الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: تقدیر کے احکام و مسائل
Chapters On Al-Qadar
12. باب مَا جَاءَ لاَ تَرُدُّ الرُّقَى وَلاَ الدَّوَاءُ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ شَيْئًا
12. باب: جھاڑ پھونک اور دوا، اللہ کی تقدیر میں سے کچھ بھی رد نہیں کر سکتی۔
حدیث نمبر: 2148
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا سعيد بن عبد الرحمن المخزومي، حدثنا سفيان بن عيينة، عن الزهري، عن ابن ابي خزامة، عن ابيه، ان رجلا اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، ارايت رقى نسترقيها، ودواء نتداوى به، وتقاة نتقيها، هل ترد من قدر الله شيئا؟ فقال: " هي من قدر الله "، قال ابو عيسى: هذا حديث لا نعرفه إلا من حديث الزهري، وقد روى غير واحد هذا، عن سفيان، عن الزهري، عن ابي خزامة، عن ابيه، وهذا اصح، هكذا قال غير واحد، عن الزهري، عن ابي خزامة، عن ابيه.(مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ ابْنِ أَبِي خُزَامَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ رُقًى نَسْتَرْقِيهَا، وَدَوَاءً نَتَدَاوَى بِهِ، وَتُقَاةً نَتَّقِيهَا، هَلْ تَرُدُّ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ شَيْئًا؟ فَقَالَ: " هِيَ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ، وَقَدْ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي خُزَامَةَ، عَنْ أَبِيهِ، وَهَذَا أَصَحُّ، هَكَذَا قَالَ غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي خُزَامَةَ، عَنْ أَبِيهِ.
ابوخزامہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی نے آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ دم جن سے ہم جھاڑ پھونک کرتے ہیں، دوائیں جن سے علاج کرتے ہیں اور بچاؤ کی چیزیں جن سے بچاؤ کرتے ہیں، آپ بتائیے کیا یہ اللہ کی تقدیر میں سے کچھ لوٹا سکتی ہیں؟ آپ نے فرمایا: یہ سب بھی تو اللہ کی تقدیر سے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
ہم اس حدیث کو صرف زہری کی روایت سے جانتے ہیں، کئی لوگوں نے یہ حدیث «عن سفيان عن الزهري عن أبي خزامة عن أبيه» کی سند سے روایت کی ہے، یہ زیادہ صحیح ہے۔ اسی طرح کئی لوگوں نے «عن الزهري عن أبي خزامة عن أبيه» کی سند سے روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2065) (ضعیف)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف مضى (2066) // 359 / 2159 //
13. باب مَا جَاءَ فِي الْقَدَرِيَّةِ
13. باب: فرقئہ قدریہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 2149
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا واصل بن عبد الاعلى الكوفي، حدثنا محمد بن فضيل، عن القاسم بن حبيب، وعلي بن نزار، عن نزار، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " صنفان من امتي ليس لهما في الإسلام نصيب: المرجئة، والقدرية "، قال ابو عيسى: وفي الباب عن عمر، وابن عمر، ورافع بن خديج، وهذا حديث حسن غريب صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ حَبِيبٍ، وَعَلِيّ بْنِ نِزَارٍ، عَنْ نِزَارٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " صِنْفَانِ مِنْ أُمَّتِي لَيْسَ لَهُمَا فِي الْإِسْلَامِ نَصِيبٌ: الْمُرْجِئَةُ، وَالْقَدَرِيَّةُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ عُمَرَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے دو قسم کے لوگوں کے لیے اسلام میں کوئی حصہ نہیں ہے: (۱) مرجئہ (۲) قدریہ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،
۲- اس باب میں عمر، ابن عمر اور رافع بن خدیج رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المدقدمة 9 (73) (تحفة الأشراف: 6222) (ضعیف) (سند میں ”نزار بن حیان اسدی“ ضعیف ہیں)»

وضاحت:
۱؎: مرجئہ: باطل اور گمراہ فرقوں میں سے ایک فرقہ ہے جو یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ بندہ کو اپنے افعال کے سلسلہ میں کچھ بھی اختیار حاصل نہیں، جمادات کی طرح وہ مجبور محض ہے ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ جس طرح کفر کے ساتھ اطاعت و فرمانبرداری کچھ بھی مفید نہیں اسی طرح ایمان کے ساتھ معصیت ذرہ برابر نقصان دہ نہیں۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (105)، الظلال (334 و 335) // يعني كتاب " السنة " لابن أبي عاصم طبع المكتب الإسلامي، وضعيف الجامع الصغير (3498) //
حدیث نمبر: 2149M
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن رافع، حدثنا محمد بن بشر، حدثنا سلام بن ابي عمرة، عن عكرمة، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا سَلَّامُ بْنُ أَبِي عَمْرَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
اس سند سے بھی عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف: 6132) (ضعیف) (سند میں ”سلام بن ابی عمرہ“ ضعیف ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (105)، الظلال (334 و 335) // يعني كتاب " السنة " لابن أبي عاصم طبع المكتب الإسلامي، وضعيف الجامع الصغير (3498) //
حدیث نمبر: 2149M
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) قال محمد بن رافع، وحدثنا محمد بن بشر، حدثنا علي بن نزار، عن نزار، عن عكرمة، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه.(مرفوع) قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ نِزَارٍ، عَنْ نِزَارٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ.
