الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
The Book of Jihad and Expeditions
35. باب الْوَفَاءِ بِالْعَهْدِ:
35. باب: اقرار کو پورا کرنا۔
Chapter: Upholding Covenants
حدیث نمبر: 4639
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو اسامة ، عن الوليد بن جميع ، حدثنا ابو الطفيل ، حدثنا حذيفة بن اليمان ، قال: " ما منعني ان اشهد بدرا إلا اني خرجت انا وابي حسيل، قال: فاخذنا كفار قريش، قالوا: إنكم تريدون محمدا، فقلنا: ما نريده ما نريد إلا المدينة، فاخذوا منا عهد الله وميثاقه، لننصرفن إلى المدينة ولا نقاتل معه، فاتينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبرناه الخبر فقال: انصرفا نفي لهم بعهدهم ونستعين الله عليهم ".وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ جُمَيْعٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو الطُّفَيْلِ ، حَدَّثَنَا حُذَيْفَةُ بْنُ الْيَمَانِ ، قَالَ: " مَا مَنَعَنِي أَنْ أَشْهَدَ بَدْرًا إِلَّا أَنِّي خَرَجْتُ أَنَا وَأَبِي حُسَيْلٌ، قَالَ: فَأَخَذَنَا كُفَّارُ قُرَيْشٍ، قَالُوا: إِنَّكُمْ تُرِيدُونَ مُحَمَّدًا، فَقُلْنَا: مَا نُرِيدُهُ مَا نُرِيدُ إِلَّا الْمَدِينَةَ، فَأَخَذُوا مِنَّا عَهْدَ اللَّهِ وَمِيثَاقَهُ، لَنَنْصَرِفَنَّ إِلَى الْمَدِينَةِ وَلَا نُقَاتِلُ مَعَهُ، فَأَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْنَاهُ الْخَبَرَ فَقَالَ: انْصَرِفَا نَفِي لَهُمْ بِعَهْدِهِمْ وَنَسْتَعِينُ اللَّهَ عَلَيْهِمْ ".
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جنگ بدر میں میرے شامل نہ ہونے کی وجہ صرف یہ تھی کہ میں اور میرے والس حسیل رضی اللہ عنہ (جو یمان کے لقب سے معروف تھے) دونوں نکلے تو ہمیں کفار قریش نے پکڑ لیا اور کہا: تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانا چاہتے ہو؟ ہم نے کہا: ان کے پاس جانا نہیں چاہتے، ہم تو صرف مدینہ منورہ جانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے ہم سے اللہ کے نام پر یہ عہد اور میثاق لیا کہ ہم مدینہ جائیں گے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر جنگ نہیں کریں گے، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو یہ خبر دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم دونوں لوٹ جاؤ، ہم ان سے کیا ہوا عہد پورا کریں گے اور ان کے خلاف اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں گے
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے جنگ بدر میں شرکت سے صرف اس چیز نے روکا کہ میں اور میرا باپ حسیل (یمان کا نام ہے) دونوں نکلے تو ہمیں کافر قریشیوں نے پکڑ لیا اور کہنے لگے، تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانا چاہتے ہو؟ تو ہم نے کہا، ہم اس کے پاس نہیں جانا چاہتے، ہم تو صرف مدینہ جانا چاہتے ہیں تو انہوں نے ہم سے اللہ کے نام پر عہد اور پیمان لیا کہ ہم مدینہ کی طرف لوٹ جائیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر جنگ میں حصہ نہیں لیں گے تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کو حقیقت حال سے آگاہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واپس چلے جاؤ، ہم ان سے کیا ہوا عہد پورا کریں گے اور ان کے خلاف اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کریں گے۔
36. باب غَزْوَةِ الأَحْزَابِ:
36. باب: غزوہ احزاب یعنی جنگ خندق کے بیان میں۔
Chapter: The Battle of Al-Ahzab (The Confederates)
حدیث نمبر: 4640
