الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
کھانا کھانے کے آداب
39. باب في إِطْعَامِ الطَّعَامِ:
39. کھانا کھلانے کا بیان
حدیث نمبر: 2118
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا إبراهيم بن موسى، حدثنا جرير، عن عطاء بن السائب، عن ابيه، عن عبد الله بن عمرو، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "اعبدوا الرحمن، وافشوا السلام، واطعموا الطعام، تدخلوا الجنان".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اعْبُدُوا الرَّحْمَنَ، وَأَفْشُوا السَّلَامَ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ، تَدْخُلُوا الْجِنَانَ".
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رحمٰن کی عبادت کرو، سلام کو رواج دو (پھیلاؤ)، کھانا کھلاؤ، جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2126]»
اس روایت کی سند ضعیف لیکن دوسری سند سے حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 1855]، [ابن ماجه 3251]، [أبويعلی 6234]، [ابن حبان 489]، [الموارد 1360]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2116 سے 2118)
مذکورہ بالا روایت ترمذی میں اسی طرح اور ابن ماجہ میں یہ اضافہ ہے کہ لوگو! سلام کو پھیلاؤ، کھانا کھلاؤ اور ناتوں کو جوڑو، اور جب لوگ سو رہے ہوں تو راتوں میں نماز پڑھو، جنّت میں سلامتی کے ساتھ چلے جاؤ۔
یعنی افشائے سلام، اطعامِ طعام، صلۃ الارحام، صلاة في الليل والناس نیام پر جس نے عمل کیا اس کو جنّت ضرور ملے گی، کیونکہ یہ سارے آداب و اصول سعادت و نیک بختی کے ہیں۔
افشائے سلام سے مراد السلام علیکم کہنا ہے جس کا اکمل ترین طریقہ یہ ہے کہ ملاقات کے وقت اپنے مسلمان بھائی سے السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ کہے، سلام کرنا سنّت اور جواب دینا واجب ہے۔
مذکورہ بالا روایت میں تینوں امور بصیغۂ امر مذکور ہیں جو ظاہری طور پر وجوب پر دلالت کرتے ہیں، یعنی سلام کرنا، کھانا کھلانا اور رب کی عبادت و اطاعت کرنا، یہ سب امور وجوب کا درجہ رکھتے ہیں، ان کے بجا لانے پر بہت ثواب و اجر اور جنّت کی بشارت ہے، نہ کرنے پر تارکِ سنّت ہونے اور جنّت سے دوری کا موجب ہو سکتا ہے، اللہ تعالیٰ سب کو ان اعمالِ صالحہ کی توفیق بخشے۔
آمین۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح
40. باب في الدَّعْوَةِ:
40. دعوت کا بیان
حدیث نمبر: 2119
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا الحكم بن المبارك، حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن موسى بن عقبة، عن نافع، عن ابن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "اجيبوا الداعي إذا دعيتم". قال: وكان عبد الله ياتي الدعوة في العرس، وفي غير العرس، وياتيها وهو صائم.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "أَجِيبُوا الدَّاعِيَ إِذَا دُعِيتُمْ". قَالَ: وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ يَأْتِي الدَّعْوَةَ فِي الْعُرْسِ، وَفِي غَيْرِ الْعُرْسِ، وَيَأْتِيهَا وَهُوَ صَائِمٌ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم کو دعوت دی جائے تو دعوت دینے والے کی دعوت قبول کرو۔ راوی نے کہا: اور سیدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما شادی اور غیر شادی کی دعوت میں جاتے تھے، روزے سے ہوتے تب بھی دعوت میں جاتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2127]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5179]، [مسلم 1419]، [أبوداؤد 3726]، [ابن حبان 5294]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2118)
سبحان اللہ! اتباعِ سنّت کی کیا شان ہے، صحابیٔ جلیل متبعِ سنّت شیدائیٔ پیغمبر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا کہ دعوت قبول کرو کتنا پاس و لحاظ کہ نفلی روزے میں بھی دعوت قبول کر لیتے ہیں اور اپنے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے سرمو انحراف نہیں کرتے، کاش یہی جذبہ آج کے مسلمانوں میں بیدار ہوجائے۔
اس حدیث سے شادی و غیر شادی میں دعوت قبول کرنے کا حکم ہے، اور اگر نفلی روزہ ہے اور دعوت دی جائے تو ایسی حالت میں روزہ توڑ دینا بہتر ہے کیونکہ حکمِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہے اور اس سے آپس میں میل ملاپ پیدا ہوتا ہے اور باہمی محبت بڑھتی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
41. باب في الْفَأْرَةِ تَقَعُ في السَّمْنِ فَمَاتَتْ:
41. اس کا بیان کہ چوہیا گھی میں گر کر مر جائے تو کیا کریں؟
حدیث نمبر: 2120
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، حدثنا الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس، عن ميمونة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم سئل عن فارة وقعت في السمن فقال: "القوها وما حولها، وكلوا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ فَأْرَةٍ وَقَعَتْ فِي السَمْنٍ فَقَالَ: "أَلْقُوهَا وَمَا حَوْلَهَا، وَكُلُوا".
