الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نیکی اور صلہ رحمی
Chapters on Righteousness And Maintaining Good Relations With Relatives
22. باب مَا جَاءَ فِي مُوَاسَاةِ الأَخِ
22. باب: بھائی کے ساتھ مروت اور غم خواری کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Consoling The Brother
حدیث نمبر: 1933
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، حدثنا حميد، عن انس، قال: لما قدم عبد الرحمن بن عوف المدينة، آخى النبي صلى الله عليه وسلم بينه وبين سعد بن الربيع، فقال له: هلم اقاسمك مالي نصفين، ولي امراتان، فاطلق إحداهما فإذا انقضت عدتها فتزوجها، فقال: بارك الله لك في اهلك ومالك، دلوني على السوق فدلوه على السوق فما رجع يومئذ إلا ومعه شيء من اقط وسمن قد استفضله، فرآه رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد ذلك وعليه وضر من صفرة، فقال: " مهيم "، قال: تزوجت امراة من الانصار، قال: " فما اصدقتها؟ " قال: نواة، قال حميد: او قال: وزن نواة من ذهب، فقال: " اولم ولو بشاة؟ "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، قال احمد بن حنبل: وزن نواة من ذهب وزن ثلاثة دراهم وثلث، وقال إسحاق بن إبراهيم: وزن نواة من ذهب وزن خمسة دراهم، سمعت إسحاق بن منصور يذكر عنهما هذا.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ الْمَدِينَةَ، آخَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ، فَقَالَ لَهُ: هَلُمَّ أُقَاسِمُكَ مَالِي نِصْفَيْنِ، وَلِيَ امْرَأَتَانِ، فَأُطَلِّقُ إِحْدَاهُمَا فَإِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُهَا فَتَزَوَّجْهَا، فَقَالَ: بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِي أَهْلِكَ وَمَالِكَ، دُلُّونِي عَلَى السُّوقِ فَدَلُّوهُ عَلَى السُّوقِ فَمَا رَجَعَ يَوْمَئِذٍ إِلَّا وَمَعَهُ شَيْءٌ مِنْ أَقِطٍ وَسَمْنٍ قَدِ اسْتَفْضَلَهُ، فَرَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَلِكَ وَعَلَيْهِ وَضَرٌ مِنْ صُفْرَةٍ، فَقَالَ: " مَهْيَمْ "، قَالَ: تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَ: " فَمَا أَصْدَقْتَهَا؟ " قَالَ: نَوَاةً، قَالَ حُمَيْدٌ: أَوْ قَالَ: وَزْنَ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ: " أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ؟ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: وَزْنُ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ وَزْنُ ثَلَاثَةِ دَرَاهِمَ وَثُلُثٍ، وَقَالَ إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ: وَزْنُ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ وَزْنُ خَمْسَةِ دَرَاهِمَ، سَمِعْتُ إِسْحَاق بْنَ مَنْصُورٍ يَذْكُرُ عَنْهُمَا هَذَا.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ (ہجرت کر کے) مدینہ آئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اور سعد بن ربیع کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا، سعد بن ربیع نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ سے کہا: آؤ تمہارے لیے اپنا آدھا مال بانٹ دوں، اور میرے پاس دو بیویاں ہیں ان میں سے ایک کو طلاق دے دیتا ہوں، جب اس کی عدت گزر جائے تو اس سے شادی کر لو، عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ نے کہا: اللہ تعالیٰ تمہارے مال اور تمہاری اولاد میں برکت دے، مجھے بازار کا راستہ بتاؤ، انہوں نے ان کو بازار کا راستہ بتا دیا، اس دن وہ (بازار سے) کچھ پنیر اور گھی لے کر ہی لوٹے جو نفع میں انہیں حاصل ہوا تھا، اس کے (کچھ دنوں) بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اوپر زردی کا اثر دیکھا تو پوچھا: کیا بات ہے؟ (یہ زردی کیسی) کہا: میں نے ایک انصاری عورت سے شادی کی ہے، آپ نے پوچھا: اس کو مہر میں تم نے کیا دیا؟ کہا: ایک (سونے کی) گٹھلی، (یا گٹھلی کے برابر سونا) آپ نے فرمایا: ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی کا ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- احمد کہتے ہیں: گٹھلی کے برابر سونا سوا تین درہم کے برابر ہوتا ہے،
