الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
مشروبات کا بیان
حدیث نمبر: 2135
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، عن إسرائيل، عن ابي إسحاق، عن ابي بردة بن ابي موسى، عن ابيه، قال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم انا ومعاذ بن جبل إلى اليمن، فقال: "اشربوا، ولا تشربوا مسكرا، فإن كل مسكر حرام".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَمُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ إِلَى الْيَمَنِ، فَقَالَ: "اشْرَبُوا، وَلَا تَشْرَبُوا مُسْكِرًا، فَإِنَّ كُلَّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ".
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اور سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف روانہ کیا تو فرمایا: کچھ بھی پیو بس نشہ آور نہ پیو کیونکہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2143]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 4343]، [مسلم 1733]، [أبوداؤد 4356]، [نسائي 6511]، [ابن ماجه 3391]، [أبويعلی 7339]، [ابن حبان 5373]، [منحة المعبود 1724]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2134)
نسائی کی روایت (5602) میں ہے: سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ ہمیں ایسی سرزمین پر بھیج رہے ہیں جہاں لوگ کثرت سے شراب پیتے ہیں، تو ہم کیا پئیں؟ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کچھ بھی پینا لیکن جو نشہ لائے وہ نہ پینا۔
اس کا مطلب ہے نبیذ انگور اور کھجور کا شربت وغیرہ جب تک کہ وہ نشہ آور نہ ہو پی سکتے ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2136
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن سعيد، اخبرنا ابو اسامة، حدثنا الوليد بن كثير بن سنان، حدثني الضحاك بن عثمان، عن بكير بن عبد الله بن الاشج، عن عامر بن سعد، عن سعد، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: "انهاكم عن قليل ما اسكر كثيره".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ كَثِيرِ بْنِ سِنَانٍ، حَدَّثَنِي الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ سَعْدٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "أَنْهَاكُمْ عَنْ قَلِيلِ مَا أَسْكَرَ كَثِيرُهُ".
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تم کو (اس) شراب کے تھوڑا سا پینے سے منع کرتا ہوں جس کا کثیر پینا نشہ لائے۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2144]»
0

وضاحت:
(تشریح حدیث 2135)
علامہ وحیدالزماں رحمہ اللہ لکھتے ہیں: بعض لوگوں نے یہ کہا کہ جو شراب انگور کا نہ ہو اس کا تھوڑا پینا درست ہے، اتنا جس سے نشہ نہ ہو، اگر پیتا چلا گیا یہاں تک کہ نشہ پیدا ہوا تو اخیر کا گھونٹ جس کے ساتھ نشہ پیدا ہوا حرام ٹھہرا اور پہلا گھونٹ درست، یہ نرا حیلہ ہے، حیلہ ہے، درحقیقت نشہ اخیر کے گھونٹ سے پیدا نہیں ہوا بلکہ اگلے پچھلے سب گھونٹوں کی تاثیر سے، تو سب حرام ٹھہرے۔
(انتہیٰ کلامہ)۔
شراب کو حلال سمجھنے والے بعض لوگوں کی یہ فقہی موشگافیاں ہیں ورنہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم واضح اور بیّن ہے کہ جس چیز سے نشہ ہو وہ قلیل و کثیر ہر مقدار میں حرام ہے۔
اس کی تفصیل (2134) میں گذر چکی ہے اور امام نسائی رحمہ اللہ نے [نسائي 5616] میں بھی ایسے ہی فرمایا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
حدیث نمبر: 2137
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا زيد بن يحيى، حدثنا محمد بن راشد، عن ابي وهب الكلاعي، عن القاسم بن محمد، عن عائشة، قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:"إن اول ما يكفا قال زيد: يعني: في الإسلام كما يكفا الإناء يعني: الخمر"، فقيل: كيف يا رسول الله وقد بين الله فيها ما بين؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"يسمونها بغير اسمها فيستحلونها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ، عَنْ أَبِي وَهْبٍ الْكَلَاعِيِّ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:"إِنَّ أَوَّلَ مَا يُكْفَأُ قَالَ زَيْدٌ: يَعْنِي: فِي الْإِسْلَامَ كَمَا يُكْفَأُ الْإِنَاءُ يَعْنِي: الْخَمْرِ"، فَقِيلَ: كَيْفَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَقَدْ بَيَّنَ اللَّهُ فِيهَا مَا بَيَّنَ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"يُسَمُّونَهَا بِغَيْرِ اسْمِهَا فَيَسْتَحِلُّونَهَا".