الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
مشروبات کا بیان
حدیث نمبر: 2165
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن الربيع، حدثنا شعبة، عن ابي زياد الطحان، قال: سمعت ابا هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال لرجل رآه يشرب قائما:"قئ". قال: لم؟ قال:"اتحب ان تشرب مع الهر؟"قال: لا، قال:"فقد شرب معك شر منه، الشيطان".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي زِيَادٍ الطَّحَّانِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِرَجُلٍ رَآهُ يَشْرَبُ قَائِمًا:"قِئْ". قَالَ: لِمَ؟ قَالَ:"أَتُحِبُّ أَنْ تَشْرَبَ مَعَ الْهِرِّ؟"قَالَ: لَا، قَالَ:"فَقَدْ شَرِبَ مَعَكَ شَرٌّ مِنْهُ، الشَّيْطَانُ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو کھڑے ہو کر پانی پیتے دیکھا تو فرمایا: قے کر دو، اس نے کہا: کیوں؟ فرمایا: کیا تم پسند کرو گے کہ بلی کے ساتھ پانی پیو؟ عرض کیا: نہیں، فرمایا: تمہارے ساتھ بلی سے زیادہ برے شیطان نے پانی پیا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2174]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أحمد 301/2]، [طحاوي فى مشكل الآثار 19/3] و [ابن ابي شيبه 203/8]۔ نیز دیکھئے: [فتح الباري 8/10]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2163 سے 2165)
اس حدیث میں ہے کہ اس شخص کے ساتھ جو کھڑے ہو کر پانی پی رہا تھا، شیطان نے پانی پیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچشمِ خود ایسا دیکھا تب ہی فرمایا کہ الٹی کر دو، جس طرح تم کسی جانور کیساتھ پانی نہیں پی سکتے تو شیطان لعین کے ساتھ کس طرح پینا پسند کروگے۔
اس میں کھڑے ہوکر پانی پینے پر سخت وعید ہے۔
پچھلے باب میں صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ کھڑے ہوکر پانی پینا درست ہے اور اللہ کے نبی ہادی برحق محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر زمزم کا پانی بھی پیا، اور یہاں اس باب کی احادیث سے کھڑے ہو کر پانی پینے کی ممانعت معلوم ہوئی، تطبیق کی صورت یہ ہے کہ نہی کو تنزیہ پر محمول کیا جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کو اباحت پر محمول کیا جائے، یعنی کبھی کبھار کھڑے ہوکر پی لیا تو کوئی حرج نہیں، بیٹھ کر پینا افضل ہے، ایک ساتھی نے کسی ڈاکٹر کا قول بیان کیا کہ جو لوگ بیٹھ کر پانی پیتے ہیں انہیں سلس البول (پیشاب ٹپکنے) کی بیماری کبھی نہ ہوگی۔
والله اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
25. باب الشُّرْبِ في الْمُفَضَّضِ:
25. چاندی کے برتن سے پینے کا بیان
حدیث نمبر: 2166
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا احمد بن يونس، حدثنا ليث بن سعد، عن نافع، عن زيد بن عبد الله بن عمر، عن عبد الله بن عبد الرحمن بن ابي بكر، عن ام سلمة، انها اخبرته ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: "الذي يشرب في آنية من فضة، فإنما يجرجر في بطنه نار جهنم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "الَّذِي يَشْرَبُ فِي آنِيَةٍ مِنْ فِضَّةٍ، فَإِنَّمَا يُجَرْجِرُ فِي بَطْنِهِ نَارَ جَهَنَّمَ".
