الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: قرآن کریم کی قرأت و تلاوت
Chapters on Recitation
حدیث نمبر: 2936
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن حميد الرازي، حدثنا نعيم بن ميسرة النحوي، عن فضيل بن مرزوق، عن عطية العوفي، عن ابن عمر انه: " قرا على النبي صلى الله عليه وسلم خلقكم من ضعف سورة الروم آية 54، فقال: من ضعف ".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا نُعَيْمُ بْنُ مَيْسَرَةَ النَّحْوِيُّ، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ، عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ: " قَرَأَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَلَقَكُمْ مِنْ ضَعْفٍ سورة الروم آية 54، فَقَالَ: مِنْ ضُعْفٍ ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے «خَلَقَكُمْ مِنْ ضَعْفٍ» (ضاد کے فتحہ کے ساتھ) پڑھا تو آپ نے فرمایا: «مِنْ ضَعْفٍ» نہیں «مِنْ ضُعْفٍ» ۱؎ (ضاد کے ضمہ کے ساتھ) پڑھو۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- ہم اسے صرف فضیل بن مرزوق کی روایت سے جانتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الحروف (3978) (تحفة الأشراف: 7334) (حسن)»

وضاحت:
۱؎: یہی مشہور قراءت ہے، اور ضاد کے فتحہ کے ساتھ عاصم اور حمزہ کی قراءت ہے، یعنی ہے: اللہ تعالیٰ وہ ہے جس نے تمہیں کمزوری کی حالت میں پیدا کیا۔ (الروم: ۵۴)

قال الشيخ الألباني: حسن، الروض النضير (530)
حدیث نمبر: 2936M
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا يزيد بن هارون، عن فضيل بن مرزوق، عن عطية، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، نحوه، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، لا نعرفه إلا من حديث فضيل بن مرزوق.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ.
ہم سے عبد بن حمید نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے بیان کیا یزید بن ہارون نے اور یزید بن ہارون نے فضیل بن مرذوق سے کی حدیث روایت کی فضل بن مرذوق نے عطیہ سے اور عطیہ نے ابن عمر کے واسطہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح کی حدیث روایت کی۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن، الروض النضير (530)
5. باب وَمِنْ سُورَةِ الْقَمَرِ
5. باب: سورۃ القمر میں «مدکر» کو دال مہملہ سے پڑھنے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2937
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو احمد الزبيري، حدثنا سفيان، عن ابي إسحاق، عن الاسود بن يزيد، عن عبد الله بن مسعود، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كان يقرا فهل من مدكر سورة القمر آية 15 "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَانَ يَقْرَأُ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ سورة القمر آية 15 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم «فهل من مدكر» ۱؎ پڑھتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/احادیث الأنبیاء 3 (3341)، وتسیر سورة القمر 2 (487
2- 4874)، صحیح مسلم/المسافرین 50 (823)، سنن ابی داود/ الحروف (2994) (تحفة الأشراف: 9179) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہی مشہور قراءت ہے یعنی دال مہملہ کے ساتھ اس کی اصل ہے «مُذْ تَکِر» (بروزن «مُجْتَنِب» تاء کو دال مہملہ سے بدل دیا اور ذال کو دال میں مدغم کر دیا تو «مُدَّکِر» ہو گیا، بعض قراء نے «ُمُذَّکِر» (ذال معجم کے ساتھ) پڑھا ہے بہرحال معنی ہے: پس کیا کوئی ہے نصیحت پکڑنے والا (القمر: ۴۰)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
6. باب وَمِنْ سُورَةِ الْوَاقِعَةِ
6. باب: سورۃ الواقعہ میں «فروح» کو راء کے ضمہ کے ساتھ پڑھنے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2938