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا زهير بن حرب ، وإسحاق بن إبراهيم جميعا، عن جرير، قال زهير: حدثنا جرير ، عن الاعمش ، عن إبراهيم التيمي ، عن ابيه ، قال: " كنا عند حذيفة، فقال رجل: لو ادركت رسول الله صلى الله عليه وسلم قاتلت معه وابليت، فقال حذيفة : انت كنت تفعل ذلك لقد رايتنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة الاحزاب، واخذتنا ريح شديدة وقر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الا رجل ياتيني بخبر القوم جعله الله معي يوم القيامة، فسكتنا فلم يجبه منا احد، ثم قال: الا رجل ياتينا بخبر القوم جعله الله معي يوم القيامة، فسكتنا فلم يجبه منا احد، ثم قال: الا رجل ياتينا بخبر القوم جعله الله معي يوم القيامة، فسكتنا فلم يجبه منا احد، فقال: قم يا حذيفة فاتنا بخبر القوم، فلم اجد بدا إذ دعاني باسمي ان اقوم، قال: اذهب فاتني بخبر القوم ولا تذعرهم علي "، فلما وليت من عنده جعلت كانما امشي في حمام حتى اتيتهم، فرايت ابا سفيان يصلي ظهره بالنار، فوضعت سهما في كبد القوس فاردت ان ارميه، فذكرت قول رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا تذعرهم علي ولو رميته لاصبته، فرجعت وانا امشي في مثل الحمام، فلما اتيته فاخبرته بخبر القوم وفرغت قررت، فالبسني رسول الله صلى الله عليه وسلم من فضل عباءة كانت عليه يصلي فيها، فلم ازل نائما حتى اصبحت، فلما اصبحت، قال: قم يا نومان ".حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ جميعا، عَن جَرِيرٍ، قَالَ زُهَيْرٌ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: " كُنَّا عِنْدَ حُذَيْفَةَ، فَقَالَ رَجُلٌ: لَوْ أَدْرَكْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاتَلْتُ مَعَهُ وَأَبْلَيْتُ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ : أَنْتَ كُنْتَ تَفْعَلُ ذَلِكَ لَقَدْ رَأَيْتُنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْأَحْزَابِ، وَأَخَذَتْنَا رِيحٌ شَدِيدَةٌ وَقُرٌّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلَا رَجُلٌ يَأْتِينِي بِخَبَرِ الْقَوْمِ جَعَلَهُ اللَّهُ مَعِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَسَكَتْنَا فَلَمْ يُجِبْهُ مِنَّا أَحَدٌ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا رَجُلٌ يَأْتِينَا بِخَبَرِ الْقَوْمِ جَعَلَهُ اللَّهُ مَعِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَسَكَتْنَا فَلَمْ يُجِبْهُ مِنَّا أَحَدٌ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا رَجُلٌ يَأْتِينَا بِخَبَرِ الْقَوْمِ جَعَلَهُ اللَّهُ مَعِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَسَكَتْنَا فَلَمْ يُجِبْهُ مِنَّا أَحَدٌ، فَقَالَ: قُمْ يَا حُذَيْفَةُ فَأْتِنَا بِخَبَرِ الْقَوْمِ، فَلَمْ أَجِدْ بُدًّا إِذْ دَعَانِي بِاسْمِي أَنْ أَقُومَ، قَالَ: اذْهَبْ فَأْتِنِي بِخَبَرِ الْقَوْمِ وَلَا تَذْعَرْهُمْ عَلَيَّ "، فَلَمَّا وَلَّيْتُ مِنْ عِنْدِهِ جَعَلْتُ كَأَنَّمَا أَمْشِي فِي حَمَّامٍ حَتَّى أَتَيْتُهُمْ، فَرَأَيْتُ أَبَا سُفْيَانَ يَصْلِي ظَهْرَهُ بِالنَّارِ، فَوَضَعْتُ سَهْمًا فِي كَبِدِ الْقَوْسِ فَأَرَدْتُ أَنْ أَرْمِيَهُ، فَذَكَرْتُ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا تَذْعَرْهُمْ عَلَيَّ وَلَوْ رَمَيْتُهُ لَأَصَبْتُهُ، فَرَجَعْتُ وَأَنَا أَمْشِي فِي مِثْلِ الْحَمَّامِ، فَلَمَّا أَتَيْتُهُ فَأَخْبَرْتُهُ بِخَبَرِ الْقَوْمِ وَفَرَغْتُ قُرِرْتُ، فَأَلْبَسَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ فَضْلِ عَبَاءَةٍ كَانَتْ عَلَيْهِ يُصَلِّي فِيهَا، فَلَمْ أَزَلْ نَائِمًا حَتَّى أَصْبَحْتُ، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ، قَالَ: قُمْ يَا نَوْمَانُ ".
