(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا يحيى بن يعلى، عن ناصح، عن سماك بن حرب، عن جابر بن سمرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لان يؤدب الرجل ولده خير من ان يتصدق بصاع "، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، وناصح هو ابن العلاء كوفي ليس عند اهل الحديث بالقوي، ولا يعرف هذا الحديث إلا من هذا الوجه وناصح شيخ آخر بصري، يروي عن عمار بن ابي عمار، وغيره، هو اثبت من هذا.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَعْلَى، عَنْ نَاصِحٍ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَأَنْ يُؤَدِّبَ الرَّجُلُ وَلَدَهُ خَيْرٌ مِنْ أَنْ يَتَصَدَّقَ بِصَاعٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَنَاصِحٌ هُوَ ابْنُ الْعَلَاءِ كُوفِيٌّ لَيْسَ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ بِالْقَوِيِّ، وَلَا يُعْرَفُ هَذَا الْحَدِيثُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَنَاصِحٌ شَيْخٌ آخَرُ بَصْرِيٌّ، يَرْوِي عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ، وَغَيْرِهِ، هُوَ أَثْبَتُ مِنْ هَذَا.
جابر بن سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے لڑکے کو ادب سکھانا ایک صاع صدقہ دینے سے بہتر ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- راوی ناصح کی کنیت ابوالعلا ہے، اور یہ کوفہ کے رہنے والے ہیں، محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہیں، یہ حدیث صرف اسی سند سے معروف ہے، ۳- ناصح ایک دوسرے شیخ بھی ہیں جو بصرہ کے رہنے والے ہیں، عمار بن ابوعمار وغیرہ سے حدیث روایت کرتے ہیں، اور یہ ان سے زیادہ قوی ہیں۔
(مرفوع) حدثنا نصر بن علي الجهضمي، حدثنا عامر بن ابي عامر الخزاز، حدثنا ايوب بن موسى، عن ابيه، عن جده، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " ما نحل والد ولدا من نحل افضل من ادب حسن "، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من حديث عامر بن ابي عامر الخزاز وهو عامر بن صالح بن رستم الخزاز، وايوب بن موسى هو ابن عمرو بن سعيد بن العاصي، وهذا عندي حديث مرسل.(مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا عَامِرُ بْنُ أَبِي عَامِرٍ الْخَزَّازُ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ مُوسَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَا نَحَلَ وَالِدٌ وَلَدًا مِنْ نَحْلٍ أَفْضَلَ مِنْ أَدَبٍ حَسَنٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَامِرِ بْنِ أَبِي عَامِرٍ الْخَزَّازِ وَهُوَ عَامِرُ بْنُ صَالِحِ بْنِ رُسْتُمَ الْخَزَّازُ، وَأَيُّوبُ بْنُ مُوسَى هُوَ ابْنُ عَمْرِو بْنِ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِي، وَهَذَا عِنْدِي حَدِيثٌ مُرْسَلٌ.
عمرو بن سعید بن عاص کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حسن ادب سے بہتر کسی باپ نے اپنے بیٹے کو تحفہ نہیں دیا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف عامر بن ابوعامر خزاز کی روایت سے جانتے ہیں، اور عامر صالح بن رستم خزاز کے بیٹے ہیں، ۲- راوی ایوب بن موسیٰ سے مراد ایوب بن موسیٰ بن عمرو بن سعید بن عاص ہیں، ۳- یہ حدیث میرے نزدیک مرسل ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4473) (ضعیف) (سند میں ”عامر بن صالح“ حافظہ کے کمزور ہیں، اور ”موسی بن عمرو“ مجہول الحال)»
وضاحت: ۱؎: اگر «جدہ» کی ضمیر کا مرجع «ایوب» ہیں تو ان کے دادا «عمرو بن سعید الأشرق» صحابی نہیں ہیں، اور اگر «جدہ» کی ضمیر کا مرجع «موسیٰ» ہیں تو ان کے دادا «سعید بن العاص» بہت چھوٹے صحابی ہیں، ان کا سماع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ہے، تب یہ روایت مرسل صحابی ہوئی۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف الضعيفة (1121)، نقد الكتاني ص (20) // ضعيف الجامع الصغير (5227) //