۳- اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کہتے ہیں: گٹھلی کے برابر سونا، پانچ درہم کے برابر ہوتا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 1 (2049)، والکفالة 2 (2293)، مناقب الأنصار 3 (3781)، و 50 (3937)، والنکاح 68 (5167)، والأدب 67 (6082) (تحفة الأشراف: 571)، و مسند احمد (3/190، 204، 271) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1907)
23. باب مَا جَاءَ فِي الْغِيبَةِ
23. باب: غیبت چغلی کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Backbiting
حدیث نمبر: 1934
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن العلاء بن عبد الرحمن، عن ابيه، عن ابي هريرة قال: قيل: يا رسول الله، ما الغيبة؟ قال: " ذكرك اخاك بما يكره "، قال: ارايت إن كان فيه ما اقول؟ قال: " إن كان فيه ما تقول فقد اغتبته، وإن لم يكن فيه ما تقول فقد بهته "، قال: وفي الباب عن ابي برزة، وابن عمر، وعبد الله بن عمرو، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الْغِيبَةُ؟ قَالَ: " ذِكْرُكَ أَخَاكَ بِمَا يَكْرَهُ "، قَالَ: أَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ فِيهِ مَا أَقُولُ؟ قَالَ: " إِنْ كَانَ فِيهِ مَا تَقُولُ فَقَدِ اغْتَبْتَهُ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيهِ مَا تَقُولُ فَقَدْ بَهَتَّهُ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي بَرْزَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ کسی نے کہا: اللہ کے رسول! غیبت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: اس انداز سے اپنے بھائی کا تمہارا ذکر کرنا جسے وہ ناپسند کرے، اس نے کہا: آپ کا کیا خیال ہے اگر وہ چیز اس میں موجود ہو جسے میں بیان کر رہا ہوں؟ آپ نے فرمایا: جو تم بیان کر رہے ہو اگر وہ اس میں موجود ہے تو تم نے اس کی غیبت (چغلی) کی، اور جو تم بیان کر رہے ہو اگر وہ اس میں موجود نہیں ہے تو تم نے اس پر تہمت باندھی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوبرزہ، ابن عمر اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/البر والصلة 20 (2589)، سنن ابی داود/ الأدب 40 (4874) (تحفة الأشراف: 14054)، و مسند احمد (2/230، 458)، سنن الدارمی/الرقاق 6 (2756) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: غیبت (چغلی) حرام اور کبیرہ گناہ ہے، قرآن کریم میں اسے مردہ بھائی کے گوشت کھانے سے تشبیہ دی گئی ہے، اس حدیث میں بھی اس کی قباحت بیان ہوئی، اور قباحت کی وجہ یہ ہے کہ غیبت کرنے والا اپنے بھائی کی غیر موجودگی میں اس کی عزت و ناموس پر حملہ کرتا ہے، اور اس کی دل آزاری کا باعث بنتا ہے، غیبت یہ ہے کہ کسی آدمی کا تذکرہ اس طور پر کیا جائے کہ جو اسے ناپسند ہو، یہ تذکرہ الفاظ میں ہو، یا اشارہ و کنایہ میں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح غاية المرام (426)، نقد الكتانى (36)، الصحيحة (2667)
24. باب مَا جَاءَ فِي الْحَسَدِ
24. باب: حسد کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Envy
حدیث نمبر: 1935
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الجبار بن العلاء العطار، وسعيد بن عبد الرحمن، قالا: حدثنا سفيان، عن الزهري، عن انس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تقاطعوا، ولا تدابروا، ولا تباغضوا، ولا تحاسدوا، وكونوا عباد الله إخوانا، ولا يحل لمسلم ان يهجر اخاه فوق ثلاث "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، قال: وفي الباب عن ابي بكر الصديق، والزبير بن العوام، وابن مسعود، وابي هريرة.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلَاءِ الْعَطَّارُ، وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَقَاطَعُوا، وَلَا تَدَابَرُوا، وَلَا تَبَاغَضُوا، وَلَا تَحَاسَدُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا، وَلَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، وَالزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپس میں قطع تعلق نہ کرو، ایک دوسرے سے بےرخی نہ اختیار کرو، باہم دشمنی و بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ، کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ تین دن سے زیادہ اپنے مسلمان بھائی سے سلام کلام بند رکھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوبکر صدیق، زبیر بن عوام، ابن مسعود اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأدب 57 (6065)، 62 (6076)، صحیح مسلم/البر والصلة 7 (2559)، سنن ابی داود/ الأدب 55 (4910) (تحفة الأشراف: 1488)، و مسند احمد (3/199) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اسلام نے مسلم معاشرہ کی اصلاح اور اس کی بہتری کا خاص خیال رکھا ہے، اس حدیث میں جن باتوں کا ذکر ہے ان کا تعلق بھی اصلاح معاشرہ اور سماج کی سدھار سے ہے، صلہ رحمی کا حکم دیا گیا ہے، ہاہمی بغض و عناد اور دشمنی سے باز رہنے کو کہا گیا ہے، حسد جو معاشرہ کے لیے ایسی مہلک بیماری ہے جس سے نیکیاں جل کر راکھ ہو جاتی ہیں، اس سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (7 / 93)
