الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
وراثت کے مسائل کا بیان
حدیث نمبر: 2994
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا عبيد الله بن موسى، عن ابن ابي ليلى، عن عامر، عن علي، وعبد الله في ابن الملاعنة، قالا: "عصبته عصبة امه".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ عَلِيٍّ، وَعَبْدِ اللَّهِ فِي ابْنِ الْمُلاعَنَةِ، قَالا: "عَصَبَتُهُ عَصَبَةُ أُمِّهِ".
سیدنا علی اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے کہا: ابن الملاعنہ کے عصبہ اس کی ماں کے عصبہ ہیں (یعنی وارث موجود نہ ہونے کی صورت میں سارا مال ان کا ہوگا)۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف محمد بن أبي ليلى سيئ الحفظ جدا، [مكتبه الشامله نمبر: 3004]»
اس اثر کی سند میں محمد بن ابی لیلیٰ سیٔ الحفظ جدا ہیں۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11375]، [عبدالرزاق 12482، ومن طريقه الطبراني فى الكبير 390/9، 9663]، [ابن منصور 120]، [البيهقي 258/6]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف محمد بن أبي ليلى سيئ الحفظ جدا
حدیث نمبر: 2995
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) حدثنا ابو الوليد الحلبي موسى بن خالد، حدثنا المعتمر، عن يونس، عن الحسن، انه كان يقول: "ميراث ولد الملاعنة لامه، قلت: فإن كان له اخ من امه؟ قال: له السدس".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الْحَلَبِيُّ مُوسَى بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا المُعْتَمِر، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ، أَنَّهُ كَانَ يَقُول: "مِيرَاثُ وَلَدِ الْمُلَاعَنَةِ لِأُمِّه، قُلْتُ: فَإِنْ كَانَ لَهُ أَخٌ مِنْ أُمِّه؟ قَالَ: لَهُ السُّدُسُ".
یونس نے کہا کہ حسن رحمہ اللہ کہتے تھے: ولد الملاعنہ کی میراث اس کی ماں کے لئے ہے، یونس نے کہا: میں نے کہا اگر اس کا مادری بھائی بھی موجود ہو تو؟ کہا: اگر اس کا مادری بھائی ہو تو اس کے لئے سدس ہوگا۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد إلى الحسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3005]»
اس اثر کی سند حسن رحمہ اللہ تک جید ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد إلى الحسن
حدیث نمبر: 2996
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) حدثنا ابو المغيرة، حدثنا الاوزاعي، حدثنا الزهري، قال: "ولد الملاعنة لامه، ترث فريضتها منه، وسائر ذلك في بيت المال".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، قَالَ: "وَلَدُ الْمُلَاعَنَةِ لِأُمِّه، تَرِثُ فَرِيضَتَهَا مِنْهُ، وَسَائِرُ ذَلِكَ فِي بَيْتِ الْمَالِ".
امام زہری رحمہ اللہ نے بیان کیا: ولد الملاعنہ: اس کی ماں اس کی وارث ہوگی اور اپنا حصہ اس کے مال سے لے گی، اور یہ سب مال بیت المال میں جائے گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى الزهري، [مكتبه الشامله نمبر: 3006]»
اس اثر کی سند زہری رحمہ اللہ تک صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11370]، [عبدالرزاق 12484]، [كنزل العمال 40608]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى الزهري
حدیث نمبر: 2997
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا عبيد الله بن موسى، عن موسى بن عبيدة، عن نافع، عن ابن عمر، قال: "إذا تلاعنا، فرق بينهما ولم يجتمعا، ودعي الولد لامه، يقال: ابن فلانة، هي عصبته يرثها وترثه، ومن دعاه لزنية، جلد".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: "إِذَا تَلَاعَنَا، فُرِّقَ بَيْنَهُمَا وَلَمْ يَجْتَمِعَا، وَدُعِيَ الْوَلَدُ لِأُمِّهِ، يُقَالُ: ابْنُ فُلَانَةَ، هِيَ عَصَبَتُهُ يَرِثُهَا وَتَرِثُهُ، وَمَنْ دَعَاهُ لِزِنْيَةٍ، جُلِدَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: اگر میاں بیوی لعان کریں تو ان کے درمیان جدائی کرا دی جائے گی، پھر وہ کبھی بھی میاں بیوی نہ بن سکیں گے، اور لڑکا ماں کی طرف منسوب ہوگا، یہ کہا جائے گا کہ فلاں عورت کا لڑکا ہے، وہ (ملاعنہ عورت) اس لڑکے کے لئے عصبہ ہوگی، وہ لڑکا اس کا وارث ہوگا اور وہ لڑکے کی وارث ہوگی۔ اور جس نے اس لڑکے کو ولد الزنا کا طعنہ دیا تو اس کو کوڑے لگائے جائیں گے۔ (اسّی کوڑے تہمت لگانے کے ہیں)۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف موسى بن عبيدة، [مكتبه الشامله نمبر: 3007]»
موسیٰ بن عبید کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11376]، [عبدالرزاق 12478]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف موسى بن عبيدة
حدیث نمبر: 2998
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) حدثنا معاذ بن هانئ، حدثنا إبراهيم بن طهمان، حدثنا الشيباني، عن الشعبي في ولد المتلاعنين:"انه ترثه عصبة امه، وهم يعقلون عنه".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هَانِئٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، حَدَّثَنَا الشَّيْبَانِيُّ، عَنْ الشَّعْبِيِّ فِي وَلَدِ الْمُتَلَاعِنَيْنِ:"أَنَّهُ تَرِثُهُ عَصَبَةُ أُمِّهِ، وَهُمْ يَعْقِلُونَ عَنْهُ".
