-" يا عائشة ارفقي، فإن الله إذا اراد باهل بيت خيرا دلهم على باب الرفق".-" يا عائشة ارفقي، فإن الله إذا أراد بأهل بيت خيرا دلهم على باب الرفق".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: ”عائشہ! نرمی کیا کرو، کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کسی گھر والوں کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں تو نرمی کے دروازے کی طرف ان کی رہنمائی کر دیتے ہیں۔“
-" اما كان فيكم رجل رحيم؟!".-" أما كان فيكم رجل رحيم؟!".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا، انہوں نے مال غنیمت حاصل کیا، ان میں ایک آدمی ایسا بھی تھا، جس نے لشکر والوں سے کہا: میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں، مجھے تو فلاں عورت سے عشق ہے، سو میں اس سے آ ملا۔ مجھے جانے دو تاکہ اسے ایک نظر دیکھ سکوں، پھر میرے ساتھ جو چاہنا کر گزرنا۔ پھر انہوں نے دیکھا کہ ایک دراز قد کی گندمی عورت ہے۔ اس نے اسے کہا: اے حبیش! زندگی ختم ہونے سے پہلے مان جا۔ کیا خیال ہے تیرا اگر میں تمہارا پیچھا کروں اور تمہیں حلیہ چشمے پر یا پہاڑوں کی تنگ گھاٹیوں میں جا ملوں، کیا عاشق کا یہ حق نہیں ہے کہ اس کو رات بھر اور گرمی کی شدت میں چلنے کا انعام دیا جائے؟ اس عورت نے کہا: میں نے اپنا آپ تجھ پہ فدا کر دیا ہے۔ انہوں نے اسے آگے کیا اور اس کی گردن کاٹ دی۔ پھر وہ عورت آئی، اس پر کھڑی ہوئی اور زور سے چیخ ماری اور پھر وہ مر گئی۔ جب وہ لشکر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ کو اس کے متعلق خبر دی۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تم میں کوئی بھی رحم دل آدمی نہ تھا۔“
- (كذلك سوقك بالقوارير، يعني النساء. قاله - صلى الله عليه وسلم - في حجة الوداع).- (كذلك سَوْقُكَ بالقوارير، يعني النساء. قاله - صلى الله عليه وسلم - في حجة الوداع).
سیدہ صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کے ساتھ حج کیا، دوران سفر ایک آدمی اترا، اور امہات المؤمنین کی سواریوں کو تیزی سے چلایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس طرح شیشوں کو لے کر چلتے ہیں؟“ سو وہ چل رہے تھے کہ سیدہ صفیہ بنت حی کا اونٹ بیٹھ گیا، حالانکہ ان کی سواری سب سے اچھی تھی، وہ رونے لگ گئیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا تو آپ تشریف لائے اور اپنے ہاتھ سے ان کے آنسو پونچھنے لگ گئے، وہ اور زیادہ رونے لگیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو منع کرتے رہے۔ جب وہ بہت زیادہ رونے لگ گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ڈانٹ ڈپٹ کی اور لوگوں کو اترنے کا حکم دے دیا، سو وہ اتر گئے، اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اترنے کا ارادہ نہیں تھا۔ وہ کہتی ہیں: صحابہ کرام اتر پڑے اور اس دن میری باری تھی۔ جب صحابہ اترے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خیمہ نصب کیا گیا، آپ اس میں داخل ہو گئے۔ وہ کہتی ہیں: یہ بات میری سمجھ میں نہ آ سکی کہ میں کیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گھس جاؤں اور مجھے یہ ڈر بھی تھا کہ (ممکن ہے کہ) آپ کے دل میں میرے بارے میں کوئی ناراضگی ہو۔ وہ کہتی ہیں: (بہرحال) میں سیدہ عائشہ کے پاس گئی اور ان سے کہا: تم جانتی ہو کہ میں کسی چیز کے عوض اپنے دن کا سودا نہیں کروں گی، لیکن میں تجھے اپنی باری کا دن اس شرط پر ہبہ کرتی ہوں کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مجھ سے راضی کروا دو۔ انہوں نے کہا: ٹھیک ہے۔ اب وہ کہتی ہیں: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے زعفران میں رنگی ہوئی چادر لی اور اس پر پانی چھڑکا تاکہ اس کی خوشبو تروتازہ ہو جائے، پھر اپنے کپڑے زیب تن کیے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلی گئی اور (جا کر) خیمے کا ایک کنارہ اٹھایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اے عائشہ! تجھے کیا ہوا؟ یہ دن تیرا تو نہیں ہے۔ انہوں نے کہا: یہ اللہ کا فضل ہے، وہ جسے چاہتا ہے، عطا کرتا ہے۔ آپ اپنی اہلیہ کے پاس ہی ٹھہرے رہے۔ جب شام ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ زینب بنت جحش سے فرمایا: ”اے زینب! اپنی بہن صفیہ کو ایک اونٹ مستعار دے دو۔“ دراصل ان کے پاس سواریاں زیادہ تھیں۔ لیکن زینب نے کہا: کیا میں آپ کی یہودیہ کو مستعار دے دوں؟ یہ بات سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے ناراض ہو گئے اور قطع کلامی کر لی اور اس سے کوئی بات نہ کی، حتی کہ مکہ پہنچ گئے، پھر آپ کے سفر میں منیٰ والے دن (بھی بیت گئے) یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس آ گئے اور محرم اور صفر کے (دو ماہ) بھی گزر گئے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ زینب کے پاس گئے اور نہ اس کے لیے کوئی باری تقسیم کی۔ وہ بھی آپ سے ناامید ہو گئیں۔ جب ربیع الاول کا مہینہ آیا تو آپ اس کے پاس گئے۔ زینب نے آپ کا سایہ دیکھا اور کہا: یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ ہے اور آپ تو میرے پاس آتے ہی نہیں، سو یہ (سائے والا) کون ہو سکتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس داخل ہوئے، جب زینب نے آپ کو دیکھا تو کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کے آنے سے (مجھے اتنی خوشی ہوئی ہے) کہ مجھے سمجھ نہیں آتی میں کیا کروں۔ وہ کہتی ہیں: ان کی ایک لونڈی تھی، جس کو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے چھپا کر رکھتی تھیں۔ پھر اس نے کہا: فلاں لونڈی آپ کے لیے ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ زینب کی چارپائی کی طرف گئے، جسے اٹھا دیا گیا تھا، آپ نے اس کو اپنے ہاتھ سے بچھایا، پھر اپنی اہلیہ سے مباشرت کی اور ان سے راضی ہوئے۔
-" إن خير عباد الله من هذه الامة الموفون المطيبون".-" إن خير عباد الله من هذه الأمة الموفون المطيبون".
سیدنا ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ اس امت میں سے اللہ تعالیٰ کے بہترین بندے وہ ہیں جو وعدہ پورا کرنے والے، نرم مزاج (اور خوش اخلاق) ہوں۔“
-" إن لله آنية من اهل الارض، وآنية ربكم قلوب عباده الصالحين، واحبها إليه الينها وارقها".-" إن لله آنية من أهل الأرض، وآنية ربكم قلوب عباده الصالحين، وأحبها إليه ألينها وأرقها".
سیدنا ابوعنبہ خولانی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے برتن ہیں، جن کا تعلق اہل زمین سے ہے، تمہارے پروردگار کے برتن نیک لوگوں کے دل ہیں اور ان میں سے اسے سب سے زیادہ پسندیدہ زیادہ نرمی اور شفقت والے ہیں۔“
-" ارحموا ترحموا واغفروا يغفر الله لكم وويل لاقماع القول وويل للمصرين الذين يصرون على ما فعلوا وهم يعلمون".-" ارحموا ترحموا واغفروا يغفر الله لكم وويل لأقماع القول وويل للمصرين الذين يصرون على ما فعلوا وهم يعلمون".
