سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک شخص پر ہوا جس نے اپنا ہاتھ تسمہ سے یا رسی سے یا کسی اور چیز سے باندھ دیا تھا اور ایک دوسرا شخص اس کو اس کے ذریعہ کھینچ رہا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رسی کو اپنے ہاتھ سے توڑ دیا پھر فرمایا: ”اسے اس کے ہاتھ سے پکڑ کر لے چل۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس حج میں جس میں انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع سے پہلے امیر بنایا تھا مجھ کو قربانی کے دن چند آدمیوں کے ہمراہ لوگوں میں اس امر کا اعلان کرنے کے لیے بھیجا کہ ”اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے نیز کوئی برہنہ شخص بھی کعبہ کا طواف نہ کرے۔“
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کیا اور صفا مروہ کے درمیان سعی کی اور اس طواف کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے قریب نہیں گئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے لوٹے (پھر کعبہ کے قریب گئے)۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ سیدنا عباس عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منیٰ کی راتوں میں حاجیوں کو پانی پلانے کے لیے مکہ میں رہنے کی درخواست کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سبیل کے پاس تشریف لائے اور آب زمزم طلب فرمایا تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے (اپنے بیٹے سے) کہا کہ اے فضل! اپنی ماں کے پاس جاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پانی لے آؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے یہی پانی پلا دو۔“ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ! لوگ اس میں اپنے ہاتھ ڈالتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم مجھے اسی میں سے پلا دو۔“ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی میں سے پانی پیا پھر آب زمزم کے پاس تشریف لائے اور وہاں لوگ کنویں سے پانی کھینچ کھینچ کر پلا رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر یہ بات نہ ہوتی کہ تم مغلوب ہو جاؤ گے (یعنی پانی پلانے کا کام تمہارے ہاتھ سے نکل جائے گا) تو بیشک میں اترتا اور رسی اس پر اپنے کاندھے کی طرف اشارے کر کے کہا یعنی اپنے کاندھے پر رکھ لیتا (اور پانی بھرتا مگر یہی خیال ہے کہ مجھے دیکھ کر جذبہ اطاعت میں دوسرے لوگ بھی ایسا کریں گے اور پھر تم مغلوب ہو جاؤ گے)۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زمزم کا پانی پلایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر نوش فرمایا۔ ایک اور روایت میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن اونٹ پر سوار تھے۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ان کے بھانجے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کے قول: ”بیشک صفا اور مروہ دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں پھر جو شخص کعبہ کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اس پر کچھ گناہ نہیں کہ وہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرے۔“(سورۃ البقرہ: 158) کے بارے میں دریافت کیا اور کہا کہ واللہ! اس سے تو (معلوم ہوتا ہے کہ) کسی پر کچھ گناہ نہیں، اگر وہ صفا و مروہ کی سعی نہ کرے؟ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ اے بھانجے! تم نے بہت برا مطلب بیان کیا اگر یہی مطلب ہوتا جو تم نے بیان کیا تو آیت یوں ہوتی: ”بیشک کسی پر کچھ گناہ نہ تھا کہ ان کے درمیان سعی نہ کرتا“۔ بلکہ یہ آیت انصار کے بارے میں نازل ہوئی ہے، وہ لوگ مسلمان ہونے سے پہلے مشلل کے پاس رکھے ہوئے ”مناۃ“(بت) کے لیے احرام باندھا کرتے تھے اور لوگ اس کی عبادت کیا کرتے تھے اور انصار کے جو لوگ حج یا عمرہ کا احرام باندھتے وہ صفا مروہ کے درمیان سعی کرنے کو گناہ سمجھتے تھے لہٰذا جب وہ مسلمان ہو گئے تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں دریافت کیا اور کہا کہ یا رسول اللہ! ہم صفا مروہ کی سعی میں حرج سمجھتے تھے پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ”بیشک صفا اور مروہ دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں .... آخر آیت تک۔“ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان سعی کو جاری فرمایا پس کسی شخص کو یہ اختیار نہیں ہے کہ ان دونوں کے درمیان سعی کو ترک کر دے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب پہلا طواف کرتے تھے تو تین مرتبہ رمل (یعنی دوڑ کر چلا) کرتے تھے اور چار مرتبہ مشی (یعنی معمولی چال سے چلا) کرتے تھے اور صفا و مروہ کے درمیان طواف کرتے وقت نالے کے نشیب میں سعی کرتے تھے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے حج کا احرام باندھا اور ان میں سے کسی کے پاس قربانی نہ تھی سوائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کے سیدنا علی رضی اللہ عنہ یمن سے آئے اور ان کے ہمراہ قربانی تھی پس انہوں کے کہا کہ میں نے بھی اسی چیز کا احرام باندھا ہے جس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام باندھا ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحاب کو یہ حکم دیا: ”اس احرام کو عمرہ کا احرام کر دیں اور طواف کر کے بال کتروا دیں اور احرام سے باہر ہو جائیں سوائے اس شخص کے کہ جس کے ہمراہ قربانی ہو۔“ پھر صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا کہ ہم منیٰ کیونکر جائیں؟ حالانکہ ہمارے عضو مخصوص سے منی ٹپک رہی ہو گی۔ یہ خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کاش! اگر میں پہلے سے اس بات کو جان لیتا جس کو میں نے اب جانا ہے تو میں اپنے ہمراہ قربانی نہ لاتا اور اگر میرے ساتھ قربانی نہ ہوتی تو میں احرام سے باہر ہو جاتا۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ایک شخص(عبدالعزیز بن رفیع) نے پوچھا کہ مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جو آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یاد ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عصر کی نماز آٹھویں ذوالحجہ کے دن کہاں پڑھی؟ تو انہوں نے کہا ”منیٰ میں“ اس شخص نے دوبارہ پوچھا کہ کوچ کے دن (بارہویں تاریخ کو) عصر کی نماز کہاں پڑھی؟ تو انہوں نے کہا ”ابطح میں۔“ پھر سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم ویسا ہی کرو جس طرح تمہارے سردار لوگ کریں۔