الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: جہاد کے احکام و مسائل
The Book on Military Expeditions
20. باب
20. باب: سابقہ باب سے متعلق ایک اور باب۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1571
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن بكير بن عبد الله، عن سليمان بن يسار، عن ابي هريرة، قال: بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعث، فقال: " إن وجدتم فلانا وفلانا لرجلين من قريش فاحرقوهما بالنار "، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم حين اردنا الخروج: " إني كنت امرتكم ان تحرقوا فلانا وفلانا بالنار، وإن النار لا يعذب بها إلا الله، فإن وجدتموهما، فاقتلوهما "، وفي الباب، عن ابن عباس، وحمزة بن عمرو الاسلمي، قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم، وقد ذكر محمد بن إسحاق، بين سليمان بن يسار، وبين ابي هريرة رجلا في هذا الحديث، وروى غير واحد مثل رواية الليث، وحديث الليث بن سعد اشبه واصح، قال البخاري: وسليمان بن يسار، قد سمع من ابي هريرة، قال محمد: وحديث حمزة بن عمرو الاسلمي في هذا الباب صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْثٍ، فَقَالَ: " إِنْ وَجَدْتُمْ فُلَانًا وَفُلَانًا لِرَجُلَيْنِ مِنْ قُرَيْشٍ فَأَحْرِقُوهُمَا بِالنَّارِ "، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أَرَدْنَا الْخُرُوجَ: " إِنِّي كُنْتُ أَمَرْتُكُمْ أَنْ تُحْرِقُوا فُلَانًا وَفُلَانًا بِالنَّارِ، وَإِنَّ النَّارَ لَا يُعَذِّبُ بِهَا إِلَّا اللَّهُ، فَإِنْ وَجَدْتُمُوهُمَا، فَاقْتُلُوهُمَا "، وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَحَمْزَةَ بْنِ عَمْرٍو الْأَسْلَمِيِّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَقَدْ ذَكَرَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، بَيْنَ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، وَبَيْنَ أَبِي هُرَيْرَةَ رَجُلًا فِي هَذَا الْحَدِيثِ، وَرَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ مِثْلَ رِوَايَةِ اللَّيْثِ، وَحَدِيثُ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ أَشْبَهُ وَأَصَحُّ، قَالَ الْبُخَارِيُّ: وَسُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ، قَدْ سَمِعَ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَحَدِيثُ حَمْزَةَ بْنِ عَمْرٍو الْأَسْلَمِيِّ فِي هَذَا الْبَابِ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک لشکر میں بھیجا اور فرمایا: اگر تم قریش کے فلاں فلاں دو آدمیوں کو پاؤ تو انہیں جلا دو، پھر جب ہم نے روانگی کا ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا: میں نے تم کو حکم دیا تھا کہ فلاں فلاں کو جلا دو حالانکہ آگ سے صرف اللہ ہی عذاب دے گا اس لیے اب اگر تم ان کو پاؤ تو قتل کر دو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔
۲- محمد بن اسحاق نے اس حدیث میں سلیمان بن یسار اور ابوہریرہ رضی الله عنہ کے درمیان ایک اور آدمی کا ذکر کیا ہے، کئی اور لوگوں نے لیث کی روایت کی طرح روایت کی ہے، لیث بن سعد کی حدیث زیادہ صحیح ہے،
۳- اس باب میں ابن عباس اور حمزہ بن عمرو اسلمی رضی الله عنہم سے بھی روایت ہے۔
۴- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجہاد 49 (3016)، (تحفة الأشراف: 13481) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
21. باب مَا جَاءَ فِي الْغُلُولِ
21. باب: مال غنیمت میں خیانت کرنے کے بارے میں وارد وعید کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1572
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثني ابو رجاء قتيبة بن سعيد، حدثنا ابو عوانة، عن قتادة، عن سالم بن ابي الجعد، عن ثوبان، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من مات وهو بريء من ثلاث: الكبر، والغلول، والدين، دخل الجنة "، وفي الباب، عن ابي هريرة، وزيد بن خالد الجهني.(مرفوع) حَدَّثَنِي أبو رجاء قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ مَاتَ وَهُوَ بَرِيءٌ مِنْ ثَلَاثٍ: الْكِبْرِ، وَالْغُلُولِ، وَالدَّيْنِ، دَخَلَ الْجَنَّةَ "، وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ.