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا بشر بن هلال الصواف، حدثنا جعفر بن سليمان الضبعي، عن هارون الاعور، عن بديل بن ميسرة، عن عبد الله بن شقيق، عن عائشة، ان النبي صلى الله عليه وسلم: " كان يقرا فروح وريحان وجنة نعيم سورة الواقعة آية 89 "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، لا نعرفه إلا من حديث هارون الاعور.(مرفوع) حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ الصَّوَّافُ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ، عَنْ هَارُونَ الْأَعْوَرِ، عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَانَ يَقْرَأُ فَرَوْحٌ وَرَيْحَانٌ وَجَنَّةُ نَعِيمٍ سورة الواقعة آية 89 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ هَارُونَ الْأَعْوَرِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم «فروح وريحان وجنة نعيم» ۱؎ پڑھتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- اسے ہم صرف ہارون اعور کی روایت سے ہی جانتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الحروف (3991) (تحفة الأشراف: 16204) (صحیح الإسناد)»

وضاحت:
۱؎: مشہور قراءت «فَرَوحٌ» (راء پر فتحہ کے ساتھ) ہے، یعقوب کی قراءت راء کے ضمہ کے ساتھ ہے، فتحہ کی صورت میں معنی ہے اسے تو راحت ہے اور غذائیں ہیں اور آرام والی جنت ہے، اور ضمہ کی صورت میں معنی ہو گا: اس کی روح پھولوں اور آرام والی جنت میں نکل کر جائیگی (الواقعہ: ۸۹)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
7. باب وَمِنْ سُورَةِ اللَّيْلِ
7. باب: سورۃ اللیل میں «واللیل إذا یغشی والذکر والأنثی» کی قرأت کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2939
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن علقمة، قال: قدمنا الشام فاتانا ابو الدرداء، فقال: " افيكم احد يقرا علي قراءة عبد الله؟ قال: فاشاروا إلي، فقلت: نعم، قال: كيف سمعت عبد الله يقرا هذه الآية والليل إذا يغشى سورة الليل آية 1؟ قال: قلت: سمعته يقرؤها والليل إذا يغشى والذكر والانثى، فقال ابو الدرداء: وانا والله هكذا سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرؤها، وهؤلاء يريدونني ان اقراها وما خلق سورة الليل آية 3 فلا اتابعهم "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وهكذا قراءة عبد الله بن مسعود 0 والليل إذا يغشى والنهار إذا تجلى والذكر والانثى 0.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: قَدِمْنَا الشَّامَ فَأَتَانَا أَبُو الدَّرْدَاءِ، فَقَالَ: " أَفِيكُمْ أَحَدٌ يَقْرَأُ عَلَيَّ قِرَاءَةَ عَبْدِ اللَّهِ؟ قَالَ: فَأَشَارُوا إِلَيَّ، فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: كَيْفَ سَمِعْتَ عَبْدَ اللَّهِ يَقْرَأُ هَذِهِ الْآيَةَ وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى سورة الليل آية 1؟ قَالَ: قُلْتُ: سَمِعْتُهُ يَقْرَؤُهَا وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى، فَقَال أَبُو الدَّرْدَاءِ: وَأَنَا وَاللَّهِ هَكَذَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَؤُهَا، وَهَؤُلَاءِ يُرِيدُونَنِي أَنْ أَقْرَأَهَا وَمَا خَلَقَ سورة الليل آية 3 فَلَا أُتَابِعُهُمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهَكَذَا قِرَاءَةُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ 0 وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى 0.
علقمہ کہتے ہیں کہ ہم شام پہنچے تو ابوالدرواء رضی الله عنہ ہمارے پاس آئے اور کہا: کیا تم میں کوئی شخص ایسا ہے جو عبداللہ بن مسعود کی قرأت کی طرح پر قرأت کرتا ہو؟ تو لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا، میں نے کہا: ہاں، انہوں نے کہا: تم نے یہ آیت «والليل إذا يغشى» عبداللہ بن مسعود کو کیسے پڑھتے ہوئے سنا ہے؟ میں نے کہا: میں نے انہیں «والليل إذا يغشى والذكر والأنثى» ۱؎ پڑھتے ہوئے سنا ہے۔ ابو الدرداء نے کہا: اور میں، قسم اللہ کی، میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ہی پڑھتے ہوئے سنا ہے، اور یہ لوگ چاہتے ہیں کہ میں اسے «وما خلق» پڑھوں (یعنی «وما خلق والذكر والأنثى») تو میں ان کی بات نہ مانوں گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- عبداللہ بن مسعود کی قرأت بھی اسی طرح ہے: «والليل إذا يغشى والنهار إذا تجلى والذكر والأنثى»

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر سورة اللیل 1 (4944)، صحیح مسلم/المسافرین 50 (824) (تحفة الأشراف: 10955) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: مشہور قراءت ہے «والليل إذا يغشى والنهار إذا تجلى وما خلق الذكر والأنثى» حدیث میں مذکور قراءت اس میں مذکور اشخاص ہی کی ہے، ان کے علاوہ اور کسی بھی قاری سے یہ منقول نہیں ہے، عثمان رضی الله عنہ کے قراءت شاید اس کے منسوخ ہو جانے کی خبر پہنچی ہو جو ان مذکورہ اشخاص تک نہیں پہنچی ہو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