اس سند بھی ابن عباس رضی الله عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2149 (ضعیف)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (105)، الظلال (334 و 335) // يعني كتاب " السنة " لابن أبي عاصم طبع المكتب الإسلامي، وضعيف الجامع الصغير (3498) //
14. باب
14. باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 2150
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو هريرة محمد بن فراس البصري، حدثنا ابو قتيبة سلم بن قتيبة، حدثنا ابو العوام، عن قتادة، عن مطرف بن عبد الله بن الشخير، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " مثل ابن آدم وإلى جنبه تسع وتسعون منية إن اخطاته المنايا وقع في الهرم حتى يموت "، قال ابو عيسى: وهذا حديث حسن غريب، لا نعرفه إلا من هذا الوجه، وابو العوام هو عمران، وهو ابن داور القطان.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ مُحَمَّدُ بْنُ فِرَاسٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو الْعَوَّامِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ، عَنِ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مُثِّلَ ابْنُ آدَمَ وَإِلَى جَنْبِهِ تِسْعٌ وَتِسْعُونَ مَنِيَّةً إِنْ أَخْطَأَتْهُ الْمَنَايَا وَقَعَ فِي الْهَرَمِ حَتَّى يَمُوتَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَأَبُو الْعَوَّامِ هُوَ عِمْرَانُ، وَهُوَ ابْنُ دَاوَرَ الْقَطَّانُ.
عبداللہ بن شخیر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابن آدم کی مثال ایسی ہے کہ اس کے پہلو میں ننانوے آفتیں ہیں اگر وہ ان آفتوں سے بچ گیا تو بڑھاپے میں گرفتار ہو جائے گا یہاں تک کہ اسے موت آ جائے گی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5352) (حسن)»

وضاحت:
۱؎: مفہوم یہ ہے کہ انسان پیدائش سے لے کر بڑھاپے تک مختلف قسم کے آفات و مصائب سے گھرا ہوا ہے، اگر وہ ان آفات سے کسی طرح بچ نکلا تو بڑھاپے جیسی آفت سے وہ نہیں بچ سکے گا، اور بالآخر موت اسے آ دبوچے گی گویا یہ دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے سبز و سنہرا باغ ہے، اسی لیے مومن کو اللہ کے ہر فیصلہ پر صبر کرنا چاہیئے، اور اللہ نے اس کے لیے جو کچھ مقدر کر رکھا ہے اس پر راضی رہنا چاہیئے۔

قال الشيخ الألباني: حسن، المشكاة (1569)
15. باب مَا جَاءَ فِي الرِّضَا بِالْقَضَاءِ
15. باب: اللہ کے فیصلہ پر راضی ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2151
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابو عامر، عن محمد بن ابي حميد، عن إسماعيل بن محمد بن سعد بن ابي وقاص، عن ابيه، عن سعد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من سعادة ابن آدم رضاه بما قضى الله له، ومن شقاوة ابن آدم، تركه استخارة الله، ومن شقاوة ابن آدم، سخطه بما قضى الله له "، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، لا نعرفه إلا من حديث محمد بن ابي حميد، ويقال له ايضا: حماد بن ابي حميد، وهو ابو إبراهيم المدني وليس هو بالقوي عند اهل الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي حُمَيْدٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَعْدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مِنْ سَعَادَةِ ابْنِ آدَمَ رِضَاهُ بِمَا قَضَى اللَّهُ لَهُ، وَمِنْ شَقَاوَةِ ابْنِ آدَمَ، تَرْكُهُ اسْتِخَارَةَ اللَّهِ، وَمِنْ شَقَاوَةِ ابْنِ آدَمَ، سَخَطُهُ بِمَا قَضَى اللَّهُ لَهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي حُمَيْدٍ، وَيُقَالُ لَهُ أَيْضًا: حَمَّادُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ، وَهُوَ أَبُو إِبْرَاهِيمَ الْمَدَنِيُّ وَلَيْسَ هُوَ بِالْقَوِيِّ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ.