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سب سے پہلی چیز جب پلٹ دی جائے گی۔ راوی زید بن یحییٰ نے کہا: وہ اسلام ہے جس طرح برتن الٹ دیا جاتا ہے، مقصود خمر ہے (یعنی پھر سے لوگ پینے لگیں گے)، عرض کیا گیا: یہ کس طرح ہو گا، اے اللہ کے رسول! جب کہ اللہ تعالیٰ نے بالکل بین واضح طور پر اس کا حکم بیان کر دیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے نام دوسرے رکھ لیں گے اور اس طرح شراب کو حلال کر لیں گے۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2145]»
اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبويعلی 4731]، [سنن البيهقي 194/8]، [الحاكم فى المستدرك 147/4، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2136)
سچ فرمایا الصادق الامین الرسول الکریم محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، اور یہ پیشین گوئی آج صحیح ہو رہی ہے۔
لوگ شراب کو طرح طرح کے نام دیتے ہیں اور دھڑلے سے پیتے ہیں، جسے کوئی شربتِ مفرح کہتا ہے، کوئی عرق النشاط اور کوئی شراب الصالحین، لیکن نام بدلنے سے حکم نہیں بدلے گا، جو چیز نشہ لائے وہ حرام ہے خواہ نام کچھ بھی ہو، اور اس میں بھانگ، افیون، چنڈو، بیئر وغیرہ سب شامل ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
حدیث نمبر: 2138
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا مروان بن محمد، حدثنا يحيى بن حمزة، حدثني ابو وهب، عن مكحول، عن ابي ثعلبة الخشني، عن ابي عبيدة بن الجراح، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "اول دينكم نبوة ورحمة، ثم ملك ورحمة، ثم ملك اعفر، ثم ملك وجبروت يستحل فيها الخمر والحرير". قال ابو محمد: سئل عن اعفر، فقال: يشبهه بالتراب وليس فيه خير.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، حَدَّثَنِي أَبُو وَهْبٍ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَوَّلُ دِينِكُمْ نُبُوَّةٌ وَرَحْمَةٌ، ثُمَّ مُلْكٌ وَرَحْمَةٌ، ثُمَّ مُلْكٌ أَعْفَرُ، ثُمَّ مُلْكٌ وَجَبَرُوتٌ يُسْتَحَلُّ فِيهَا الْخَمْرُ وَالْحَرِيرُ". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: سُئِلَ عَنْ أَعْفَرَ، فَقَالَ: يُشَبِّهِهُ بِالتُّرَابِ وَلَيْسَ فِيهِ خَيْرٌ.
سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے دین کے شروع میں (طرز حکومت) نبوت و رحمت ہے، پھر ملوکیت و رحمت، پھر مانند مٹی کے بادشاہت، پھر شاہی ڈکٹیٹری جس میں شراب و ریشم کو حلال سمجھا جائے گا۔ امام دارمی رحمہ اللہ سے اعفر کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: وہ مٹی کے مشابہ ہے جس میں کوئی خیر نہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده منقطع، [مكتبه الشامله نمبر: 2146]»
اس روایت کی سند منقطع ہے کیونکہ مکحول نے ابوثعلبہ الخشنی کو پایا ہی نہیں۔ تخریج کے لئے دیکھئے: [أبويعلی 873]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده منقطع
9. باب النَّهْيِ عَنْ بَيْعِ الْخَمْرِ وَشِرَائِهَا:
9. شراب کی خرید و فروخت کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 2139
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سهل بن حماد، حدثنا طعمة، حدثنا عمرو بن بيان التغلبي، عن عروة بن المغيرة بن شعبة، عن ابيه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه قال: "من باع الخمر، فليشقص الخنازير". قال ابو محمد: إنما هو عمر بن بيان.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا طُعْمَةُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ بَيَانٍ التَّغْلِبِيُّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: "مَنْ بَاعَ الْخَمْرَ، فَلْيُشَقِّصْ الْخَنَازِيرَ". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: إِنَّمَا هُوَ عُمَرُ بْنُ بَيَانٍ.