شیبانی (سلیمان بن ابی سلیمان) نے شعبی رحمہ اللہ سے ولد المتلاعنین کے بارے میں بیان کیا کہ اس کی ماں کے عصبہ اس کے وارث ہوں گے اور اس کی طرف سے دیت ادا کریں گے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى الشعبي، [مكتبه الشامله نمبر: 3008]»
اس اثر کی سند شعبی رحمہ اللہ تک صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11367]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى الشعبي
حدیث نمبر: 2999
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) حدثنا سهل بن حماد، انبانا همام، عن قتادة، عن عزرة، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس في ولد الملاعنة هو الذي لا اب له "ترثه امه وإخوته من امه، وعصبة امه، فإن قذفه قاذف، جلد قاذفه".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ، أَنْبَأَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَزْرَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي وَلَدِ الْمُلَاعَنَةِ هُوَ الَّذِي لَا أَبَ لَهُ "تَرِثُهُ أُمُّهُ وَإِخْوَتُهُ مِنْ أُمِّهِ، ِوَعَصَبَةُُ أُمِّهِ، فَإِنْ قَذَفَهُ قَاذِف، جُلِدَ قَاذِفُهُ".
سعید بن جبیر سے مروی ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ولد المتلاعنہ کے بارے میں روایت کیا: جس کا باپ (معلوم) نہ ہو اس کی ماں اور اس کے مادری بھائی اور اس کی ماں کے عصبہ اس کے وارث ہوں گے، اگر اس کو کوئی زنا کی تہمت لگائے گا تو اس کو کوڑے مارے جائیں گے (اسّی کوڑے تہمتِ زنا کے)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى ابن عباس، [مكتبه الشامله نمبر: 3009]»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما تک اس اثر کی سند صحیح ہے۔ ہمام: ابن یحییٰ اور عزرہ: ابن عبدالرحمٰن ہیں۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 8522]، [البيهقي 402/7، فى كتاب اللعان، باب سنة اللعان و نفى الولد]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى ابن عباس
حدیث نمبر: 3000
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن المبارك، حدثنا يحيى بن حمزة، عن النعمان، عن مكحول: انه سئل عن ميراث ولد الملاعنة لمن هو؟ قال: جعله رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لامه في سببه لما لقيت من البلاء، ولإخوته من امه، وقال مكحول: فإن ماتت الام، وتركت ابنها، ثم توفي ابنها الذي جعل لها، كان ميراثه لإخوته من امه كله، لانه كان لامهم وجدهم، وكان لابيها السدس من ابن ابنته، وليس يرث الجد إلا في هذه المنزلة، لانه إنما هو اب الام، وإنما ورث الإخوة من الام امهم، وورث الجد ابنته لانه جعل لها، فالمال الذي للولد لورثة الام وهو بحوزة الجد وحده إذا لم يكن غيره".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، عَنْ النُّعْمَانِ، عَنْ مَكْحُولٍ: أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ مِيرَاثِ وَلَدِ الْمُلَاعَنَةِ لِمَنْ هُوَ؟ قَالَ: جَعَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لِأُمِّهِ فِي سَبَبِهِ لِمَا لَقِيَتْ مِنْ الْبَلَاءِ، وَلِإِخْوَتِهِ مِنْ أُمِّهِ، وقَالَ مَكْحُول: فَإِنْ مَاتَتْ الْأُمُّ، وَتَرَكَتْ ابْنَهَا، ثُمَّ تُوُفِّيَ ابْنُهَا الَّذِي جُعِلَ لَهَا، كَانَ مِيرَاثُهُ لِإِخْوَتِهِ مِنْ أُمِّهِ كُلُّهُ، لِأَنَّهُ كَانَ لِأُمِّهِمْ وَجَدِّهِمْ، وَكَانَ لِأَبِيهَا السُّدُسُ مِنْ ابْنِ ابْنَتِهِ، وَلَيْسَ يَرِثُ الْجَدُّ إِلَّا فِي هَذِهِ الْمَنْزِلَةِ، لِأَنَّهُ إِنَّمَا هُوَ أَبُ الْأُمِّ، وَإِنَّمَا وَرِثَ الْإِخْوَةُ مِنْ الْأُمِّ أُمَّهُمْ، وَوَرِثَ الْجَدُّ ابْنَتَهُ لِأَنَّهُ جُعِلَ لَهَا، فَالْمَالُ الَّذِي لِلْوَلَدِ لِوَرَثَةِ الْأُمِّ وَهُوَ بِحَوْزَةِ الْجَدُّ وَحْدَهُ إِذَا لَمْ يَكُنْ غَيْرُهُ".
