الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
شکار کے مسائل
1. باب التَّسْمِيَةِ عِنْدَ إِرْسَالِ الْكَلْبِ وَصَيْدِ الْكِلاَبِ:
1. شکاری کتا چھوڑتے وقت بسم اللہ کہنے اور کتوں کے شکار کا بیان
حدیث نمبر: 2041
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يعلى بن عبيد، حدثنا زكريا، عن عامر، عن عدي بن حاتم، قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صيد الكلب، فقال: "ما امسك عليك كلبك فكل، فإن اخذه ذكاته، وإن وجدت معه كلبا فخشيت ان يكون قد اخذه معه، وقد قتله، فلا تاكله، فإنك إنما ذكرت اسم الله على كلبك، ولم تذكره على غيره".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَيْدِ الْكَلْبِ، فَقَالَ: "مَا أَمْسَكَ عَلَيْكَ كَلْبِكَ فَكُلْ، فَإِنَّ أَخْذَهُ ذَكَاتُهُ، وَإِنْ وَجَدْتَ مَعَهُ كَلْبًا فَخَشِيتَ أَنْ يَكُونَ قَدْ أَخَذَهُ مَعَهُ، وَقَدْ قَتَلَهُ، فَلَا تَأْكُلْهُ، فَإِنَّكَ إِنَّمَا ذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ عَلَى كَلْبِكَ، وَلَمْ تَذْكُرْهُ عَلَى غَيْرِهِ".
سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کتے کے شکار کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کو وہ (کتا) تمہارے لئے پکڑ لے (یعنی خود نہ کھائے) تو اس شکار کو کھا سکتے ہو کیونکہ اس کا شکار کو پکڑنا ذبح کرنا ہی ہے، اور اگر تم اپنے کتے کے ساتھ دوسرا کتا پاؤ اور تمہیں (ڈر ہو) اندیشہ ہو کہ تمہارے کتے نے شکار اس دوسرے کتے کے ساتھ پکڑا ہو گا اور کتا شکار کو مار چکا ہو تو ایسا شکار نہ کھاؤ کیونکہ تم نے الله کا نام (بسم اللہ پڑھ کر) اپنے کتے پر لیا تھا دوسرے کتے پر نہیں لیا تھا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2045]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 175، 5475]، [مسلم 1929]، [أبوداؤد 2847]، [نسائي 4275]، [ابن ماجه 3214]، [ابن حبان 5880]، [الحميدي 938]۔ دوسرے کتے سے مراد غیر مسلم کا یا غیر سدھایا ہوا کتا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2042
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا زكريا، عن عامر، عن عدي بن حاتم، قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صيد المعراض، فذكر مثله.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَيْدِ الْمِعْرَاضِ، فَذَكَرَ مِثْلَهُ.
سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چوڑی چیز (جیسے بے پر کا تیر، لکڑی، لاٹھی وغیرہ جس میں دھار نہ ہو) سے شکار کے بارے میں پوچھا تو .... اسی کے مثل بیان کیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2046]»
اس روایت کی سند صحیح اور تخریج اوپر ذکر کی جا چکی ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 2040 سے 2042)
بخاری شریف کی روایت میں صراحت ہے کہ اگر اس معراض کی نوک شکار کو لگ جائے تو کھا لو لیکن اگر اس کی عرض (چوڑائی) کی طرف سے شکار کو لگے تو نہ کھاؤ کیونکہ وہ موقوذ ہے، اور ابن ماجہ میں ہے جو اس کی نوک سے مرے اس کو کھا لو، اور جو عرض سے لگ کر مرے وہ مردار ہے (کیونکہ وہ لاٹھی یا پتھر کی مار سے مرنے والے جانور کی طرح مردار ہے)۔
مزید تشریح آگے چوتھے باب میں آ رہی ہے۔
شریعتِ اسلامیہ میں کھانے کی غرض سے چرندے اور پرندوں کا شکار جائز ہے۔
