الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند الشهاب کل احادیث 1499 :حدیث نمبر
مسند الشهاب
احادیث801 سے 1000
553. لَا رُقْيَةَ إِلَّا مِنْ عَيْنٍ أَوْ حُمَةٍ
553. دم صرف نظر یا ڈنگ کی وجہ سے ہے
حدیث نمبر: 851
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
851 - اخبرنا ابو محمد عبد الرحمن بن عمر بن محمد النحاس المعدل، ابنا احمد بن محمد بن زياد، ثنا ابو اسامة عبد الله بن اسامة الكلبي، ثنا حسن بن الربيع، ثنا إبراهيم بن حميد، عن مجالد، عن الشعبي، عن جابر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا رقية إلا من عين او حمة» 851 - أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدٍ النَّحَّاسُ الْمُعَدِّلُ، أبنا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، ثنا أَبُو أُسَامَةَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُسَامَةَ الْكَلْبِيُّ، ثنا حَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حُمَيْدٍ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا رُقْيَةَ إِلَّا مِنْ عَيْنٍ أَوْ حُمَةٍ»
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دم صرف نظر یا ڈنگ کی وجہ سے ہے۔

تخریج الحدیث: إسناده ضعیف، مجالد ضعیف ہے۔

وضاحت:
فائده: -
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دم صرف نظر یا ڈنگ کی وجہ سے ہے۔ [أحمد: 436/3، وسنده صحيح]
554. لَا هِجْرَةَ فَوْقَ ثَلَاثٍ
554. تین دن سے زیادہ ترک تعلق (جائز) نہیں ہے
حدیث نمبر: 852
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
852 - اخبرنا ابو محمد عبد الرحمن بن عمر الصفار التجيبي، ثنا ابو طاهر، احمد بن محمد القاضي، ثنا بحر بن نصر بن سابق، ثنا ابن وهب، اخبرني فضيل، عن منصور بن المعتمر، عن ابي حازم الاشجعي، مولى عزة الاشجعية، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا هجرة فوق ثلاث» 852 - أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُمَرَ الصَّفَّارُ التُّجِيبِيُّ، ثنا أَبُو طَاهِرٍ، أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْقَاضِي، ثنا بَحْرُ بْنُ نَصْرِ بْنِ سَابِقٍ، ثنا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي فُضَيْلٌ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ الْأَشْجَعِيِّ، مَوْلَى عَزَّةَ الْأَشْجَعِيَّةِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا هِجْرَةَ فَوْقَ ثَلَاثٍ»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین دن سے زیادہ ترک تعلق (جائز) نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2562، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9116، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4912، 4914، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20085، وأحمد فى «مسنده» برقم: 9041»

وضاحت:
تشریح: -
اس حدیث مبارک سے پتا چلا کہ مسلمانوں کا ایک دوسرے سے تین دن سے زیادہ ترک تعلق کرنا جائز نہیں ہے، تین دن تک معافی ہے اس کے بعد بھی اگر وہ آپس میں ناراضی رکھیں گے تو گناہ گار ہوں گے۔ سلام کرنے سے ترک تعلق ختم ہو جاتا ہے لیکن اگر ایک شخص صلح کی غرض سے سلام کہے اور دوسرا جواب نہ دے تو سلام کہنے والا گناہ سے بری ہوگا، سارا گناہ دوسرے شخص پر ہوگا جیسا کہ حدیث میں ہے کہ: کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ اپنے مسلمان بھائی سے ترک تعلق رکھے کہ جب دونوں آپس میں ملیں تو یہ اس سے منہ موڑے اور وہ اس سے منہ موڑے، ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے۔ [مسلم: 2560]
دوسری حدیث ہے کہ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی مسلمان سے تین دن سے زیادہ ترک تعلق رکھے (چنانچہ چاہیے کہ) جب اس سے ملے تو اسے سلام کہے، تین بار، اگر کسی بار بھی جواب نہ دے تو وہی (جواب نہ دینے والا) گناہ گار ہوگا۔ [أبو داود: 4913وسنده حسن]
