الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
شکار کے مسائل
حدیث نمبر: 2051
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا زكريا بن عدي، حدثنا ابن عيينة، عن عمرو يعني: ابن دينار، عن جابر، قال:"بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في ثلاث مئة، فاصابنا جوع حتى اتينا البحر وقد قذف دابة، فاكلنا منها حتى ثابت اجسامنا، فاخذ ابو عبيدة ضلعا من اضلاعها فوضعه، ثم حمل اطول رجل في الجيش على اعظم بعير في الجيش فمر تحته، هذا معناه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو يَعْنِي: ابْنَ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:"بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ثَلَاثِ مِئَةٍ، فَأَصَابَنَا جُوعٌ حَتَّى أَتَيْنَا الْبَحْرَ وَقَدْ قَذَفَ دَابَّةً، فَأَكَلْنَا مِنْهَا حَتَّى ثَابَتْ أَجْسَامُنَا، فَأَخَذَ أَبُو عُبَيْدَةَ ضِلْعًا مِنْ أَضْلَاعِهَا فَوَضَعَهُ، ثُمَّ حَمَلَ أَطْوَلَ رَجُلٍ فِي الْجَيْشِ عَلَى أَعْظَمِ بَعِيرٍ فِي الْجَيْشِ فَمَرَّ تَحْتَهُ، هَذَا مَعْنَاهُ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین سو کے لشکر کے ساتھ بھیجا اور ہمیں بھوک نے آ لیا (یعنی توشۂ راہ ختم ہو گیا)، ہم سمندر پر پہنچے تو اس نے اچانک ایک بڑا سا جانور لا پٹکا جس کو ہم نے خوب کھایا اور ہمارے جسم موٹے ہو گئے۔ سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ (امیر لشکر) نے اس کی پسلیوں میں سے ایک پسلی کھڑی کی اور لشکر کے سب سے لمبے آدمی کو سب سے بڑے اونٹ پر بٹھایا وہ اس کے تلے سے نکل گیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2055]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2483، 5493]، [مسلم 1935]، [نسائي 4363]، [أبويعلی 1786]، [ابن حبان 5259]، [الحميدي 1278]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2050)
غالباً یہ وہیل مچھلی ہوگی جو بعض دفعہ اسّی فٹ سے سو فٹ تک طویل ہوتی ہے، جو آیاتِ الٰہیہ میں سے ایک عجیب مخلوق ہے۔
بخاری شریف (5492) میں ہے کہ وہ عنبر مچھلی تھی، اٹھارہ دن تک صرف تین سو افراد کا اسی مچھلی پر گزارہ کرنا یہ محض اللہ کی طرف سے تائیدِ غیبی تھی، اور یہ رجب 8ھ کا واقعہ ہے جس کو امام بخاری رحمہ اللہ نے متعدد مقامات پر بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔
اس حدیث کو یہاں ذکر کرنے کا مقصد امام دارمی رحمہ اللہ کا یہ ہے کہ مچھلی مردہ بھی کھانا جائز ہے بشرطیکہ بیماری سے نہ مری ہو اور سڑی گلی نہ ہو، کیونکہ ایسی مچھلی صحتِ انسان کے لئے مضر ہے۔
بخاری شریف کی بعض روایات میں ہے کہ صحابہ کرام کو اس مردہ مچھلی کے کھانے میں تردد تھا اور جب وہ مدینہ منورہ واپس آئے تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اس مچھلی میں سے کچھ باقی بچا ہو تو لاؤ (ہم بھی کھا لیں)۔
اس تائید و تقریر سے تمام افرادِ لشکر کی تسلی ہوگئی۔
امام نووی رحمہ اللہ نے کہا: دریا کے سب مردے درست ہیں خواہ خود بخود مر جائیں یا شکار سے مریں۔
مینڈک کے بارے میں اختلاف ہے۔
بعض علماء نے اسے بھی حلال کہا ہے۔
سمندر کے باقی جانوروں میں تین قول ہیں: ایک یہ کہ دریا کے کل جانور حلال ہیں۔
دوسرے یہ کہ مچھلی کے سوا کوئی حلال نہیں۔
