الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
کتاب الاستئذان کے بارے میں
54. باب مَا يَقُولُ إِذَا لَبِسَ ثَوْباً:
54. جب نیا کپڑا پہنے تو کیا دعا کرے؟
حدیث نمبر: 2725
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن يزيد المقرئ، حدثنا سعيد هو: ابن ابي ايوب، عن ابي مرحوم، عن سهل بن معاذ بن انس، عن ابيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من لبس ثوبا، فقال: الحمد لله الذي كساني هذا ورزقنيه من غير حول مني ولا قوة، غفر له ما تقدم من ذنبه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ هُوَ: ابْنُ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي مَرْحُومٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ لَبِسَ ثَوْبًا، فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي كَسَانِي هَذَا وَرَزَقَنِيهِ مِنْ غَيْرِ حَوْلٍ مِنِّي وَلَا قُوَّةٍ، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ".
معاذ بن انس سے مروی ہے ان کے والد نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص نیا کپڑا پہنتے وقت یہ کہے: «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ كَسَانِيْ هٰذَا وَرَزَقَنِيْهٖ مِنْ غَيْرِ حَوْلٍ مِنِّىْ وَلَا قُوَّةٍ» تو اس کے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔
(ترجمہ) سب خوبیاں الله تعالیٰ ہی کے لئے ہیں جس نے مجھے یہ کپڑا پہنایا اور میری محنت وقوت کے بنا مجھے یہ کپڑا عطا فرمایا۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن وأبو مرحوم هو: عبد الرحيم بن ميمون، [مكتبه الشامله نمبر: 2732]»
اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4023]، [ترمذي 3454]، [أحمد 439/3]، [الحاكم 507/1]، [ابن السني فى عمل اليوم و الليلة 271]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2724)
ابوداؤد میں ہے: جو شخص یہ دعا پڑھے (ترجمہ) سب خوبیاں الله تعالیٰ ہی کے لئے ہیں جس نے مجھے یہ کپڑا پہنایا، اور میری محنت و قوت کے بنا مجھے یہ کپڑا عطا فرمایا، تو اس کے اگلے پچھلے سب گناہ بخشے جاتے ہیں۔
نیا کپڑا پہنتے وقت یہ دعا پڑھنا مسنون و مستحب ہے، اس میں الله کا شکر و حمد و ثنا ہے، اور اس حدیث میں گناہِ صغیرہ کی معافی کی نوید ہے۔
واضح رہے کہ کبیرہ گناہ سے توبہ کرنا ضروری ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن وأبو مرحوم هو: عبد الرحيم بن ميمون
55. باب مَا يَقُولُ إِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَإِذَا خَرَجَ:
55. مسجد میں داخل ہوتے اور نکلتے وقت کیا دعا کریں؟
حدیث نمبر: 2726
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا سليمان يعني: ابن بلال، عن ربيعة، عن عبد الملك بن سعيد، عن ابي حميد او ابي اسيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا دخل احدكم المسجد، فليقل: اللهم افتح لي ابواب رحمتك، وإذا خرج، فليقل: اللهم إني اسالك من فضلك".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي: ابْنَ بِلَالٍ، عَنْ رَبِيعَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ أَوْ أَبِي أُسَيْدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمْ الْمَسْجِدَ، فَلْيَقُلْ: اللَّهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ، وَإِذَا خَرَجَ، فَلْيَقُلْ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ".