8. باب وَمِنْ سُورَةِ الذَّارِيَاتِ
8. باب: سورۃ الذاریات میں «إني أنا الرزاق ذو القوة المتين» پڑھنے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2940
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا عبيد الله بن موسى، عن إسرائيل، عن ابي إسحاق، عن عبد الرحمن بن يزيد، عن عبد الله بن مسعود، قال: " اقراني رسول الله صلى الله عليه وسلم " إني انا الرزاق ذو القوة المتين "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: " أَقْرَأَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " إِنِّي أَنَا الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے «إني أنا الرزاق ذو القوة المتين» پڑھایا ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الحروف (3993) (تحفة الأشراف: 9389) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: جب کہ مشہور قرأت «إن الله هو الرزاق ذو القوة المتين» ہے، یعنی: اللہ تعالیٰ تو خود ہی سب کا روزی رساں توانائی والا اور زور آور ہے (الذاریات: ۵۸)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح المتن
9. باب وَمِنْ سُورَةِ الْحَجِّ
9. باب: سورۃ الحج میں «وترى الناس سكارى وما هم بسكارى» کی قرأت کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2941
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو زرعة، والفضل بن ابي طالب، وغير واحد، قالوا: حدثنا الحسن بن بشر، عن الحكم بن عبد الملك، عن قتادة، عن عمران بن حصين، ان النبي صلى الله عليه وسلم: " قرا وترى الناس سكارى وما هم بسكارى سورة الحج آية 2 "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، ولا نعرف لقتادة سماعا من احد من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم إلا من انس، وابي الطفيل، وهذا عندي حديث مختصر، إنما يروى عن قتادة، عن الحسن، عن عمران بن حصين، قال: " كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في السفر فقرا يايها الناس اتقوا ربكم سورة الحج آية 1 "، الحديث بطوله، وحديث الحكم بن عبد الملك عندي مختصر من هذا الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو زُرْعَةَ، وَالْفَضْلُ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ بِشْرٍ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَرَأَ وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَى وَمَا هُمْ بِسُكَارَى سورة الحج آية 2 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَلَا نَعْرِفُ لِقَتَادَةَ سَمَاعًا مِنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا مِنْ أَنَسٍ، وَأَبِي الطُّفَيْلِ، وَهَذَا عِنْدِي حَدِيثٌ مُخْتَصَرٌ، إِنَّمَا يُرْوَى عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: " كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السَّفَرٍ فَقَرَأَ يَأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ سورة الحج آية 1 "، الْحَدِيثَ بِطُولِهِ، وَحَدِيثُ الْحَكَمِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ عِنْدِي مُخْتَصَرٌ مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ.
عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا: «وترى الناس سكارى وما هم بسكارى» ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- قتادہ صحابہ میں سے انس ابوطفیل کے علاوہ کسی اور صحابی سے ہم سماع نہیں جانتے،
۳- یہ روایت میرے نزدیک مختصر ہے۔ پوری روایت اس طرح ہے: روایت کی گئی قتادہ سے، قتادہ نے روایت کی حسن بصری سے، اور حسن بصری نے روایت کی عمران بن حصین سے، ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے تو آپ نے آیت «يا أيها الناس اتقوا ربكم» ۲؎ پڑھی، (آگے) پوری حدیث بیان کی،
۴- حکم بن عبدالملک کی حدیث میرے نزدیک اس حدیث سے مختصر ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10837) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہی مشہور قراءت ہے، جس کے معنی ہیں: اور تو دیکھے گا کہ لوگ مدہوش اور بدمست دکھائی دیں گے، حالانکہ درحقیقت وہ متوالے نہ ہوں گے، لیکن اللہ کا عذاب بڑا ہی سخت ہے، بعض اور قاریوں نے اسے «سَکْرَی» پڑھا ہے۔
