سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ قربانی کے جانور کو ہانک رہا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس پر سوار ہو جا۔“ اس نے عرض کی (یا رسول اللہ!) یہ تو قربانی کا جانور ہے (اس پر کیونکر سوار ہو سکتا ہوں؟) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس پر سوار ہو جا۔“ اس نے پھر کہا یہ تو قربانی کا جانور ہے۔ تو پھر دوسری بار یا تیسری بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیری خرابی ہو، اس پر سوار ہو جا۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع میں عمرہ اور حج کے ساتھ تمتع فرمایا اور قربانی لائے پس ذوالحلیفہ سے قربانی اپنے ہمراہ لی اور سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کا احرام باندھا، اس کے بعد حج کا احرام باندھا پس اور لوگوں نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت کی غرض سے) عمرہ اور حج کے ساتھ تمتع کیا اور ان میں سے بعض لوگ تو قربانی ساتھ لائے تھے اور بعض نہ لائے تھے۔ پس جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تشریف لے آئے تو لوگوں سے فرمایا: ”تم میں سے جو شخص قربانی ساتھ لایا ہو وہ احرام میں جن چیزوں سے پرہیز کرتا ہے حج مکمل ہونے تک پرہیز کرے اور جو نہیں لایا اسے چاہیے کہ کعبہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کر کے بال کتروا لے اور احرام کھول دے۔ اس کے بعد سات یا آٹھ ذوالحجہ کو صرف حج کا احرام باندھے (پھر حج کرے اور قربانی کرے)۔ پھر جسے قربانی میسر نہ ہو تو تین روزے حج کے دنوں میں رکھے اور سات روزے اس وقت رکھے جب اپنے گھر واپس لوٹ کر جائے۔“
سیدنا مسور بن مخرمہ اور مروان رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلح حدیبیہ میں ایک ہزار سے زائد صحابہ کے ہمراہ روانہ ہوئے یہاں تک کہ جب ذوالحلیفہ پہنچے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے جانور کے گلے میں ہار ڈالا اور چھری سے تھوڑا سا زخم لگا کر نشان لگایا اور عمرہ کا احرام باندھا۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہیں یہ بات پہنچی کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جو شخص کعبہ میں قربانی کا جانور روانہ کرے اس پر تمام وہ چیزیں حرام ہو جاتی ہیں جو حج کرنے والے پر حرام ہو جاتی ہیں جب تک کہ اس کی قربانی نہ کر دی جائے، ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ جو کہا وہ صحیح نہیں ہے کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کے ہار خود اپنے ہاتھ سے بٹے تھے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے جانوروں کو وہ ہار پہنائے پھر ان جانوروں کو میرے والد (ابوبکر رضی اللہ عنہ) کے ہمراہ روانہ کیا مگر کوئی چیز جو اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلال فرمائی تھی وہ جانوروں کی قربانی تک حرام نہیں ہوئی۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے اس روایت میں منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بکریاں، قربانی کے لیے روانہ کی تھیں۔ اور ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بکریوں کو قلادہ پہنا کر روانہ کر دیتے تھے اور خود اپنے گھر میں اس حال میں مقیم تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حلال تھے۔
امیرالمؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم فرمایا تھا کہ جو جانور قربانی کیے گئے ہیں ان کے جھولوں اور ان کی کھالوں کو خیرات کر دوں۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم ذیقعدہ کی 25 تاریخ کو مدینہ سے روانہ ہوئے .... یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے (دیکھئیے باب: تمتع، قران اور حج مفرد کا بیان اور جس کے پاس قربانی نہ ہو اسے حج فسخ کر کے عمرہ بنا دینے کی اجازت ہے۔۔۔) یہاں اس روایت میں یہ زیادہ کہا کہ قربانی کے دن ہمارے سامنے گائے کا گوشت لایا گیا تو میں نے کہا کہ یہ گوشت کیسا ہے؟ تو (لانے والے نے) جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کی طرف سے قربانی کی تھی۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا گزر ایک ایسے شخص پر ہوا جس نے اپنے جانور (اونٹ) کو نحر کرنے کے لیے بٹھا رکھا تھا تو انہوں نے کہا کہ اس کو کھڑا کر کے اس کا پاؤں باندھ دے (اور اس کو نحر کر) کیونکہ یہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے)۔