ابراہیم تیمی کے والد (یزید بن شریک) سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھے، ایک آدمی نے کہا: اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک کو پا لیتا تو آپ کی معیت میں جہاد کرتا اور خوب لڑتا، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا تم ایسا کرتے؟ میں نے غزوہ احزاب کی رات ہم سب کو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، ہمیں تیز ہوا اور سردی نے اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا کوئی ایسا مرد ہے جو مجھے (اس) قوم (کے اندر) کی خبر لا دے؟ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو میرے ساتھ رکھے!" ہم خاموش رہے اور ہم میں سے کسی نے آپ کو کوئی جواب نہ دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: "کوئی شخص ہے جو میرے پاس ان لوگوں کی خبر لے آئے؟ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو میرے ساتھ رکھے!" ہم خاموش رہے اور ہم میں سے کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: "ہے کوئی شخص جو ان لوگوں کی خبر لا دے؟ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو میری رفاقت عطا فرمائے!" ہم خاموش رہے، ہم میں سے کسی نے کوئی جواب نہ دیا، آپ نے فرمایا: "حذیفہ! کھڑے ہو جاؤ اور تم مجھے ان کی خبر لا کے دو۔" جب آپ نے میرا نام لے کر بلایا تو میں نے اُٹھنے کے سوا کئی چارہ نہ پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جاؤ ان لوگوں کی خبریں مجھے لا دو اور انہیں میرے خلاف بھڑکا نہ دینا۔" (کوئی ایسی بات یا حرکت نہ کرنا کہ تم پکڑے جاؤ، اور وہ میرے خلاف بھڑک اٹھیں) جب میں آپ کے پاس سے گیا تو میری حالت یہ ہو گئی جیسے میں حمام میں چل رہا ہوں، (پسینے میں نہایا ہوا تھا) یہاں تک کہ میں ان کے پاس پہنچا، میں نے دیکھا کہ ابوسفیان اپنی پشت آگ سے سینک رہا ہے، میں نے تیر کو کمان کی وسط میں رکھا اور اس کو نشانہ بنا دینا چاہا، پھر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان یاد آ گیا کہ "انہیں میرے خلاف بھڑکا نہ دینا" (کہ جنگ اور تیز ہو جائے) اگر میں اس وقت تیر چلا دیتا تو وہ نشانہ بن جاتا، میں لوٹا تو (مجھے ایسے لگ رہا تھا) جیسے میں حمام میں چل رہا ہوں، پھر جب میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ کو ان لوگوں کی (ساری) خبربتائی اور میں فارغ ہوا تو مجھے ٹھنڈ لگنے لگی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (اپنی اس) عبا کا بچا ہوا حصہ اوڑھا دیا جو آپ (کے جسم اطہر) پر تھی، آپ اس میں نماز پڑھ رہے تھے۔ میں (اس کو اوڈھ کر) صبح تک سوتا رہا، جب صبح ہوئی تو آپ نے فرمایا: "اے خوب سونے والے! اُٹھ جاو
ابراہیم تیمی اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس تھے تو ایک آدمی نے کہا، اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پا لیتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں جنگ میں شریک ہوتا اور خوب جوہر دکھاتا تو حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا تو یہ کام کرتا؟ واقعہ یہ ہے، ہم نے اپنے آپ کو احزاب کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس حال میں دیکھا کہ سخت ہوا اور سردی سے ہم دوچار تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا کوئی آدمی ہے جو مجھے دشمن کے حالات معلوم کر کے بتائے، اللہ قیامت کے دن اسے میری رفاقت نصیب کرے گا؟ تو ہم سب خاموش ہو گئے، ہم میں سے کسی نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو جواب نہ دیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: کیا کوئی آدمی ہے، جو ہمیں دشمن کے بارے میں معلومات فراہم کرے، اللہ اسے قیامت کے دن میرا ساتھ عنایت فرمائے گا؟ تو ہم خاموش ہو گئے اور ہم میں سے کسی نے آپ کو جواب نہ دیا، پھر آپ نے تیسری بات فرمایا، کیا کوئی مرد ہے، جو ہمارے پاس ان لوگوں کے حالات معلوم کر کے لائے، اللہ اسے قیامت کے دن میری معیت نصیب کرے گا؟ تو ہم خاموش ہو گئے اور ہم میں سے کسی نے آپ کو جواب نہ دیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے حذیفہ، ہمیں ان لوگوں کے بارے میں معلومات پہنچاؤ۔ تو میرے لیے جانے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام لے کر کہا کہ میں اٹھوں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ، میرے پاس ان کے بارے میں معلومات حاصل کر کے آؤ اور انہیں میرے خلاف نہ بھڑکانا۔ تو جب میں آپ کے پاس سے چل پڑا تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں حمام میں چل رہا ہوں حتی کہ میں ان کے پاس پہنچ گیا تو میں نے ابو سفیان کو دیکھا کہ وہ آگ سے اپنی پشت تاپ رہا ہے تو میں نے کمان کے درمیان تیر رکھ لیا اور اس کو نشانہ بنانا چاہا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان یاد آگیا، انہیں میرے خلاف نہ بھڑکانا۔ اگر میں اس پر تیر پھینکتا تو وہ نشانہ پر لگتا تو میں واپس لوٹا اور مجھے یوں لگ رہا تھا، جیسے میں حمام میں چل رہا ہوں تو جب میں آپ کے پاس پہنچا اور آپ کو ان لوگوں کے حالات سے آگاہ کر کے فارغ ہوا تو مجھے سردی لگنے لگی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس چادر (کمبلی) کا زائد حصہ پہنایا، (مجھ پر ڈال دیا) جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی تو میں صبح تک سویا رہا تو جب صبح ہو گئی تو آپ نے فرمایا: اٹھ، اے سوتڑ۔
37. باب غَزْوَةِ أُحُدٍ:
37. باب: جنگ احد کا بیان۔
Chapter: The Battle of Uhud
حدیث نمبر: 4641
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا هداب بن خالد الازدي ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن علي بن زيد ، وثابت البناني ، عن انس بن مالك " ان رسول الله صلى الله عليه وسلم افرد يوم احد في سبعة من الانصار ورجلين من قريش، فلما رهقوه، قال: من يردهم عنا وله الجنة او هو رفيقي في الجنة، فتقدم رجل من الانصار فقاتل حتى قتل ثم رهقوه ايضا، فقال: من يردهم عنا وله الجنة او هو رفيقي في الجنة، فتقدم رجل من الانصار فقاتل حتى قتل فلم يزل كذلك حتى قتل السبعة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لصاحبيه: ما انصفنا اصحابنا ".وحَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ الْأَزْدِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، وَثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ " أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُفْرِدَ يَوْمَ أُحُدٍ فِي سَبْعَةٍ مِنْ الْأَنْصَارِ وَرَجُلَيْنِ مِنْ قُرَيْشٍ، فَلَمَّا رَهِقُوهُ، قَالَ: مَنْ يَرُدُّهُمْ عَنَّا وَلَهُ الْجَنَّةُ أَوْ هُوَ رَفِيقِي فِي الْجَنَّةِ، فَتَقَدَّمَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَاتَلَ حَتَّى قُتِلَ ثُمَّ رَهِقُوهُ أَيْضًا، فَقَالَ: مَنْ يَرُدُّهُمْ عَنَّا وَلَهُ الْجَنَّةُ أَوْ هُوَ رَفِيقِي فِي الْجَنَّةِ، فَتَقَدَّمَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَاتَلَ حَتَّى قُتِلَ فَلَمْ يَزَلْ كَذَلِكَ حَتَّى قُتِلَ السَّبْعَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِصَاحِبَيْهِ: مَا أَنْصَفْنَا أَصْحَابَنَا ".