تیسرے یہ کہ جو خشکی کے جانور ہیں ان کی شبیہ دریا میں بھی حلال ہے، جیسے گھوڑا، دریا کی بکری، ہرن۔
اور جو خشکی کے جانور حرام ہیں، ان کی شبیہ دریا میں بھی حرام ہے، جیسے دریائی کتا، دریائی سور (وحیدی۔
ابن ماجہ)
۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
7. باب في أَكْلِ الأَرْنَبِ:
7. خرگوش کے کھانے کا بیان
حدیث نمبر: 2052
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد، حدثنا شعبة، قال: هشام بن زيد بن انس اخبرني، قال: سمعت انس بن مالك، يقول: انفجنا ارنبا ونحن بمر الظهران، فسعى القوم فلغبوا، فاخذتها وجئت بها إلى ابي طلحة، فذبحها وبعث بوركيها او فخذيها، شك شعبة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم"فقبلها".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: هِشَامُ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَنَسٍ أَخْبَرَنِي، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: أَنْفَجْنَا أَرْنَبًا وَنَحْنُ بِمَرِّ الظَّهْرَانِ، فَسَعَى الْقَوْمُ فَلَغِبُوا، فَأَخَذْتُهَا وَجِئْتُ بِهَا إِلَى أَبِي طَلْحَةَ، فَذَبَحَهَا وَبَعَثَ بِوَرِكَيْهَا أَوْ فَخِذَيْهَا، شَكَّ شُعْبَةُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"فَقَبِلَهَا".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: مرالظہران نامی ایک جگہ میں ہم نے ایک خرگوش کا پیچھا کیا، لوگ (اس کے پیچھے) دوڑے اور جب تھک گئے میں نے قریب پہنچ کر اس کو پکڑ لیا اور اس کو سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس لایا، انہوں نے اسے ذبح کیا اور اس کے پیچھے کا یا دونوں رانوں کا گوشت (یہ شک سعید کو ہوا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج دیا جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرما لیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2056]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5489، 5535]، [مسلم 1953]، [أبوداؤد 3791]، [ترمذي 1789]، [نسائي 4322]، [ابن ماجه 3243]، [الطيالسي 1743]، [أحمد 171/3، 232]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2051)
اس حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خرگوش کا گوشت قبول کر لیا، اگر حرام ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے قبول نہ کرتے، لہٰذا خرگوش کا کھانا اور شکار کرنا نیز ہدیہ قبول کرنا جائز ہوا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2053
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا داود بن ابي هند، عن عامر، عن محمد بن صفوان، انه مر على النبي صلى الله عليه وسلم بارنبين معلقهما، فقال:"يا رسول الله، إني دخلت غنم اهلي فاصطدت هذين الارنبين، فلم اجد حديدة اذكيهما بها، فذكيتهما بمروة، افآكل؟ قال:"نعم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ صَفْوَانَ، أَنَّهُ مَرَّ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَرْنَبَيْنِ مُعَلِّقُهُمَا، فَقَالَ:"يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي دَخَلْتُ غَنَمَ أَهْلِي فَاصْطَدْتُ هَذَيْنِ الْأَرْنَبَيْنِ، فَلَمْ أَجِدْ حَدِيدَةً أُذَكِّيهِمَا بِهَا، فَذَكَّيْتُهُمَا بِمَرْوَةٍ، أَفَآكُلُ؟ قَالَ:"نَعَمْ".