۲؎: الحج: ۱۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
10. باب مِنْهُ
10. باب:۔۔۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2942
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود، قال: انبانا شعبة، عن منصور، قال: سمعت ابا وائل، عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " بئسما لاحدهم او لاحدكم ان يقول: نسيت آية كيت وكيت بل هو نسي، فاستذكروا القرآن، فوالذي نفسي بيده لهو اشد تفصيا من صدور الرجال من النعم من عقله "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " بِئْسَمَا لِأَحَدِهِمْ أَوْ لِأَحَدِكُمْ أَنْ يَقُولَ: نَسِيتُ آيَةَ كَيْتَ وَكَيْتَ بَلْ هُوَ نُسِّيَ، فَاسْتَذْكِرُوا الْقُرْآنَ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَهُوَ أَشَدُّ تَفَصِّيًا مِنْ صُدُورِ الرِّجَالِ مِنَ النَّعَمِ مِنْ عُقُلِهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان میں سے یا تم میں سے کسی کے لیے یہ کہنا برا ہے کہ میں فلاں فلاں آیت بھول گیا، بلکہ یہ کہو کہ وہ بھلا دیا گیا ۱؎ تم قرآن یاد کرتے دھراتے رہو، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! قرآن لوگوں کے سینوں سے نکل بھاگنے میں چوپایوں کے اپنی رسی سے نکل بھاگنے کی بہ نسبت زیادہ تیز ہے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/فضائل القرآن 23 (5032)، و 26 (5039)، صحیح مسلم/المسافرین 33 (790)، سنن النسائی/الافتتاح 37 (944) (تحفة الأشراف: 9295)، و مسند احمد (1/382، 417، 423، 463439)، وسنن الدارمی/فضائل القرآن 4 (3390)، والرقاق 32 (2787) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ ممانعت نہی تحریمی نہیں ہے، بلکہ نہی تنزیہی ہے یعنی: ایسا نہیں کہنا چاہیئے کیونکہ اس سے اپنی سستی اور قرآن سے غفلت کا خود ہی اظہار ہے، یا یہ مطلب ہے کہ ایسا موقع ہی نہ آنے دے کہ یہ بات کہنے کی نوبت آئے بعض روایات میں میں بھول گیا کہنا بھی ملتا ہے، اس لیے مذکورہ ممانعت نہی تنزیہی پر محمول کی گئی ہے۔ یعنی ایسا نہ کرنا زیادہ بہتر ہے۔
۲؎: معلوم ہوا کہ قرآن کو باربار پڑھتے اور دہراتے رہنا چاہیئے، کیونکہ قرآن جس طرح جلد یاد ہوتا ہے اسی طرح جلد ذہن سے نکل جاتا ہے، اس لیے قرآن کوبار بار پڑھنا اور اس کا دہرانا ضروری ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الظلال (422)
11. باب مَا جَاءَ أُنْزِلَ الْقُرْآنُ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ
11. باب: قرآن سات حرفوں پر نازل کیا گیا ہے۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2943
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي الخلال، وغير واحد، قالوا: حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن الزهري، عن عروة بن الزبير، عن المسور بن مخرمة، وعبد الرحمن بن عبد القاري اخبراه، انهما سمعا عمر بن الخطاب، يقول: مررت بهشام بن حكيم بن حزام وهو يقرا سورة الفرقان في حياة رسول الله صلى الله عليه وسلم فاستمعت قراءته، فإذا هو يقرا على حروف كثيرة، لم يقرئنيها رسول الله صلى الله عليه وسلم فكدت اساوره في الصلاة، فنظرت حتى سلم فلما سلم لببته بردائه، فقلت: من اقراك هذه السورة التي سمعتك تقرؤها؟ فقال: اقرانيها رسول الله صلى الله عليه وسلم، قلت له: كذبت، والله إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لهو اقراني هذه السورة التي تقرؤها، فانطلقت اقوده إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، إني سمعت هذا يقرا سورة الفرقان على حروف لم تقرئنيها وانت اقراتني سورة الفرقان، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " ارسله يا عمر، اقرا يا هشام "، فقرا عليه القراءة التي سمعت، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " هكذا انزلت "، ثم قال لي النبي صلى الله عليه وسلم: " اقرا يا عمر "، فقرات بالقراءة التي اقراني النبي صلى الله عليه وسلم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " هكذا انزلت، ثم قال النبي صلى الله عليه وسلم: إن هذا القرآن انزل على سبعة احرف فاقرءوا ما تيسر منه "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد روى مالك بن انس، عن الزهري بهذا الإسناد نحوه، إلا انه لم يذكر فيه المسور بن مخرمة.