تین دن سے زیادہ ترک تعلق رکھنا کتنا بڑا گناہ ہے؟ فرمایا: جس نے تین دن سے زیادہ ترک تعلق رکھا اور مر گیا تو وہ آگ میں جائے گا۔ [أبو داود: 4914، وسنده صحيح]
ایک حدیث میں ہے: جس نے ایک سال تک اپنے بھائی سے ترک تعلق رکھا گویا اس نے اس کا خون بہا دیا۔ [أبو داود: 3915، وسنده حسن]
فرمایا: ہرپیر اور جمعرات کو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور ہر اس شخص کو معافی مل جاتی ہے جو اللہ کے ساتھ شرک نہ کرے سوائے ان دو آدمیوں کے جن کے درمیان ترک تعلق ہو، ارشاد ہوتا ہے کہ انہیں مہلت دے دو یہاں تک کہ صلح کر لیں۔ [مسلم: 2565]
یا در ہے کہ ترک تعلق کی بنیاد اگر اللہ تعالیٰ ٰ کے لیے ہو تو اس پر یہ وعید میں نہیں ہیں۔ واللہ اعلم
555. لَا كَبِيرَةَ مَعَ اسْتِغْفَارٍ
555. استغفار کے ساتھ کوئی گناہ کبیرہ نہیں رہتا اور اصرار کے ساتھ کوئی گناہ صغیر نہیں رہتا
حدیث نمبر: 853
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
853 - اخبرنا ابو بكر، محمد بن احمد بن الحارث قدم علينا، ابنا ابو سعيد الحسن بن علي، وابو عباد ذو النون بن محمد، قالا: ثنا ابو احمد الحسن بن عبد الله العسكري، ثنا ابن اخي ابي زرعة، ثنا عمي، ثنا سعيد بن سليمان، قال: حدثني ابو شيبة الخراساني، عن ابن ابي مليكة، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا كبيرة مع استغفار، ولا صغيرة مع إصرار» 853 - أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ، مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْحَارِثِ قَدِمَ عَلَيْنَا، أبنا أَبُو سَعِيدٍ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، وَأَبُو عَبَّادٍ ذُو النُّونِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: ثنا أَبُو أَحْمَدَ الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعَسْكَرِيُّ، ثنا ابْنُ أَخِي أَبِي زُرْعَةَ، ثنا عَمِّي، ثنا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو شَيْبَةَ الْخُرَاسَانِيُّ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا كَبِيرَةَ مَعَ اسْتِغْفَارٍ، وَلَا صَغِيرَةَ مَعَ إِصْرَارٍ»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: استغفار کے ساتھ کوئی گناہ کبیرہ نہیں رہتا اور اصرار کے ساتھ کوئی گناہ صغیر نہیں رہتا۔

تخریج الحدیث: إسناده ضعیف، ابوشیبہ خراسانی مجہول ہے۔ دیکھئے: «السلسلة الضعيفة: 4810»

وضاحت:
فائدہ: -
سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کبائر کتنے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: سات سو تک ہیں اور بہت قریبی سات تک ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ استغفار کے ساتھ کوئی گناہ کبیرہ نہیں رہتا اور اصرار کے ساتھ کوئی گناہ صغیرہ نہیں رہتا۔ [تفسير ابن ابي حاتم: 934/3 النساء: ۳۱، وسنده صحيح]
556. لَا هَمَّ إِلَّا هَمُّ الدِّينِ
556. قرض کے غم کے سوا کوئی غم نہیں
حدیث نمبر: 854
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
854 - اخبرنا محمد بن احمد الاصبهاني، ثنا ابو الفرج محمد بن عبد الله بن شهريار، ومحمد بن عبد الله بن ريذة ح، وانا احمد بن الحسن الشيرازي، نا الشيخ الثقة ابو بكر، محمد بن عبد الله بن ريذة الضبي الاصبهاني بمدينة اصبهان في باب القصر قالا: ثنا ابو القاسم سليمان بن احمد بن ايوب الطبراني الحافظ قراءة عليه، ثنا محمد بن يونس البصري العصفري، ثنا قرين بن سهل بن قرين، حدثني ابي، ثنا محمد بن عبد الرحمن بن ابي ذئب، عن محمد بن المنكدر، عن جابر بن عبد الله قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا هم إلا هم الدين، ولا وجع إلا وجع العين» في رواية الحارثي قال الطبراني: لا يرويه عن محمد بن المنكدر إلا ابن ابي ذئب، تفرد به سهل بن قرين854 - أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْأَصْبَهَانِيُّ، ثنا أَبُو الْفَرَجِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَهْرَيَارَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رِيذَةَ حَ، وأنا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الشِّيرَازِيُّ، نا الشَّيْخُ الثِّقَةُ أَبُو بَكْرٍ، مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رِيذَةَ الضَّبِّيُّ الْأَصْبَهَانِيُّ بِمَدِينَةِ أَصْبَهَانَ فِي بَابِ الْقَصْرِ قَالَا: ثنا أَبُو الْقَاسِمِ سُلَيْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَيُّوبَ الطَّبَرَانِيُّ الْحَافِظُ قِرَاءَةً عَلَيْهِ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ يُونُسَ الْبَصْرِيُّ الْعُصْفُرِيُّ، ثنا قَرِينُ بْنُ سَهْلِ بْنِ قَرِينٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا هَمَّ إِلَّا هَمُّ الدَّيْنِ، وَلَا وَجَعَ إِلَّا وَجَعُ الْعَيْنِ» فِي رِوَايَةِ الْحَارِثِيِّ قَالَ الطَّبَرَانِيُّ: لَا يَرْوِيهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ إِلَّا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، تَفَرَّدَ بِهِ سَهْلُ بْنُ قَرِينٍ
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرض کے غم کے سوا کوئی غم نہیں اور آنکھ کے درد کے سوا کوئی درد نہیں۔
حارثی کی روایت میں ہے کہ امام طبرانی نے کہا: اسے محمد بن منکدر سے صرف ابن ابی ذئب روایت کرتا ہے اور اس سے روایت کرنے میں سہل بن قرین منفرد ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه المعجم الاوسط: 6064، اولمعجم الصغير: 854،»
، قرین بن سہل اور اس کا والد دونوں ضعیف ہیں۔
557. لَا فَاقَةَ لِعَبْدٍ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ
557. اس شخص کے لیے کوئی فاقہ نہیں جو قرآن پڑھتا ہے
حدیث نمبر: 855
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
855 - اخبرنا ابو الحسن، علي بن عيسى بن معروف الهمداني ابنا ابو محمد الحسن بن رشيق، ثنا ابو العلاء، محمد بن احمد الكوفي، ثنا عبد الله بن محمد بن ابي شيبة، ثنا وكيع، ثنا عمران ابو بشر الحلبي، عن الحسن، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا فاقة لعبد يقرا القرآن، ولا غنى له بعده» 855 - أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ، عَلِيُّ بْنُ عِيسَى بْنُ مَعْرُوفٍ الْهَمْدَانِيُّ أبنا أَبُو مُحَمَّدٍ الْحَسَنُ بْنُ رَشِيقٍ، ثنا أَبُو الْعَلَاءِ، مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْكُوفِيُّ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ، ثنا وَكِيعٌ، ثنا عِمْرَانُ أَبُو بِشْرٍ الْحَلَبِيُّ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا فَاقَةَ لِعَبْدٍ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ، وَلَا غِنَى لَهُ بَعْدَهُ»
حسن سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص کے لیے کوئی فاقہ نہیں جو قرآن پڑھتا ہے اور اس کے بغیر اس کے لیے کوئی غنا نہیں۔

تخریج الحدیث: «مرسل، وأخرجه ابن ابي شيبه: 30574»
اسے حسن بصری تابعی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روایت کیا ہے۔
558. لَا يَنْتَطِحُ فِيهَا عَنْزَانِ
558. اس میں دو بکریوں کے سر بھی نہیں ٹکرائیں گے (یعنی اس معاملے میں دو رائے نہیں ہیں)
حدیث نمبر: 856
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