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جنگ اُحد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، انصار کے سات اور قریش کے دو آدمیوں (سعد بن ابی وقاص اور طلحہ بن عبیداللہ تیمی رضی اللہ عنہ) کے ساتھ (لشکر سے الگ کر کے) تنہا کر دیے گئے، جب انہوں نے آپ کو گھیر لیا تو آپ نے فرمایا: " ان کو ہم سے کون ہٹائے گا؟ اس کے لیے جنت ہے، یا (فرمایا:) وہ جنت میں میرا رفیق ہو گا۔" تو انصار میں سے ایک شخص آگے بڑھا اور اس وقت تک لڑتا رہا، یہاں تک کہ وہ شہید ہو گیا، انہوں نے پھر سے آپ کو گھیر لیا، آپ نے فرمایا: "انہیں کون ہم سے دور ہٹائے گا؟ اس کے لیے جنت ہے، یا (فرمایا:) وہ جنت میں میرا رفیق ہو گا۔" پھر انصار میں سے ایک شخص آگے بڑھا وہ لڑا حتی کہ شہید ہو گیا، پھر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا حتی کہ وہ ساتوں انصاری شہید ہو گئے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے (ان قریشی) ساتھیوں سے فرمایا: "ہم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، جنگ اُحد کے دن سات انصاریوں اور دو قریشیوں کے ساتھ الگ کر دئیے گئے تو جب دشمن نے آپ کو گھیر لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ان کو ہمارے پاس سے کون ہٹائے گا، اس کو جنت ملے گی یا وہ جنت میں میرا رفیق ہو گا؟ تو ایک انصاری آگے بڑھا اور لڑ کر شہید ہو گیا، پھر انہوں نے آپ کو گھیر لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کو ہم سے کون دور ہٹائے گا، اسے جنت ملے گی یا وہ میرا جنت میں ساتھی ہو گا؟ تو انصار میں سے ایک آدمی آگے بڑھا اور لڑتا ہوا شہید ہو گیا، اسی طرح یہی صورت حال جاری رہی حتی کہ ساتوں انصاری شہید ہو گئے، پھر آپ نے اپنے قریشی ساتھیوں سے کہا، ہم نے انصار ساتھیوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ (کیونکہ قریشیوں میں سے کوئی بھی آگے نہ بڑھا تھا۔)
حدیث نمبر: 4642
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيي بن يحيي التميمي ، حدثنا عبد العزيز بن ابي حازم ، عن ابيه ، انه سمع سهل بن سعد يسال عن جرح رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم احد، فقال: " جرح وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم وكسرت رباعيته وهشمت البيضة على راسه، فكانت فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم تغسل الدم وكان علي بن ابي طالب يسكب عليها بالمجن، فلما رات فاطمة ان الماء لا يزيد الدم إلا كثرة اخذت قطعة حصير فاحرقته حتى صار رمادا، ثم الصقته بالجرح، فاستمسك الدم "،حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي التَّمِيمِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ سَمِعَ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ يُسْأَلُ عَنْ جُرْحِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أُحُدٍ، فَقَالَ: " جُرِحَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكُسِرَتْ رَبَاعِيَتُهُ وَهُشِمَتِ الْبَيْضَةُ عَلَى رَأْسِهِ، فَكَانَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَغْسِلُ الدَّمَ وَكَانَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ يَسْكُبُ عَلَيْهَا بِالْمِجَنِّ، فَلَمَّا رَأَتْ فَاطِمَةُ أَنَّ الْمَاءَ لَا يَزِيدُ الدَّمَ إِلَّا كَثْرَةً أَخَذَتْ قِطْعَةَ حَصِيرٍ فَأَحْرَقَتْهُ حَتَّى صَارَ رَمَادًا، ثُمَّ أَلْصَقَتْهُ بِالْجُرْحِ، فَاسْتَمْسَكَ الدَّمُ "،
ابوحازم کے بیٹے عبدالعزیز نے اپنے والد سے بیان کیا کہ انہوں نے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے سنا، ان سے جنگ اُحد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخمی ہونے کے متعلق سوال کیا جا رہا تھا، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک زخمی ہو گیا تھا اور سامنے (ثنایا کے ساتھ) کا ایک دانت (رباعی) ٹوٹ گیا تھا اور خود سر مبارک پر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاجزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا (آپ کے چہرے سے) خود دھو رہی تھیں اور حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ڈھال سے اس (زخم) پر پانی ڈال رہے تھے، جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے یہ دیکھا کہ پانی ڈالنے سے خون نکلنے میں اضافہ ہو رہا ہے تو انہوں نے چٹائی کا ایک ٹکڑا لے کر جلایا وہ راکھ ہو گیا، پھر اس کو زخم پر لگا دیا تو خون رک گیا