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے فیصلے پر راضی ہونا ابن آدم کی سعادت (نیک بختی) ہے، اللہ سے خیر طلب نہ کرنا ابن آدم کی شقاوت (بدبختی) ہے اور اللہ کے فیصلے پر ناراض ہونا ابن آدم کی شقاوت (بدبختی) ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- ہم اسے صرف محمد بن ابی حمید کی روایت سے جانتے ہیں، انہیں حماد بن ابی حمید بھی کہا جاتا ہے، ان کی کنیت ابوابراہیم ہے، اور مدینہ کے رہنے والے ہیں، یہ محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3934) (ضعیف) (سند میں ”محمد بن أبی حمید“ ضعیف ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (1800)، التعليق الرغيب (1 / 244) // ضعيف الجامع الصغير (5300) //
16. باب
16. باب: قدریہ سے متعلق ایک اور باب۔
حدیث نمبر: 2152
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابو عاصم، حدثنا حيوة بن شريح، اخبرني ابو صخر، قال: حدثني نافع، ان ابن عمر جاءه رجل، فقال: إن فلانا يقرا عليك السلام، فقال له: إنه بلغني انه قد احدث، فإن كان قد احدث، فلا تقرئه مني السلام، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " يكون في هذه الامة او في امتي الشك منه خسف او مسخ او قذف في اهل القدر "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب، وابو صخر اسمه حميد بن زياد.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو صَخْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ جَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنَّ فُلَانًا يَقْرَأُ عَلَيْكَ السَّلَامَ، فَقَالَ لَهُ: إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّهُ قَدْ أَحْدَثَ، فَإِنْ كَانَ قَدْ أَحْدَثَ، فَلَا تُقْرِئْهُ مِنِّي السَّلَامَ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " يَكُونُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ أَوْ فِي أُمَّتِي الشَّكُّ مِنْهُ خَسْفٌ أَوْ مَسْخٌ أَوْ قَذْفٌ فِي أَهْلِ الْقَدَرِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَأَبُو صَخْرٍ اسْمُهُ حُمَيْدُ بْنُ زِيَادٍ.
نافع کا بیان ہے کہ ابن عمر رضی الله عنہما کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا: فلاں شخص نے آپ کو سلام عرض کیا ہے، اس سے ابن عمر رضی الله عنہما نے کہا: مجھے خبر ملی ہے کہ اس نے دین میں نیا عقیدہ ایجاد کیا ہے، اگر اس نے دین میں نیا عقیدہ ایجاد کیا ہے تو اسے میرا سلام نہ پہنچانا، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: اس امت میں یا میری امت میں، (یہ شک راوی کی طرف سے ہوا ہے) تقدیر کا انکار کرنے والوں پر «خسف»، «مسخ» یا «قذف» کا عذاب ہو گا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،
۲- ابوصخر کا نام حمید بن زیاد ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الفتن 29 (4061) (تحفة الأشراف: 7651) (حسن)»

وضاحت:
۱؎: «خسف»: زمین میں دھنسانے، «مسخ»: صورتیں تبدیل کرنے اور «قذف»: پتھروں کے عذاب کو کہتے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (4061)
حدیث نمبر: 2153
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا رشدين بن سعد، عن ابي صخر حميد بن زياد، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم: " يكون في امتي خسف ومسخ، وذلك في المكذبين بالقدر ".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي صَخْرٍ حُمَيْدِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَكُونُ فِي أُمَّتِي خَسْفٌ وَمَسْخٌ، وَذَلِكَ فِي الْمُكَذِّبِينَ بِالْقَدَرِ ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت میں «خسف» اور «مسخ» کا عذاب ہو گا اور یہ عذاب تقدیر کے جھٹلانے والوں پر آئے گا۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (حسن)»
17. باب
17. باب: تقدیر سے متعلق ایک اور باب۔
حدیث نمبر: 2154
