الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
کھانا کھانے کے آداب
حدیث نمبر: 2078
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن سلمة، عن ثمامة بن عبد الله بن انس، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "إذا وقع الذباب في إناء احدكم، فليغمسه، فإن في احد جناحيه داء، وفي الآخر شفاء". قال ابو محمد: قال غير حماد: ثمامة، عن انس، مكان ابي هريرة. وقوم يقولون: عن القعقاع، عن ابي هريرة، وحديث عبيد بن حنين اصح.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِذَا وَقَعَ الذُّبَابُ فِي إِنَاءِ أَحَدِكُمْ، فَلْيَغْمِسْهُ، فَإِنَّ فِي أَحَدِ جَنَاحَيْهِ دَاءً، وَفِي الْآخَرِ شِفَاءً". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: قَالَ غَيْرُ حَمَّادٍ: ثُمَامَةُ، عَنْ أَنَسٍ، مَكَانَ أَبِي هُرَيْرَةَ. وَقَوْمٌ يَقُولُونَ: عَنْ الْقَعْقَاع، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَحَدِيثُ عُبَيْدِ بْنِ حُنَيْنٍ أَصَحُّ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب مکھی تم میں سے کسی کے برتن میں پڑ جائے تو پوری مکھی کو برتن میں ڈبو دے کیونکہ اس کے ایک پر میں بیماری ہے اور دوسرے میں شفاء ہے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: حماد (بن سلمہ) کے علاوہ رواۃ سے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی جگہ بطریق ثمامہ عن سیدنا انس رضی اللہ عنہ مروی ہے، دیگر رواۃ نے بطریق قعقاع عن سیدنا ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کیا ہے اور پہلی حدیث جو عبید بن حنین سے مروی ہے وہ سب سے زیادہ صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه ثمامة بن عبد الله لم يدرك أبا هريرة. أخرجه أحمد 340/ 2 من طريق يونس، [مكتبه الشامله نمبر: 2082]»
اس روایت کی سند میں انقطاع ہے کیونکہ ثمامہ نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نہیں سنا، لیکن حدیث صحیح ہے جیسا کہ اوپر مذکور ہے۔ مزید حوالہ کے لئے دیکھئے: [بخاري 5782]، [أبوداؤد 3844]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2076 سے 2078)
مذکورہ بالا دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ بے خون کے حشرات اگر کھانے پانی میں گر جائیں تو وہ ناپاک نہیں ہوتے، مکھی مچھر کو نکال کر کھا پی سکتے ہیں۔
ابوداؤد میں ہے کہ مکھی جب گرتی ہے تو اپنے اس بازو یا پر کے بل گرتی ہے جس میں بیماری ہے، سو تم پوری مکھی کو اس میں ڈبو دو۔
بہت سی اشیاء اللہ پاک نے اس کثرت سے پیدا کی ہیں جن کی افزائشِ نسل کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے، ایسی جملہ اشیاء نسلِ انسانی کی صحت کے لئے مضر ہیں۔
دوسرا پہلو ان میں نفع کا بھی ہے، ان میں سے ایک مکھی بھی ہے۔
رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی بالکل حق اور مبنی بر صداقت ہے جو صادق المصدوق ہیں، اس میں مکھی کے ضرر کو دفع کرنے کے لئے علاج بالضد بتلایا گیا ہے، موجودہ فنِ حکمت (طب) میں علاج بالضد کو صحیح تسلیم کیا گیا ہے۔
پس «صَدَقَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» (کے کہنے کے سوا چارہ نہیں)۔
(راز رحمہ اللہ)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه ثمامة بن عبد الله لم يدرك أبا هريرة. أخرجه أحمد 340/ 2 من طريق يونس
13. باب: «الْمُؤْمِنُ يَأْكُلُ في مِعًى وَاحِدٍ» :
13. اس کا بیان کہ مومن ایک آنت میں کھانا کھاتا ہے
حدیث نمبر: 2079
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو عاصم، عن ابن جريج، عن ابي الزبير، عن جابر رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "المؤمن ياكل في معى واحد، والكافر ياكل في سبعة امعاء". [إسناده ضعيف]
اخبرنا عبيد الله بن عمر القواريري، حدثنا يحيى بن سعيد، عن عبيد الله، حدثني نافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم. [إسناده صحيح]
وحدثني يحيى، عن مجالد، عن ابي الوداك، عن ابي سعيد، عن النبي صلى الله عليه وسلم. [إسناده ضعيف]
(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللهِ عَنْهُ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "الْمُؤْمِنُ يَأْكُلُ فِي مِعًى وَاحِدٍ، وَالْكَافِرُ يَأْكُلُ فِي سَبْعَةِ أَمْعَاءٍ". [إسناده ضعيف]