نعمان سے مروی ہے مکحول رحمہ اللہ سے ولد الملاعنہ کی میراث کے بارے میں پوچھا گیا کہ کس کے لئے ہوگی؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی میراث کو ماں کے لئے خاص کیا کیوں کہ اس کی وجہ سے ہی وہ اس (لعان کی) مصیبت میں گرفتار ہوئی، اور اس کی (میراث کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے) مادری بھائیوں کے لئے خاص کیا۔
مکحول رحمہ اللہ نے کہا: اگر ماں فوت ہو جائے اور اپنا بیٹا چھوڑ جائے، پھر اس کا بیٹا بھی فوت ہو جائے جس کے لئے میراث تھی، تو اس کی میراث مادری بھائیوں کے لئے ہوگی، کیوں کہ یہ میراث ان (مادری بھائیوں کی) ماں اور نانا کے لئے ہے، اور نانا کے لئے اس کی نواسی کی میراث میں سے چھٹا حصہ ہوگا، اور نانا صرف اسی صورت میں وارث ہوگا اس لئے کہ وہ ماں کا باپ ہے، اور مادری بھائی اپنی ماں کے اور نانا اپنی بیٹی کا وارث ہوگا، کیونکہ اس (متلاعن بیٹے) کی میراث ماں کے لئے ہے، پس جو مال اس لڑکے کا ہے وہ ماں کے وارثین کا ہے، اگر کوئی دوسرا وارث نہ ہوتو کل میراث نانا کے قبضہ میں ہوگی۔

تخریج الحدیث: «إسناده إلى محكول صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3010]»
اس حدیث کی سند مکحول رحمہ اللہ تک صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2907]، [ابن أبى شيبه 11364، مختصرًا] و [البيهقي 259/6]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده إلى محكول صحيح
حدیث نمبر: 3001
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا محمد بن العلاء، حدثنا يحيى بن ابي بكير، حدثنا إبراهيم بن طهمان، عن سماك بن حرب، عن عكرمة، عن ابن عباس: ان قوما اختصموا إلى علي رضي الله تعالى عنه في ولد المتلاعنين، فجاء عصبة ابيه يطلبون ميراثه، فقال: "إن اباه كان تبرا منه، فليس لكم من ميراثه شيء، فقضى بميراثه لامه، وجعلها عصبته".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ قَوْمًا اخْتَصَمُوا إِلَى عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْه فِي وَلَدِ الْمُتَلَاعِنَيْنِ، فَجَاءَ عَصَبَةُ أَبِيهِ يَطْلُبُونَ مِيرَاثَه، فَقَالَ: "إِنَّ أَبَاهُ كَانَ تَبَرَّأَ مِنْهُ، فَلَيْسَ لَكُمْ مِنْ مِيرَاثِهِ شَيْءٌ، فَقَضَى بِمِيرَاثِهِ لِأُمِّهِ، وَجَعَلَهَا عَصَبَتَهُ".
