سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں کداء کی طرف سے یعنی اونچی گھاٹی کی طرف سے جو بطحاء میں ہے داخل ہوتے اور نچلی گھاٹی کی طرف سے مکہ سے (جاتے وقت) نکلتے تھے۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حطیم دیوار کی بابت پوچھا کہ کیا وہ بھی کعبہ میں سے ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ میں نے عرض کہ پھر ان لوگوں نے اس کو کعبہ میں کیوں نہ داخل کیا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری قوم کے پاس خرچ کم ہو گیا تھا (اس سبب سے انہوں نے داخل نہیں کیا)۔“ میں نے عرض کی کہ دروازہ کی کیا کیفیت ہے؟ اس قدر اونچا کیوں ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تمہاری قوم نے اس لیے کیا کہ جس کو چاہیں کعبہ کے اندر داخل کریں اور جس کو چاہیں روک دیں اور اگر تمہاری قوم کا زمانہ جاہلیت سے قریب تر نہ ہوتا اور مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ ان کے دلوں کو برا معلوم ہو گا تو میں ضرور حطیم کو کعبہ میں داخل کر دیتا اور اس کا دروازہ زمین سے ملا دیتا (یعنی چوکھٹ نیچی کر دیتا)۔“
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی سے ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عائشہ (رضی اللہ عنہا) اگر تمہاری قوم کا دور، جاہلیت سے قریب نہ ہوتا تو میں کعبہ کے منہدم کر دینے کا حکم دیتا اور جو حصہ اس میں سے خارج کر دیا گیا ہے اس کو دوبارہ اسی میں شامل کر دیتا اور اس کو زمین سے ملا دیتا اور اس میں دو دروازے بناتا، ایک شرقی دروازہ ایک غربی دروازہ اور میں اس کو ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں کے موافق کر دیتا۔“
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حجتہ الوداع میں جاتے وقت عرض کی کہ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم ، مکہ میں اپنے گھر کے کس مقام میں تشریف فرما ہوں گے؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عقیل نے کوئی جائداد یا مکانات (ہمارے لیے) چھوڑے ہی کب ہیں“ اور عقیل اور طالب، ابوطالب کے وارث ہوئے تھے، نہ سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ ان کی کسی چیز کے وارث ہوئے تھے اور نہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ۔ کیونکہ یہ دونوں مسلمان تھے اور عقیل اور طالب (اس وقت تک) کافر تھے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی سے اگلے دن یعنی گیارہ ذوالحجہ کو فرمایا اور اس وقت آپ منیٰ میں تھے: ”ہم کل انشاءاللہ خیف بنی کنانہ میں اتریں گے جہاں مشرکوں نے کفر پر باہم معاہدہ کیا تھا یعنی محصب میں اتریں گے اور یہ واقعہ (کفر پر معاہدہ کا) اس طرح ہوا تھا کہ قریش نے اور کنانہ نے بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب (یا راوی نے کہا کہ) بنی مطلب کے خلاف یہ معاہدہ کیا تھا کہ ان کے ساتھ مناکحت (رشتہ ناطہٰ) نہ کریں گے اور نہ ان کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کریں گے یہاں تک کہ بنی ہاشم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے حوالے کر دیں۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چھوٹی چھوٹی پنڈلیوں والا ایک حبشی (قیامت کے قریب) کعبہ کو منہدم کر دے گا۔“
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ(ہم) رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے عاشورے کا روزہ رکھا کرتے تھے اور وہ ایک ایسا دن تھا کہ اس میں کعبہ پر غلاف بھی ڈالا جاتا تھا پھر جب اللہ تعالیٰ نے رمضان کو فرض فرمایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اب) جو شخص عاشورے کا روزہ رکھنا چاہے رکھ لے اور جو نہ رکھنا چاہے وہ نہ رکھے۔“
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یاجوج ماجوج کے خروج کے بعد بھی کعبہ کا حج و عمرہ کیا جائے گا۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گویا کہ میں اس پتلی ٹانگوں والے سیاہ فام (یعنی حبشی) شخص کو دیکھ رہا ہوں جو کعبے کا ایک ایک پتھر اکھیڑ ڈالے گا۔“
امیرالمؤمنین عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ (طواف میں) حجراسود کے پاس آئے پھر اس کو بوسہ دیا اور کہا کہ بیشک میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ (کسی کو) نقصان پہنچ سکتا ہے اور نہ فائدہ دے سکتا ہے اور اگر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔“