الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
کھانا کھانے کے آداب
حدیث نمبر: 2088
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا الاسود بن عامر، حدثنا شعبة، عن قتادة، عن انس، قال:"كان النبي صلى الله عليه وسلم يعجبه القرع". قال: فقدم إليه، فجعلت اتناوله واجعله بين يديه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:"كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْجِبُهُ الْقَرْعُ". قَالَ: فَقُدِّمَ إِلَيْهِ، فَجَعَلْتُ أَتَنَاوَلُهُ وَأَجْعَلُهُ بَيْنَ يَدَيْهِ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوکی پسند فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے وہ پیش کی گئی تو میں اٹھا اٹھا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھتا تھا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2095]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ تخریج اوپر گذر چکی ہے۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ ایک خیاط نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے روٹی و شوربہ پیش کیا جس میں کدو اور بھنا ہوا گوشت تھا۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کناروں سے کدو ڈھونڈ ڈھونڈ کر کھا رہے ہیں، مجھے اسی دن سے کدو سے محبت ہوگئی۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 2086 سے 2088)
لوکی اور کدو مشہور سبزیاں ہیں اور ان کی بڑی عمده ترکاری و سالن بنتا ہے، لمبا کدو سرد تر اور دافع تپ و خفقان ہے، اور دافع حرارت و خشکیٔ بدن ہے، قبض بواسیری کو دفع کرتا ہے، پیٹھے کی بھی یہی خاصیت ہے، گو کدو کھانا دین کا کام نہیں کہ اس کی محبت لازم ہو مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اس کو مقتضی ہے کہ ہر مسلمان کدو سے رغبت رکھے جیسے سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا۔
(وحیدی)۔
اس حدیث میں خیاط درزی کا کھانا و دعوت قبول کرنا ثابت ہوا، نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع اور خاکساری کہ معمولی سبزی بھی بڑے چاؤ اور رغبت سے تناول فرما لی۔
بعض لوگوں کے لئے اس میں عبرت ہے جن کا دعوت میں گوشت مرغی کے بغیر نوالہ حلق سے نہیں اترتا۔
والله اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
20. باب في فَضْلِ الزَّيْتِ:
20. زیتون کے تیل کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 2089
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا سفيان، عن عبد الله بن عيسى، عن عطاء وليس بابن ابي رباح، عن ابي اسيد الانصاري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "كلوا الزيت فإنه مبارك، وائتدموا به، وادهنوا به، فإنه يخرج من شجرة مباركة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِيسَى، عَنْ عَطَاءٍ وَلَيْسَ بِابْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ أَبِي أَسِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "كُلُوا الزَّيْتَ فَإِنَّهُ مُبَارَكٌ، وَائْتَدِمُوا بِهِ، وَادَّهِنُوا بِهِ، فَإِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ".
سیدنا ابواسید انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زیتون کا تیل کھاؤ، بیشک وہ بابرکت ہے، اور اس سے سالن بناؤ، اس کا تیل لگاؤ کیونکہ وہ برکت والے درخت سے ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2096]»
اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 1852، 1853]، [ابن ماجه 3319، 3320]، [نسائي فى الكبرىٰ 6603]، [أحمد 497/3]، [طبراني 597]، [الحاكم 397/2]، [بغوي فى شرح السنة 2870]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2088)
اس حدیث میں زیت یعنی مطلق تیل کا ذکر ہے لیکن اس سے مراد زیت زیتون یا روغنِ زیتون ہے جس کا استعمال کھانے پینے اور سر و بدن میں لگانے کیلئے ہوتا ہے۔
زیتون کے تیل کے بڑے فوائد ہیں، اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کے سورۂ نور میں کیا ہے کہ وہ برکت والے درخت سے ہے۔
دیکھئے: آیت نمبر 35۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
21. باب في أَكْلِ الثَّوْمِ:
21. لہسن کھانے کا بیان
حدیث نمبر: 2090
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى بن سعيد، عن عبيد الله، اخبرني نافع، عن ابن عمر، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال في غزوة خيبر: "من اكل من هذه الشجرة يعني: الثوم، فلا ياتين المساجد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، أَخْبَرَنِي نَافِعٌ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ فِي غَزْوَةِ خَيْبَرَ: "مَنْ أَكَلَ مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ يَعْنِي: الثُّومَ، فَلَا يَأْتِيَنَّ الْمَسَاجِدَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر میں فرمایا: جو شخص اس پودے (یعنی لہسن) کو کھا لے وہ ہماری مسجدوں میں بالکل نہ آئے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2097]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 853]، [مسلم 561]، [أبوداؤد 3825]، [ابن حبان 2088]، [أبوعوانه 410/1]، [ابن خزيمه 1661]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2089)
کچے لہسن اور پیاز میں جو بو ہوتی ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ناپسند تھی، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کچا لہسن، پیاز کھا کر مسجد نہ جانا چاہیے، اسی طرح کسی بھی بدبودار چیز کو مسجد میں لے جانا یا اس کے کھانے یا پینے کے بعد مسجد میں جانا ممنوع ہے، وجہ صاف ظاہر ہے کہ لوگ اس کی بدبو سے تکلیف محسوس کریں گے، اور پھر مسجد ایک پاک اور مقدس جگہ ہے جہاں اللہ کا ذکر ہوتا ہے۔
آج کل بیڑی، سگریٹ نوشی جو کہ حرام ہے اور اس کے بعد مسجد میں آنا اور بھی بری اور بڑی خلاف ورزی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فرشتوں کو بھی اس بدبودار چیز سے تکلیف و اذیت ہوتی ہے جن سے انسان کو اذیت و پریشانی ہوتی ہے۔
ہاں پیاز لہسن پکا کر سالن میں ڈالنا اور کھانا جائز ہے جبکہ ابال یا پکا کر اس کی بدبو زائل کر دی جائے۔
والله اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2091
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان بن عيينة، حدثني عبيد الله بن ابي يزيد، عن ابيه، ان ام ايوب اخبرته، قالت: نزل علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فتكلفنا له طعاما فيه شيء من بعض هذه البقول، فلما اتيناه به كرهه، وقال لاصحابه: "كلوه، فإني لست كاحد منكم، إني اخاف ان اوذي صاحبي". قال ابو محمد: إذا لم يؤذ احدا، فلا باس باكله.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي يَزِيدَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ أُمَّ أَيُّوبَ أَخْبَرَتْهُ، قَالَتْ: نَزَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَكَلَّفْنَا لَهُ طَعَامًا فِيهِ شَيْءٌ مِنْ بَعْضِ هَذِهِ الْبُقُولِ، فَلَمَّا أَتَيْنَاهُ بِهِ كَرِهَهُ، وَقَالَ لِأَصْحَابِهِ: "كُلُوهُ، فَإِنِّي لَسْتُ كَأَحَدٍ مِنْكُمْ، إِنِّي أَخَافُ أَنْ أُوذِيَ صَاحِبِي". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: إِذَا لَمْ يُؤْذِ أَحَدًا، فَلَا بَأْسَ بِأَكْلِهِ.
سیدہ ام ایوب رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں تشریف فرما ہوئے تو ہم نے بڑے اہتمام سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کھانا بنایا جس میں کچھ سبزیاں تھیں (لہسن پیاز وغیرہ)، جب ہم نے وہ کھانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہ فرمایا اور اپنے صحابہ سے فرمایا: تم لوگ کھا لو، میں تمہاری طرح نہیں ہوں، مجھے خوف ہے کہ میرے ساتھی (جبریل یا کراما کاتبین) کو اذیت میں مبتلا کر دوں۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: جب کسی کو تکلیف نہ ہو یعنی لہسن پیاز سے اذیت نہ پہنچے تو اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں۔ یعنی پکا ہوا کھانا جائز ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2098]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 1811]، [ابن ماجه 2364]، [ابن خزيمه 1671]، [مجمع الزوائد 2016-2026، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2090)
صحیحین میں اس سیاق کی اور بھی متعدد احادیث ہیں جن میں واضح طور پر حکم دیا گیا ہے کہ جو شخص لہسن، پیاز اور کراث (گندنا) کھائے وہ ہماری مسجدوں سے قریب نہ ہو، دور رہے۔
مقصد ان احادیث سے یہی ہے کہ ان چیزوں کو کچا کھانے سے منہ میں جو بدبو پیدا ہو جاتی ہے وہ دوسرے نمازیوں کے لئے تکلیف دہ ہے، لہٰذا ان چیزوں کے کھانے والوں کو چاہیے کہ جس طور پر ممکن ہو ان کی بدبو کا ازالہ کر کے مسجد میں آئیں۔
بیڑی، سگریٹ، حقہ، تمباکو وغیرہ کے لئے بھی یہی حکم ہے۔
(راز رحمہ اللہ)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
22. باب في أَكْلِ الدَّجَاجِ:
22. مرغی کھانے کا بیان
حدیث نمبر: 2092
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن سعيد، حدثنا ابن علية، عن ايوب، عن القاسم التميمي، عن زهدم الجرمي، قال: كنا عند ابي موسى فقدم طعامه، فقدم في طعامه لحم دجاج، وفي القوم رجل من بني تيم الله احمر، فلم يدن، فقال له ابو موسى:"ادن، فإني قد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم ياكل منه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ الْقَاسِمِ التَّمِيمِيِّ، عَنْ زَهْدَمٍ الْجَرْمِيِّ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ أَبِي مُوسَى فَقُدِّمَ طَعَامُهُ، فَقُدِّمَ فِي طَعَامِهِ لَحْمُ دَجَاجٍ، وَفِي الْقَوْمِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَيْمِ اللَّهِ أَحْمَرُ، فَلَمْ يَدْنُ، فَقَالَ لَهُ أَبُو مُوسَى:"ادْنُ، فَإِنِّي قَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُ مِنْهُ".
زہدم الجرمی نے کہا: ہم سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے کہ ان کا کھانا پیش کیا گیا جس میں مرغی کا گوشت تھا۔ حاضرین میں سے ایک شخص سرخ بنوتیم اللہ میں سے بھی تھا وہ قریب نہ آیا، سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: قریب آ جاؤ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کھاتے دیکھا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2099]»
دیکھئے: [بخاري 5518]، [مسلم 1649]، [ترمذي 1826]، [نسائي 4357]، [ابن حبان 5222]، [الحميدي 783، 784]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2091)
یہ حدیث متفق علیہ ہے جس سے ثابت ہوا کہ مرغی کھانا جائز ہے کیونکہ اس کی کل غذا نجاست نہیں ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مرغی کا گوشت تناول فرمایا ہے۔
بخاری شریف میں یہ حدیث اور تفصیل سے ہے۔
بنو تیم اللہ کے اس سرخ و سفید شخص نے کہا: میں نے دیکھا کہ مرغی گندگی کھا رہی تھی تو قسم کھا لی کہ مرغی نہ کھاؤں گا۔
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم توڑ دو اور کھا لو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قسم بھی توڑتے دیکھا ہے۔
«(أو كما قال)» ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2093
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، عن سفيان، عن ايوب، عن ابي قلابة، عن زهدم الجرمي، عن ابي موسى، انه ذكر الدجاج، فقال:"رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم ياكله".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ زَهْدَمٍ الْجَرْمِيِّ، عَنْ أَبِي مُوسَى، أَنَّهُ ذَكَرَ الدَّجَاجَ، فَقَالَ:"رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُهُ".