عکرمہ سے مروی ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے روایت کیا کہ کچھ لوگ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس متلاعنین کے لڑکے کا جھگڑا لے کر آئے تو اس (ولد الملاعنہ) کے باپ کی طرف کے لوگ (عصبہ) بھی اپنی میراث کا مطالبہ کرنے آئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اس کے باپ نے اس سے بیزاری اختیار کی (اس لئے) اس کی میراث میں سے تمہارے لئے کچھ نہیں ہے۔ اور انہوں نے اس کی میراث کا فیصلہ اس (ولد الملاعنہ) کی ماں کے حق میں دیا اور ماں کو اس کا عصبہ قرار دیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف رواية سماك عن عكرمة فيها اضطراب، [مكتبه الشامله نمبر: 3011]»
اس اثر کی سند ضعیف ہے کیوں کہ سماک کی روایت عکرمہ سے مضطرب ہے، لیکن یہ فیصلہ سہی ہے۔ دیکھئے: [البيهقي 258/6]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2988 سے 3001)
لعان يا ملاعنہ یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگائے اور اس کے حمل کا انکاری ہو، چار گواہ نہ لانے کی صورت میں لعان کے بعد حاکم میاں بیوی کے درمیان تفریق کرا دے گا، اس کی تفصیل کتاب النکاح میں گذر چکی ہے۔
اس صورت میں لڑکا ماں کی طرف منسوب ہوگا اور اس کی میراث ماں اور ماں جائے بھائی اور ماں کے عصبہ کی طرف ہی منتقل ہوگی، باپ کیوں کہ اس کا انکاری تھا اس لئے باپ یا اس کے قریبی اس ولد ملاعن کے وارث نہ ہوں گے۔
ان تمام آثار کا لب لباب یہ ہی ہے جیسا کہ ضعیف حدیث میں ہے: «إنه يرث أمه وترثه» یعنی وہ اپنی ماں کا وارث ہے اور اس کی ماں اس کی وارث ہے۔
جمہور علماءکا اسی پر عمل ہے۔
والله اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف رواية سماك عن عكرمة فيها اضطراب
25. باب في مِيرَاثِ الْخُنْثَى:
25. خنثی (ہیجڑے) کی میراث کا بیان
حدیث نمبر: 3002
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا عبيد الله بن موسى، عن إسرائيل، عن عبد الاعلى: انه سمع محمد بن علي يحدث، عن علي: في الرجل يكون له ما للرجل وما للمراة من ايهما يورث، فقال: "من ايهما بال".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى: أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِيٍّ يُحَدِّثُ، عَنْ عَلِيٍّ: فِي الرَّجُلِ يَكُونُ لَهُ مَا لِلرَّجُلِ وَمَا لِلْمَرْأَةِ مِنْ أَيِّهِمَا يُوَرَّثُ، فَقَالَ: "مِنْ أَيِّهِمَا بَالَ".
محمد بن علی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ایسے آدمی کے بارے میں جو نہ مرد ہو نہ عورت (یعنی ہیجڑا ہو) اس کو کس حیثیت سے میراث دی جائے گی (مرد کی یا عورت کی)، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: جس عضو سے پیشاب نکلے (یعنی پیشاب جس جگہ سے کرے اس کا اعتبار ہو گا، ذکر سے پیشاب کرے تو مرد ورنہ عورت کی میراث پائے گا)۔

تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أنه منقطع (بين محمد بن علي بن الحسين وعلي بن أبي طالب)، [مكتبه الشامله نمبر: 3012]»
محمد بن علی الحسین کا اپنے دادا سے لقاء ثابت نہیں۔ تخریج اگلی حدیث کے تحت آرہی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أنه منقطع (بين محمد بن علي بن الحسين وعلي بن أبي طالب)
حدیث نمبر: 3003
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة، حدثنا هشيم، عن مغيرة، عن شباك، عن الشعبي، عن علي في الخنثى، قال: "يورث من قبل مباله".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ شِبَاكٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ فِي الْخُنْثَى، قَالَ: "يُوَرَّثُ مِنْ قِبَلِ مَبَالِهِ".
شعبی رحمہ اللہ سے مروی ہے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خنثی (ہیجڑے) کے بارے میں کہا: پیشاب کرنے کی جگہ کے اعتبار سے وہ وارث ہو گا۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 3013]»
اس روایت کی سند میں دو علتیں ہیں: شعبی رحمہ اللہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں کیا، اور ہشیم مدلس ہیں عنعنہ سے روایت کی ہے۔ تخریج دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11410]، [عبدالرزاق 19204]، [ابن منصور 126]۔ مغیرہ: ابن مقسم ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:

Previous    8    9    10    11    12    13    14    15    16    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.