856 - اخبرنا الشيخ ابو طاهر، محمد بن الحسين بن محمد بن سعدون الموصلي، قدم علينا، ابنا ابو الحسن، علي بن محمد بن الحسن الحربي الحنبلي السكري، ثنا ابو الفضل، جعفر بن احمد بن محمد بن الصباح الجرجرائي بها، ثنا محمد بن إبراهيم بن العلاء الشامي، ثنا محمد بن الحجاج اللخمي ابو إبراهيم الواسطي، عن مجالد بن سعيد، عن الشعبي، عن ابن عباس، قال: هجت امراة من بني خطمة النبي صلى الله عليه وسلم بهجاء لها، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم فاشتد عليه ذلك، وقال: «من لي بها؟» فقال رجل من قومها: انا يا رسول الله، وكانت تمارة تبيع التمر، قال: فاتاها اجود من هذا قال: فدخلت التربة، قال: ودخل خلفها، فنظر يمينا وشمالا، فلم ير إلا خوانا، قال: فعلا به راسها حتى دمغها به، قال: ثم اتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله قد كفيتكها، قال: فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «اما إنه لا ينتطح فيها عنزان» ، فارسلها مثلا856 - أَخْبَرَنَا الشَّيْخُ أَبُو طَاهِرٍ، مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدُونٍ الْمَوْصِلِيُّ، قَدِمَ عَلَيْنَا، أبنا أَبُو الْحَسَنِ، عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ الْحَرْبِيُّ الْحَنْبَلِيُّ السُّكَّرِيُّ، ثنا أَبُو الْفَضْلِ، جَعْفَرُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّبَّاحِ الْجُرْجَرَائِيُّ بِهَا، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْعَلَاءِ الشَّامِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَجَّاجِ اللَّخْمِيُّ أَبُو إِبْرَاهِيمَ الْوَاسِطِيُّ، عَنْ مُجَالِدِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: هَجَتِ امْرَأَةٌ مِنْ بَنِي خَطْمَةَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهِجَاءٍ لَهَا، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاشْتَدَّ عَلَيْهِ ذَلِكَ، وَقَالَ: «مَنْ لِي بِهَا؟» فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهَا: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَانَتْ تَمَّارَةٌ تَبِيعُ التَّمْرَ، قَالَ: فَأَتَاهَا أَجْوَدَ مِنْ هَذَا قَالَ: فَدَخَلَتِ التُّرْبَةَ، قَالَ: وَدَخَلَ خَلْفَهَا، فَنَظَرَ يَمِينًا وَشِمَالًا، فَلَمْ يَرَ إِلَّا خِوَانًا، قَالَ: فَعَلَا بِهِ رَأْسَهَا حَتَّى دَمَغَهَا بِهِ، قَالَ: ثُمَّ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ كَفَيْتُكَهَا، قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَا إِنَّهُ لَا يَنْتَطِحُ فِيهَا عَنْزَانِ» ، فَأَرْسَلَهَا مَثَلًا
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بنی خطمہ کی ایک عورت نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی اطلاع ہوئی تو آپ کو سخت غصہ آیا اور فرمایا: میرا اس سے انتقام کون لے گا؟ تو اس عورت کی قوم کے ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں (لوں گا)۔ وہ عورت کھجور بیچا کرتی تھی، وہ آدمی اس کے پاس آیا (اور کہا) ان (کھجوروں) سے عمدہ کھجوریں ہیں؟ وہ (عمدہ کھجور لانے) گھر میں داخل ہوئی، وہ آدمی بھی اس کے پیچھے ہی داخل ہو گیا، اس نے دائیں بائیں دیکھا تو اسے کھانے کی میز کے سوا کچھ نظر نہ آیا تو اس نے وہی اٹھا کر اس کے سر پر دے ماری اور اس کا بھیجہ باہر نکال دیا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اسے آپ کی طرف سے کافی ہو گیا ہوں، تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس میں دو بکریوں کے سر بھی نہیں ٹکرائیں گے۔ یوں آپ نے اس فرمان کو ضرب المثل بنا دیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف جدا، وأخرجه الكامل لابن عدى:، تاريخ مدينة السلام:119/15»
مجالد بن سعید ضعیف اور محمد بن حجاج سخت ضعیف ہے۔
حدیث نمبر: 857
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