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ أَخْبَرَاهُ، أَنَّهُمَا سَمِعَا عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، يَقُولُ: مَرَرْتُ بِهِشَامِ بْنِ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ وَهُوَ يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَمَعْتُ قِرَاءَتَهُ، فَإِذَا هُوَ يَقْرَأُ عَلَى حُرُوفٍ كَثِيرَةٍ، لَمْ يُقْرِئْنِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكِدْتُ أُسَاوِرُهُ فِي الصَّلَاةِ، فَنَظَرْتُ حَتَّى سَلَّمَ فَلَمَّا سَلَّمَ لَبَّبْتُهُ بِرِدَائِهِ، فَقُلْتُ: مَنْ أَقْرَأَكَ هَذِهِ السُّورَةَ الَّتِي سَمِعْتُكَ تَقْرَؤُهَا؟ فَقَالَ: أَقْرَأَنِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ لَهُ: كَذَبْتَ، وَاللَّهِ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُوَ أَقْرَأَنِي هَذِهِ السُّورَةَ الَّتِي تَقْرَؤُهَا، فَانْطَلَقْتُ أَقُودُهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي سَمِعْتُ هَذَا يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ عَلَى حُرُوفٍ لَمْ تُقْرِئْنِيهَا وَأَنْتَ أَقْرَأْتَنِي سُورَةَ الْفُرْقَانِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَرْسِلْهُ يَا عُمَرُ، اقْرَأْ يَا هِشَامُ "، فَقَرَأَ عَلَيْهِ الْقِرَاءَةَ الَّتِي سَمِعْتُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَكَذَا أُنْزِلَتْ "، ثُمَّ قَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اقْرَأْ يَا عُمَرُ "، فَقَرَأْتُ بِالْقِرَاءَةِ الَّتِي أَقْرَأَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَكَذَا أُنْزِلَتْ، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَى مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ، إِلَّا أَنَّهُ لَمْ يَذْكُرْ فِيهِ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ.
مسور بن مخرمہ رضی الله عنہ اور عبدالرحمٰن بن عبدالقاری سے روایت ہے کہ ان دونوں نے عمر بن خطاب رضی الله عنہ کو کہتے ہوئے سنا ہے: میں ہشام بن حکیم بن حزام کے پاس سے گزرا، وہ سورۃ الفرقان پڑھ رہے تھے۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ تھے، میں نے ان کی قرأت سنی، وہ ایسے حرفوں پر پڑھ رہے تھے، جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پڑھایا ہی نہ تھا۔ قریب تھا کہ میں ان پر حملہ کر دیتا مگر میں نے انہیں (نماز پڑھ لینے تک کی) مہلت دی۔ جونہی انہوں نے سلام پھیرا میں نے ان کو انہیں کی چادر ان کے گلے میں ڈال کر گھسیٹا، میں نے ان سے پوچھا: یہ سورۃ جسے میں نے تمہیں ابھی پڑھتے ہوئے سنا ہے، تمہیں کس نے پڑھائی ہے؟ کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائی ہے۔ میں نے کہا: تم غلط کہتے ہو، قسم اللہ کی! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی مجھے یہ سورۃ پڑھائی جو تم پڑھ رہے تھے ۱؎، میں انہیں کھینچتا ہوا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گیا۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے انہیں سورۃ الفرقان ایسے حرفوں (طریقوں) پر پڑھتے ہوئے سنا ہے جن پر آپ نے مجھے پڑھنا نہیں سکھایا ہے جب کہ آپ ہی نے مجھے سورۃ الفرقان پڑھایا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمر! انہیں چھوڑ دو، ہشام! تم پڑھو۔ تو انہوں نے وہی قرأت کی جو میں نے ان سے سنی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، ایسی ہی نازل ہوئی ہے۔ پھر مجھ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمر! تم پڑھو، تو میں نے اسی طرح پڑھا جس طرح آپ نے مجھے پڑھایا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اسی طرح نازل کی گئی ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ قرآن سات حرفوں پر اتارا گیا ہے ۲؎، تو جو قرأت تمہیں آسان لگے اسی قرأت پر تم قرآن پڑھو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- مالک بن انس نے زہری سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح روایت کی ہے، لیکن انہوں نے اپنی روایت میں مسور بن مخرمہ کا ذکر نہیں کیا۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الخصومات 4 (2419)، وفضائل القرآن 5 (4992)، و 27 (5041)، والمرتدین 9 (6936)، والتوحید 53 (7550)، صحیح مسلم/المسافرین 48 (818)، سنن ابی داود/ الصلاة 357 (1475)، سنن النسائی/الإفتتاح 37 (937-939) (تحفة الأشراف: 10591 و10642)، وط/القرآن 4 (5) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: لیکن جس طرح تم پڑھ رہے تھے اس طرح مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں پڑھایا، اس لیے تم غلط گو ہو۔