حدیث نمبر: 1936
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، حدثنا الزهري، عن سالم، عن ابيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا حسد إلا في اثنتين: رجل آتاه الله مالا فهو ينفق منه آناء الليل وآناء النهار، ورجل آتاه الله القرآن فهو يقوم به آناء الليل وآناء النهار "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد روي عن ابن مسعود، وابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحو هذا.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ: رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَهُوَ يُنْفِقُ مِنْهُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْقُرْآنَ فَهُوَ يَقُومُ بِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوُ هَذَا.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صرف دو آدمیوں پر رشک کرنا چاہیئے، ایک اس آدمی پر جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور وہ اس میں سے رات دن (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتا ہے، دوسرا اس آدمی پر جس کو اللہ تعالیٰ نے علم قرآن دیا اور وہ رات دن اس کا حق ادا کرتا ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- ابن مسعود اور ابوہریرہ رضی الله عنہما کے واسطہ سے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح کی حدیث آئی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/التوحید 45 (7529)، صحیح مسلم/ صلاة المسافرین 47 (815)، سنن ابن ماجہ/الزہد 22 (4209) (تحفة الأشراف: 6815)، و مسند احمد (2/9، 36، 88، 133، 152) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: حسد کی دو قسمیں ہیں: حقیقی اور مجازی، حقیقی حسد یہ ہے کہ آدمی دوسرے کے پاس موجود نعمت کے ختم ہو جانے کی تمنا و خواہش کرے، حسد کی یہ قسم بالاتفاق حرام ہے، اس کی حرمت سے متعلق صحیح نصوص وارد ہیں، اسی لیے اس کی حرمت پر امت کا اجماع ہے، حسد کی دوسری قسم رشک ہے، یعنی دوسرے کی نعمت کے خاتمہ کی تمنا کیے بغیر اس نعمت کے مثل نعمت کے حصول کی تمنا کرنا، اس حدیث میں حسد کی یہی دوسری قسم مراد ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الروض النضير (897)
25. باب مَا جَاءَ فِي التَّبَاغُضِ
25. باب: آپس میں بغض رکھنے کی مذمت کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Hatred
حدیث نمبر: 1937
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن ابي سفيان، عن جابر، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: " إن الشيطان قد يئس ان يعبده المصلون ولكن في التحريش بينهم "، قال: وفي الباب عن انس، وسليمان بن عمرو بن الاحوص، عن ابيه، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، وابو سفيان اسمه طلحة بن نافع.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ يَئِسَ أَنْ يَعْبُدَهُ الْمُصَلُّونَ وَلَكِنْ فِي التَّحْرِيشِ بَيْنَهُمْ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَنَسٍ، وَسُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَأَبُو سُفْيَانَ اسْمُهُ طَلْحَةُ بْنُ نَافِعٍ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شیطان اس بات سے مایوس ہو چکا ہے کہ مصلی اس کی عبادت کریں گے، لیکن وہ ان کے درمیان جھگڑا کرانے کی کوشش میں رہتا ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں انس اور «سليمان بن عمرو بن الأحوص عن أبيه» سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المنافقین 16 (2812) (تحفة الأشراف: 2302)، و مسند احمد (3/313، 354، 366، 384) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: مفہوم یہ ہے کہ شیطان اس بات سے مایوس ہو چکا ہے کہ مسلمان مرتد ہو کر بت پرستی کریں گے، اور شیطان کو پوجیں گے، اس مایوسی کے بعد وہ مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے، ان کے اندر بزدلی پیدا کرنے، جنگ وجدال اور فتنوں میں انہیں مشغول رکھنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1606)