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم رحم کرو، تم پر رحم کیا جائے گا اور تم معاف کرو، (بدلے میں) اللہ تعالیٰ تم کو معاف کرے گا۔ ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جو بات سنتے ہوں لیکن اسے سمجھتے نہ ہوں (یعنی ان سنی کر دیتے ہوں) اور اصرار کرنے والوں کے لیے بھی ہلاکت ہے جو جاننے بوجھنے کے باوجود اپنے کیے پر اصرار کرتے ہیں۔“
- (1- إذا اقترب الزمان لم تكد رؤيا المسلم تكذب. 2- واصدقهم رؤيا اصدقهم حديثا. 3 - ورؤيا المسلم جزء من ستة واربعين جزءا من النبوة. قال: وقال: 4- الرؤيا ثلاثة: فالرؤيا الصالحة بشرى من الله عز وجل، والرؤيا تحزين من الشيطان، والرؤيا من الشيء يحدث به الإنسان نفسه. 5- فإذا راى احدكم ما يكره فلا يحدثه احدا، وليقم فليصل. قال: 6 - واحب القيد في النوم، واكره الغل، القيد: ثبات في الدين).- (1- إذا اقتربَ الزمانُ لم تَكَدْ رُؤيا المسلم تَكذبُ. 2- وأَصْدَقُهُم رؤيا أصدقهم حديثاً. 3 - ورؤيا المسلمِ جُزءٌ من ستةٍ وأربعينَ جزءاً من النبوة. قال: وقال: 4- الرؤيا ثلاثةٌ: فالرؤيا الصالحةُ بُشْرَى من الله عز وجل، والرؤيا تَحزِينٌ من الشيطان، والرؤيا من الشيء يُحَدِّثُ به الإنسانُ نفسَهُ. 5- فإذا رأى أحدُكُم ما يَكرَهُ فلا يُحَدِّثهُ أحداً، وَلْيَقُمْ فَلْيصلِّ. قال: 6 - وأُحِبُّ القَيْدَ في النومِ، وأكرهُ الغُلَّ، القَيدُ: ثباتٌ في الدِّين).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(١) جب زمانہ (قیامت کے) قریب ہو جائے گا تو ایسا نہیں ہو گا کہ مسلمان کا خواب جھوٹا ثابت ہو (٢) اور زیادہ سچا خواب اس شخص کا ہو گا جو ان میں سے گفتگو کے لحاظ سے زیادہ سچا ہو گا (۳) مسلمان کا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔“ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(۴) خواب کی تین (اقسام) ہیں: نیک خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوشخبری ہے، برا خواب شیطان کی طرف سے رنج و غم ہے اور (ان کے علاوہ) عام چیزوں سے متعلقہ خواب انسان کے اپنے خیالات ہیں۔ (۵) جب تم میں سے کوئی آدمی کوئی ناپسندیدہ خواب دیکھے تو کسی کو بیان نہ کرے اور کھڑا ہو کر نماز پڑھے (۶) میں خواب میں زنجیر کو پسند اور طوق کو ناپسند کرتا ہوں۔ دراصل زنجیر سے مراد دین میں ثابت قدمی ہے۔“
- (إن من افرى الفرى ان يري عينيه في المنام ما لم تريا).- (إنّ من أَفْرَى الفِرَى أنْ يُرِيَ عَينيهِ في المنامِ ما لم تَرَيَا).
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ آدمی خواب میں اپنی آنکھوں کو وہ کچھ دکھلائے جو (درحقیقت) انہوں نے نہ دیکھا ہو۔“
- (إذا شهر المسلم على اخيه سلاحا، فلا تزال ملائكة الله تلعنه حتى يشيمه عنه).- (إذا شهَرَ المسلمُ على أخيهِ سلاحاً، فلا تزالُ ملائكةُ اللهِ تلعنُه حتّى يَشِيمَهُ عنه).
سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی مسلمان اپنے بھائی پر اسلحہ سونتتا ہے تو فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں، جب تک وہ اس کو میان میں داخل نہیں کر دیتا۔“