(مرفوع) حدثنا يحيى بن اكثم، وعلي بن خشرم، قالا: حدثنا عيسى بن يونس، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، ان النبي صلى الله عليه وسلم: " كان يقبل الهدية، ويثيب عليها "، وفي الباب عن ابي هريرة، وانس، وابن عمر، وجابر، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب صحيح من هذا الوجه، لا نعرفه مرفوعا إلا من حديث عيسى بن يونس، عن هشام.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَكْثَمَ، وَعَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَانَ يَقْبَلُ الْهَدِيَّةَ، وَيُثِيبُ عَلَيْهَا "، وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَنَسٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَجَابِرٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عِيسَى بْنِ يُونُسَ، عَنْ هِشَامٍ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ قبول کرتے تھے اور اس کا بدلہ دیتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب صحیح ہے، ۲- ہم اسے صرف عیسیٰ بن یونس کی روایت سے جانتے ہیں، جسے وہ ہشام سے روایت کرتے ہیں، ۳- اس باب میں ابوہریرہ، انس، ابن عمر اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو لوگوں کا شکر یہ ادا نہ کرے وہ اللہ کا شکر ادا نہیں کرے گا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأدب 12 (4811) (تحفة الأشراف: 14368)، و مسند احمد (2/295، 303، 461) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی جو اللہ کے بندوں کا ان کے توسط سے ملنے والی کسی نعمت پر شکر گزار نہ ہو حالانکہ اللہ نے اس کا حکم دیا ہے تو ایسے شخص سے یہ کیسے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اللہ کا شکر گزار بندہ ہو گا؟ یا اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندہ کا شکر اس احسان پر جو اللہ نے اس پر کیا ہے نہیں قبول کرے گا، جب تک کہ بندہ لوگوں کے احسان کا شکر ادا نہ کرے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (3025)، الصحيحة (417)، التعليق الرغيب (2 / 56)
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے لوگوں کا شکر یہ ادا نہ کیا اس نے اللہ کا شکر ادا نہیں کیا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ، اشعث بن قیس اور نعمان بن بشیر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4235) (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی صحیح ہے، ورنہ اس کے دو راوی ”محمد بن ابی لیلی“ اور ”عطیہ عوفی“ ضعیف ہیں)»
قال الشيخ الألباني: صحيح بما قبله (1954)، المشكاة (3025)، الصحيحة (417)، التعليق الرغيب (2 / 56)
(مرفوع) حدثنا عباس بن عبد العظيم العنبري، حدثنا النضر بن محمد الجرشي اليمامي، حدثنا عكرمة بن عمار، حدثنا ابو زميل، عن مالك بن مرثد، عن ابيه، عن ابي ذر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " تبسمك في وجه اخيك لك صدقة، وامرك بالمعروف ونهيك عن المنكر صدقة، وإرشادك الرجل في ارض الضلال لك صدقة، وبصرك للرجل الرديء البصر لك صدقة، وإماطتك الحجر والشوكة والعظم عن الطريق لك صدقة، وإفراغك من دلوك في دلو اخيك لك صدقة "، قال: وفي الباب عن ابن مسعود، وجابر، وحذيفة، وعائشة، وابي هريرة، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، وابو زميل اسمه سماك بن الوليد الحنفي.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجُرَشِيُّ الْيَمَامِيُّ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو زُمَيْلٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَبَسُّمُكَ فِي وَجْهِ أَخِيكَ لَكَ صَدَقَةٌ، وَأَمْرُكَ بِالْمَعْرُوفِ وَنَهْيُكَ عَنِ الْمُنْكَرِ صَدَقَةٌ، وَإِرْشَادُكَ الرَّجُلَ فِي أَرْضِ الضَّلَالِ لَكَ صَدَقَةٌ، وَبَصَرُكَ لِلرَّجُلِ الرَّدِيءِ الْبَصَرِ لَكَ صَدَقَةٌ، وَإِمَاطَتُكَ الْحَجَرَ وَالشَّوْكَةَ وَالْعَظْمَ عَنِ الطَّرِيقِ لَكَ صَدَقَةٌ، وَإِفْرَاغُكَ مِنْ دَلْوِكَ فِي دَلْوِ أَخِيكَ لَكَ صَدَقَةٌ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَجَابِرٍ، وَحُذَيْفَةَ، وَعَائِشَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَأَبُو زُمَيْلٍ اسْمُهُ سِمَاكُ بْنُ الْوَلِيدِ الْحَنَفِيُّ.