سیدنا محمد بن صفوان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے دو خرگوش لٹکائے ہوئے گزرے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اپنے گھر والوں کے ریوڑ کے پاس سے گزرا تو ان دونوں کو شکار کر لیا اور لوہے کی کوئی ایسی چیز نہ ملی جس سے ان کو ذبح کرتا، لہٰذا میں نے ایک سفید دھار دار پتھر سے ان کو ذبح کر دیا۔ کیا میں ان کو کھا سکتا ہوں؟ فرمایا: ہاں کھا لو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2057]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2822]، [نسائي 4324]، [ابن ماجه 3244]، [ابن حبان 5887]، [موارد الظمآن 1069]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2052)
اس حدیث سے بھی خرگوش کا گوشت کھانے کی حلت ثابت ہوئی، بعض احادیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خرگوش کھانے سے انکار کر دیا، تو یہ انکار طبیعی رحجان کی وجہ سے تھا جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضب (گوہ) نہ کھایا لیکن لوگوں کو کھانے کی اجازت دی۔
شیعہ حضرات کا یہ کہنا بھی صحیح نہیں کہ خرگوش کا گوشت حرام ہے کیونکہ اس کی مادہ کو حیض آتا ہے۔
نیز اس حدیث سے معلوم ہوا کہ لوہا، پتھر، لکڑی، اگر دھار دار ہو اور خون بہا دے تو اس جانور کا کھانا جائز ہے اور وہ حلال ہے۔
والله اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
8. باب في أَكْلِ الضَّبِّ:
8. گوہ (ساہنہ) کے کھانے کا بیان
حدیث نمبر: 2054
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، عن سفيان، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، قال: سئل النبي صلى الله عليه وسلم عن الضب، فقال: "لست بآكله ولا محرمه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الضَّبِّ، فَقَالَ: "لَسْتُ بِآكِلِهِ وَلَا مُحَرِّمِهِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گوہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ میں اس کو کھاتا ہوں نہ حرام کہتا ہوں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2058]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5536]، [مسلم 1943]، [ترمذي 1790]، [نسائي 4325]، [ابن حبان 5265]، [الحميدي 655]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2053)
ضب ایک مشہور جنگلی جانور ہے جو صحرا میں پایا جاتا ہے اور بڑا طاقتور ہوتا ہے، اس کو سانڈا، ساہنہ، سوسمار وغیرہ بھی کہتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کبھی کھایا نہیں تھا اس لئے دل نے ابا کیا، لیکن اپنے طبیعی رحجان اور ناپسندیدگی کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے کھانے سے منع نہیں کیا، لہٰذا اس کا کھانا جائز اور حلال ہے۔
ایک روایت ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے ملک میں اس کو نہیں کھاتے اس لئے مجھے کراہت لگتی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2055
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سهل بن حماد، حدثنا شعبة، حدثنا الحكم، قال: سمعت زيد بن وهب يحدث، عن البراء بن عازب، عن ثابت بن وديعة، قال: اتي النبي صلى الله عليه وسلم بضب، فقال: "امة مسخت والله اعلم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ، قَالَ: سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ وَهْبٍ يُحَدِّثُ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ وَدِيعَةَ، قَالَ: أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِضَبٍّ، فَقَالَ: "أُمَّةٌ مُسِخَتْ وَاللَّهُ أَعْلَمُ".