ابو حازم رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے جنگ اُحد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخمی ہونے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے بتایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ زخمی ہو گیا تھا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کا ایک رباعی دانت توڑ ڈالا گیا اور آپ کے سر پر خود توڑ دی گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ، خون دھو رہی تھیں اور حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ ڈھال سے اس پر پانی ڈال رہے تھے تو جب حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے دیکھا کہ پانی سے تو خون زیادہ نکل رہا ہے تو انہوں نے چٹائی کا ایک ٹکڑا جلایا حتی کہ وہ راکھ بن گیا تو اسے زخم پر لگایا تو خون رک گیا۔
حدیث نمبر: 4643
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا يعقوب يعني ابن عبد الرحمن القاري ، عن ابي حازم ، انه سمع سهل بن سعد : وهو يسال عن جرح رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: ام والله إني لاعرف من كان يغسل جرح رسول الله صلى الله عليه وسلم، ومن كان يسكب الماء وبماذا دووي جرحه، ثم ذكر نحو حديث عبد العزيز غير، انه زاد وجرح وجهه، وقال: مكان هشمت كسرت،حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقَارِيَّ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ : وَهُوَ يَسْأَلُ عَنْ جُرْحِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَمَ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْرِفُ مَنْ كَانَ يَغْسِلُ جُرْحَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَنْ كَانَ يَسْكُبُ الْمَاءَ وَبِمَاذَا دُووِيَ جُرْحُهُ، ثُمَّ ذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ عَبْدِ الْعَزِيزِ غَيْرَ، أَنَّهُ زَادَ وَجُرِحَ وَجْهُهُ، وَقَالَ: مَكَانَ هُشِمَتْ كُسِرَتْ،
یعقوب بن عبدالرحمان القاری نے ابوحازم سے بیان کیا کہ انہوں نے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے سنا، ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخم کے متعلق سوال کیا جا رہا تھا، انہوں نے کہا: سنو! اللہ کی قسم! مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زخم کون دھو رہا تھا اور پانی کون ڈال رہا تھا اور آپ کے زخم پر کون سی دوائی لگائی گئی، پھر عبدالعزیز کی حدیث کی طرح بیان کیا، مگر انہوں نے یہ اضافہ کیا: اور آپ کا چہرہ انور زخمی ہو گیا اور۔۔ (خود) ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔۔ کی جگہ "ٹوٹ گیا" کہا
ابو حازم سے روایت ہے کہ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخم کے بارے میں سوال کیا گیا، میں سن رہا تھا، انہوں نے کہا، سنو! اللہ کی قسم! میں خوب جانتا ہوں، کون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زخم دھو رہا تھا اور کون پانی ڈال رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخم کا علاج کس چیز سے کیا گیا، پھر مذکورہ بالا حدیث بیان کی، ہاں یہ اضافہ ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ زخمی کر دیا گیا اور حُشِمَتِ
حدیث نمبر: 4644
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثناه ابو بكر بن ابي شيبة ، وزهير بن حرب ، وإسحاق بن إبراهيم ، وابن ابي عمر جميعا، عن ابن عيينة . ح وحدثنا عمرو بن سواد العامري ، اخبرنا عبد الله بن وهب ، اخبرني عمرو بن الحارث ، عن سعيد بن ابي هلال . ح وحدثني محمد بن سهل التميمي ، حدثني ابن ابي مريم ، حدثنا محمد يعني ابن مطرف كلهم، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد بهذا الحديث، عن النبي صلى الله عليه وسلم في حديث ابن ابي هلال اصيب وجهه وفي حديث ابن مطرف جرح وجهه.وحَدَّثَنَاه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ جَمِيعًا، عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ . ح وحَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ الْعَامِرِيُّ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ . ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَهْلٍ التَّمِيمِيُّ ، حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ مُطَرِّفٍ كُلُّهُمْ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ بِهَذَا الْحَدِيثِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَدِيثِ ابْنِ أَبِي هِلَالٍ أُصِيبَ وَجْهُهُ وَفِي حَدِيثِ ابْنِ مُطَرِّفٍ جُرِحَ وَجْهُهُ.