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. [إسناده صحيح]
وَحَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ أَبِي الْوَدَّاكِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. [إسناده ضعيف]
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 2083، 2084، 2085]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن دوسری اسانید سے یہی حدیث صحیح اور متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5293]، [مسلم 2061]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
حدیث نمبر: 2080
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) وحدثني يحيى، عن محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "المؤمن ياكل في معى واحد، والكافر ياكل في سبعة امعاء".(حديث مرفوع) وَحَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "الْمُؤْمِنُ يَأْكُلُ فِي مِعًى وَاحِدٍ، وَالْكَافِرُ يَأْكُلُ فِي سَبْعَةِ أَمْعَاءٍ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2086]»
یہ حدیث کئی طرق سے مروی ہے، جیسا کہ سند مذکور سے ثابت ہے، لیکن ان طرق میں ضعف ہے مگر حدیث صحیح ہے اور آخری طریق حسن ہے، جیسا کہ ابھی گزرا ہے۔ حوالہ دیکھئے: [بخاري 5394، 5396]، [مسلم 2068]، [ترمذي 1818]، [أبويعلی 2069]، [ابن حبان 161]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2078 سے 2080)
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مومن کم کھاتا ہے اور کافر بہت کھاتا ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ نے کہا: دوسری روایت میں ہے کہ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمائی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کافر کی دعوت کی اور وہ سات بکریوں کا دودھ پی گیا، پھر دوسرے دن جب مسلمان ہو گیا تو صرف ایک بکری کا دودھ پیا اور دوسری بکری کا دودھ پورا نہ پی سکا۔
قاضی عیاض نے کہا: یہ حدیث اسی معین شخص کے بارے میں ہے (دوسروں پر منطبق نہ ہوگی، واللہ اعلم)۔
اور طبیبوں نے کہا: ہر آدمی کی سات آنتیں ہیں: ایک معدہ، تین آنتیں باریک (چوٹی)، اور تین موٹی، تو کافر حرص کی وجہ سے سب کو بھرنا چاہتا ہے اور مومن کو ایک ہی بھرنا کافی ہے۔
اور بعض نے کہا کہ ’سات آنتیں‘ سے سات بری صفتیں مراد ہیں، حرص اور طمع، امید اور فساد، حسد، موٹاپا اور لالچ وغیرہ۔
(وحیدی)۔
اس حدیث میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ مومن بقدرِ حاجت کھائے، لذت و عیش کے لئے نہ کھائے بلکہ لذت و عیش کو آخرت کے لئے اٹھا رکھے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
14. باب: «طَعَامُ الْوَاحِدِ يَكْفِي الاِثْنَيْنِ» :
14. اس کا بیان کہ ایک آدمی کا کھانا دو کو کافی ہوتا ہے
حدیث نمبر: 2081
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو عاصم، عن ابن جريج، عن ابي الزبير، عن جابر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "طعام الواحد يكفي الاثنين، وطعام الاثنين يكفي الاربعة، وطعام الاربعة يكفي ثمانية".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "طَعَامُ الْوَاحِدِ يَكْفِي الِاثْنَيْنِ، وَطَعَامُ الِاثْنَيْنِ يَكْفِي الْأَرْبَعَةَ، وَطَعَامُ الْأَرْبَعَةِ يَكْفِي ثَمَانِيَةً".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک آدمی کا کھانا دو آدمی کو کافی ہوتا ہے، اور دو آدمی کا کھانا چار آدمی کو کفایت کرتا ہے، اور چار کا آٹھ آدمیوں کو کافی ہوتا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2087]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2059]، [ابن ماجه 3254]، [أبويعلی 1902]، [ابن حبان 5237]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2080)
جس مومن کا ایمان کامل ہوتا ہے تو اس کی برکت ایسی ہوتی ہے کہ اس میں سے حرص و طمع بالکل نکل جاتی ہے اور دل اللہ کی طرف متوجہ رہتا ہے، وہ لامحالہ کھانا کھاتا ہے اور کم خوری کو عمدہ سمجھتا ہے، اور کافر و فاسق اور بعض عوام مومنین کا جن کا نورِ ایمان پورا نہیں، ان کا یہ حال ہے کہ وہ ہر وقت پیٹ بھر کھانا ضروری سمجھتے ہیں، بلکہ ناکوں ناک کھانا کھاتے ہیں کہ عبادت اور شب بیداری کی بالکل طاقت نہیں رہتی۔