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے شراب کو بیچا اس کو چاہیے کہ خنزیر کا گوشت بھی صاف کر لے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: عمرو بن بیان التغلبی: عمر بن بیان ہیں۔

تخریج الحدیث: «حديث جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2147]»
اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3489]، [الحميدي 778]، [الطيالسي 1719]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2137 سے 2139)
یعنی جب اس نے شراب بیچنا درست سمجھا تو اس نے سور کھانے کو بھی درست جانا، کیونکہ شراب اور سور دونوں حرمت میں برابر ہیں۔
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جس نے شراب بیچی گویا اس نے خنزیر کی خرید و فروخت کی۔
یہ تہدیدِ شدید ہے جس سے معلوم ہوا کہ شراب کا خریدنا یا بیچنا اسی طرح حرام ہے جس طرح خنزیر کا خریدنا اور بیچنا حرام ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: حديث جيد
حدیث نمبر: 2140
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا يعلى، عن محمد بن إسحاق، عن القعقاع بن حكيم، عن عبد الرحمن بن وعلة، قال: سالت ابن عباس عن بيع الخمر، فقال: كان لرسول الله صلى الله عليه وسلم صديق من ثقيف او من دوس، فلقيه بمكة عام الفتح براوية من خمر يهديها له، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"يا فلان، اما علمت ان الله تعالى قد حرمها؟"قال: فاقبل الرجل على غلامه، فقال: اذهب فبعها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"بماذا امرته يا فلان؟"قال: امرته ببيعها. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"إن الذي حرم شربها، حرم بيعها". فامر بها فاكفئت في البطحاء.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ وَعْلَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْ بَيْعِ الْخَمْرِ، فَقَالَ: كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدِيقٌ مِنْ ثَقِيفٍ أَوْ مِنْ دَوْسٍ، فَلَقِيَهُ بِمَكَّةَ عَامَ الْفَتْحِ بِرَاوِيَةٍ مِنْ خَمْرٍ يُهْدِيهَا لَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"يَا فُلَانُ، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَدْ حَرَّمَهَا؟"قَالَ: فَأَقْبَلَ الرَّجُلُ عَلَى غُلَامِهِ، فَقَالَ: اذْهَبْ فَبِعْهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"بِمَاذَا أَمَرْتَهُ يَا فُلَانُ؟"قَالَ: أَمَرْتُهُ بِبَيْعِهَا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"إِنَّ الَّذِي حَرَّمَ شُرْبَهَا، حَرَّمَ بَيْعَهَا". فَأَمَرَ بِهَا فَأُكْفِئَتْ فِي الْبَطْحَاءِ.
عبدالرحمٰن بن وعلہ نے کہا: میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے شراب کی خرید و فروخت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: ثقیف یا دوس قبیلہ کا ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دوست تھا، اس نے فتح مکہ کے سال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مکہ میں ملاقات کی اور تحفے میں شراب کا مشکیزہ پیش کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے بھائی! تمہیں علم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو حرام کر دیا ہے؟ راوی نے کہا: وہ شخص اپنے خادم کی طرف متوجہ ہوا اور اس سے کہا: اسے لے جا کر بیچ دو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے اس کو کیا حکم دیا ہے؟ عرض کیا: میں نے خادم کو اس شراب کو بیچ دینے کو کہا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس اللہ نے شراب پینا حرام کیا ہے اس نے بیچنا بھی حرام کر دیا ہے۔ چنانچہ اس شخص نے حکم دیا اور وہ شراب زمین پر لڑھکا دی گئی۔

تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أن ابن إسحاق قد عنعن ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2148]»
اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1579]، [نسائي 4678]، [أبويعلی 2468]، [ابن حبان 4944]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أن ابن إسحاق قد عنعن ولكن الحديث صحيح
حدیث نمبر: 2141