۲؎: سات حرفوں پر قرآن کے نازل ہونے کے مطلب میں علماء کے بہت سے اقوال ہیں، لیکن سب سے راجح مطلب یہ ہے کہ ایک ہی لفظ کی ادائیگی (لہجہ) یا اس کے ہم معنی دوسرے لفظ کا استعمال مراد ہے جیسے بعض قبائل «حَتّٰی حِیْنَ» کو عین سے «عتّٰی حِیْنَ» پڑھتے تھے، اور جیسے «سُکٰریٰ» کو «سَکْرٰی» یا «سکر» پڑھتے تھے وغیرہ وغیرہ تو جس قبیلے کا جس لفظ میں جو لہجہ تھا اس کو پڑھنے کی اجازت دیدی گئی تاکہ قرآن پڑھنے میں لوگوں کو آسانی ہو، لیکن اس کا معنی یہ بھی نہیں ہے کہ قرآن کے ہر لفظ میں سات لہجے یا طریقے ہیں، کسی میں دو، کسی میں چار، اور شاذ و نادر کسی میں سات لہجے ہیں، زیادہ تر میں صرف ایک ہی لہجہ ہے، عثمان رضی الله عنہ نے سب ختم کر کے ایک لہجہ یعنی قریش کی زبان پر قرآن کو جمع کر کے باقی سب کو ختم کرا دیا تھا، تاکہ اب اس طرح کا جھگڑا ہی نہ ہو، «فجزاہ اللہ عن الاسلام خیراً» ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (1325)
حدیث نمبر: 2944
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا الحسن بن موسى، حدثنا شيبان، عن عاصم، عن زر بن حبيش، عن ابي بن كعب، قال: لقي رسول الله صلى الله عليه وسلم جبريل فقال: " يا جبريل، إني بعثت إلى امة اميين، منهم العجوز والشيخ الكبير، والغلام والجارية والرجل الذي لم يقرا كتابا قط، قال: " يا محمد، إن القرآن انزل على سبعة احرف " وفي الباب، عن عمر، وحذيفة بن اليمان، وابي هريرة، وام ايوب وهي امراة ابي ايوب الانصاري، وسمرة، وابن عباس، وابي جهيم بن الحارث بن الصمة، وعمرو بن العاص، وابي بكرة، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد روي عن ابي بن كعب من غير وجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: لَقِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جِبْرِيلَ فَقَالَ: " يَا جِبْرِيلُ، إِنِّي بُعِثْتُ إِلَى أُمَّةٍ أُمِّيِّينَ، مِنْهُمُ الْعَجُوزُ وَالشَّيْخُ الْكَبِيرُ، وَالْغُلَامُ وَالْجَارِيَةُ وَالرَّجُلُ الَّذِي لَمْ يَقْرَأْ كِتَابًا قَطُّ، قَالَ: " يَا مُحَمَّدُ، إِنَّ الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ " وَفِي الْبَابِ، عَنْ عُمَرَ، وَحُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأُمِّ أَيُّوبَ وَهِيَ امْرَأَةُ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ، وَسَمُرَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي جُهَيْمِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ الصِّمَّةِ، وَعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، وَأَبِي بَكْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ.
ابی بن کعب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جبرائیل علیہ السلام سے ملے۔ آپ نے فرمایا: جبرائیل! میں ایک امی (ان پڑھ) قوم کے پاس نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں، ان میں بوڑھی عورتیں اور بوڑھے مرد ہیں، لڑکے اور لڑکیاں ہیں، ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے کبھی کوئی کتاب پڑھی ہی نہیں ہے تو جبرائیل علیہ السلام نے کہا: محمد! قرآن سات حرفوں پر نازل ہوا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عمر، حذیفہ بن یمان، ابوہریرہ، اور ام ایوب رضی الله عنہم ام ایوب (ابوایوب انصاری کی بیوی)۔ اور سمرہ، ابن عباس، ابوجہیم بن حارث بن صمہ، عمرو بن العاص اور ابوبکرہ رضی الله عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- ابی بن کعب سے یہ حدیث متعدد سندوں سے مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 20)، وانظر: مسند احمد (5/114، 122، 125) (حسن صحیح)»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، صحيح أبي داود (1328)

Previous    1    2    3    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.