امیرالمؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ میں قربانی کے اونٹوں کی نگرانی کروں اور قصاب کو ان کی کوئی چیز بطور اجرت نہ دوں۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ نہ کھاتے تھے اور وہ بھی صرف منیٰ میں (منیٰ سے باہر گوشت لے جانے کی ممانعت تھی) اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اجازت عنایت کی اور فرمایا: ”کھاؤ اور ساتھ لے جاؤ، پس ہم نے کھایا اور ساتھ لے آئے۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! سر منڈوانے والوں پر اپنی رحمت فرما۔“ صحابہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! بال کتروانے والوں پر (بھی رحمت کی دعا فرمائیے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! سر منڈوانے والوں پر رحمت نازل فرما۔“ صحابہ نے پھر عرض کی کہ یا رسول اللہ! بال کتروانے والوں پر بھی (رحمت کی دعا فرمائیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری بار) فرمایا: ”بال کتروا لے والوں پر بھی (رحمت فرما)۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! سر منڈوانے والوں کو معاف کر دے۔“ صحابہ نے کہا: ”بال کتروانے والوں کو بھی۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ فرمایا: ”اے اللہ! سر منڈوانے والوں کو معاف فرما دے۔“ صحابہ نے کہا: ”بال کتروا لے والوں کو بھی۔“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری بار فرمایا: ”بال کتروانے والوں کی بھی مغفرت فرما۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک آدمی نے پوچھا کہ میں جمروں کو کنکریاں کس وقت ماروں تو انہوں نے فرمایا: ”جس وقت تمہارا امام مارے اسی وقت تم بھی مارو۔ اس نے دوبارہ ان سے یہی مسئلہ پوچھا تو انہوں نے فرمایا: ”ہم انتظار کرتے رہتے پس جب آفتاب ڈھل جاتا تو اس وقت ہم کنکریاں مارتے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے وادی کے نشیب سے کنکریاں ماریں تو ان سے پوچھا کیا کہ کچھ لوگ تو وادی کے اوپر سے مارتے ہیں تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے جواب دیا کہ قسم اس کی کہ جس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں! یہ اس شخص (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رمی کرنے) کی جگہ ہے جن پر سورۃ البقرہ نازل کی گئی تھی۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے ہی روایت ہے کہ وہ جب بڑے جمرے کے پاس پہنچے تو انہوں نے کعبہ کو اپنی بائیں جانب کر لیا اور منیٰ کو اپنی داہنی طرف اور سات کنکریوں سے رمی کی اور کہا کہ اسی طرح اس شخص نے رمی کی جس پر سورۃ البقرہ نازل گئی تھی ( صلی اللہ علیہ وسلم )۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ پہلے جمرے کو سات کنکریاں مارے تھے ہر کنکری کے بعد تکبیر کہتے تھے، اس کے بعد آگے بڑھ جاتے تھے یہاں تک کہ نرم ہموار زمین میں پہنچ کر قبلہ رو کھڑے ہو جاتے اور دیر تک کھڑے رہتے اور ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے پھر درمیان والے جمرہ کی رمی کرتے اس کے بعد بائیں جانب چلے جاتے اور نرم ہموار زمین پر پہنچ کر قبلہ رو کھڑے ہو جاتے اور ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے اور یونہی کھڑے رہتے۔ پھر وادی کے نشیب سے جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارتے اور اس کے پاس نہ ٹھہرتے بلکہ واپس آ جاتے تھے اور کہتے تھے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا ہے۔