ثوبان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مر گیا اور تین چیزوں یعنی تکبر (گھمنڈ)، مال غنیمت میں خیانت اور قرض سے بری رہا، وہ جنت میں داخل ہو گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اس باب میں ابوہریرہ اور زید بن خالد جہنی رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، وانظر ما یأتي (تحفة الأشراف: 2085)، و مسند احمد (2765، 282) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2412)
حدیث نمبر: 1573
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابن ابي عدي، عن سعيد، عن قتادة، عن سالم بن ابي الجعد، عن معدان بن ابي طلحة، عن ثوبان، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من فارق الروح الجسد وهو بريء من ثلاث: الكنز، والغلول، والدين، دخل الجنة "، هكذا قال سعيد: " الكنز "، وقال ابو عوانة في حديثه: " الكبر "، ولم يذكر فيه عن معدان، ورواية سعيد اصح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ فَارَقَ الرُّوحُ الْجَسَدَ وَهُوَ بَرِيءٌ مِنْ ثَلَاثٍ: الْكَنْزِ، وَالْغُلُولِ، وَالدَّيْنِ، دَخَلَ الْجَنَّةَ "، هَكَذَا قَالَ سَعِيدٌ: " الْكَنْزُ "، وَقَالَ أَبُو عَوَانَةَ فِي حَدِيثِهِ: " الْكِبْرُ "، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ مَعْدَانَ، وَرِوَايَةُ سَعِيدٍ أَصَحُّ.
ثوبان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے جسم سے روح نکلی اور وہ تین چیزوں یعنی کنز، غلول اور قرض سے بری رہا، وہ جنت میں داخل ہو گا ۱؎۔ سعید بن ابی عروبہ نے اسی طرح اپنی روایت میں «الكنز» بیان کیا ہے اور ابو عوانہ نے اپنی روایت میں «الكبر» بیان کیا ہے، اور اس میں «عن معدان» کا ذکر نہیں کیا ہے، سعید کی روایت زیادہ صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الصدقات 12 (2412)، و مسند احمد (5/281 (تحفة الأشراف: 2114)، (صحیح) (الکنز کا لفظ شاذ ہے، دیکھئے: الصحیحة رقم 2785)»

وضاحت:
۱؎: «کنز»: وہ خزانہ ہے جو زمین میں دفن ہو اور اس کی زکاۃ ادا نہ کی جاتی ہو۔ «غلول»: مال غنیمت میں خیانت کرنا۔

قال الشيخ الألباني: شاذ بهذه اللفظة، الصحيحة (2785)
حدیث نمبر: 1574
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي الخلال، حدثنا عبد الصمد بن عبد الوارث، حدثنا عكرمة بن عمار، حدثنا سماك ابو زميل الحنفي، قال: سمعت ابن عباس، يقول: حدثني عمر بن الخطاب، قال: قيل: يا رسول الله، إن فلانا قد استشهد، قال: " كلا، قد رايته في النار بعباءة قد غلها، قال: قم يا عمر، فناد: إنه لا يدخل الجنة إلا المؤمنون "، ثلاثا، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الخلال، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سِمَاكٌ أَبُو زُمَيْلٍ الْحَنَفِيُّ، قَال: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ فُلَانًا قَدِ اسْتُشْهِدَ، قَالَ: " كَلَّا، قَدْ رَأَيْتُهُ فِي النَّارِ بِعَبَاءَةٍ قَدْ غَلَّهَا، قَالَ: قُمْ يَا عُمَرُ، فَنَادِ: إِنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ "، ثَلَاثًا، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! فلاں آدمی شہید ہو گیا، آپ نے فرمایا: ہرگز نہیں، میں نے اس عباء (کپڑے) کی وجہ سے اسے جہنم میں دیکھا ہے جو اس نے مال غنیمت سے چرایا تھا، آپ نے فرمایا: عمر! کھڑے ہو جاؤ اور تین مرتبہ اعلان کر دو، جنت میں مومن ہی داخل ہوں گے (اور مومن آدمی خیانت نہیں کیا کرتے)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإیمان 48 (114)، (تحفة الأشراف: 10497) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