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص چاندی کے کسی برتن میں کوئی چیز پیتا ہے وہ اپنے پیٹ میں دوزخ کی آگ بھڑکا رہا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2175]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5634]، [مسلم 2065]، [ابن ماجه 3413]، [أبويعلی 6882]، [ابن حبان 5341]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2165)
«يُجَرْجِرُ» کا مصدر «جَرْجَرَة» ہے جو اونٹ کی آواز پر بولا جاتا ہے، جب اونٹ صیحانی میں چلاتا ہے، پس معلوم ہوا کہ چاندی کے برتن میں پانی پینے والے کے پیٹ میں دوزخ کی آگ اونٹ جیسی آواز پیدا کرے گی۔
«(اَللّٰهُمَّ أَعِذْنَا مِنْهَا، آمين)» (مولانا راز رحمہ اللہ)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2167
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عثمان بن عمر، حدثنا ابن عون، عن مجاهد، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، قال: خرجنا مع حذيفة إلى المدائن فاستسقى، فاتاه دهقان بإناء من فضة، فرمى به وجهه، فقلنا: اسكتوا، فإنا إن سالناه لم يحدثنا، فلما كان بعد، قال: اتدرون لم رميته؟ قلنا: لا، قال إني كنت نهيته، وذكر النبي صلى الله عليه وسلم انه نهى عن الشرب في آنية الذهب والفضة، وعن لبس الحرير والديباج، وقال:"هما لهم في الدنيا، ولكم في الآخرة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ حُذَيْفَةَ إِلَى الْمَدَائِنِ فَاسْتَسْقَى، فَأَتَاهُ دِهْقَانٌ بِإِنَاءٍ مِنْ فِضَّةٍ، فَرَمَى بِهِ وَجْهَهُ، فَقُلْنَا: اسْكُتُوا، فَإِنَّا إِنْ سَأَلْنَاهُ لَمْ يُحَدِّثْنَا، فَلَمَّا كَانَ بَعْدُ، قَالَ: أَتَدْرُونَ لِمَ رَمَيْتُهُ؟ قُلْنَا: لَا، قَالَ إِنِّي كُنْتُ نَهَيْتُهُ، وَذَكَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ نَهَى عَنْ الشُّرْبِ فِي آنِيَةِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، وَعَنْ لُبْسِ الْحَرِيرِ وَالدِّيبَاجِ، وَقَالَ:"هُمَا لَهُمْ فِي الدُّنْيَا، وَلَكُمْ فِي الْآخِرَةِ".
عبدالرحمٰن بن ابی لیلی نے کہا: ہم سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مدائن صالح کی طرف روانہ ہوئے تو انہوں نے (راستے میں) پانی طلب کیا: ایک دیہاتی چاندی کے برتن میں پانی لے کر آیا۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اس کو اس پر پھینک دیا، ہم نے آپس میں کہا: چپ رہو، اگر ہم ان سے اس کی وجہ پوچھیں گے تو بتائیں گے نہیں، کچھ دیر بعد انہوں نے خود کہا: جانتے ہو میں نے کیوں اس پانی کو پھینک دیا؟ ہم نے عرض کیا: نہیں، ہم نہیں جانتے، فرمایا: میں نے اس شخص کو منع کیا تھا اور بتایا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے اور چاندی کے برتن میں پینے سے اور ریشم و دیباج کے پہننے سے منع فرمایا ہے، اور فرمایا کہ یہ چیزیں ان (کفار) کے لئے دنیا میں ہیں اور ہمارے لئے آخرت میں ہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2176]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5426، 5633]، [مسلم 2067]، [أبوداؤد 3723]، [ترمذي 1878]، [ابن ماجه 3414]، [ابن حبان 5339]، [الحميدي 444]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2166)
امام نووی رحمہ اللہ نے کہا: اس پر علمائے کرام کا اجماع ہے کہ سونے اور چاندی کے برتن میں کھانا پینا حرام ہے۔
مذکورہ بالا حدیث میں صرف پینے کا ذکر ہے لیکن سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے ہی صحیحین میں مروی ہے کہ سونے اور چاندی کی پلیٹوں میں مت کھاؤ، اور مسلم شریف میں ہے: جو کوئی کھاتا یا پیتا ہے سونے یا چاندی کے برتن میں وہ اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھڑکا رہا ہے (اعازنا اللہ منہا)۔
اسی حدیث میں سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کی غیرت و حمیت اور سنّت کی مخالفت پر شدید ترین ردِ عمل سے پتہ چلا کہ اگر سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کہیں مخالفت ہو رہی ہو تو غصہ کرنا جائز ہے۔
اس حدیث سے مردوں کے لئے ریشم و دیباج پہننے کی ممانعت بھی معلوم ہوئی، نیز یہ کہ ایسا نرم و نازک پہناوا جنّت میں جنّتی لوگوں کیلئے خاص ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
26. باب في تَخْمِيرِ الإِنَاءِ:
26. برتن کو ڈھانپ کر رکھنے کا بیان
حدیث نمبر: 2168
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو عاصم، عن ابن جريج، عن ابي الزبير، حدثني جابر، قال: حدثني ابو حميد الساعدي، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم بلبن، فقال: "الا خمرته ولو تعرض عليه عودا؟".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، حَدَّثَنِي جَابِرٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو حُمَيْدٍ السَّاعِدِيُّ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَبَنٍ، فَقَالَ: "أَلَا خَمَّرْتَهُ وَلَوْ تَعْرِضُ عَلَيْهِ عُودًا؟".