26. باب مَا جَاءَ فِي إِصْلاَحِ ذَاتِ الْبَيْنِ
26. باب: آپس میں صلح کرانے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Rectifying Manners
حدیث نمبر: 1938
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، عن معمر، عن الزهري، عن حميد بن عبد الرحمن، عن امه ام كلثوم بنت عقبة، قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " ليس بالكاذب من اصلح بين الناس فقال خيرا او نمى خيرا "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أُمِّهِ أُمِّ كُلْثُومٍ بِنْتِ عُقْبَةَ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَيْسَ بِالْكَاذِبِ مَنْ أَصْلَحَ بَيْنَ النَّاسِ فَقَالَ خَيْرًا أَوْ نَمَى خَيْرًا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام کلثوم بنت عقبہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے درمیان صلح کرائے اور وہ (خود ایک طرف سے دوسرے کے بارے میں) اچھی بات کہے، یا اچھی بات بڑھا کر بیان کرے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلح 2 (2692)، صحیح مسلم/البر والصلة 37 (2605)، سنن ابی داود/ الأدب 58 (4920) (تحفة الأشراف: 18353)، و مسند احمد (6/404) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: لوگوں کے درمیان صلح و مصالحت کی خاطر اچھی باتوں کا سہارا لے کر جھوٹ بولنا درست ہے، یہ اس جھوٹ کے دائرہ میں نہیں آتا جس کی قرآن و حدیث میں مذمت آئی ہے، مثلاً زید سے یہ کہنا کہ میں نے عمر کو تمہاری تعریف کرتے ہوئے سنا ہے وغیرہ، اسی طرح کی بات عمر کے سامنے رکھنا، ایسا شخص جھوٹا نہیں ہے، بلکہ وہ ان دونوں کا محسن ہے، اور شریعت کی نظر میں اس کا شمار نیک لوگوں میں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الروض النضير (1196)، الصحيحة (545)
حدیث نمبر: 1939
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابو احمد الزبيري، حدثنا سفيان. ح قال: وحدثنا محمود بن غيلان، حدثنا بشر بن السري، وابو احمد، قالا: حدثنا سفيان، عن عبد الله بن عثمان بن خثيم، عن شهر بن حوشب، عن اسماء بنت يزيد، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يحل الكذب إلا في ثلاث: يحدث الرجل امراته ليرضيها، والكذب في الحرب، والكذب ليصلح بين الناس "، وقال محمود في حديثه: لا يصلح الكذب إلا في ثلاث، هذا حديث حسن، لا نعرفه من حديث اسماء إلا من حديث ابن خثيم، وروى داود بن ابي هند هذا الحديث عن شهر بن حوشب، عن النبي صلى الله عليه وسلم، ولم يذكر فيه عن اسماء،(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ. ح قَالَ: وَحَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ، وَأَبُو أَحْمَدَ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَحِلُّ الْكَذِبُ إِلَّا فِي ثَلَاثٍ: يُحَدِّثُ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ لِيُرْضِيَهَا، وَالْكَذِبُ فِي الْحَرْبِ، وَالْكَذِبُ لِيُصْلِحَ بَيْنَ النَّاسِ "، وَقَالَ مَحْمُودٌ فِي حَدِيثِهِ: لَا يَصْلُحُ الْكَذِبُ إِلَّا فِي ثَلَاثٍ، هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أَسْمَاءَ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ خُثَيْمٍ، وَرَوَى دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ أَسْمَاءَ،
اسماء بنت یزید رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صرف تین جگہ پر جھوٹ جائز اور حلال ہے، ایک یہ کہ آدمی اپنی بیوی سے بات کرے تاکہ اس کو راضی کر لے، دوسرا جنگ میں جھوٹ بولنا اور تیسرا لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے جھوٹ بولنا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 15770)، وانظر مسند احمد (6/454، 459، 460) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله: " ليرضيها "، الصحيحة (545)
حدیث نمبر: 1939M
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا بذلك محمد بن العلاء ابو كريب، حدثنا ابن ابي زائدة، عن داود بن ابي هند، وفي الباب عن ابي بكر.(مرفوع) حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي بَكْرٍ.