857 - انا ابو عبد الله الحسين بن محمد بن احمد الرقي الساكن، كان ببلبيس إجازة، نا ابو بكر، احمد بن إبراهيم بن العلاء، نا محمد بن الحجاج ابو إبراهيم الواسطي، عن مجالد، عن الشعبي، عن ابن عباس، قال: هجت امراة من بني خطمة النبي صلى الله عليه وسلم، قال: فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم، واشتد عليه ذلك، وقال: «من لي بها؟» فقال رجل من قومها: انا لها يا رسول الله، وكانت تمارة تبيع التمر، قال: فاتاها، فقال لها: هل عندك تمر؟ فقالت نعم، فارته تمرا، فقال اردت اجود من هذا، قال: فدخلت التربة، قال: فدخل خلفها، فنظر يمينا وشمالا، فلم ير إلا خوانا، قال: فعلا به راسها حتى دمغها به، قال: ثم اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله قد كفيتكها، قال: فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «اما إنه لا ينتطح فيها عنزان» ، فارسلها مثلا857 - أنا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ الرَّقِّيُّ السَّاكِنُ، كَانَ بِبِلْبِيسَ إِجَازَةً، نا أَبُو بَكْرٍ، أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْعَلَاءِ، نا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَجَّاجِ أَبُو إِبْرَاهِيمَ الْوَاسِطِيُّ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: هَجَتِ امْرَأَةٌ مِنْ بَنِي خَطْمَةَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاشْتَدَّ عَلَيْهِ ذَلِكَ، وَقَالَ: «مَنْ لِي بِهَا؟» فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهَا: أَنَا لَهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَانَتْ تَمَّارَةٌ تَبِيعُ التَّمْرَ، قَالَ: فَأَتَاهَا، فَقَالَ لَهَا: هَلْ عِنْدَكِ تَمْرٌ؟ فَقَالَتْ نَعَمْ، فَأَرَتْهُ تَمْرًا، فَقَالَ أَرَدْتُ أَجْوَدَ مِنْ هَذَا، قَالَ: فَدَخَلَتِ التُّرْبَةَ، قَالَ: فَدَخَلَ خَلْفَهَا، فَنَظَرَ يَمِينًا وَشِمَالًا، فَلَمْ يَرَ إِلَّا خِوَانًا، قَالَ: فَعَلَا بِهِ رَأْسَهَا حَتَّى دَمَغَهَا بِهِ، قَالَ: ثُمَّ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ كَفَيْتُكَهَا، قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَا إِنَّهُ لَا يَنْتَطِحُ فِيهَا عَنْزَانِ» ، فَأَرْسَلَهَا مَثَلًا
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بنی خطمہ کی ایک عورت نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی آپ کو اس بات کی اطلاع ہوئی تو آپ کو سخت غصہ آیا، فرمایا: میرا اس سے انتقام کون لے گا؟ اس عورت کی قوم کے ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! میں اس سے آپ کا انتقام لوں گا۔ وہ عورت کھجوریں بیچا کرتی تھی۔ راوی کہتا ہے کہ وہ آدمی اس کے پاس آیا اور کہنے لگا: کیا تیرے پاس کھجوریں ہیں؟ اس نے کہا: ہاں۔ اس نے اسے کھجور یں میں دکھا ئیں تو اس آدمی نے کہا: میں ان سے عمدہ کھجور یں میں چاہتا ہوں۔ وہ (کھجوریں لانے) گھر میں داخل ہوئی تو یہ آدمی بھی اس کے پیچھے ہی داخل ہو گیا، اس نے دائیں بائیں دیکھا تو اسے کھانے کی میز کے سوا کچھ نظر نہ آیا، اس نے وہی اٹھا کر اس کے سر پر دے ماری حتیٰ کہ اس کا بھیجہ باہر نکال دیا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اسے آپ کی طرف سے کافی ہو گیا ہوں تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس میں دو بکریوں کے سر بھی نہیں ٹکرائیں گے۔ یوں آپ نے اس فرمان کو ضرب المثل بنا دیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف جدا، وأخرجه الكامل لابن عدى:، تاريخ مدينة السلام:119/15»
مجالد بن سعید ضعیف اور محمد بن حجاج سخت ضعیف ہے۔
حدیث نمبر: 858
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
858 - انا محمد بن احمد الاصبهاني، نا الحسن بن علي التستري، وذو النون بن محمد قالا نا الحسن بن عبد الله العسكري، نا يحيى بن محمد، مولى بني هاشم، نا بكر بن عبد الوهاب، انا الواقدي، نا عبد الله بن الحارث بن فضل، عن ابيه، قال: كانت عصماء بنت مروان من بني امية بن زيد، وكان زوجها يزيد بن زيد بن حصن الخطمي، وكانت تحرض على المسلمين وتؤذيهم، وتقول الشعر، فجعل عمير بن عدي نذرا انه لئن رد الله رسوله سالما من بدر ليقتلنها، قال: فعدا عليها عمير في جوف الليل فقتلها، ثم لحق بالنبي صلى الله عليه وسلم فصلى معه الصبح، وكان النبي صلى الله عليه وسلم