الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
كِتَاب الْأَحْكَامِ
کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں
The Book of Al-Ahkam (Judgements)
15. بَابُ الشَّهَادَةِ عَلَى الْخَطِّ الْمَخْتُومِ:
باب: مہری خط پر گواہی دینے کا بیان۔
(15) Chapter. To bear witness as to the writer of a stamped letter.
حدیث نمبر: Q7162
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وما يجوز من ذلك وما يضيق عليهم وكتاب الحاكم إلى عامله والقاضي إلى القاضي وقال بعض الناس كتاب الحاكم جائز إلا في الحدود، ثم قال إن كان القتل خطا فهو جائز لان هذا مال بزعمه، وإنما صار مالا بعد ان ثبت القتل فالخطا والعمد واحد وقد كتب عمر إلى عامله في الجارود وكتب عمر بن عبد العزيز في سن كسرت، وقال إبراهيم كتاب القاضي إلى القاضي جائز إذا عرف الكتاب والخاتم وكان الشعبي يجيز الكتاب المختوم بما فيه من القاضي ويروى عن ابن عمر نحوه، وقال معاوية بن عبد الكريم الثقفي شهدت عبد الملك بن يعلى قاضي البصرة، وإياس بن معاوية، والحسن، وثمامة بن عبد الله بن انس، وبلال بن ابي بردة، وعبد الله بن بريدة الاسلمي، وعامر بن عبيدة، وعباد بن منصور يجيزون كتب القضاة بغير محضر من الشهود فإن قال الذي جيء عليه بالكتاب إنه زور قيل له اذهب فالتمس المخرج من ذلك، واول من سال على كتاب القاضي البينة ابن ابي ليلى، وسوار بن عبد الله، وقال لنا ابو نعيم حدثنا عبيد الله بن محرز جئت بكتاب من موسى بن انس قاضي البصرة واقمت عنده البينة ان لي عند فلان كذا وكذا وهو بالكوفة وجئت به القاسم بن عبد الرحمن فاجازه وكره الحسن وابو قلابة ان يشهد على وصية حتى يعلم ما فيها لانه لا يدري لعل فيها جورا، وقد كتب النبي صلى الله عليه وسلم إلى اهل خيبر إما ان تدوا صاحبكم وإما ان تؤذنوا بحرب، وقال الزهري في الشهادة على المراة من وراء الستر إن عرفتها فاشهد وإلا فلا تشهدوَمَا يَجُوزُ مِنْ ذَلِكَ وَمَا يَضِيقُ عَلَيْهِمْ وَكِتَابِ الْحَاكِمِ إِلَى عَامِلِهِ وَالْقَاضِي إِلَى الْقَاضِي وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ كِتَابُ الْحَاكِمِ جَائِزٌ إِلَّا فِي الْحُدُودِ، ثُمَّ قَالَ إِنْ كَانَ الْقَتْلُ خَطَأً فَهُوَ جَائِزٌ لِأَنَّ هَذَا مَالٌ بِزَعْمِهِ، وَإِنَّمَا صَارَ مَالًا بَعْدَ أَنْ ثَبَتَ الْقَتْلُ فَالْخَطَأُ وَالْعَمْدُ وَاحِدٌ وَقَدْ كَتَبَ عُمَرُ إِلَى عَامِلِهِ فِي الْجَارُودِ وَكَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ فِي سِنٍّ كُسِرَتْ، وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ كِتَابُ الْقَاضِي إِلَى الْقَاضِي جَائِزٌ إِذَا عَرَفَ الْكِتَابَ وَالْخَاتَمَ وَكَانَ الشَّعْبِيُّ يُجِيزُ الْكِتَابَ الْمَخْتُومَ بِمَا فِيهِ مِنَ الْقَاضِي وَيُرْوَى عَنِ ابْنِ عُمَرَ نَحْوُهُ، وَقَالَ مُعَاوِيَةُ بْنُ عَبْدِ الْكَرِيمِ الثَّقَفِيُّ شَهِدْتُ عَبْدَ الْمَلِكِ بْنَ يَعْلَى قَاضِيَ الْبَصْرَةِ، وَإِيَاسَ بْنَ مُعَاوِيَةَ، وَالْحَسَنَ، وَثُمَامَةَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ، وَبِلَالَ بْنَ أَبِي بُرْدَةَ، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ بُرَيْدَةَ الْأَسْلَمِيَّ، وَعَامِرَ بْنَ عَبِيدَةَ، وَعَبَّادَ بْنَ مَنْصُورٍ يُجِيزُونَ كُتُبَ الْقُضَاةِ بِغَيْرِ مَحْضَرٍ مِنَ الشُّهُودِ فَإِنْ قَالَ الَّذِي جِيءَ عَلَيْهِ بِالْكِتَابِ إِنَّهُ زُورٌ قِيلَ لَهُ اذْهَبْ فَالْتَمِسِ الْمَخْرَجَ مِنْ ذَلِكَ، وَأَوَّلُ مَنْ سَأَلَ عَلَى كِتَابِ الْقَاضِي الْبَيِّنَةَ ابْنُ أَبِي لَيْلَى، وَسَوَّارُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَقَالَ لَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُحْرِزٍ جِئْتُ بِكِتَابٍ مِنْ مُوسَى بْنِ أَنَسٍ قَاضِي الْبَصْرَةِ وَأَقَمْتُ عِنْدَهُ الْبَيِّنَةَ أَنَّ لِي عِنْدَ فُلَانٍ كَذَا وَكَذَا وَهُوَ بِالْكُوفَةِ وَجِئْتُ بِهِ الْقَاسِمَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ فَأَجَازَهُ وَكَرِهَ الْحَسَنُ وَأَبُو قِلَابَةَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَى وَصِيَّةٍ حَتَّى يَعْلَمَ مَا فِيهَا لِأَنَّهُ لَا يَدْرِي لَعَلَّ فِيهَا جَوْرًا، وَقَدْ كَتَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَهْلِ خَيْبَرَ إِمَّا أَنْ تَدُوا صَاحِبَكُمْ وَإِمَّا أَنْ تُؤْذِنُوا بِحَرْبٍ، وَقَالَ الزُّهْرِيُّ فِي الشَّهَادَةِ عَلَى الْمَرْأَةِ مِنْ وَرَاءِ السِّتْرِ إِنْ عَرَفْتَهَا فَاشْهَدْ وَإِلَّا فَلَا تَشْهَدْ
‏‏‏‏ اور کون سی گواہی اس مقدمہ میں جائز ہے اور کون سی ناجائز اور حاکم جو اپنے نائبوں کو پروانے لکھے۔ اسی طرح ایک ملک کا قاضی دوسرے ملک کے قاضی کو، اس کا بیان اور بعض لوگوں نے کہا حاکم جو پروانے اپنے نائبوں کو لکھے ان پر عمل ہو سکتا ہے۔ مگر حدود شرعیہ میں نہیں ہو سکتا (کیونکہ ڈر ہے کہ پروانہ جعلی نہ ہو) پھر خود ہی کہتے ہیں کہ قتل خطا میں پروانے پر عمل ہو سکتا ہے کیونکہ وہ اس کی رائے پر مثل مالی دعوؤں کے ہے حالانکہ قتل خطا مالی دعوؤں کی طرح نہیں ہے بلکہ ثبوت کے بعد اس کی سزا مالی ہوتی ہے تو قتل خطا اور عمد دونوں کا حکم ایک رہنا چاہئے۔ (دونوں میں پروانے کا اعتبار نہ ہونا چاہئے) اور عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عاملوں کو حدود میں پروانے لکھے ہیں اور عمر بن عبدالعزیز نے دانت توڑنے کے مقدمہ میں پروانہ لکھا اور ابراہیم نخعی نے کہا ایک قاضی دوسرے قاضی کے خط پر عمل کر لے جب اس کی مہر اور خط کو پہچانتا ہو تو یہ جائز ہے اور شعبی مہری خط کو جو ایک قاضی کی طرف سے آئے جائز رکھتے تھے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی ایسا ہی منقول ہے اور معاویہ بن عبدالکریم ثقفی نے کہا میں عبدالملک بن یعلیٰ (بصرہ کے قاضی) اور ایاس بن معاویہ (بصریٰ کے قاضی) اور حسن بصری اور ثمامہ بن عبداللہ بن انس اور بلال بن ابی بردہ (بصریٰ کے قاضی) اور عبداللہ بن بریدہ (مرو کے قاضی) اور عامر بن عبیدہ (کوفہ کے قاضی) اور عباد بن منصور (بصریٰ کے قاضی) ان سب سے ملا ہوں۔ یہ سب ایک قاضی کا خط دوسرے قاضی کے نام بغیر گواہوں کے منظور کرتے۔ اگر فریق ثانی جس کو اس خط سے ضرر ہوتا ہے یوں کہے کہ یہ خط جعلی ہے تو اس کو حکم دیں گے کہ اچھا اس کا ثبوت دے اور قاضی کے خط پر سب سے پہلے ابن ابی لیلیٰ (کوفہ کے قاضی) اور سوار بن عبداللہ (بصریٰ کے قاضی) نے گواہی چاہی اور ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے کہا، ہم سے عبیداللہ بن محرز نے بیان کیا کہ میں نے موسیٰ بن انس بصریٰ کے پاس اس مدعی پر گواہ پیش کئے کہ فلاں شخص پر میرا اتنا حق آتا ہے اور وہ کوفہ میں ہے پھر میں ان کا خط لے کر قاسم بن عبدالرحمٰن کوفہ کے قاضی کے پاس آیا۔ انہوں نے اس کو منظور کیا اور امام حسن بصری اور ابوقلابہ نے کہا وصیت نامہ پر اس وقت تک گواہی کرنا مکروہ ہے جب تک اس کا مضمون نہ سمجھ لے ایسا نہ ہو وہ ظلم اور خلاف شرع ہو۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے یہودیوں کو خط بھیجا کہ یا تو اس شخص (یعنی عبداللہ بن سہل) مقتول کی دیت دو جو تمہاری بستی میں مارا گیا ہے ورنہ جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔ اور زہری نے کہا اگر عورت پردے کی آڑ میں ہو اور آواز وغیرہ سے تو اسے پہچانتا ہو تو اس پر گواہی دے سکتا ہے ورنہ نہیں۔
حدیث نمبر: 7162
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني محمد بن بشار، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، قال: سمعت قتادة، عن انس بن مالك، قال:" لما اراد النبي صلى الله عليه وسلم ان يكتب إلى الروم، قالوا: إنهم لا يقرءون كتابا إلا مختوما، فاتخذ النبي صلى الله عليه وسلم خاتما من فضة كاني انظر إلى وبيصه ونقشه، محمد رسول الله".(مرفوع) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:" لَمَّا أَرَادَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَكْتُبَ إِلَى الرُّومِ، قَالُوا: إِنَّهُمْ لَا يَقْرَءُونَ كِتَابًا إِلَّا مَخْتُومًا، فَاتَّخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمًا مِنْ فِضَّةٍ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى وَبِيصِهِ وَنَقْشُهُ، مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ".
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے قتادہ سے سنا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل روم کو خط لکھنا چاہا تو صحابہ نے کہا کہ رومی صرف مہر لگا ہوا خط ہی قبول کرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی ایک مہر بنوائی گویا میں اس کی چمک کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور اس پر کلمہ «محمد رسول الله‏.‏» نقش تھا۔

Narrated Anas bin Malik: When the Prophet intended to write to the Byzantines, the people said, "They do not read a letter unless it is sealed (stamped)." Therefore the Prophet took a silver ring----as if I am looking at its glitter now----and its engraving was: 'Muhammad, Apostle of Allah'.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 89, Number 276


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.