الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
وراثت کے مسائل کا بیان
17. باب الأَكْدَرِيَّةِ: زَوْجٌ وَأُخْتٌ لأَبٍ وَأُمٍّ وَجَدٌّ وَأُمٌّ:
17. اکدریہ: شوہر، حقیقی بہن، دادا اور ماں کا بیان
حدیث نمبر: 2964
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا سعيد بن عامر، عن همام، عن قتادة: ان زيد بن ثابت قال في اخت، وام، وزوج، وجد، قال: "جعلها من سبع وعشرين: للام ستة، وللزوج تسعة، وللجد ثمانية، وللاخت اربعة.(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ قَتَادَةَ: أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ قَالَ فِي أُخْتٍ، وَأُمٍّ، ٍّوَزَوْجٍ، وَجَدٍّ، قَالَ: "جَعَلَهَا مِنْ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ: لِلْأُمِّ سِتَّةٌ، وَلِلزَّوْجِ تِسْعَةٌ، وَلِلْجَدِّ ثَمَانِيَةٌ، وَلِلْأُخْتِ أَرْبَعَةٌ.
قتادہ رحمہ اللہ نے کہا: سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بہن، ماں، شوہر اور دادا کی میراث 27 سے تقسیم کی اور ماں کو چھ، شوہر کو نو، دادا کو آ ٹھ اور بہن کو چار سہم دیئے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى قتادة، [مكتبه الشامله نمبر: 2973]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11289]، [عبدالرزاق 19074]، [ابن منصور 65]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2963)
یہ مسئلہ عدل کا ہے اور اکدریہ کے نام سے مشہور ہے، اور اس مسئلہ کو الگ طور سے اس لئے ذکر کیا جاتا ہے کہ اصولاً دادا کے ساتھ بہن صاحبِ فرض نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ عصبہ ہوتی ہے، مگر اس مسئلہ میں اسے صاحبہ فرض قرار دے کر نصف ترکہ دیا گیا ہے، پھر دادا اور بہن دونوں کے حصے ملا کر مقاسمہ کر لی گئی، اس صورت میں بہن نصف کے بجائے چھٹے حصہ کی اور دادا تہائی حصہ کا وارث ہوا، برعکس اس کے جو (مقاسمہ سے پہلے) فرض کیا گیا تھا، اس طرح بہن کا حصہ مکدر ہو کر رہ گیا یعنی زیادہ ہونے کے باوجود کم ملا، اکدریہ کی وجہ تسمیہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس حلِ مذکور نے سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا مسلک مکدر کر دیا، بعض نے کہا یہ مسئلہ پوچھنے والی عورت قبیلہ اکدریہ سے تعلق رکھتی تھی۔
[منهاج المسلم، ص: 681-682]،
واضح رہے کہ عدل ایک معروف طریقہ ہے جس کا مطلب ہے: اصحاب الفرائض کے حصص کا اصل مسئلہ سے بڑھ جانا۔
مذکور بالا مسئلہ میں اصل مسئلہ 6 سے بنے گا، نصف خاوند کے لئے، تہائی دو ماں کا، نصف (3) بہن کا، اور چھٹا حصہ (1) دادا کا، عدل کے بعد ترکہ چھ کے بجائے نو حصے ہوں گے، پھر دادا بہن سے مقاسمہ کا تقاضہ کرے گا، لہٰذا دادا کو بھائی تصور کر کے اس کا ایک حصہ اور بہن کے تین حصے ملا کر چار حصوں کو بہن اور دادا کے درمیان «للذكر مثل حظ الأنثيين» کے قاعدے کے مطابق تقسیم کر دیا جائے گا۔
. . . 6 . . . 9 . . . 27
خاوند . . . 3 . . . 3 . . . 9
ماں . . . 2 . . . 2 . . . 6
بہن . . . 2 . . . 3 . . . 4
دادا . . . 1 . . . 1 . . . 8

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى قتادة
18. باب في الْجَدَّاتِ:
18. دادیوں کا بیان
حدیث نمبر: 2965
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، حدثنا الاشعث، عن ابن سيرين، عن ابن مسعود، قال: "إن اول جدة اطعمت في الإسلام سهما ام اب، وابنها حي.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا الْأَشْعَثُ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: "إِنَّ أَوَّلَ جَدَّةٍ أُطْعِمَتْ فِي الْإِسْلَامِ سَهْمًا أَمُّ أَبٍ، وَابْنُهَا حَيٌّ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اسلام میں پہلی دادی جن کو میراث کا حصہ دیا گیا باپ کی ماں ہیں اور ان کا بیٹا حیات تھا۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف أشعث وهو ابن سوار، [مكتبه الشامله نمبر: 2974]»
اس اثر کی سند اشعث بن سوار کی وجہ سے ضعیف ہے۔ تخریج کے لئے دیکھئے: [ترمذي 2103]، [ابن أبى شيبه 11348]، [ابن منصور 109-110]، [البيهقي 226/2]، [المحلی 281/9]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2964)