یہ شکار بندوق، غلیل، لاٹھی یا جال سے کیا جائے یا سدھائے ہوئے باز، کتے، عقاب وغیرہ کی مدد سے کیا جائے ہر طرح جائز ہے، لیکن اس کے کچھ شروط ہیں، اہم چیز یہ ہے کہ بسم اللہ پڑھ کے شکار کیا جائے اور ذبح کرنے کا موقع مل جائے تو وہ شکار بلاشک و شبہ حلال ہے، کتے اور باز کو بھی چھوڑتے وقت اللہ کا نام لیا جائے اور وہ صرف شکار کو پکڑ لیں تو ذبح کر کے اس کو کھایا جا سکتا ہے شرط یہ ہے کہ وہ كلب معلم ہو یعنی سدھایا اور سکھایا ہوا کتا ہو، جیسا کہ کلامِ ربانی ہے: « ﴿وَمَا عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللّٰهُ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهِ .....﴾ [المائده: 4] » ترجمہ: اور جن شکار کھیلنے والے جانوروں کو تم نے سدھا رکھا ہے، پس وہ جس شکار کو تمہارے لئے پکڑ کر روک رکھیں تم اس کو کھا لو اور اس پر اللہ تعالیٰ کا نام لے لیا کرو .....۔
اس آیت اور مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوا کہ کتا یا باز اگر شکار میں سے کچھ کھا لے تو وہ حلال و جائز نہیں، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کتے کا منہ یا لعاب شکار سے لگ جائے تب بھی کوئی قباحت اس کے کھانے میں نہیں ہے کیونکہ یہ الله تعالیٰ کی طرف سے خصوصی اور استثنائی اجازت ہے، نیز حدیث مذکور سے یہ بھی ثابت ہوا کہ شکار میں اپنا اور دوسرے کا کتا بھی شریک ہو اور شکار مر جائے تو وہ حرام ہے۔
نیز کوئی مسلمان كلب معلم کو چھوڑتے وقت اگر بسم اللہ پڑھے اور وہ شکار مر جائے تو بھی جمہور علماء کے نزدیک حلال ہے۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
2. باب في اقْتِنَاءِ كَلْبِ الصَّيْدِ أَوِ الْمَاشِيَةِ:
2. شکار یا مویشی کی حفاظت کے لئے کتا پالنے کا بیان
حدیث نمبر: 2043
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا سفيان، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من اقتنى كلبا إلا كلب صيد او ماشية، نقص من عمله كل يوم قيراطان".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ اقْتَنَى كَلْبًا إِلَّا كَلْبَ صَيْدٍ أَوْ مَاشِيَةٍ، نَقَصَ مِنْ عَمَلِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطَانِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے شکار اور مویشی کی غرض کے سوا کتا پالا اس کے عمل (ثواب یا نیکی) میں سے روزانہ دو قیراط کی کمی ہو جاتی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2047]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5480، 5481]، [مسلم 1574]، [ترمذي 1487]، [نسائي 429]، [أبويعلی 5418]، [ابن حبان 5653]، [الحميدي 645، 646]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2044
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا الحكم بن المبارك، حدثنا مالك، عن يزيد بن خصيفة، عن السائب بن يزيد، انه سمع سفيان بن ابي زهير يحدث ناسا معه عند باب المسجد، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "من اقتنى كلبا لا يغني عنه زرعا ولا ضرعا، نقص من عمله كل يوم قيراط". قالوا: انت سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: إي ورب هذا المسجد.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ، عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، أَنَّهُ سَمِعَ سُفْيَانَ بْنَ أَبِي زُهَيْرٍ يُحَدِّثُ نَاسًا مَعَهُ عِنْدَ بَاب الْمَسْجِدِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "مَنْ اقْتَنَى كَلْبًا لَا يُغْنِي عَنْهُ زَرْعًا وَلَا ضَرْعًا، نَقَصَ مِنْ عَمَلِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطٌ". قَالُوا: أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: إِي وَرَبِّ هَذَا الْمَسْجِدِ.
سائب بن یزید نے سفیان بن ابی زہیر سے سنا وہ ان کے ساتھ لوگوں کو مسجد کے دروازے پر حدیث بیان کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ جس نے کتا پالا جو نہ کھیتی کے لئے ہو نہ مویشی کے لئے تو اس کی نیکیوں سے روزانہ ایک قیراط کم ہو جاتا ہے۔ سائب نے کہا: میں نے پوچھا کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں، ہاں، اس مسجد کے رب کی قسم (میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2048]»
اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2323]، [مسلم 1576]، [نسائي 426]، [ابن ماجه 3206]، [أحمد 119/5، 120]، [طبراني 6415]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2042 سے 2044)
ان احادیث میں قیراط کا ذکر ہے جو عند اللہ ایک مقدارِ معلوم ہے۔
کتاب الجنائز میں ہے کہ ایک قیراط جبلِ احد کے برابر ہے اور یہاں مراد یہ ہے کہ بے حد نیکیاں کم ہوجاتی ہیں۔
ایک تو یہ کہ ایسے گھر میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔
دوسرے یہ کہ ایسا کتا گذرنے والوں، آنے جانے والے مہمانوں پر حملے کے لئے دوڑتا ہے جس کا گناہ کتا پالنے والے پر ہوتا ہے۔
تیسرے یہ کہ وہ گھر کے برتنوں کو منہ ڈال ڈال کر ناپاک کرتا رہتا ہے۔
چوتھے یہ کہ وہ نجاستیں کھا کھا کر گھر پر آتا ہے اور بدبو و دیگر نجاستیں اپنے ساتھ لاتا ہے، اور بھی بہت سی وجوہ ہیں۔
اس لئے شریعتِ اسلامی نے گھر میں بے کار کتا رکھنے کی سختی کے ساتھ ممانعت کی ہے، شکاری اور تربیت دیئے ہوئے دیگر محافظ کتے اس سے مستثنیٰ ہیں۔
(راز)۔
مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوا کہ کھیتی کی حفاظت کے لئے بھی کتا پالا جا سکتا ہے جس طرح شکار اور مویشی کے لئے کتا پالنا جائز ہے، محض شوقیہ کتا پالنا منع ہے، اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں ان کی نیکیوں سے روزانہ بہت بڑی مقدار میں کمی ہوتی رہتی ہے۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2045
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا وهب بن جرير، حدثنا شعبة، عن ابي التياح، عن مطرف، عن عبد الله بن مغفل، ان النبي صلى الله عليه وسلم امر بقتل الكلاب، ثم قال:"ما بالي وللكلاب؟"، ثم رخص في كلب الرعي وكلب الصيد.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِقَتْلِ الْكِلَابِ، ثُمَّ قَالَ:"مَا بَالِي وَلِلْكِلَابِ؟"، ثُمَّ رَخَّصَ فِي كَلْبِ الرَّعْيِ وَكَلْبِ الصَّيْدِ.
سیدنا عبدالله بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا، پھر فرمایا: مجھے کتوں سے کیا غرض ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھیتی اور شکار کے کتے کو رکھنے کی اجازت دیدی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2049]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 280، 1573]، [أبوداؤد 73]، [نسائي 67]، [ابن ماجه 3200]، [أحمد 86/4]، [بغوي 2781]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2044)
«مَا بَالِىْ وَلِلْكِلَابِ» کا مطلب یہ ہے کہ کتا پالنا بے فائدہ بلکہ وہ نجس ہے، احتمال ہے کہ برتن یا کپڑے کو گندہ کر دے۔
رہا کتوں کو قتل کرنے کا معاملہ تو صرف کلب عقور کالا یا کٹ کھنا کتا مارنے کا حکم ہے، اور کھیتی، مویشی، شکار کے کتے اور ضرر نہ پہنچانے والے کتے مستثنیٰ ہیں۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
3. باب في قَتْلِ الْكِلاَبِ:
3. کتوں کو مار ڈالنے کا بیان
حدیث نمبر: 2046
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا خالد بن مخلد، حدثنا مالك، عن نافع، عن ابن عمر، قال:"امر رسول الله صلى الله عليه وسلم بقتل الكلاب".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:"أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَتْلِ الْكِلَابِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده قوي، [مكتبه الشامله نمبر: 2050]»
اس روایت کی سند قوی اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3323]، [مسلم 1570]، [ترمذي 1488]، [نسائي 4288]، [ابن ماجه 3203]، [أبويعلی 5620]، [ابن حبان 5648]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي
حدیث نمبر: 2047
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن عامر، حدثنا عوف، عن الحسن، عن عبد الله بن مغفل، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لولا ان الكلاب امة من الامم، لامرت بقتلها كلها، ولكن اقتلوا منها كل اسود بهيم". قال سعيد بن عامر: البهيم: الاسود كله.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَوْلَا أَنَّ الْكِلَابَ أُمَّةٌ مِنْ الْأُمَمِ، لَأَمَرْتُ بِقَتْلِهَا كُلِّهَا، وَلَكِنْ اقْتُلُوا مِنْهَا كُلَّ أَسْوَدَ بَهِيمٍ". قَالَ سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ: الْبَهِيمُ: الْأَسْوَدُ كُلُّهُ.
سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کتے امتوں میں سے ایک امت نہ ہوتے تو میں تمام کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیتا لیکن اب تم صرف بالکل کالے کتے کو مار ڈالو۔ سعید بن عامر نے کہا: «بهيم» وہ کتا ہے جو بالکل کالا ہو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2051]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2845]، [ترمذي 1486]، [نسائي 4291]، [ابن ماجه 3205]، [ابن حبان 5650]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2045 سے 2047)
امام نووی رحمہ اللہ نے کہا: علماء کا اجماع ہے کہ کاٹنے والا کتا مار ڈالا جائے۔
امام الحرمین نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کتوں کے مار ڈالنے کا حکم دیا پھر یہ منسوخ ہوگیا اور کالا سیاہ کتا اسی حکم پر باقی رہا۔
اس کے بعد یہ ٹھہرا کہ کس قسم کا کتا مارا جائے جب تک کہ وہ نقصان نہ پہنچا دے یہاں تک کہ کالا بھجنگ بھی، اور ثواب کم ہونے کا سبب یہ ہوگا کہ فرشتے اس گھر میں نہیں جا سکتے جس کے پاس کتا ہوتا ہے، اور بعض نے کہا کہ اس وجہ سے کہ لوگوں کو ایذا ہوتی ہے اس کے بھونکنے اور حملہ کرنے سے، اور یہ جو فرمایا کہ امّت نہ ہوتی امّتوں میں سے اس کا مطلب یہ ہے کہ کتا بھی ایک قسم کی نوع ہے، یعنی عالم کی قسم ہے اس کا فنا کرنا ممکن نہیں، اس لئے قتل کا حکم دینا بے کار ہے، کتنے ہی قتل کرو لیکن دنیا میں کتے ضرور باقی رہیں گے جب تک دنیا باقی ہے، آپ دیکھئے کہ سانپ اور بچھو، شیر اور بھیڑیئے لوگ صدہا ہزار سال سے جہاں پاتے ہیں مار ڈالتے ہیں اور صدہا ہزارہا روپیہ انعام ان کے مارنے پر دیا جاتا ہے مگر کیا یہ انواع دنیا سے مٹ گئیں؟ نہیں ہرگز نہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
4. باب في صَيْدِ الْمِعْرَاضِ:
4. بے پر کے تیر یا لکڑی کے عرض سے شکار کا بیان
حدیث نمبر: 2048
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سليمان بن حرب، حدثنا شعبة، عن عبد الله بن ابي السفر، عن الشعبي، قال: سمعت عدي بن حاتم، قال: سالت النبي صلى الله عليه وسلم عن المعراض، فقال: "إذا اصاب بحده، فكل، وإذا اصاب بعرضه فقتل، فإنه وقيذ، فلا تاكل".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي السَّفَرِ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَدِيَّ بْنَ حَاتِمٍ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْمِعْرَاضِ، فَقَالَ: "إِذَا أَصَابَ بِحَدِّهِ، فَكُلْ، وَإِذَا أَصَابَ بِعَرْضِهِ فَقَتَلَ، فَإِنَّهُ وَقِيذٌ، فَلَا تَأْكُلْ".
سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بےپر کے تیر یا لکڑی سے شکار کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اس کی نوک سے شکار مر جائے تو اسے کھاؤ اور اگر اس کی عرض (چوڑائی) کی طرف سے شکار کو لگے اور وہ مر جائے تو وہ «وقيذ» (مردار) ہے اسے نہ کھاؤ۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2052]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5475]، [مسلم 1929]۔ نیز دیکھئے: حديث رقم (2042)

وضاحت:
(تشریح حدیث 2047)
بخاری شریف میں ایک دوسری حدیث (5477) میں ہے کہ اگر (معراض) دهار اس (شکار) کو زخمی کر کے پھاڑ ڈالے تو کھاؤ لیکن اگر اس کے عرض سے شکار مارا جائے تو اس کو نہ کھاؤ، وہ مردار ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غلہ بازی یعنی غلیل سے پھینکے ہوئے غلے سے اگر شکار مر گیا تو حلال نہ ہوگا کیونکہ وہ اپنے ثقل (بوجھ) سے جانور کو مارتا ہے چیرتا نہیں، اور بندوق کی گولی گوشت کو چیر پھاڑ کر اندر گھس جاتی ہے۔
(وحیدی)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
5. باب في أَكْلِ الْجَرَادِ:
5. ٹڈی کھانے کا بیان
حدیث نمبر: 2049
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، عن سفيان، عن ابي يعفور، عن عبد الله بن ابي اوفى، قال:"غزونا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم سبع غزوات ناكل الجراد".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي يَعْفُورٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى، قَالَ:"غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعَ غَزَوَاتٍ نَأْكُلُ الْجَرَادَ".
سیدنا عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات غزوات میں شریک ہوئے اور ہم ٹڈی کھاتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2053]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5495]، [مسلم 1952]، [أبوداؤد 3812]، [ترمذي 1821]، [نسائي 3367]، [أحمد 353/4، 380]، [ابن حبان 5257]، [الحميدي 730]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2048)
ٹڈی کھانا بلا تردد جائز ہے، یہ قدرتی عطیہ بھی ہے اور عذاب بھی، کیونکہ جہاں ان کا حملہ ہو جائے کھیتیاں برباد ہو جاتی ہیں، ٹڈی کو بلا ذبح کئے کھانا درست ہے جیسا کہ مچھلی بھی بلا ذبح کئے ہوئے حلال اور اس کا کھانا درست ہے۔
«أُحِلَّ لَنَا الْمَيْتَتَانِ» ہمارے لئے دو مرے ہوئے جانور حلال کر دیئے گئے ہیں۔
ٹڈی اور مچھلی، ان کو بلا ذبح کئے ہوئے کھانا جائز ہے، اس کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
6. باب في صَيْدِ الْبَحْرِ:
6. سمندری شکار کا بیان
حدیث نمبر: 2050
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن المبارك، قراءة، عن مالك، عن صفوان بن سليم، عن سعيد بن سلمة من آل الازرق، ان المغيرة بن ابي بردة وهو رجل من بني عبد الدار اخبره انه، سمع ابا هريرة، يقول: سال رجل النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: إنا نركب البحر ونحمل معنا القليل من الماء، فإن توضانا به، عطشنا، افنتوضا من ماء البحر؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "هو الطهور ماؤه، الحل ميتته".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ، قِرَاءَةً، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سَلَمَةَ مِنْ آلِ الْأَزْرَقِ، أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ أَبِي بُرْدَةَ وَهُوَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ الدَّارِ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ، سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: سَأَلَ رَجُلٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّا نَرْكَبُ الْبَحْرَ وَنَحْمِلُ مَعَنَا الْقَلِيلَ مِنْ الْمَاءِ، فَإِنْ تَوَضَّأْنَا بِهِ، عَطِشْنَا، أَفَنَتَوَضَّأُ مِنْ مَاءِ الْبَحْرِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "هُوَ الطَّهُورُ مَاؤُهُ، الْحِلُّ مَيْتَتُهُ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم لوگ سمندر میں سوار ہوتے ہیں اور میٹھا پانی تھوڑا سا اپنے ساتھ لیتے ہیں جس سے اگر وضو کر لیں تو پیاسے رہیں، تو کیا ہم سمندر کے پانی سے وضو کر لیا کریں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کا پانی پاک اور مردہ حلال ہے۔

تخریج الحدیث: «حديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2054]»
یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 83]، [ترمذي 69]، [نسائي 59]، [ابن ماجه 386]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2049)
جس طرح بری جانور شکار کرنے جائز ہیں اسی طرح بحری جانور مچھلی وغیرہ بھی جائز اور حلال ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: « ﴿أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ مَتَاعًا لَكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ .....﴾ [المائدة: 96] » یعنی تمہارے لئے سمندر کا شکار حلال کیا گیا ہے اور اس کا کھانا بھی تمہارے اور گذرتے قافلوں کے لئے ہے ......۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: حديث صحيح

1    2    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.