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن احمد، حدثنا سفيان، عن عمرو يعني: ابن دينار، عن طاوس، عن ابن عباس، قال: بلغ عمر ان سمرة باع خمرا، فقال: قاتل الله سمرة، اما علم ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: "لعن الله اليهود، حرمت عليهم الشحوم فجملوها، فباعوها". قال سفيان: جملوها: اذابوها.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو يَعْنِي: ابْنَ دِينَارٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: بَلَغَ عُمَرَ أَنَّ سَمُرَةَ بَاعَ خَمْرًا، فَقَالَ: قَاتَلَ اللَّهُ سَمُرَةَ، أَمَا عَلِمَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَعَنَ اللَّهُ الْيَهُودَ، حُرِّمَتْ عَلَيْهِمْ الشُّحُومُ فَجَمَلُوهَا، فَبَاعُوهَا". قَالَ سُفْيَانُ: جَمَلُوهَا: أَذَابُوهَا.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو یہ خبر لگی کہ سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ نے شراب بیچی ہے تو انہوں نے کہا: الله تعالیٰ سمرہ کو برباد کرے، کیا انہیں معلوم نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الله تعالیٰ یہود پر لعنت کرے، چربی ان پر حرام کی گئی لیکن انہوں نے اسے پگھلا کر فروخت کر دیا۔ سفیان نے کہا: «جملوها» کا معنی ہے «اذابوها» ۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2150]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2223]، [مسلم 1582]، [ابن ماجه 3383]، [أبويعلی 23468]، [ابن حبان 4942]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2139 سے 2141)
علامہ وحیدالزماں رحمہ اللہ نے اس حدیث کے ذیل میں لکھا ہے: اس کا مطلب ہے انہوں نے اس چربی کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی، اس سے معلوم ہوا کہ جیسے شراب حرام ہے ویسے ہی اس کی قیمت لینا اور سوداگری کرنا بھی حرام ہے، افسوس ہے کہ ہمارے زمانے میں بعض مسلمان تاجر اپنی دکانوں میں شراب بھی رکھتے ہیں اور خیال رکھتے ہیں کہ شراب بیچنے میں اتنا گناہ نہیں ہے جتنا اس کے پینے میں، حالانکہ حدیث کی رو سے وہ سب برابر ہیں اور سب پر لعنت آئی ہے، اور شراب کا پیسہ حرام ہے، اس کا کھانا اور کھلا نا دونوں جائز نہیں، اسی طرح سود کا پیسہ، اور جو سوداگر شراب اور سود کا بیوپار کرتا ہو اس کی دعوت میں جانا تقویٰ کے خلاف ہے۔
بخاری وغیرہ میں یہ ذکر نہیں ہے کہ سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ نے شراب بیچی تھی، عام آدمی کا ذکر ہے، بہرحال اس حدیث سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی غیرت و حمیت کا اندازہ لگتا ہے کہ خلافِ شرع بات انہیں قطعاً برداشت نہیں تھی۔
اور یہ بھی معلوم ہوا کہ محرماتِ منصوصہ کو حیلہ سازی سے استعمال میں لانا یہود کا فعل ہے جن پر الله تعالیٰ کی لعنت ہے۔
لہٰذا ایسے افعال سے بچنا چاہیے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
10. باب الْعُقُوبَةِ في شُرْبِ الْخَمْرِ:
10. شراب پینے والے کی سزا کا بیان
حدیث نمبر: 2142
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عاصم بن علي، حدثنا ابن ابي ذئب، عن الحارث بن عبد الرحمن، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا سكر، فاجلدوه، ثم إذا سكر، فاجلدوه، ثم إذا سكر، فاجلدوه، ثم إذا سكر، فاضربوا عنقه". يعني في الرابعة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا سَكِرَ، فَاجْلِدُوهُ، ثُمَّ إِذَا سَكِرَ، فَاجْلِدُوهُ، ثُمَّ إِذَا سَكِرَ، فَاجْلِدُوهُ، ثُمَّ إِذَا سَكِرَ، فَاضْرِبُوا عُنُقَهُ". يَعْنِي فِي الرَّابِعَةِ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی نشہ کر لے تو اسے کوڑے لگاؤ، پھر اگر ایسا کرے تو اسے کوڑے مارو، پھر شراب پئے تو اسے کوڑے مارو، چوتھی بار پھر اگر شراب پئے تو اس کو جان سے مار ڈالو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2151]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4484]، [نسائي 5678]، [ابن ماجه 2572]، [ابن حبان 4446، 4447]، [موارد الظمآن 1519]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2141)
اس حدیث کو ائمۂ اربعہ اور اہل الحدیث نے صحیح ہونے کے باوجود منسوخ گردانا ہے، اُس حدیث کی وجہ سے جس میں ہے کہ مسلمان صرف تین وجہ سے قتل کیا جا سکتا ہے: زنا، قصاص یا مرتد ہونے پر، نیز یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کئی بار ایسے افراد کو لایا گیا جنہوں نے چوتھی بار شراب پی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قتل نہیں کیا، لہٰذا یہ قول اور فعل مذکورہ بالا حدیث کا ناسخ ہوا، لہٰذا تین بار سے زیادہ شراب پینے والے کو کوڑے تو لگائے جائیں گے لیکن قتل نہیں کیا جائے گا۔