وراثت میں اصل جده (ام الام) نانی ہے، جبکہ جدہ ام الاب (دادی) کو اس پر محمول کیا جاتا ہے۔
اور نانی مرنے والے کی ماں نہ ہو تو اکیلی وارث ہوگی، اور اس کے ساتھ میت کی دادی بھی ہو تو دونوں سدس کو برابر تقسیم کریں گی۔
اور جدہ کو اس کے بیٹے کے ساتھ بعض صحابہ نے وارث قرار دیا ہے، جیسے امیر المؤمنین سیدنا عمر بن الخطاب، سیدنا ابن مسعود و سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہم وغیرہم اور بعض صحابہ نے بیٹے کی موجودگی میں نانی یا دادی کو وارث نہیں مانا، جیسے امیر المؤمنین سیدنا عثمان و سیدنا علی و سیدنا زید رضی اللہ عنہم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف أشعث وهو ابن سوار
حدیث نمبر: 2966
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو نعيم، حدثنا شريك، عن ليث، عن طاوس، عن ابن عباس:"ان النبي صلى الله عليه وسلم اطعم جدة سدسا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ:"أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَطْعَمَ جَدَّةً سُدُسًا".
طاؤوس رحمہ اللہ سے مروی ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جدہ کو سدس (چھٹا حصہ) دیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف ليث وهو: ابن أبي سليم، [مكتبه الشامله نمبر: 2975]»
لیث بن ابی سلیم کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ابن ماجه 2725]، [البيهقي 234/6]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف ليث وهو: ابن أبي سليم
حدیث نمبر: 2967
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) حدثنا ابو نعيم، حدثنا سفيان، عن ابن جريج، عن إبراهيم بن ميسرة، عن سعيد بن المسيب: ان عمر "ورث جدة مع ابنها".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ: أَنَّ عُمَرَ "وَرَّثَ جَدَّةً مَعَ ابْنِهَا".
سعید بن المسیب رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دادی کو اس کے بیٹے کے ساتھ وارث بنایا۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه عنعنة ابن جريج، [مكتبه الشامله نمبر: 2976]»
اس اثر میں ابن جریح کا عنعنہ ہے، لیکن دوسری صحیح سند سے موقوفاً علی سعید مروی ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11347]، [عبدالرزاق 19094]، [ابن منصور 90]، [البيهقي 226/6]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه عنعنة ابن جريج
حدیث نمبر: 2968
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا حجاج بن منهال، حدثنا شعبة، اخبرني منصور بن المعتمر، قال: سمعت إبراهيم، قال: "اطعم رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاث جدات سدسا. قال: قلت لإبراهيم: من هنه؟ قال: جدتاك من قبل ابيك، وجدتك من قبل امك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنِي مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ، قَالَ: سَمِعْتُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: "أَطْعَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ جَدَّاتٍ سُدُسًا. قَالَ: قُلْتُ لِإِبْرَاهِيمَ: مَنْ هُنَّهْ؟ قَالَ: جَدَّتَاكَ مِنْ قِبَلِ أَبِيكَ، وَجَدَّتُكَ مِنْ قِبَلِ أُمِّكَ".
ابراہیم بن میسرہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دادی (یا نانیوں) کو سدس (چھٹا حصہ) دیا۔ منصور بن معتمر نے کہا: میں نے ابراہیم سے کہا: وہ کون سی جدات ہیں؟ تو انہوں نے کہا: دو باپ کی جانب سے تمہاری جده (یعنی دادی) اور ماں کی طرف سے تمہاری جده (نانی)۔

تخریج الحدیث: «إسناد معضل، [مكتبه الشامله نمبر: 2977]»
اس روایت کی سند معضل ہے، یعنی دو راوی ساقط ہیں۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11323]، [عبدالرزاق 19079]، [ابن منصور 79]، [البيهقي 236/6]، [ابن حزم 272/9]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناد معضل
حدیث نمبر: 2969
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) حدثنا حجاج بن منهال، حدثنا يزيد بن إبراهيم، قال: انباني الحسن، قال: "ترث الجدة وابنها حي".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنِي الْحَسَنُ، قَالَ: "تَرِثُ الْجِدَّةُ وَابْنُهَا حَيٌّ".