داود بن ابی ہند نے یہ حدیث شہر بن حوشب کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، لیکن اس میں اسماء رضی الله عنہا کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- اسماء کی حدیث کو ہم صرف ابن خیثم کی روایت سے جانتے ہیں۔
۳- اس باب میں ابوبکر رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، وانظر ماقبلہ (تحفة الأشراف: 18812) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله: " ليرضيها "، الصحيحة (545)
27. باب مَا جَاءَ فِي الْخِيَانَةِ وَالْغِشِّ
27. باب: خیانت اور دھوکہ دہی کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Deception And Cheating
حدیث نمبر: 1940
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن يحيى بن سعيد، عن محمد بن يحيى بن حبان، عن لؤلؤة، عن ابي صرمة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " من ضار ضار الله به، ومن شاق شاق الله عليه "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، وفي الباب عن ابي بكر.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ لُؤْلُؤَةَ، عَنْ أَبِي صِرْمَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ ضَارَّ ضَارَّ اللَّهُ بِهِ، وَمَنْ شَاقَّ شَاقَّ اللَّهُ عَلَيْهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي بَكْرٍ.
ابوصرمہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو دوسرے کو نقصان پہنچائے اللہ اسے نقصان پہنچائے گا اور جو دوسرے کو تکلیف دے اللہ تعالیٰ اسے تکلیف دے گا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- اس باب میں ابوبکر سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأقضیة 31 (3635)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 17 (2340) (تحفة الأشراف: 120663)، و مسند احمد (3/453) (حسن)»

وضاحت:
۱؎: یعنی جس نے کسی مسلمان کو مالی و جانی نقصان اور عزت و آبرو میں ناحق تکلیف دی، اللہ تعالیٰ اس پر اسی جیسی تکلیف ڈال دے گا، اسی طرح جس نے کسی مسلمان سے ناحق جھگڑا کیا اللہ اس پر مشقت نازل کرے گا۔

قال الشيخ الألباني: حسن، الإرواء (896)
حدیث نمبر: 1941
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا زيد بن الحباب العكلي، حدثني ابو سلمة الكندي، حدثنا فرقد السبخي، عن مرة بن شراحيل الهمداني وهو الطيب، عن ابي بكر الصديق، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ملعون من ضار مؤمنا او مكر به "، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ الْعُكْلِيُّ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ الْكِنْدِيُّ، حَدَّثَنَا فَرْقَدُ السَّبَخِيُّ، عَنْ مُرَّةَ بْنِ شَرَاحِيلَ الْهَمْدَانِيِّ وَهُوَ الطَّيِّبُ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَلْعُونٌ مَنْ ضَارَّ مُؤْمِنًا أَوْ مَكَرَ بِهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص ملعون (یعنی اللہ کی رحمت سے دور) ہے جس نے کسی مومن کو نقصان پہنچایا یا اس کو دھوکہ دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6619) (ضعیف) (سند میں فرقد سبخی ضعیف راوی ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (1903) // ضعيف الجامع الصغير (5275) //

Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    9    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.