ابن عیینہ، سعید بن ابی ہلال اور محمد بن مطرف، ان سب نے ابوحازم سے، انہوں نے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، ابن ابی ہلال کی حدیث میں ہے: "آپ کا چہرہ مبارک نشانہ بنایا گیا" اور ابن مطرف کی حدیث میں ہے: "آپ کا چہرہ مبارک زخمی ہوا
امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ کی سندوں سے ابو حازم کی حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتے ہیں اور ابن ابی حلال کی روایت میں ہے آپصلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ زخمی کر دیا گیا اوپر جرح
حدیث نمبر: 4645
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الله بن مسلمة بن قعنب ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن ثابت ، عن انس " ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كسرت رباعيته يوم احد وشج في راسه فجعل يسلت الدم عنه، ويقول: كيف يفلح قوم شجوا نبيهم وكسروا رباعيته وهو يدعوهم إلى الله، فانزل الله عز وجل ليس لك من الامر شيء سورة آل عمران آية 128 ".حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ " أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُسِرَتْ رَبَاعِيَتُهُ يَوْمَ أُحُدٍ وَشُجَّ فِي رَأْسِهِ فَجَعَلَ يَسْلُتُ الدَّمَ عَنْهُ، وَيَقُولُ: كَيْفَ يُفْلِحُ قَوْمٌ شَجُّوا نَبِيَّهُمْ وَكَسَرُوا رَبَاعِيَتَهُ وَهُوَ يَدْعُوهُمْ إِلَى اللَّهِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ سورة آل عمران آية 128 ".
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جنگ اُحد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا (ثنائیہ کے ساتھ والا) رباعی دانت ٹوٹ گیا اور آپ کے سر اقدس میں زخم لگا، آپ اپنے سر سے خون پونچھتے تھے اور فرماتے تھے: "وہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی کے سر میں زخم لگایا اور اس کا رباعی کا دانت توڑ دیا، اور وہ انہیں اللہ کی طرف بلا رہا تھا۔" اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: "اس معاملے میں آپ کے ہاتھ میں کوئی چیز نہیں (کہ وہ اللہ ان کی طرف توجہ فرمائے یا ان کو عذاب دے کہ وہ ظالم ہیں
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ اُحد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک رباعی دانت توڑ ڈالا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر زخم لگایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے خون صاف کرنے لگے اور فرماتے تھے، وہ قوم کیسے کامیاب ہو سکتی ہے، جس نے اپنے نبی کا سر زخمی کر ڈالا اور اس کا رباعی دانت توڑ ڈالا، حالانکہ وہ انہیں اللہ کی طرف بلاتا ہے؟ تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی، اس معاملہ میں تیرا کوئی اختیار نہیں ہے۔
حدیث نمبر: 4646
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا وكيع ، حدثنا الاعمش ، عن شقيق ، عن عبد الله ، قال: " كاني انظر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، يحكي نبيا من الانبياء ضربه قومه وهو يمسح الدم عن وجهه، ويقول: رب اغفر لقومي فإنهم لا يعلمون "،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: " كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَحْكِي نَبِيًّا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ ضَرَبَهُ قَوْمُهُ وَهُوَ يَمْسَحُ الدَّمَ عَنْ وَجْهِهِ، وَيَقُولُ: رَبِّ اغْفِرْ لِقَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ "،
محمد بن عبداللہ بن نمیر نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں وکیع نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں اعمش نے شقیق سے حدیث بیان کی، انہوں نے عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: جیسے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھ رہا ہوں، آپ انبیاء میں سے ایک نبی کا واقعہ بیان فرما رہے تھے جنہیں ان کی قوم نے مارا، وہ اپنے چہرے سے خون پونچھ رہے تھے اور (یہ) فرما رہے تھے: "اے اللہ! میری قوم کو معاف کر دے، وہ نہیں جانتے (کہ وہ کیا کر رہے ہیں
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، گویا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ انبیاء میں سے ایک نبی کا واقعہ نقل کر رہے ہیں، اس کی قوم نے اسے مارا اور وہ اپنے چہرے سے خون پونچھتے ہوئے فرما رہے ہیں: اے رب میری قوم کو بخش دے، کیونکہ انہیں علم نہیں ہے۔
حدیث نمبر: 4647
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا وكيع ، ومحمد بن بشر ، عن الاعمش بهذا الإسناد غير انه، قال: فهو ينضح الدم عن جبينه.حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَنْ الْأَعْمَشِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ غَيْرَ أَنَّهُ، قَالَ: فَهُوَ يَنْضِحُ الدَّمَ عَنْ جَبِينِهِ.
ابوبکر بن ابی شیبہ نے کہا: ہمیں وکیع اور محمد بن بشر نے اعمش سے اسی سند کے ساتھ روایت بیان کی، اس میں انہوں نے یہ کہا: تو وہ (نبی علیہ السلام) اپنی پیشانی سے خون پونچھتے جاتے تھے
امام صاحب اپنے ایک اور استاد سے اعمش ہی کی مذکورہ بالا سند سے روایت بیان کرتے ہیں، مگر اس میں یہ الفاظ ہیں، وہ اپنی پیشانی سے خون صاف کر رہا ہے۔
38. باب اشْتِدَادِ غَضَبِ اللَّهِ عَلَى مَنْ قَتَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
38. باب: جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود قتل کریں اس پر اللہ تعالی کا غصہ بہت سخت ہے۔
Chapter: The intense wrath of Allah towards the one who was killed by the messenger of Allah (saws)
حدیث نمبر: 4648
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن رافع ، حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن همام بن منبه ، قال: هذا ما حدثنا ابو هريرة ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكر احاديث منها، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اشتد غضب الله على قوم فعلوا هذا برسول الله صلى الله عليه وسلم، وهو حينئذ يشير إلى رباعيته، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اشتد غضب الله على رجل يقتله رسول الله في سبيل الله عز وجل ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، قَالَ: هَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اشْتَدَّ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى قَوْمٍ فَعَلُوا هَذَا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ حِينَئِذٍ يُشِيرُ إِلَى رَبَاعِيَتِهِ، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اشْتَدَّ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى رَجُلٍ يَقْتُلُهُ رَسُولُ اللَّهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ".
ہمام بن منبہ سے روایت ہے، کہا: یہ احادیث ہیں جو ہمیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیں، انہوں نے کئی احادیث بیان کیں، ان میں سے ایک یہ ہے: اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس قوم پر اللہ کا غضب شدید ہو گیا جنہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ کیا" آپ اس وقت اپنے رباعی دانت کی طرف اشارہ فرما رہے تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ اس شخص پر سخت غضب ناک ہوتا ہے جس کو اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی راہ میں (جہاد کرتے ہوئے) قتل کر دے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا غصہ اس قوم پر انتہائی سخت ہو گا جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ سلوک کیا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اپنے رباعی دانت کی طرف اشارہ کر رہے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا غصہ اس شخص پر انتہائی سخت ہوتا ہے، جسے اللہ کا رسول، اللہ کی راہ میں قتل کر ڈالے۔

Previous    9    10    11    12    13    14    15    16    17    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.