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے مرغی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مرغی کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2100]»
اس حدیث کی تخریج و تشریح گذر چکی ہے جس سے مرغی حلال اور اس کا کھانا جائز ہوا گرچہ وہ نجاست بھی کھا لیتی ہے لیکن دوسری پاک چیز میں بھی کھاتی ہے اس لئے اس کا گوشت کھانا درست ہے، البتہ جو مرغی نری نجاست ہی کھائے اس کو کھانے میں اختلاف ہے۔ موجودہ دور میں فارم کی مرغیوں کو اچھا صاف ستھرا دانہ پانی کھلایا جاتا ہے اس لئے مرغا مرغی کھانے میں کوئی قباحت نہیں۔ واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
23. باب مَنْ كَرِهَ أَنْ يُطْعِمَ طَعَامَهُ إِلاَّ الأَتْقِيَاءَ:
23. اس کا بیان کہ اپنا کھانا متقی پرہیزگار کے علاوہ کوئی نہ کھائے
حدیث نمبر: 2094
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن يزيد المقرئ، حدثنا حيوة، حدثنا سالم بن غيلان: ان الوليد بن قيس اخبره، انه سمع ابا سعيد، او عن ابي الهيثم، عن ابي سعيد الخدري، انه سمع نبي الله صلى الله عليه وسلم يقول: "لا تصحب إلا مؤمنا، ولا ياكل طعامك إلا تقي".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ غَيْلَانَ: أَنَّ الْوَلِيدَ بْنَ قَيْسٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ، أَوْ عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "لَا تَصْحَبْ إِلَّا مُؤْمِنًا، وَلَا يَأْكُلْ طَعَامَكَ إِلَّا تَقِيٌّ".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: نہ صحبت میں رہ مگر مومن کی، اور نہ کھائے کھانا تیرا مگر متقی۔

تخریج الحدیث: «الإسناده الأول صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2101]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4832]، [ترمذي 2395]، [أبويعلی 1315]، [ابن حبان 554، 5255]، [الموارد 2049]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2092 سے 2094)
خطابی نے کہا: اس حدیث سے مراد دعوت (ولیمہ وغیرہ) کا کھانا ہے ضرورت کا کھانا نہیں، حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بدکاروں کی صحبت میں نہ رہو، نہ ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا رکھو، ورنہ ان کی عادتیں تم پر اثر انداز ہوں گی، لہٰذا ان سے دور رہو اور متقی و پرہیزگار لوگوں کی صحبت اختیار کرو۔
صحبت صالح ترا صالح کند
صحبت طالح ترا طالح کند
والله اعلم، اس معنی کی اور بھی متعدد احادیث کتبِ حدیث میں مروی ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: الإسناده الأول صحيح
24. باب مَنْ لَمْ يَرَ بَأْساً أَنْ يُجْمَعَ بَيْنَ الشَّيْئَيْنِ:
24. اس کا بیان کہ دو قسم کا کھانا کھانے میں کوئی حرج یا برائی نہیں
حدیث نمبر: 2095
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن عيسى، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن ابيه، عن عبد الله بن جعفر، قال:"رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم ياكل القثاء بالرطب".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ، قَالَ:"رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُ الْقِثَّاءَ بِالرُّطَبِ".
سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تازہ کھجور ککڑی کے ساتھ کھاتے دیکھا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2102]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5440، 5449]، [مسلم 2043]، [أبوداؤد 3835]، [ترمذي 1844]، [ابن ماجه 3325]، [أبويعلی 6798]، [الحميدي 550]، [الطيالسي 1669]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2094)
اس حدیث سے ایک ساتھ کئی قسم کا کھانا، ترکاری کھانے کا ثبوت ملا۔
ابن ماجہ (3324) کی روایت کا مفہوم ہے کہ ککڑی کھجور کے ساتھ بدن کو موٹا کرتی ہے اور مزیدار بھی ہوتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ککڑی ٹھنڈی اور کھجور گرم ہے اور ایک دوسرے کی مصلح، یعنی کھجور کی گرمی و شدت ککڑی اور کھیرے سے معتدل ہو جاتی ہے۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
25. باب النَّهْيِ عَنِ الْقِرَانِ:
25. دو کھجور ایک ساتھ کھانے کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 2096
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا شعبة، حدثنا جبلة بن سحيم، قال: كنا بالمدينة، فاصابتنا سنة، فكان ابن الزبير يرزق التمر، وكان ابن عمر يمر بنا ويقول: لا تقارنوا، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم "نهى عن القران، إلا ان يستاذن الرجل اخاه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا جَبَلَةُ بْنُ سُحَيْمٍ، قَالَ: كُنَّا بِالْمَدِينَةِ، فَأَصَابَتْنَا سَنَةٌ، فَكَانَ ابْنُ الزُّبَيْرِ يَرْزُقُ التَّمْرَ، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَمُرُّ بِنَا وَيَقُولُ: لَا تُقَارِنُوا، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "نَهَى عَنْ الْقِرَانِ، إِلَّا أَنْ يَسْتَأْذِنَ الرَّجُلُ أَخَاهُ".
جبلہ بن سحیم نے کہا: ہم مدینہ میں تھے کہ ایک سال قحط کا سامنا کرنا پڑا (اس وقت) سیدنا عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ ہمیں (راشن کے طور پر) کھجوریں دیا کرتے تھے۔ ہمارے پاس سے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما گزرتے تو فرماتے تھے: دو کھجوروں کو ایک ساتھ ملا کر نہ کھاؤ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو کھجوروں کو ایک ساتھ ملا کر کھانے سے منع کیا ہے سوائے اس صورت کے کہ ساتھ کھانے والے سے اجازت لے لے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2103]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2455، 5446]، [مسلم 2045]، [أبوداؤد 3834]، [ترمذي 1814]، [ابن ماجه 3331]، [أبويعلی 5736]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2095)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک ساتھ دو کھجور کھانا منع ہے اور یہ ممانعت اس وقت ہے جب دوسرے بھی ساتھ کھا رہے ہوں، کیونکہ یہ ادب کے خلاف اور غیر مناسب ہے اور دوسرے کے ساتھ حق تلفی ہے، ہاں اگر دوسرے حضرات بھی ایک ساتھ دو کھجور کھائیں یا اس کی اجازت دے دیں تو کوئی حرج نہیں۔
بعض علماء نے دو کھجور ایک ساتھ کھانے کو حرام اور بعض نے مکروہ کہا ہے۔
(واللہ اعلم بالصواب)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
26. باب في التَّمْرِ:
26. کھجور کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 2097
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا يعقوب بن محمد بن طحلاء، عن ابي الرجال، عن امه عمرة، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:"يا عائشة، بيت لا تمر فيه جياع اهله او جاع اهله"مرتين او ثلاثا.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ طَحْلَاءَ، عَنْ أَبِي الرِّجَالِ، عَنْ أُمِّهِ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:"يَا عَائِشَةُ، بَيْتٌ لَا تَمْرَ فِيهِ جِيَاعٌ أَهْلُهُ أَوْ جَاعَ أَهْلُهُ"مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا.
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! جس گھر میں کھجور نہ ہو اس گھر کے لوگ بھوکے ہیں۔ ایسا دو یا تین بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2104]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2046]، [أبوداؤد 3831]، [ابن حبان 5206]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2096)
جو گھر کھجور سے خالی ہو ان کو آسودگی نہیں، ایسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ مدینہ کے حق میں فرمایا جن کی غذا کھجور تھی، آج جدید سائنس و طبِ حدیث سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ کھجور کے اندر بھرپور غذائیت اور ایک کیمیاوی مادہ پایا جاتا ہے جو زہر تک کا تریاق ہے، اور یہ انسانی جسم کو وٹامنز سے بھر دیتی اور جسم کو فربہ کرتی ہے، جنسی قوت بڑھاتی ہے، طبِ یونانی میں معجون خرما بہت مشہور ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    1    2    3    4    5    6    7    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.