سیدنا ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دودھ لے کر حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اس (برتن) کو ڈھانپ کر کیوں نہیں لائے؟ اس کے اوپر عرض میں ایک لکڑی ہی رکھ دیتے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2177]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5606]، [مسلم 2010]، [ابن حبان 1270]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2169
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عمرو بن عون، عن خالد، عن سهيل، عن ابيه، عن ابي هريرة، قال:"امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بتغطية الوضوء، وإيكاء السقاء، وإكفاء الإناء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:"أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَغْطِيَةِ الْوَضُوءِ، وَإِيكَاءِ السِّقَاءِ، وَإِكْفَاءِ الْإِنَاءِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی ڈھکنے، اور مشک کو ڈاٹ لگا دینے، اور برتن کو الٹ کر رکھنے کا حکم دیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2178]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن ماجه 3411]، [أحمد 367/2]، [ابن خزيمه 128]، [ابن حبان 1272]۔ نیز اس حدیث کا شاہد صحیحین میں بھی ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3380]، [مسلم 2012]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2167 سے 2169)
ان احادیث سے پانی کے برتن کو ڈھانپ کر رکھنے، اور مشک کو ڈاٹ لگا کر رکھنے، اور برتن کو الٹ کر رکھنے کا حکم معلوم ہوا، اس کے بہت سے فوائد ہیں: کوڑے کرکٹ، حشرات و کیڑے مکوڑوں سے، نیز آسمانی وباء و بلا سے حفاظت ہو جاتی ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ دروازے بند رکھو، چراغ بجھا دو کیونکہ شیطان نہ بند دروازہ کھولتا ہے، نہ ڈھکے ہوئے برتن کو کھولتا ہے، اور اگر ڈھکنے کے لئے کوئی چیز نہ ملے تو الله کا نام لے کر اس پر لکڑی کو آڑا کر کے رکھ دے، یہ سب اسلامی آداب ہیں جو باعثِ خیر و برکت ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
27. باب في النَّهْيِ عَنِ النَّفْخِ في الشَّرَابِ:
27. پینے کی چیز میں پھونک مارنے کا بیان
حدیث نمبر: 2170
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا خالد بن مخلد، حدثنا مالك، عن ايوب بن حبيب، عن ابي المثنى الجهني، قال: قال مروان لابي سعيد الخدري: هل سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ينهى عن النفخ في الشراب؟ قال:"نعم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْمُثَنَّى الْجُهَنِيِّ، قَالَ: قَالَ مَرْوَانُ لِأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيّ: هَلْ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَى عَنْ النَّفْخِ فِي الشَّرَابِ؟ قَالَ:"نَعَمْ".
مروان بن الحکم نے سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پانی میں پھونک مارنے سے منع کرتے تھے؟ فرمایا: ہاں (سنا ہے)۔

تخریج الحدیث: «إسناده قوي، [مكتبه الشامله نمبر: 2179]»
اس حدیث کی سند قوی ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 1887]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي
حدیث نمبر: 2171
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عمرو بن عون، عن ابن عيينة، عن عبد الكريم الجزري، عن عكرمة، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم "نهى عن النفخ في الشراب".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ الْجَزَرِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "نَهَى عَنْ النَّفْخِ فِي الشَّرَابِ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشروب میں پھونکنے سے منع فرمایا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2180]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3728]، [ترمذي 1888]، [ابن ماجه 3428]، [أبويعلی 2402]، [ابن حبان 5316]، [الحميدي 535]، [بغوي فى شرح السنة 3035]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2169 سے 2171)
ان احادیث میں پانی یا کسی اور پینے کی چیز میں پھونک مارنے سے گریز کرنے کا حکم ہے۔
مبادا منہ سے کچھ گرے اور پانی میں پڑ کر اسے ملوث کر دے، جس سے دوسروں کو تکلیف یا نفرت و کراہت ہو۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
28. باب فِي: «سَاقِي الْقَوْمِ آخِرُهُمْ شُرْباً» :
28. ساقی (پلانے والا) سب سے اخیر میں پئے
حدیث نمبر: 2172
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عفان بن مسلم، حدثنا حماد بن سلمة، وسليمان بن المغيرة، عن ثابت، عن عبد الله بن رباح، عن ابي قتادة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ساقي القوم آخرهم شربا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، وَسُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "سَاقِي الْقَوْمِ آخِرُهُمْ شُرْبًا".
سیدنا ابوقتاده رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کو پلانے والا سب کے آخر میں پئے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2181]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 681]، [ابن ماجه 3434]، [ابن حبان 5338]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2171)
اسلامی آداب میں سے ہے کہ جو آدمی دودھ، چائے، شربت یا پانی جو چیز بھی پلائے، ادب کا تقاضہ یہ ہے کہ پینے کی حاجت ہو تو خود سب سے بعد میں پئے، یہ حکم واجب نہیں، ادباً ایسا حکم ہے۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    1    2    3    4    5    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.