بعض نے کہا: اس کا مطلب یہ ہے کہ کافر کے ساتھ شیطان بھی کھاتا ہے تو وہ زیادہ کھانا کھا جاتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا، اور مسلمان اللہ کا نام لیکر کھاتا ہے شیطان اس کے ساتھ نہیں کھاتا تو کم کھانے میں سیر ہو جاتا ہے۔
(وحیدی)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
15. باب في الذي يَأْكُلُ مِمَّا يَلِيهِ:
15. جو شخص اپنے آگے سے کھاتا ہے اس کا بیان
حدیث نمبر: 2082
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا خالد بن مخلد، حدثنا مالك، عن وهب بن كيسان، عن عمر بن ابي سلمة، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال له: "سم الله وكل مما يليك".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُ: "سَمِّ اللَّهَ وَكُلْ مِمَّا يَلِيكَ".
سیدنا عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: الله کا نام لو اور اپنے آگے سے کھاؤ۔

تخریج الحدیث: «إسناده قوي، [مكتبه الشامله نمبر: 2089]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے، اور (2058) پرگذر چکی ہے۔ کسی دوسرے کے سامنے سے کھانا بے ادبی شمار ہوتا ہے۔ اگر کھانا مختلف ہو تو دوسرے کے سامنے سے اٹھایا جاسکتا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي
16. باب النَّهْيِ عَنْ أَكْلِ وَسَطِ الثَّرِيدِ حَتَّى يَأْكُلَ جَوَانِبَهُ:
16. کناروں سے کھانے سے پہلے ثرید کو بیچ میں سے کھانے کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 2083
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن عامر، عن شعبة، عن عطاء بن السائب، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اتي بجفنة، او قال: قصعة من ثريد فقال: "كلوا من حافاتها او قال: جوانبها ولا تاكلوا من وسطها، فإن البركة تنزل في وسطها".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِجَفْنَةٍ، أَوْ قَالَ: قَصْعَةٍ مِنْ ثَرِيدٍ فَقَالَ: "كُلُوا مِنْ حَافَاتِهَا أَوْ قَالَ: جَوَانِبِهَا وَلَا تَأْكُلُوا مِنْ وَسَطِهَا، فَإِنَّ الْبَرَكَةَ تَنْزِلُ فِي وَسَطِهَا".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ثرید سے بھرا ہوا ایک پیالہ (تھالی) لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے کناروں سے کھاؤ، بیچ سے نہ کھاؤ کیونکہ برکت بیچ میں نازل ہوتی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2090]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3772]، [ترمذي 1805]، [ابن ماجه 3275، 3277]، [ابن حبان 5245]، [الموارد 1346]، [الحميدي 539]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2081 سے 2083)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اکٹھے ایک جگہ بیٹھ کر کھانا چاہیے، اپنے سامنے اور کنارے سے کھانا کھانا آدابِ طعام میں سے ہے، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہدیہ، تحفہ کو قبول کرنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع اور خوش خلقی ثابت ہوئی، اور یہ کہ اسلامی آدابِ طعام کی رعایت کی جائے تو کھانے میں برکتیں نازل ہوتی ہیں۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
17. باب النَّهْيِ عَنْ أَكْلِ الطَّعَامِ الْحَارِّ:
17. گرم کھانا کھانے کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 2084
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن بن إبراهيم الدمشقي، حدثنا ابن وهب، عن قرة بن عبد الرحمن، عن الزهري، عن عروة، عن اسماء بنت ابي بكر، انها كانت إذا اتيت بثريد، امرت به فغطي حتى يذهب فورة دخانه، وتقول: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: "هو اعظم للبركة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ قُرَّةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، أَنَّهَا كَانَتْ إِذَا أُتِيَتْ بِثَرِيدٍ، أَمَرَتْ بِهِ فَغُطِّيَ حَتَّى يَذْهَبَ فَوْرَةُ دُخَانِهِ، وَتَقُولُ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "هُوَ أَعْظَمُ لِلْبَرَكَةِ".
سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کے پاس جب ثرید لایا جاتا تو وہ حکم دیتی تھیں کہ اسے ڈھانپ دیا جائے یہاں تک کہ اس کا ابھال اور بھاپ وغیرہ ختم ہو جائے (یعنی ٹھنڈا ہو جائے) اور وہ کہتی تھیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: یہ (یعنی ٹھنڈا کر کے کھانا) بہت زیادہ برکت کا سبب ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2091]»
اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [ابن حبان 5207]، [موارد الظمآن 1344]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2083)
اس روایت سے کھانا ٹھنڈا کر کے کھانا ثابت ہوا، اور ٹھنڈا کھانے کا مطلب یہ نہیں کہ فریج میں رکھ کر کھایا جائے بلکہ فوراً چولہے سے اترا ہوا کھانا نہ کھانا چاہیے کیونکہ اس سے ضرر پہنچنے کا بھی خطرہ ہے اور عدم برکت کی خبر ہے، اردو میں مثل مشہور ہے کہ ٹھنڈا کر کے کھانا چاہیے یعنی کھانے اور کسی بھی کام میں عجلت مناسب نہیں۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
18. باب أَيُّ الإِدَامِ كَانَ أَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
18. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کون سا سالن بہت پسند تھا
حدیث نمبر: 2085
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا المثنى بن سعيد، حدثنا طلحة بن نافع: ابو سفيان، حدثنا جابر بن عبد الله، قال: اخذ النبي صلى الله عليه وسلم بيدي ذات يوم إلى منزله، فقال:"هل من غداء او من عشاء؟"شك طلحة. قال: فاخرج إليه فلق من خبز، فقال:"ما من ادم؟"قالوا: لا، إلا شيء من خل، فقال:"هاتوه، فنعم الإدام الخل". قال جابر: فما زلت احب الخل منذ سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم. فقال ابو سفيان: فما زلت احبه منذ سمعته من جابر.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا الْمُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا طَلْحَةُ بْنُ نَافِعٍ: أَبُو سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِي ذَاتَ يَوْمٍ إِلَى مَنْزِلِهِ، فَقَالَ:"هَلْ مِنْ غَدَاءٍ أَوْ مِنْ عَشَاءٍ؟"شَكَّ طَلْحَةُ. قَالَ: فَأَخْرَجَ إِلَيْهِ فِلَقٌ مِنْ خُبْزٍ، فَقَالَ:"مَا مِنْ أُدْمٍ؟"قَالُوا: لَا، إِلَّا شَيْءٌ مِنْ خَلٍّ، فَقَالَ:"هَاتُوهُ، فَنِعْمَ الْإِدَامُ الْخَلُّ". قَالَ جَابِرٌ: فَمَا زِلْتُ أُحِبُّ الْخَلَّ مُنْذُ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ: فَمَا زِلْتُ أُحِبُّهُ مُنْذُ سَمِعْتُهُ مِنْ جَابِرٍ.