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے بھائی کے سامنے تمہارا مسکرانا تمہارے لیے صدقہ ہے، تمہارا بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا صدقہ ہے، بھٹک جانے والی جگہ میں کسی آدمی کو تمہارا راستہ دکھانا تمہارے لیے صدقہ ہے، نابینا اور کم دیکھنے والے آدمی کو راستہ دکھانا تمہارے لیے صدقہ ہے، پتھر، کانٹا اور ہڈی کو راستے سے ہٹانا تمہارے لیے صدقہ ہے، اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے ڈول میں تمہارا پانی ڈالنا تمہارے لیے صدقہ ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں ابن مسعود، جابر، حذیفہ، عائشہ اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے احادیث آئی ہیں۔
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا إبراهيم بن يوسف بن ابي إسحاق، عن ابيه، عن ابي إسحاق، عن طلحة بن مصرف، قال: سمعت عبد الرحمن بن عوسجة، يقول: سمعت البراء بن عازب، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من منح منيحة لبن او ورق او هدى زقاقا كان له مثل عتق رقبة "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب من حديث ابي إسحاق، عن طلحة بن مصرف لا نعرفه إلا من هذا الوجه وقد روى منصور بن المعتمر، وشعبة، عن طلحة بن مصرف، هذا الحديث، وفي الباب عن النعمان بن بشير، ومعنى قوله: " من منح منيحة ورق " إنما يعني به: قرض الدراهم، قوله: " او هدى زقاقا " يعني به: هداية الطريق.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُوسُفَ بْنِ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، قَال: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْسَجَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ مَنَحَ مَنِيحَةَ لَبَنٍ أَوْ وَرِقٍ أَوْ هَدَى زُقَاقًا كَانَ لَهُ مِثْلَ عِتْقِ رَقَبَةٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَقَدْ رَوَى مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ، وَشُعْبَةُ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، هَذَا الْحَدِيثَ، وَفِي الْبَابِ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ: " مَنْ مَنَحَ مَنِيحَةَ وَرِقٍ " إِنَّمَا يَعْنِي بِهِ: قَرْضَ الدَّرَاهِمِ، قَوْلُهُ: " أَوْ هَدَى زُقَاقًا " يَعْنِي بِهِ: هِدَايَةَ الطَّرِيقِ.
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس شخص نے دودھ کا عطیہ دیا ۱؎، یا چاندی قرض دی، یا کسی کو راستہ بتایا، اسے غلام آزاد کرنے کے برابر ثواب ملے گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث ابواسحاق کی روایت سے جسے وہ طلحہ بن مصرف سے روایت کرتے ہیں حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- منصور بن معتمر اور شعبہ نے بھی اس حدیث کی روایت طلحہ بن مصرف سے کیا ہے، ۳- اس باب میں نعمان بن بشیر رضی الله عنہما سے بھی حدیث آئی ہے، ۴- «من منح منيحة ورق» کا مطلب ہے بطور قرض دینا «هدى زقاقا» کا مطلب ہے راستہ دکھانا۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، عن مالك بن انس، عن سمي، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " بينما رجل يمشي في طريق إذ وجد غصن شوك فاخره فشكر الله له فغفر له "، وفي الباب عن ابي برزة، وابن عباس، وابي ذر، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " بَيْنَمَا رَجُلٌ يَمْشِي فِي طَرِيقٍ إِذْ وَجَدَ غُصْنَ شَوْكٍ فَأَخَّرَهُ فَشَكَرَ اللَّهُ لَهُ فَغَفَرَ لَهُ "، وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي بَرْزَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي ذَرٍّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک آدمی راستے پر چل رہا تھا کہ اسے ایک کانٹے دار ڈالی ملی، اس نے اسے راستے سے ہٹا دیا، اللہ تعالیٰ نے اس کے اس کام سے خوش ہو کر اس کو بدلہ دیا یعنی اس کی مغفرت فرما دی“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوبرزہ، ابن عباس اور ابوذر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی آدمی تم سے کوئی بات بیان کرے پھر (اسے راز میں رکھنے کے لیے) دائیں بائیں مڑ کر دیکھے تو وہ بات تمہارے پاس امانت ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- ہم اسے صرف ابن ابی ذئب کی روایت سے جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأدب 137 (4868) (تحفة الأشراف: 2384)، و مسند احمد (3/380) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی شخص تم سے کوئی بات کہے اور کہتے ہوئے مڑ کر دائیں بائیں دیکھے تو اس کا مقصد یہ ہے کہ یہ راز کی بات ہے جو صرف تم سے ہو رہی ہے کسی دوسرے کو اس کی خبر نہ ہو لہٰذا سننے والے کی امانت داری میں سے ہے کہ وہ اسے راز رکھے کیونکہ یہ مجلس کے آداب میں سے ہے۔
(مرفوع) حدثنا ابو الخطاب زياد بن يحيى البصري، حدثنا حاتم بن وردان، حدثنا ايوب، عن ابن ابي مليكة، عن اسماء بنت ابي بكر، قالت: قلت: يا رسول الله، إنه ليس لي من بيتي إلا ما ادخل علي الزبير، افاعطي؟ قال: " نعم، ولا توكي فيوكى عليك " يقول: " لا تحصي فيحصى عليك "، وفي الباب عن عائشة، وابي هريرة، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وروى بعضهم هذا الحديث بهذا الإسناد عن ابن ابي مليكة، عن عباد بن عبد الله بن الزبير، عن اسماء بنت ابي بكر رضي الله عنهما، وروى غير واحد هذا، عن ايوب ولم يذكروا فيه، عن عباد بن عبد الله بن الزبير.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْخَطَّابِ زِيَادُ بْنُ يَحْيَى الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ لَيْسَ لِي مِنْ بَيْتِي إِلَّا مَا أَدْخَلَ عَلَيَّ الزُّبَيْرُ، أَفَأُعْطِي؟ قَالَ: " نَعَمْ، وَلَا تُوكِي فَيُوكَى عَلَيْكِ " يَقُولُ: " لَا تُحْصِي فَيُحْصَى عَلَيْكِ "، وَفِي الْبَابِ عَنْ عَائِشَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، وَرَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا، عَنْ أَيُّوبَ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ.
اسماء بنت ابوبکر رضی الله عنہما کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے گھر میں صرف زبیر کی کمائی ہے، کیا میں اس میں سے صدقہ و خیرات کروں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، صدقہ کرو اور گرہ مت لگاؤ ورنہ تمہارے اوپر گرہ لگا دی جائے گی“۱؎۔ «لا توكي فيوكى عليك» کا مطلب یہ ہے کہ شمار کر کے صدقہ نہ کرو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی شمار کرے گا اور برکت ختم کر دے گا ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بعض راویوں نے اس حدیث کو «عن ابن أبي مليكة عن عباد بن عبد الله بن الزبير عن أسماء بنت أبي بكر رضي الله عنهما» کی سند سے روایت کی ہے ۳؎، کئی لوگوں نے اس حدیث کی روایت ایوب سے کی ہے اور اس میں عباد بن عبیداللہ بن زبیر کا ذکر نہیں کیا، ۳- اس باب میں عائشہ اور ابوہریرہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: بخل نہ کرو ورنہ اللہ تعالیٰ برکت ختم کر دے گا۔
۲؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مال کے ختم ہو جانے کے ڈر سے صدقہ خیرات نہ کرنا منع ہے، کیونکہ صدقہ و خیرات نہ کرنا ایک اہم سبب ہے جس سے برکت کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے، اس لیے کہ رب العالمین خرچ کرنے اور صدقہ دینے پر بےشمار ثواب اور برکت سے نوازتا ہے، مگر شوہر کی کمائی میں سے صدقہ اس کی اجازت ہی سے کی جا سکتی ہے جیسا کہ دیگر احادیث میں اس کی صراحت آئی ہے۔
۳؎: یعنی ابن ابی ملیکہ اور اسماء بنت ابی بکر کے درمیان عباد بن عبداللہ بن زبیر کا اضافہ ہے۔