ابراہیم بن میسرہ نے کہا: مجھے حسن (بصری) رحمہ اللہ نے خبر دی کہ جده (دادی) اپنے بیٹے کی موجودگی میں وارث ہوگی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى الحسن وهو موقوف عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2978]»
اس روایت کی سند صحیح موقوف على حسن ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11353]، [ابن منصور 97]، [ابن حزم 281/9]، [البيهقي 226/6]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى الحسن وهو موقوف عليه
حدیث نمبر: 2970
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن سلمة، عن داود، عن الشعبي، قال: "لا ترث ام اب الام، ابنها الذي تدلي به لا يرث، فكيف ترث هي؟".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ دَاوُدَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: "لَا تَرِثُ أُمُّ أَبِ الْأُمِّ، ابْنُهَا الَّذِي تُدْلِي بِهِ لَا يَرِثُ، فَكَيْفَ تَرِثُ هِيَ؟".
امام شعبی رحمہ اللہ نے کہا: باپ کی ماں کی ماں وارث نہ ہوگی، اس کا بیٹا جو (میت کے) قریب ہے وارث نہیں بنا تو وہ خود کیسے وارث ہوگی؟

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى الشعبي والشعبي هو: عامر بن شراحيل، [مكتبه الشامله نمبر: 2979]»
امام شعبی کا نام عامر بن شراحیل ہے اور داؤد: ابن ابی ہند ہیں۔ اس اثر کی سند شعبی تک صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن منصور 89]، [البيهقي 236/6]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى الشعبي والشعبي هو: عامر بن شراحيل
حدیث نمبر: 2971
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا ابو معمر، عن إسماعيل بن علية، عن سلمة بن علقمة، عن حميد بن هلال، عن ابي الدهماء، عن عمران بن حصين، قال: "ترث الجدة وابنها حي".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ عُلَيَّةَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ عَلْقَمَةَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ أَبِي الدَّهْمَاءِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: "تَرِثُ الْجِدَّةُ وَابْنُهَا حَيٌّ".
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے کہا: جده (دادی) اس حال میں وارث ہوگی کہ اس کا بیٹا زندہ ہو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو موقوف على عمران، [مكتبه الشامله نمبر: 2980]»
ابوالدہماء: قرفہ بن بہیس اور ابومعمر اسماعیل بن ابراہیم ہیں، اس اثر کی بھی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11349]، [ابن منصور 102]، [البيهقي 226/6]، [ابن حزم فى المحلی 280/9]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو موقوف على عمران
19. باب قَوْلِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ في الْجَدَّاتِ:
19. جدات کے بارے میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے کا بیان
حدیث نمبر: 2972
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، انبانا الاشعث، عن الزهري، قال: جاءت إلى ابي بكر جدة ام اب، او ام ام، فقالت: إن ابن ابني او ابن ابنتي توفي، وبلغني ان لي نصيبا، فما لي؟ فقال ابو بكر: ما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم قال فيها شيئا، وساسال الناس، فلما صلى الظهر، قال: ايكم سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم قال في الجدة شيئا؟ فقال المغيرة بن شعبة: انا، قال: ماذا؟ قال: اعطاها رسول الله صلى الله عليه وسلم سدسا، قال: ايعلم ذاك احد غيرك؟ فقال محمد بن مسلمة: صدق، فاعطاها ابو بكر السدس، فجاءت إلى عمر مثلها، فقال: ما ادري، ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم فيها شيئا، وساسال الناس، فحدثوه بحديث المغيرة بن شعبة، ومحمد بن مسلمة، فقال عمر: ايكما خلت به فلها السدس، فإن اجتمعتما، فهو بينكما.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا الْأَشْعَثُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: جَاءَتْ إِلَى أَبِي بَكْرٍ جَدَّةٌ أُمُّ أَبٍ، أَوْ أُمُّ أُمٍّ، فَقَالَتْ: إِنَّ ابْنَ ابْنِي أَوْ ابْنَ ابْنَتِي تُوُفِّيَ، وَبَلَغَنِي أَنَّ لِي نَصِيبًا، فَمَا لِي؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: مَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِيهَا شَيْئًا، وَسَأَسْأَلُ النَّاسَ، فَلَمَّا صَلَّى الظُّهْر، قَالَ: أَيُّكُمْ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي الْجَدَّةِ شَيْئًا؟ فَقَالَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ: أَنَا، قَالَ: مَاذَا؟ قَالَ: أَعْطَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُدُسًا، قَالَ: أَيَعْلَمُ ذَاكَ أَحَدٌ غَيْرُكَ؟ فَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ: صَدَقَ، فَأَعْطَاهَا أَبُو بَكْرٍ السُّدُسَ، فَجَاءَتْ إِلَى عُمَرَ مِثْلُهَا، فَقَال: مَا أَدْرِي، مَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا شَيْئًا، وَسَأَسْأَلُ النَّاسَ، فَحَدَّثُوهُ بِحَدِيثِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، وَمُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَةَ، فَقَالَ عُمَرُ: أَيُّكُمَا خَلَتْ بِهِ فَلَهَا السُّدُسُ، فَإِنْ اجْتَمَعْتُمَا، فَهُوَ بَيْنَكُمَا.
