية القرظي ، قال: عرضت على رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم قريظة، فشكوا في، فامر بي النبي صلى الله عليه وسلم ان ينظروا إلي: هل انبت بعد، فنظروا، فلم يجدوني انبت، فخلى عني، والحقني بالسبي .حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ ، عَنْ عَطِيَّةَ الْقُرَظِيِّ ، قَالَ: عُرِضْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ قُرَيْظَةَ، فَشَكُّوا فِيَّ، فَأَمَرَ بِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَنْظُرُوا إِلَيَّ: هَلْ أَنْبَتُّ بَعْدُ، فَنَظَرُوا، فَلَمْ يَجِدُونِي أَنْبَتُّ، فَخَلَّى عَنِّي، وَأَلْحَقَنِي بِالسَّبْيِ .
حضرت عطیہ قرظی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ بنو قریظہ کے موقع پر ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا تو یہ فیصلہ ہوا کہ جس کے زیر ناف بال اگ آئے ہیں اسے قتل کردیا جائے اور جس کے زیر ناف بال نہیں اگے اس کا راستہ چھوڑ دیا جائے میں ان لوگوں میں سے تھا جن کے بال نہیں اگے تھے لہٰذا مجھے چھوڑ دیا گیا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 19422
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا سفيان ، عن عبد الملك ، انه سمع عطية يقول: كنت يوم حكم سعد فيهم غلاما، فلم يجدوني انبت، فها انا ذا بين اظهركم.حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَطِيَّةَ يَقُولُ: كُنْتُ يَوْمَ حَكَمَ سَعْدٌ فِيهِمْ غُلَامًا، فَلَمْ يَجِدُونِي أَنْبَتُّ، فَهَا أَنَا ذَا بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ.
حضرت عطیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جس دن حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے بنو قریظہ کے متعلق فیصلہ فرمایا ہے میں ایک چھوٹا لڑکا تھا، انہوں نے میرے زیر ناف بال اگے ہوئے نہیں پائے اسی وجہ سے آج میں تمہارے درمیان موجود ہوں۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.