22. باب مَا جَاءَ فِي خُرُوجِ النِّسَاءِ فِي الْحَرْبِ
22. باب: جنگ میں عورتوں کے جانے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1575
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا بشر بن هلال الصواف، حدثنا جعفر بن سليمان الضبعي، عن ثابت، عن انس، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يغزو بام سليم ونسوة معها من الانصار، يسقين الماء، ويداوين الجرحى "، قال ابو عيسى: وفي الباب، عن الربيع بنت معوذ، وهذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ الصَّوَّافُ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَغْزُو بِأُمِّ سُلَيْمٍ وَنِسْوَةٍ مَعَهَا مِنْ الْأَنْصَارِ، يَسْقِينَ الْمَاءَ، وَيُدَاوِينَ الْجَرْحَى "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام سلیم اور ان کے ہمراہ رہنے والی انصار کی چند عورتوں کے ساتھ جہاد میں نکلتے تھے، وہ پانی پلاتی اور زخمیوں کا علاج کرتی تھیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ربیع بنت معوذ سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجہاد 47 (1810)، سنن ابی داود/ الجہاد 34 (2531)، (تحفة الأشراف: 261)، (وانظر المعنی عند: صحیح البخاری/الجہاد 65 (2880)، ومناقب الأنصار 18 (3811)، والمغازي 18 (4064) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: جہاد عورتوں پر واجب نہیں ہے، لیکن حدیث میں مذکور مصالح اور ضرورتوں کی خاطر ان کا جہاد میں شریک ہونا جائز ہے، حج مبرور ان کے لیے سب سے افضل جہاد ہے، جہاد میں انسان کو سفری صعوبتیں، مشقتیں، تکلیفیں برداشت کرنا پڑتی ہیں، مال خرچ کرنا پڑتا ہے، حج و عمرہ میں بھی ان سب مشقتوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے، اس لیے عورتوں کو حج و عمرہ کا ثواب جہاد کے برابر ملتا ہے، اسی بنا پر حج و عمرہ کو عورتوں کے لیے جہاد قرار دیا گیا ہے گویا جہاد کا ثواب اسے حج و عمرہ ادا کرنے کی صورت میں مل جاتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (2284)
23. باب مَا جَاءَ فِي قَبُولِ هَدَايَا الْمُشْرِكِينَ
23. باب: مشرکوں کے تحفے قبول کرنے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1576
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن سعيد الكندي، حدثنا عبد الرحيم بن سليمان، عن إسرائيل، عن ثوير، عن ابيه، عن علي، عن النبي صلى الله عليه وسلم: " ان كسرى اهدى له فقبل، وان الملوك اهدوا إليه فقبل منهم "، وفي الباب، عن جابر، وهذا حديث حسن غريب، وثوير بن ابي فاختة اسمه سعيد بن علاقة، وثوير يكنى ابا جهم.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ ثُوَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَّ كِسْرَى أَهْدَى لَهُ فَقَبِلَ، وَأَنَّ الْمُلُوكَ أَهْدَوْا إِلَيْهِ فَقَبِلَ مِنْهُمْ "، وَفِي الْبَاب، عَنْ جَابِرٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَثُوَيْرُ بْنُ أَبِي فَاخِتَةَ اسْمُهُ سَعِيدُ بْنُ عِلَاقَةَ، وَثُوَيْرٌ يُكْنَى أَبَا جَهْمٍ.
علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے فارس کے بادشاہ کسریٰ نے آپ کے لیے تحفہ بھیجا تو آپ نے اسے قبول کر لیا، (کچھ) اور بادشاہوں نے آپ کے لیے تحفہ بھیجا تو آپ نے ان کے تحفے قبول کئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- راوی ثویر ابوفاختہ کے بیٹے ہیں، ابوفاختہ کا نام سعید بن علاقہ ہے اور ثویر کی کنیت ابوجہم ہے،
۳- اس باب میں جابر سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10109) (ضعیف جدا) (سند میں ”ثویر بن علاقہ ابی فاختہ“ سخت ضعیف اور رافضی ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا التعليق على الروضة الندية (2 / 163)
24. باب فِي كَرَاهِيَةِ هَدَايَا الْمُشْرِكِينَ
24. باب: کفار و مشرکین سے ہدیہ تحفہ قبول کرنے کی کراہت کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1577
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابو داود، عن عمران القطان، عن قتادة، عن يزيد بن عبد الله هو ابن الشخير، عن عياض بن حمار، انه اهدى للنبي صلى الله عليه وسلم هدية له او ناقة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " اسلمت؟ "، قال: لا، قال: " فإني نهيت عن زبد المشركين "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، ومعنى قوله: " إني نهيت عن زبد المشركين "، يعني: هداياهم، وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه كان يقبل من المشركين هداياهم، وذكر في هذا الحديث الكراهية، واحتمل ان يكون هذا بعد ما كان يقبل منهم، ثم نهى عن هداياهم.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ عِمْرَانَ الْقَطَّانِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ هُوَ ابْنُ الشِّخِّيرِ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ حِمَارٍ، أَنَّهُ أَهْدَى لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَدِيَّةً لَهُ أَوْ نَاقَةً، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَسْلَمْتَ؟ "، قَالَ: لَا، قَالَ: " فَإِنِّي نُهِيتُ عَنْ زَبْدِ الْمُشْرِكِينَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ: " إِنِّي نُهِيتُ عَنْ زَبْدِ الْمُشْرِكِينَ "، يَعْنِي: هَدَايَاهُمْ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ كَانَ يَقْبَلُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ هَدَايَاهُمْ، وَذُكِرَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ الْكَرَاهِيَةُ، وَاحْتَمَلَ أَنْ يَكُونَ هَذَا بَعْدَ مَا كَانَ يَقْبَلُ مِنْهُمْ، ثُمَّ نَهَى عَنْ هَدَايَاهُمْ.
عیاض بن حمار رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے (اسلام لانے سے قبل) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک تحفہ دیا یا اونٹنی ہدیہ کی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تم اسلام لا چکے ہو؟ انہوں نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: مجھے تو مشرکوں کے تحفہ سے منع کیا گیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول «إني نهيت عن زبد المشركين» کا مطلب یہ ہے کہ مجھے ان کے تحفوں سے منع کیا گیا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ مشرکوں کے تحفے قبول فرماتے تھے، جب کہ اس حدیث میں کراہت کا بیان ہے، احتمال ہے کہ یہ بعد کا عمل ہے، آپ پہلے ان کے تحفے قبول فرماتے تھے، پھر آپ نے اس سے منع فرما دیا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الخراج والإمارة 35 (3057)، (تحفة الأشراف: 11015)، و مسند احمد (4/162) (حسن صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس میں کوئی شک نہیں کہ مشرکین کا ہدیہ قبول نہ کرنا ہی اصل ہے، لیکن کسی خاص یا عام مصلحت کی خاطر اسے قبول کیا جا سکتا ہے، چنانچہ بعض علماء نے قبول کرنے اور نہ کرنے کی حدیثوں کے مابین تطبیق کی یہ صورت نکالی ہے کہ جو لوگ دوستی اور موالاۃ کی خاطر ہدیہ دینا چاہتے تھے آپ نے ان کے ہدیہ کو قبول نہیں کیا اور جن کے دلوں میں اسلام اور اس کے ماننے والوں کے متعلق انسیت دیکھی گئی تو ان کے ہدایا قبول کیے گئے۔ «واللہ اعلم»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح التعليق على الروضة الندية (2 / 164)
25. باب مَا جَاءَ فِي سَجْدَةِ الشُّكْرِ
25. باب: جنگ میں فتح کی خبر سن کر سجدہ شکر کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1578
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا ابو عاصم، حدثنا بكار بن عبد العزيز بن ابي بكرة، عن ابيه، عن ابي بكرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم: " اتاه امر فسر به، فخر لله ساجدا "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، لا نعرفه إلا من هذا الوجه من حديث بكار بن عبد العزيز، والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم راوا سجدة الشكر، وبكار بن عبد العزيز بن ابي بكرة مقارب الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا بَكَّارُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَتَاهُ أَمْرٌ فَسُرَّ بِهِ، فَخَرَّ لِلَّهِ سَاجِدًا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ بَكَّارِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ رَأَوْا سَجْدَةَ الشُّكْرِ، وَبَكَّارُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ مُقَارِبُ الْحَدِيثِ.
ابوبکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک خبر آئی، آپ اس سے خوش ہوئے اور اللہ کے سامنے سجدہ میں گر گئے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- ہم اس کو صرف اسی سند سے بکار بن عبدالعزیز کی روایت سے جانتے ہیں،
۳- بکار بن عبدالعزیز بن ابی بکرہ مقارب الحدیث ہیں،
۴- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ سجدہ شکر کو درست سمجھتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجہاد 174 (2774)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 192 (1394)، (تحفة الأشراف: 11698) (حسن)»

وضاحت:
۱؎: کعب بن مالک رضی الله عنہ کا سجدہ شکر بجا لانا صحیح روایات سے ثابت ہے، اور مسیلمہ کذاب کے قتل کی خبر سن کر ابوبکر رضی الله عنہ بھی سجدہ میں گر گئے تھے، گویا ایسی خبر جس سے دل کو خوشی و مسرت حاصل ہو اس پر سجدہ شکر بجا لانا مشروع ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (1394)
26. باب مَا جَاءَ فِي أَمَانِ الْعَبْدِ وَالْمَرْأَةِ
26. باب: غلام اور عورت کو امان دینے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 1579
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا يحيى بن اكثم، حدثنا عبد العزيز بن ابي حازم، عن كثير بن زيد، عن الوليد بن رباح، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إن المراة لتاخذ للقوم "، يعني: تجير على المسلمين، وفي الباب، عن ام هانئ، وهذا حديث حسن غريب، وسالت محمدا، فقال: هذا حديث صحيح، وكثير بن زيد قد سمع من الوليد بن رباح، والوليد بن رباح سمع من ابي هريرة، وهو مقارب الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَكْثَمَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ رَبَاحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ الْمَرْأَةَ لَتَأْخُذُ لِلْقَوْمِ "، يَعْنِي: تُجِيرُ عَلَى الْمُسْلِمِينَ، وَفِي الْبَاب، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا، فَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَكَثِيرُ بْنُ زَيْدٍ قَدْ سَمِعَ مِنْ الْوَلِيدِ بْنِ رَبَاحٍ، وَالْوَلِيدُ بْنُ رَبَاحٍ سَمِعَ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَهُوَ مُقَارِبُ الْحَدِيثِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان عورت کسی کو پناہ دے سکتی ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ حدیث صحیح ہے،
۳- کثیر بن زید نے ولید بن رباح سے سنا ہے اور ولید بن رباح نے ابوہریرہ رضی الله عنہ سے سنا ہے اور وہ مقارب الحدیث ہیں،
۴- اس باب میں ام ہانی رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 14809) (حسن)»

وضاحت:
۱؎: بعض روایات میں ہے کہ مسلمانوں کا ادنی آدمی بھی کسی کو پناہ دے سکتا ہے، اس حدیث اور ام ہانی کے سلسلہ میں آپ کا فرمان: «قد أجرنا من أجرت يا أم هاني» سے معلوم ہوا کہ ایک مسلمان عورت بھی کسی کو پناہ دے سکتی ہے، اور اس کی دی ہوئی پناہ کو کسی مسلمان کے لیے توڑ ناجائز نہیں۔
۲؎: یعنی مسلمانوں میں سے کوئی ادنی شخص کسی کو پناہ دے تو اس کی دی ہوئی پناہ سارے مسلمانوں کے لیے قبول ہو گی کوئی اس پناہ کو توڑ نہیں سکتا۔

قال الشيخ الألباني: (حديث أبي هريرة) حسن، (حديث أم هانئ) صحيح (حديث أبي هريرة)، المشكاة (3978 / التحقيق الثاني)، (حديث أم هانئ)، صحيح أبي داود (2468)، الصحيحة (2049)
حدیث نمبر: 1579M