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا عبد الرحمن بن زيد بن ابي الموالي المزني، عن عبيد الله بن عبد الرحمن بن موهب، عن عمرة، عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ستة لعنتهم ولعنهم الله وكل نبي كان: الزائد في كتاب الله، والمكذب بقدر الله، والمتسلط بالجبروت ليعز بذلك من اذل الله، ويذل من اعز الله، والمستحل لحرم الله، والمستحل من عترتي ما حرم الله، والتارك لسنتي "، قال ابو عيسى: هكذا روى عبد الرحمن بن ابي الموالي هذا الحديث، عن عبيد الله بن عبد الرحمن بن موهب، عن عمرة، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، ورواه سفيان الثوري، وحفص بن غياث، وغير واحد، عن عبيد الله بن عبد الرحمن بن موهب، عن علي بن حسين، عن النبي صلى الله عليه وسلم، مرسلا وهذا اصح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَبِي الْمَوَالِي الْمُزَنِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَوْهَبٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " سِتَّةٌ لَعَنْتُهُمْ وَلَعَنَهُمُ اللَّهُ وَكُلُّ نَبِيٍّ كَانَ: الزَّائِدُ فِي كِتَابِ اللَّهِ، وَالْمُكَذِّبُ بِقَدَرِ اللَّهِ، وَالْمُتَسَلِّطُ بِالْجَبَرُوتِ لِيُعِزَّ بِذَلِكَ مَنْ أَذَلَّ اللَّهُ، وَيُذِلَّ مَنْ أَعَزَّ اللَّهُ، وَالْمُسْتَحِلُّ لِحَرَمِ اللَّهِ، وَالْمُسْتَحِلُّ مِنْ عِتْرَتِي مَا حَرَّمَ اللَّهُ، وَالتَّارِكُ لِسُنَّتِي "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَكَذَا رَوَى عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الْمَوَالِي هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَوْهَبٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَوَاهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَحَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَوْهَبٍ، عَنِ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مُرْسَلًا وَهَذَا أَصَحُّ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چھ قسم کے لوگ ایسے ہیں جن پر میں نے، اللہ تعالیٰ نے اور تمام انبیاء نے لعنت بھیجی ہے: اللہ کی کتاب میں اضافہ کرنے والا، اللہ کی تقدیر کو جھٹلانے والا، طاقت کے ذریعہ غلبہ حاصل کرنے والا تاکہ اس کے ذریعہ اسے عزت دے جسے اللہ نے ذلیل کیا ہے، اور اسے ذلیل کرے جسے اللہ نے عزت بخشی ہے، اللہ کی محرمات کو حلال سمجھنے والا، میرے کنبہ میں سے اللہ کی محرمات کو حلال سمجھنے والا اور میری سنت ترک کرنے والا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
عبدالرحمٰن بن ابوموالی نے یہ حدیث اسی طرح «عن عبيد الله ابن عبدالرحمٰن بن موهب عن عمرة عن عائشة عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے روایت کی ہے۔ سفیان ثوری، حفص بن غیاث اور کئی لوگوں نے اسے «عن عبيد الله بن عبدالرحمٰن بن موهب عن علي بن حسين عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے مرسلاً روایت کیا ہے۔ یہ زیادہ صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (لم یذکرہ المزي ولایوجد في أکثر نسخ الترمذي و شروح الجامع) (ضعیف) (سند میں ”عبید اللہ بن عبد الرحمن“ ضعیف ہیں)»
حدیث نمبر: 2155
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(قدسي) حدثنا يحيى بن موسى، حدثنا ابو داود الطيالسي، حدثنا عبد الواحد بن سليم، قال: قدمت مكة فلقيت عطاء بن ابي رباح، فقلت له: يا ابا محمد، إن اهل البصرة يقولون في القدر، قال: يا بني، اتقرا القرآن؟ قلت: نعم، قال: فاقرإ الزخرف، قال: فقرات حم {1} والكتاب المبين {2} إنا جعلناه قرءانا عربيا لعلكم تعقلون {3} وإنه في ام الكتاب لدينا لعلي حكيم {4} سورة الزخرف آية 1-4، فقال: اتدري ما ام الكتاب؟ قلت: الله ورسوله اعلم، قال: فإنه كتاب كتبه الله قبل ان يخلق السماوات، وقبل ان يخلق الارض فيه إن فرعون من اهل النار وفيه تبت يدا ابي لهب وتب، قال عطاء: فلقيت الوليد بن عبادة بن الصامت صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسالته ما كان وصية ابيك عند الموت، قال: دعاني ابي، فقال لي: يا بني، اتق الله واعلم انك لن تتقي الله حتى تؤمن بالله، وتؤمن بالقدر كله خيره وشره، فإن مت على غير هذا دخلت النار، إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إن اول ما خلق الله القلم، فقال: اكتب، فقال: ما اكتب؟ قال: اكتب القدر ما كان، وما هو كائن إلى الابد "، قال ابو عيسى: وهذا حديث غريب من هذا الوجه.