امام زہری ابن شہاب رحمہ اللہ نے کہا: سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک جده (دادی یا نانی) آئی اور اس نے کہا کہ میرا پوتا یا نواسا فوت ہوگیا ہے اور مجھے خبر لگی ہے وراثت میں میرا بھی حصہ ہے تو میرے لئے کیا ہے؟ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں نہیں سنا، لیکن میں لوگوں سے پوچھوں گا، چنانچہ جب انہوں نے ظہر کی نماز پڑھ لی تو کہا: تم میں سے کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جدہ (دادی یا نانی) کے بارے میں کچھ سنا ہے؟ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں میں نے سنا ہے، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا سنا ہے؟ کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سدس (چھٹا حصہ) عطا فرمایا۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: تمہارے علاوہ کسی اور کو بھی اس کا علم ہے؟ سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے گواہی دی کہ سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ نے سچ کہا، چنانچہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس عورت کو سدس دے دیا۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھی ایک خاتون ایسا ہی مسئلہ لے کر آئیں تو انہوں نے کہا: مجھے یاد نہیں ہے کہ میں نے اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا ہو، لیکن میں لوگوں سے پوچھوں گا، لوگوں نے انہیں سیدنا مغیرہ بن شعبہ اور سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہما کی حدیث بیان کی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم دونوں (دادی یا نانی) میں سے ایک جو بھی موجود ہوگی اس کے لئے سدس ہے، اور اگر دونوں موجود ہوں تو یہ ہی سدس (چھٹا حصہ) دونوں کے درمیان تقسیم ہوگا۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 2981]»
اس اثر کی سند ضعیف ہے، لیکن کئی طرق سے مروی ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2894]، [ترمذي 2101، 2102]، [ابن ماجه 2724]، [مالك فى الفرائض، باب ميراث الجدة، ص: 319]، [أبويعلی 114، 115]، [ابن حبان 6031]، [موارد الظمآن 1224]، [عبدالرزاق 19083]، [الحاكم 338/4]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
20. باب قَوْلِ عَلِيٍّ وَزَيْدٍ في الْجَدَّاتِ:
20. سیدنا علی و سیدنا زید رضی اللہ عنہما کا قول جدات کے بارے میں
حدیث نمبر: 2973
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا يزيد بن هارون، حدثنا الاشعث، عن الشعبي، عن علي، وزيد قالا: "إذا كانت الجدات سواء، ورث ثلاث جدات جدتا ابيه ام امه، وام ابيه، وجدة امه، فإن كانت إحداهن اقرب، فالسهم لذوي القربى.(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا الْأَشْعَثُ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ، وَزَيْدٍ قَالَا: "إِذَا كَانَتْ الْجَدَّاتُ سَوَاءً، وَرِثَ ثَلَاثُ جَدَّاتٍ جَدَّتَا أَبِيهِ أُمُّ أُمِّهِ، وَأُمُّ أَبِيهِ، وَجَدَّةُ أُمِّهِ، فَإِنْ كَانَتْ إِحَدَاهُنَّ أَقْرَب، فَالسَّهْمُ لِذَوِي الْقُرْبَى.
امام شعبی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ سیدنا علی و سیدنا زید رضی اللہ عنہما نے کہا: جب جدات ایک جیسی ہوں تو تین جدات وارث ہوں گی، دو تو باپ کی جدات یعنی باپ کی ماں اور باپ کی ماں کی ماں، تیسرے اس کی ماں کی دادی، ان میں سے جو بھی اقرب ہوگی تو «سهم ذوي القربي» کا ہوگا۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف أشعث وهو: ابن سوار، [مكتبه الشامله نمبر: 2982]»
اس اثر کی سند اشعث بن سوار کی وجہ سے ضعیف ہے، دوسرے طرق بھی ضعیف ہیں۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11343]، [عبدالرزاق 19090]، [ابن منصور 84، 100]، [البيهقي 236/6-237]، [ابن حزم 275/9]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف أشعث وهو: ابن سوار

Previous    5    6    7    8    9    10    11    12    13    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.