يتصفحهم إذا قام يدخل منزله، فقال لعمير بن عدي: «قتلت عصماء؟» قال: نعم، قال: فقلت يا نبي الله هل علي في قتلها شيء؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا ينتطح فيها عنزان» ، فهي اول ما سمعت هذه الكلمة من رسول الله صلى الله عليه وسلم858 - أنا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْأَصْبَهَانِيُّ، نا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ التُّسْتَرِيُّ، وَذُو النُّونِ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَا نا الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعَسْكَرِيُّ، نا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدٍ، مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، نا بَكْرُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، أنا الْوَاقِدِيُّ، نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ فَضْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَتْ عَصْمَاءُ بِنْتُ مَرْوَانَ مِنْ بَنِي أُمَيَّةَ بْنِ زَيْدٍ، وَكَانَ زَوْجُهَا يَزِيدُ بْنُ زَيْدِ بْنِ حِصْنٍ الْخَطْمِيُّ، وَكَانَتْ تُحَرِّضُ عَلَى الْمُسْلِمِينَ وَتُؤْذِيهِمْ، وَتَقُولُ الشِّعْرَ، فَجَعَلَ عُمَيْرُ بْنُ عَدِيٍّ نَذْرًا أَنَّهُ لَئِنْ رَدَّ اللَّهُ رَسُولَهُ سَالِمًا مِنْ بَدْرٍ لَيَقْتُلَنَّهَا، قَالَ: فَعَدَا عَلَيْهَا عُمَيْرٌ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ فَقَتَلَهَا، ثُمَّ لَحِقَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى مَعَهُ الصُّبْحَ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَصَفَّحُهُمْ إِذَا قَامَ يَدْخُلُ مَنْزِلَهُ، فَقَالَ لِعُمَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ: «قَتَلْتَ عَصْمَاءَ؟» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَقُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ هَلْ عَلَيَّ فِي قَتْلِهَا شَيْءٌ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَنْتَطِحُ فِيهَا عَنْزَانِ» ، فَهِيَ أَوَّلُ مَا سَمِعْتُ هَذِهِ الْكَلِمَةَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
عبدالله بن حارث بن فضل اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: عصما بنت مروان بنی امیہ بن زید میں سے تھی، یزید بن زید بن حصن خطمی اس کا شوہر تھا، وہ مسلمانوں کے خلاف (لوگوں کو) بھڑ کا یا کرتی تھی انہیں ستاتی اور گستاخانہ شعر کہا کرتی تھی۔ عمیر بن عدی نے نذر مان لی کہ اگر اللہ تعالیٰ ٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگ بدر سے صحیح سالم واپس لے آیا تو وہ (عمیر) ضرور اس عورت کو قتل کر دے گا۔ راوی کہتا ہے کہ (جب آپ جنگ بدر سے واپس آگئے تو) عمیر نے (نذر پوری کرتے ہوئے) رات کے اندھیرے میں اس پر حملہ کر کے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آملا، اس نے آپ کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے غور سے دیکھتے رہے جب آپ اٹھ کر اپنے گھر جانے لگے تو آپ نے عمیر بن عدی سے فرمایا: تو نے عصما کو قتل کر دیا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ (عمیر کہتے ہیں) میں نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا اس کے قتل میں مجھ پر کوئی چیز (دیت یا گناہ وغیرہ) ہے؟ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس میں دو بکریوں کے سر بھی نہیں ٹکرائیں گے۔ یہ کلمہ (محاور ہ) پہلی بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اطہر سے سنا گیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف جدا، وأخرجه المغازى للواقدى ص: 151»
واقدی کذاب ہے۔
559. لَا يُغْنِي حَذَرٌ مِنْ قَدَرٍ
559. احتیاط تقدیر سے بچا نہیں سکتی
حدیث نمبر: 859
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