(قدسي) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ سُلَيْمٍ، قَالَ: قَدِمْتُ مَكَّةَ فَلَقِيتُ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ، فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَبَا مُحَمَّدٍ، إِنَّ أَهْلَ الْبَصْرَةِ يَقُولُونَ فِي الْقَدَرِ، قَالَ: يَا بُنَيَّ، أَتَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَاقْرَإِ الزُّخْرُفَ، قَالَ: فَقَرَأْتُ حم {1} وَالْكِتَابِ الْمُبِينِ {2} إِنَّا جَعَلْنَاهُ قُرْءَانًا عَرَبِيًّا لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ {3} وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ لَدَيْنَا لَعَلِيٌّ حَكِيمٌ {4} سورة الزخرف آية 1-4، فَقَالَ: أَتَدْرِي مَا أُمُّ الْكِتَابِ؟ قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّهُ كِتَابٌ كَتَبَهُ اللَّهُ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَاوَاتِ، وَقَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ الْأَرْضَ فِيهِ إِنَّ فِرْعَوْنَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ وَفِيهِ تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ، قَالَ عَطَاءٌ: فَلَقِيتُ الْوَلِيدَ بْنَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ صَاحِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلْتُهُ مَا كَانَ وَصِيَّةُ أَبِيكَ عِنْدَ الْمَوْتِ، قَالَ: دَعَانِي أَبِي، فَقَالَ لِي: يَا بُنَيَّ، اتَّقِ اللَّهَ وَاعْلَمْ أَنَّكَ لَنْ تَتَّقِيَ اللَّهَ حَتَّى تُؤْمِنَ بِاللَّهِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ كُلِّهِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ، فَإِنْ مُتَّ عَلَى غَيْرِ هَذَا دَخَلْتَ النَّارَ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّهُ الْقَلَمَ، فَقَالَ: اكْتُبْ، فَقَالَ: مَا أَكْتُبُ؟ قَالَ: اكْتُبِ الْقَدَرَ مَا كَانَ، وَمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى الْأَبَدِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
عبدالواحد بن سلیم کہتے ہیں کہ میں مکہ گیا تو عطاء بن ابی رباح سے ملاقات کی اور ان سے کہا: ابو محمد! بصرہ والے تقدیر کے سلسلے میں (برسبیل انکار) کچھ گفتگو کرتے ہیں، انہوں نے کہا: بیٹے! کیا تم قرآن پڑھتے ہو؟ میں نے کہا: ہاں، انہوں نے کہا: سورۃ الزخرف پڑھو، میں نے پڑھا: «حم والكتاب المبين إنا جعلناه قرآنا عربيا لعلكم تعقلون وإنه في أم الكتاب لدينا لعلي حكيم» حم، قسم ہے اس واضح کتاب کی، ہم نے اس کو عربی زبان کا قرآن بنایا ہے کہ تم سمجھ لو، یقیناً یہ لوح محفوظ میں ہے، اور ہمارے نزدیک بلند مرتبہ حکمت والی ہے (الزخرف: ۱-۴) پڑھی، انہوں نے کہا: جانتے ہو ام الکتاب کیا ہے؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، انہوں نے کہا: وہ ایک کتاب ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کے پیدا کرنے سے پہلے لکھا ہے، اس میں یہ لکھا ہوا ہے کہ فرعون جہنمی ہے اور اس میں «تبت يدا أبي لهب وتب» ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے، اور وہ (خود) ہلاک ہو گیا (تبت: ۱) بھی لکھا ہوا ہے۔ عطاء کہتے ہیں: پھر میں ولید بن عبادہ بن صامت رضی الله عنہ سے ملا (ولید کے والد عبادہ بن صامت صحابی رسول تھے) اور ان سے سوال کیا: مرتے وقت آپ کے والد کی کیا وصیت تھی؟ کہا: میرے والد نے مجھے بلایا اور کہا: بیٹے! اللہ سے ڈرو اور یہ جان لو کہ تم اللہ سے ہرگز نہیں ڈر سکتے جب تک تم اللہ پر اور تقدیر کی اچھائی اور برائی پر ایمان نہ لاؤ۔ اگر اس کے سوا دوسرے عقیدہ پر تمہاری موت آئے گی تو جہنم میں جاؤ گے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا اور فرمایا: لکھو، قلم نے عرض کیا: کیا لکھوں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تقدیر لکھو جو کچھ ہو چکا ہے اور جو ہمیشہ تک ہونے والا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5119) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (133)، تخريج الطحاوية (271)، المشكاة (94)، الظلال (102 - 105)

Previous    1    2    3    4    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.