ام المومنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چوہیا کے بارے میں پوچھا گیا جو گھی میں گر گئی ہو، فرمایا: اس کو نکال دو اور اس کے آس پاس کے گھی کو نکال پھینکو اور (باقی بچا گھی) کھا لو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2128]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث بھی صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 235]، [أبوداؤد 3841]، [ترمذي 1798]، [نسائي 4269]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2119)
یہ حکم ایسی صورت میں ہے جب کہ گھی جما ہوا ہو کیونکہ اس کی تاثیر سارے گھی میں نہ پہنچے گی، پگھلا ہوا گھی سب ہی پھینک دینا بہتر ہے۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2121
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، عن ابن عيينة، بإسناده.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ، بِإِسْنَادِهِ.
محمد بن يوسف، ابن عینیہ سے اسی سند سے بیان کرتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2129]»
تخریج اوپر گذر چکی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2122
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا خالد بن مخلد، حدثنا مالك، عن ابن شهاب، عن عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس، قال: سئل النبي صلى الله عليه وسلم عن فارة وقعت في سمن فماتت، فقال: "خذوها وما حولها فاطرحوه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ فَأْرَةٍ وَقَعَتْ فِي سَمْنٍ فَمَاتَتْ، فَقَالَ: "خُذُوهَا وَمَا حَوْلَهَا فَاطْرَحُوهُ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: چوہیا گھی میں گر کر مر جائے (تو کیا کیا جائے؟)، فرمایا: اس کو اور آس پاس کے گھی کو نکال پھینکو۔

تخریج الحدیث: «إسناده قوي، [مكتبه الشامله نمبر: 2130]»
اس روایت کی سند قوی ہے اور پیچھے (761) میں گذرچکی ہے۔ نیز دیکھئے: [مسند الحميدي 314]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي
حدیث نمبر: 2123
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا زيد بن يحيى، حدثنا مالك، عن ابن شهاب، عن عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس، عن ميمونة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، نحوه. قال ابو محمد: إذا كان ذائبا اهريق.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو مُحَمَّد: إِذَا كَانَ ذَائِبًا أُهَرِيقَ.
اس سند سے بھی سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے مثل سابق مروی ہے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر گھی پگھلا ہوا ہو تو سب پھینک دیا جائے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2131]»
اس حدیث کی تخریج اوپر گذر چکی ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 2120 سے 2123)
ان تمام احادیث و روایات سے معلوم ہوا کہ اگر گھی میں چوہیا گر کر مر جائے تو اگر جما ہوا گھی ہو تو آس پاس کا گھی پھینک کر باقی گھی کھایا جا سکتا ہے اگر وہ متاثر نہ ہوا ہو، پگھلا ہوا گھی سب کا سب پھینک دینا چاہیے کیونکہ اس سے صحتِ انسان کو ضرر کا اندیشہ ہے۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
42. باب في التَّخْلِيلِ:
42. دانتوں کے خلال کا بیان
حدیث نمبر: 2124
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو عاصم، حدثنا ثور بن يزيد، حدثنا حصين الحميري، اخبرني ابو سعد الخير، عن ابي هريرة رضي الله تعالى عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من اكل، فليتخلل، فما تخلل، فليلفظه، وما لاك بلسانه، فليبتلع".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ الْحِمْيَرِيُّ، أَخْبَرَنِي أَبُو سَعْدٍ الْخَيْرُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ أَكَلَ، فَلْيَتَخَلَّلْ، فَمَا تَخَلَّلَ، فَلْيَلْفِظْهُ، وَمَا لَاكَ بِلِسَانِهِ، فَلْيَبْتَلِعْ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کھانا کھائے تو خلال کر لے، اور جو خلال سے نکلے اس کو تھوک دے، اور جو اس کی زبان سے لگا رہے اس کو نگل جائے۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2132]»
اس روایت کی سند حسن ہے اور حدیث نمبر (685) میں اس کی تخریج گذر چکی ہے۔ نیز دیکھئے: [أبوداؤد 35]، [ابن ماجه 337]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2123)
اس حدیث سے کھانے کے بعد تنکے سے دانتوں کا خلال کرنا، اور جو کچھ دانتوں کے بیچ پھنس جائے اس کو نکال دینا ثابت ہوا، اور یہ حفظانِ صحت کے اصولوں میں سے ہے۔
سبحان الله! شریعتِ اسلام میں کوئی چیز تشنہ نہیں، ہر چیز اور ہر قسم کے مسائل اس میں موجود ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن

Previous    3    4    5    6    7    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.