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے اور فرمایا: دوپہر یا شام کے کھانے کو کچھ ہے؟ (یہ شک طلحہ کو ہوا) سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ کے لئے روٹی کے کچھ ٹکڑے پیش کئے گئے، فرمایا: کوئی سالن بھی ہے؟ عرض کیا: سرکہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ فرمایا: لے آؤ (خل) سرکہ تو بڑا اچھا سالن ہے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (سرکے کی تعریف کو) سنا اس وقت سے ہمیشہ سرکہ کو پسند کرتا ہوں۔ ابوسفیان (راوی الحدیث) نے کہا: میں نے جب سے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے سنا سرکہ کو ہمیشہ پسند کرتا ہوں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2092]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2052]، [أبوداؤد 3831]، [ترمذي 1839]، [نسائي 3805]، [الطيالسي 1668]، [أبويعلی 1982]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2086
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثني يحيى بن حسان، حدثنا سليمان بن بلال، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم،، قال: "نعم الإدام او الادم الخل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،، قَالَ: "نِعْمَ الْإِدَامُ أَوْ الْأُدْمُ الْخَلُّ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سرکہ بہترین سالن ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2093]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2051]، [ترمذي 1840]، [ابن ماجه 3316]، [أبويعلی 4445]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2084 سے 2086)
ادام یا ادم عربی زبان میں سالن کو کہتے ہیں جس سے روٹی تر کر کے کھائی جاتی ہے، ان دونوں حدیثوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزِ معاشرت اور خندہ پیشانی و تواضع ظاہر ہوتی ہے اور تنگی و عدم فراوانی کا پتہ لگتا ہے۔
گھر آ کر کھانا طلب کرتے ہیں، کچھ نہیں ملتا، روٹی کے چند ٹکڑے ہیں اور پانی کا سرکہ ہے، اسی کو تناول فرماتے ہیں، کبھی نمک سے بھی روٹی کھا لیتے ہیں لیکن جبینِ اطہر پر شکن تک نہیں آتی، خوش ہو کر جو میسر آیا کھا لیا اور اللہ کا شکر ادا کیا، یہی نہیں بلکہ اللہ کی اس نعمت کی (سرکہ کی) تعریف بھی کرتے ہیں کہ بہت اچھا سالن ہے، ایسے لوگوں کے لئے اس میں عبرت ہے جو سالن میں کمی زیادتی پر اپنی بیوی بچیوں اور بہو پر ناراض ہوتے اور لڑتے جھگڑتے کھانا تک پھینک دیتے ہیں۔
دیکھئے اپنے پیارے نبی کا سلوک اور طرزِ معاشرت کتنا پیارا اور قابلِ عمل اسوہ و نمونہ تھا۔
فداه أبی وأمی صلی اللہ علیہ وسلم تسلیما کثیرا۔
کہا جاتا ہے کہ سرکہ کی تعریف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو وجہ سے کی، اوّل تو سرکہ کم خرچ میں تیار ہو جاتا ہے اور اس کے لئے زیادہ سامان بھی درکار نہیں، ایک بار بنا لینا مدت تک کفایت کرتا ہے۔
دوسرے طبی لحاظ سے سرکہ طاردِ بلغم ہے۔
مذکورہ بالا حدیث میں راویانِ حدیث کی سنّت سے محبت بھی معلوم ہوئی کہ سیدنا جابر و سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہما نے جب سے سنا سرکہ ان کے نزدیک محبوب ترین ہو گیا۔
الله تعالیٰ ہم سب کو بھی اس چیز سے محبت کی توفیق بخشے جو ہمارے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب تھی۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
19. باب في الْقَرْعِ:
19. لوکی اور کدو کا بیان
حدیث نمبر: 2087
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة، عن انس، قال:"رايت النبي صلى الله عليه وسلم اتي بمرقة فيها دباء وقديد، فرايته يتتبع الدباء ياكله".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:"رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِمَرَقَةٍ فِيهَا دُبَّاءٌ وَقَدِيدٌ، فَرَأَيْتُهُ يَتَتَبَّعُ الدُّبَّاءَ يَأْكُلُهُ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (روٹی) شوربا پیش کیا گیا جس میں کدو اور بھنا ہوا گوشت تھا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ کدو کے قتلے تلاش کر کے تناول فرما رہے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2094]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2092]، [مسلم 2041]، [أبوداؤد 3782]، [ترمذي 1850]، [ابن حبان 4539]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    1    2    3    4    5    6    7    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.