(واللہ اعلم)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
11. باب في التَّغْلِيظِ لِمَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ:
11. جو شراب پئے اس کے لئے وعید شدید کا بیان
حدیث نمبر: 2143
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، عن الاوزاعي، عن الزهري، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا يزني الزاني حين يزني وهو مؤمن، ولا يسرق السارق حين يسرق وهو مؤمن، ولا يشرب الخمر حين يشربها وهو مؤمن".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَسْرِقُ السَّارِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَشْرَبُ الْخَمْرَ حِينَ يَشْرَبُهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زانی مومن رہتے ہوئے زنا نہیں کر سکتا، چوری کرنے والا مومن رہتے ہوئے چوری نہیں کر سکتا، اور نہ شراب پیتے ہوئے جب وہ شراب پیتا ہے مومن رہتا ہے۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 2152]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2475]، [مسلم 57]، [أبوداؤد 4689]، [نسائي 4886]، [مسند أبى يعلی 6299]، [ابن حبان 186]، [الحميدي 1162]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2142)
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ بالا گناہوں کے ارتکاب کے وقت آدمی مومن نہیں رہتا ہے، ایمان اس کے دل سے نکل جاتا ہے، لہٰذا زنا کار، چوری کرنے اور شراب پینے والا اگر مدعیٔ اسلام ہے تو وہ اپنے دعوے میں جھوٹا ہوگا، مسلمان صاحبِ ایمان ایسا کام کر ہی نہیں سکتا، بلکہ اگر کبھی اس سے گناہِ کبیرہ سرزد ہو بھی جائے تو حد درجہ پشیماں ہو کر پھر ہمیشہ کے لئے تائب ہو جاتا ہے اور اپنے گناہ کے لئے استغفار میں منہمک رہتا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
12. باب فِيمَا يُنْبَذُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ:
12. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کون سے برتن میں نبیذ بنائی جاتی تھی؟
حدیث نمبر: 2144
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، عن عبد الملك بن ابي سليمان، عن ابي الزبير، عن جابر، قال:"كان ينتبذ للنبي صلى الله عليه وسلم في السقاء، فإن لم يكن سقاء، نبذ له في تور من برام".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:"كَانَ يُنْتَبَذُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السِّقَاءِ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ سِقَاءٌ، نُبِذَ لَهُ فِي تَوْرٍ مِنْ بِرَامٍ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مشک میں نبیذ بنائی جاتی تھی، اگر مشک (مشکیزہ) نہ ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پتھر کی ہانڈی یا پیالوں میں نبیذ بنائی جاتی تھی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2153]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1999]، [أبوداؤد 3702]، [نسائي 5629]، [ابن ماجه 3400]، [أبويعلی 1769]، [ابن حبان 5387]، [مسند الحميدي 1320]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2143)
نبیذ ایک طرح کا شربت ہے جو کھجور کو بھگو کر بنایا جا تا ہے، رات کو کچھ کھجوریں پانی میں ڈال دی جاتی اور صبح کو نچوڑ کر پی جاتی تھیں، یہ شربت بہت ہی لذیذ اور مغذی و مقوی ہوتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کو پیتے تھے، لیکن اگر یہ نبیذ شراب کے برتن میں بنائی جائے اور دھوپ میں رہے، یا کچھ دن برتن میں پڑا رہنے دیا جائے تو اس میں نشہ ہو جاتا ہے، اس صورت میں نبیذ پینا حرام ہے جب کہ اس میں ابال آنے لگے اور نشہ پیدا ہو جائے۔
ایک حدیث ہے کہ نبیذ میں جوش آجائے تو اسے پتھر پر مار دو، اس کو وہ پئے گا جس کا اللہ اور روزِ قیامت پر ایمان نہ ہوگا۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبیذ کھجور کا شربت پینا جائز ہے بشرطیکہ اس میں نشہ نہ پیدا ہوا ہو، اور یہ نبیذ کسی بھی برتن میں بنائی جا سکتی ہے، چاہے وہ برتن مٹی، پتھر، تانبے وغیرہ کا بنا ہوا ہو۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    1    2    3    4    5    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.