859 - اخبرنا محمد بن احمد بن علي البغدادي، ابنا ابو بكر عبد الله بن سليمان بن الاشعث، قال: ثنا بعض اصحابنا، قال: ثنا إسماعيل بن إبراهيم الترجماني، ثنا زكريا بن منظور، عن عطاف بن خالد، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يغني حذر من قدر، والدعاء ينفع مما نزل ومما لم ينزل، وإن البلاء ينزل فيلقاه الدعاء فيعتلجان إلى يوم القيامة» 859 - أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَلِيٍّ الْبَغْدَادِيُّ، أبنا أَبُو بَكْرٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ الْأَشْعَثَ، قَالَ: ثنا بَعْضُ أَصْحَابِنَا، قَالَ: ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّرْجُمَانِيُّ، ثنا زَكَرِيَّا بْنُ مَنْظُورٍ، عَنْ عَطَّافِ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يُغْنِي حَذَرٌ مِنْ قَدَرٍ، وَالدُّعَاءُ يَنْفَعُ مِمَّا نَزَلَ وَمِمَّا لَمْ يَنْزِلْ، وَإِنَّ الْبَلَاءَ يَنْزِلُ فَيَلْقَاهُ الدُّعَاءُ فَيَعْتَلِجَانِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ»
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: احتیاط تقدیر سے بچا نہیں سکتی اور دعا اس مصیبت کے لیے نفع مند ہے جو نازل ہو چکی ہے اور جو ابھی نازل نہیں ہوئی اور بے شک مصیبت نازل ہوتی ہے تو دعا اس کا مقابلہ کرتی ہے پھر قیامت تک ان کی کشتی ہوتی رہتی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه حاكم: 1/492، المعجم الاوسط: 2498، تاريخ مدينة السلام: 9/464»
زکریا بن منظور ضعیف ہے۔
حدیث نمبر: 860
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
860 - واخبرنا ابو مسلم، محمد بن احمد بن علي البغدادي الكاتب، ابنا ابو بكر عبد الله بن الاشعث، ابنا يعقوب بن إسحاق القلوسي، ويزيد بن محمد بن المغيرة، قالا: ثنا الحكم بن مروان الضرير، ثنا محمد بن عبد الله، عن ابيه، عن القاسم، عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا ينجي حذر من قدر، وإن كان شيء يقطع الرزق فإن التصيح يقطعه، وإن الدعاء ينفع من البلاء» وقد قال الله تعالى في كتابه {إلا قوم يونس لما آمنوا كشفنا عنهم عذاب الخزي} [يونس: 98] قال: «لما دعوا» اللفظ ليعقوب860 - وَأَخْبَرَنَا أَبُو مُسْلِمٍ، مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَلِيٍّ الْبَغْدَادِيُّ الْكَاتِبُ، أبنا أَبُو بَكْرٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْأَشْعَثَ، أبنا يَعْقُوبُ بْنُ إِسْحَاقَ الْقَلُوسِيُّ، وَيَزِيدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُغِيرَةِ، قَالَا: ثنا الْحَكَمُ بْنُ مَرْوَانَ الضَّرِيرِ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يُنْجِي حَذَرٌ مِنْ قَدَرٍ، وَإِنْ كَانَ شَيْءٌ يَقْطَعُ الرِّزْقَ فَإِنَّ التَّصَيُّحَ يَقْطَعُهُ، وَإِنَّ الدُّعَاءَ يَنْفَعُ مِنَ الْبَلَاءِ» وَقَدْ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ {إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ لَمَّا آمَنُوا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ} [يونس: 98] قَالَ: «لَمَّا دَعَوْا» اللَّفْظُ لِيَعْقُوبَ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: احتیاط تقدیر سے نجات نہیں دلا سکتی اور اگر کوئی چیز رزق روک سکتی ہے تو وہ گریہ و زاری ہے جو اسے روک سکتی ہے اور بے شک دعا مصیبت سے نفع دیتی ہے۔ بلا شبہ اللہ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے: سوائے قوم یونس کے کہ جب وہ ایمان لائے تو ہم نے رسوائی کا عذاب ان سے دور کر دیا۔ فرمایا: (یعنی) جب انہوں نے دعا کی۔ یہ لفظ یعقوب بن اسحاق راوی کے ہیں۔

تخریج الحدیث: إسناده ضعیف، ابومسلم محمد بن أحمد کی توثیق نہیں ملی، اس میں ایک اور بھی علت ہے۔

Previous    2    3    4    5    6    7    8    9    10    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.