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو الوليد الدمشقي، حدثنا الوليد بن مسلم، اخبرني ابن ابي ذئب، عن سعيد المقبري، عن ابي مرة مولى عقيل بن ابي طالب، عن ام هانئ، انها قالت: اجرت رجلين من احمائي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " قد امنا من امنت "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم اجازوا امان المراة، وهو قول احمد، وإسحاق: اجاز امان المراة والعبد، وقد روي من غير وجه، وابو مرة مولى عقيل بن ابي طالب ويقال له ايضا: مولى ام هانئ ايضا واسمه يزيد، وقد روي عن عمر بن الخطاب: انه اجاز امان العبد، روي، عن علي بن ابي طالب، وعبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " ذمة المسلمين واحدة يسعى بها ادناهم "، قال ابو عيسى: ومعنى هذا عند اهل العلم: ان من اعطى الامان من المسلمين، فهو جائز على كلهم.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي مُرَّةَ مَوْلَى عَقِيلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ، أَنَّهَا قَالَتْ: أَجَرْتُ رَجُلَيْنِ مِنْ أَحْمَائِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَدْ أَمَّنَّا مَنْ أَمَّنْتِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَجَازُوا أَمَانَ الْمَرْأَةِ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق: أَجَازَ أَمَانَ الْمَرْأَةِ وَالْعَبْدِ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، وَأَبُو مُرَّةَ مَوْلَى عَقِيلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَيُقَالُ لَهُ أَيْضًا: مَوْلَى أُمِّ هَانِئٍ أَيْضًا وَاسْمُهُ يَزِيدُ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ: أَنَّهُ أَجَازَ أَمَانَ الْعَبْدِ، رُوِيَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " ذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ يَسْعَى بِهَا أَدْنَاهُمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَمَعْنَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَنَّ مَنْ أَعْطَى الْأَمَانَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَهُوَ جَائِزٌ عَلَى كُلِّهِمْ.
ام ہانی سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں کہ میں نے اپنے شوہر کے دو رشتے داروں کو پناہ دی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم نے بھی اس کو پناہ دی جس کو تم نے پناہ دی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- (یہ حدیث) کئی سندوں سے مروی ہے،
۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، انہوں نے عورت کے پناہ دینے کو جائز قرار دیا ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے، انہوں نے عورت اور غلام کے پناہ دینے کو جائز قرار دیا ہے،
۴- راوی ابو مرہ مولیٰ عقیل بن ابی طالب کو مولیٰ ام ہانی بھی کہا گیا ہے، ان کا نام یزید ہے،
۵- عمر بن خطاب رضی الله عنہ سے مروی ہے، انہوں نے غلام کے پناہ دینے کو جائز قرار دیا ہے،
۶- علی بن ابی طالب اور عبداللہ بن عمرو کے واسطے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے، آپ نے فرمایا: تمام مسلمانوں کی پناہ یکساں ہے جس کے لیے ان کا ادنی آدمی بھی کوشش کر سکتا ہے ۲؎،
۷- اہل علم کے نزدیک اس کا مفہوم یہ ہے، اگر مسلمانوں میں سے کسی نے امان دے دی تو درست ہے اور ہر مسلمان اس کا پابند ہو گا۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة 4 (357)، والجزیة 9 (3171)، والأدب 94 (6158)، صحیح مسلم/المسافرین 13 (336/82) سنن ابی داود/ الجہاد167 (2763)، (تحفة الأشراف: 18018)، وط/قصر الصلاة فی السفر 8 (28)، و مسند احمد (6/343، 423)، و سنن الدارمی/الصلاة 151 (1494) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: (حديث أبي هريرة) حسن، (حديث أم هانئ) صحيح (حديث أبي هريرة)، المشكاة (3978 / التحقيق الثاني)، (حديث أم هانئ)، صحيح أبي داود (2468)، الصحيحة (2049)

Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.