سیدنا ثابت بن ودیعہ رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک سانڈا لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک امت (تھی)، مسخ کر دی گئی، الله زیادہ جانتا ہے (وہ کون ہے)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2059]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3795]، [نسائي 4347]، [ابن ماجه 3238]، [أحمد 220/4]، [معجم الصحابة، ترجمة 131]، [ابن ابي شيبه 4415]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2054)
ابوداؤد اور نسائی میں ہے کہ بنی اسرائیل کا ایک گروہ مسخ کر کے جانور بنا دیا گیا، میں نہیں جانتا وہ کونسا جانور ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کھایا اور نہ اس کے کھانے سے منع کیا۔
علامہ وحیدالزماں نے کہا: تو نہ کھایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطریقِ احتیاط وتورع کے، نہ بوجہ حرمت کے۔
دوسری حدیث سے معلوم ہوا کہ جو گروہ مسخ ہوا تھا وہ سب تین دن میں مر گئے (تھے)، پھر یہ شبہ جاتا رہا۔
[أبوداؤد حاشيه ف حديث 3795] ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2056
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن صالح، حدثني الليث، حدثني يونس، عن ابن شهاب، انه قال: اخبرني ابو امامة بن سهل بن حنيف الانصاري، ان عبد الله بن عباس اخبره، ان خالد بن الوليد الذي يقال له سيف الله اخبره، انه دخل مع رسول الله صلى الله عليه وسلم على ميمونة زوج النبي صلى الله عليه وسلم وهي خالته وخالة ابن عباس، فوجد عندها ضبا محنوذا قدمت به اختها حفيدة بنت الحارث من نجد، فقدمت الضب لرسول الله صلى الله عليه وسلم، وكان قلما يقدم يده لطعام حتى يحدث به ويسمى له، فاهوى رسول الله صلى الله عليه وسلم يده إلى الضب، فقالت امراة من نسوة الحضور: اخبرن رسول الله صلى الله عليه وسلم ما قدمتن له. قلن: هذا الضب، فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم يده، فقال خالد بن الوليد: اتحرم الضب يا رسول الله؟ قال:"لا، ولكنه لم يكن بارض قومي، فاجدني اعافه". قال خالد: فاجتررته فاكلته، ورسول الله صلى الله عليه وسلم ينظر، فلم ينهني.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّهُ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو أُمَامَةَ بْنُ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ الْأَنْصَارِيُّ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ الَّذِي يُقَالُ لَهُ سَيْفُ اللَّهِ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ دَخَلَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ خَالَتُهُ وَخَالَةُ ابْنِ عَبَّاسٍ، فَوَجَدَ عِنْدَهَا ضَبًّا مَحْنُوذًا قَدِمَتْ بِهِ أُخْتُهَا حُفَيْدَةُ بِنْتُ الْحَارِثِ مِنْ نَجْدٍ، فَقَدَّمَتْ الضَّبَّ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ قَلَّمَا يُقَدِّمُ يَدَهُ لِطَعَامٍ حَتَّى يُحَدَّثَ بِهِ وَيُسَمَّى لَهُ، فَأَهْوَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ إِلَى الضَّبِّ، فَقَالَتْ امْرَأَةٌ مِنْ نِسْوَةِ الْحُضُورِ: أَخْبِرْنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا قَدَّمْتُنَّ لَهُ. قُلْنَ: هَذَا الضَّبُّ، فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ، فَقَالَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ: أَتُحَرِّمُ الضَّبَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:"لَا، وَلَكِنَّهُ لَمْ يَكُنْ بِأَرْضِ قَوْمِي، فَأَجِدُنِي أَعَافُهُ". قَالَ خَالِدٌ: فَاجْتَرَرْتُهُ فَأَكَلْتُهُ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْظُرُ، فَلَمْ يَنْهَنِي.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ سیدنا خالد بن الولید رضی اللہ عنہ نے (جو سیف الله (اللہ کی تلوار) کے لقب سے مشہور ہیں) خبر دی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ام المومنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا زوج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں داخل ہوئے، ام المومنین ان کی اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خالہ ہیں، ان کے یہاں بھنا ہوا ضب (سانڈا یا گوہ) موجود تھا جو ان کی بہن سیدہ حفيده بنت الحارث رضی اللہ عنہا نجد سے لائی تھیں، انہوں نے وہ بھنا ضب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا اور ایسا بہت کم ہوتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کھانے کی طرف اس وقت تک ہاتھ بڑھائیں جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے متعلق بتا نہ دیا جائے کہ یہ فلاں قسم کا کھانا ہے، لیکن اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھنے ہوئے ضب کی طرف ہاتھ بڑھایا اتنے میں وہاں موجود عورتوں میں سے ایک نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دو جو تم نے ان کے سامنے پیش کیا ہے، انہوں نے کہا: یہ ضب ہے۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس بھنے ہوئے سانڈے سے ہٹا لیا، سیدنا خالد بن الولید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ اس کو حرام قرار دیتے ہیں؟ فرمایا: نہیں، لیکن چونکہ یہ میرے ملک میں نہیں پایا جاتا ہے اس لئے طبیعت گوارہ نہیں کرتی ہے، سیدنا خالد بن الولید رضی اللہ عنہ نے کہا: لہٰذا میں نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا اور (خوب) کھایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ رہے تھے، مجھے منع (بھی) نہ کیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف غير أن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2060]»
اس سند سے یہ روایت ضعیف لیکن دوسری اسناد سے صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5391]، [مسلم 1946]، [أبوداؤد 3794]، [نسائي 4327]، [ابن ماجه 3241]، [ابن حبان 5263، 5267]، [مجمع الزوائد 6146]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2055)
اس حدیث سے بھی گوہ یا سانڈے کی حلت ثابت ہوئی اور اکثر اہلِ علم کا یہی قول ہے۔
بعض علماء نے مکروہ اور بعض نے حرام بھی کہا ہے لیکن صحیح یہی ہے کہ حلال ہے گرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو نہیں کھایا، جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث سے ثابت ہے، اور ابوداؤد کی روایت جس میں اس کے کھانے کی ممانعت ہے وہ ضعیف ہے، قابلِ احتجاج نہیں۔
اسی طرح حرمت کی کوئی واضح حدیث نہیں ہے، اسی لیے یہاں سعودی عرب میں یہ جانور خوب کھایا جاتا ہے۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف غير أن الحديث متفق عليه
9. باب في الصَّيْدِ يَبِينُ مِنْهُ الْعُضْوُ:
9. زندہ جانور کا کوئی زائد عضو کھانے کے لئے کاٹنے کا بیان
حدیث نمبر: 2057
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن عبد المجيد، حدثنا عبد الرحمن بن عبد الله بن دينار، حدثنا زيد بن اسلم، قال عبد الرحمن: احسبه عن عطاء بن يسار، عن ابي واقد الليثي، قال: قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة، والناس يجبون اسنمة الإبل واليات الغنم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ما قطع من بهيمة وهي حية، فهو ميتة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: أَحْسَبُهُ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي وَاقِدٍ اللَّيْثِيِّ، قَالَ: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، وَالنَّاسُ يَجُبُّونَ أَسْنِمَةَ الْإِبِلِ وَأَلْيَاتِ الْغَنَمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا قُطِعَ مِنْ بَهِيمَةٍ وَهِيَ حَيَّةٌ، فَهُوَ مَيْتَةٌ".
سیدنا ابوواقد لیثی رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت مدینہ تشریف لائے لوگ اونٹ کے کوہان اور بکری کے سرین پسند کرتے تھے (یعنی کاٹ کر کھا لیتے تھے) چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو ٹکڑا (زنده) جانور میں سے کاٹ لیا جائے (ہاتھ، پاؤں، یا سرین) تو وہ (گوشت کا ٹکڑا) مردار ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح على شرط البخاري، [مكتبه الشامله نمبر: 2061]»
اس روایت کی سند صحیح علی شرط البخاری ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2858]، [ترمذي 1480]، [ابن ماجه 3216]، [أبويعلی 1450]، [طبراني 3304]۔ نیز دیکھئے: [مشكل الآثار 496/1]، [شرح السنة 203/11، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2056)
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس کا کھانا جائز نہیں خواہ وہ حلال جانور میں سے کاٹا جائے جیسے گائے، بکری، اونٹ وغیرہ، یہ اسلام کا جانوروں کے ساتھ بھی نظامِ رحمت ہے کیونکہ اس طرح زندہ جانور کا کوئی بھی عضو کاٹا جائے تو ہر جاندار کو اس سے تکلیف وتعذیب ہوگی، اور اسی لئے مثلہ کرنے سے منع کیا گیا ہے جس کا بیان پیچھے گذر چکا ہے۔
سبحان اللہ! اسلام کا کتنا پیارا نظام ہے کہ انسان تو انسان حیوان کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کی تعلیم دی جا رہی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح على شرط البخاري

Previous    1    2    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.