سیدنا ابوحمید رضی اللہ عنہ یا سیدنا ابواسید رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو کہے: «اَللّٰهُمَّ افْتَحْ لِيْ أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ» (اے اللہ! میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے)۔ اور جب مسجد سے باہر نکلے تو یہ کہے: «اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ» (اے اللہ! میں تجھ سے تیرا فضل مانگتا ہوں)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2733]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 713]، [أبوداؤد 465]، [نسائي 728]، [ابن ماجه 772]، [أحمد 497/3]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2725)
ابن ماجہ وغیرہ میں صحیح سند سے ثابت ہے کہ جو شخص مسجد میں داخل ہو تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجے، پھر کہے: «اَللّٰهُمَّ افْتَحْ لِيْ أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ»، اسی طرح جب مسجد سے باہر نکلے تو پہلے درود و سلام بھیجے، پھر کہے: «اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ» بعض روایات میں یہ بھی اضافہ ہے: «اَللّٰهُمَّ اعْصِمْنِيْ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ» اے اللہ مجھے شیطان مردود سے بچا۔
[ابن ماجه 773] ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
56. باب مَا يَقُولُ إِذَا دَخَلَ السُّوقَ:
56. جب بازار میں داخل ہوں تو کیا کہیں؟
حدیث نمبر: 2727
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا ازهر بن سنان، عن محمد بن واسع، قال: قدمت مكة فلقيت بها اخي سالم بن عبد الله فحدثني، عن ابيه، عن جده: ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "من دخل السوق، فقال: لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد، يحيي ويميت، وهو حي لا يموت، بيده الخير، وهو على كل شيء قدير، كتب الله له الف الف حسنة، ومحا عنه الف الف سيئة، ورفع له الف الف درجة". قال: فقدمت خراسان فلقيت قتيبة بن مسلم، فقلت: إني اتيتك بهدية، فحدثته، فكان يركب في موكبه فياتي السوق، فيقوم، فيقولها ثم يرجع.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا أَزْهَرُ بْنُ سِنَانٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ وَاسِعٍ، قَالَ: قَدِمْتُ مَكَّةَ فَلَقِيتُ بِهَا أَخِي سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ فَحَدَّثَنِي، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنْ دَخَلَ السُّوقَ، فَقَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، يُحْيِي وَيُمِيتُ، وَهُوَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ، بِيَدِهِ الْخَيْرُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، كَتَبَ اللَّهُ لَهُ أَلْفَ أَلْفِ حَسَنَةٍ، وَمَحَا عَنْهُ أَلْفَ أَلْفِ سَيِّئَةٍ، وَرَفَعَ لَهُ أَلْفَ أَلْفِ دَرَجَةٍ". قَالَ: فَقَدِمْتُ خُرَاسَانَ فَلَقِيتُ قُتَيْبَةَ بْنَ مُسْلِمٍ، فَقُلْتُ: إِنِّي أَتَيْتُكَ بِهَدِيَّةٍ، فَحَدَّثْتُهُ، فَكَانَ يَرْكَبُ فِي مَوْكِبِهِ فَيَأْتِي السُّوقَ، فَيَقُومُ، فَيَقُولُهَا ثُمَّ يَرْجِعُ.
محمد بن واسع نے کہا: میں مکہ آیا وہاں اپنے (دینی) بھائی سالم بن عبداللہ بن عمر سے ملاقات کی تو انہوں نے مجھے اپنے والد عبداللہ سے، انہوں نے ان کے دادا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص بازار میں جاتے ہوئے یہ کہے: «لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ ........... وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ» اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، ملک اس کے لئے ہے، تمام تعریفیں بھی اسی کے لئے لیے ہیں، وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت دیتا ہے، وہ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے، تمام بھلائیاں اسی کے ہاتھ میں ہیں، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
فرمایا: جو یہ کہے گا، الله تعالیٰ اس کے لئے ہزار ہزار نیکیاں لکھے گا اور ہزار ہزار (یعنی دس لاکھ) برائیاں مٹا دے گا اور اس کے ہزار ہا ہزار درجات بلند فرمائے گا۔
راوی نے کہا: میں خراسان گیا اور قتیبہ بن مسلم سے ملاقات کی اور میں نے کہا کہ میں آپ کے لئے ایک تحفہ لے کر آیا ہوں، پس میں نے یہ حدیث انہیں بیان کی، اس کے بعد وہ اپنی سواری پر سوار ہو کر بازار جاتے، وہاں کھڑے ہو کر یہ دعا پڑھتے اور واپس آ جاتے تھے (تاکہ یہ عظیم ثواب حاصل ہو جائے)۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف أزهر بن سنان، [مكتبه الشامله نمبر: 2734]»
اس حدیث کی سند میں اختلاف اور بعض رواۃ میں کلام ہے، لیکن بہت سے ائمہ نے اسے روایت کیا ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 3424]، [ابن ماجه 2235]، [ابن السني فى عمل اليوم و الليلة 182]، [شرح السنة 1338]، [أحمد 47/1، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2726)
اگر اس حدیث کی سند صحیح یا حسن مان لی جائے تو یہ بہت بڑا اجر و ثواب ہے، اور یہ اس لئے کہ آدمی بازار میں بیع و شراء اور دیگر امور میں مشغول ہوتا ہے، اور بازار کی مصروفیات میں الله کا ذکر بڑے نیک لوگوں کا کام ہے۔
الله تعالیٰ کا فرمان ہے: « ﴿رِجَالٌ لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ﴾ [النور: 37] » ایسے لوگ جن کو تجارت اور خرید و فروخت اللہ کے ذکر سے غافل نہیں کرتی ہے۔

اس حدیث میں قتیبہ بن مسلم رحمہ اللہ کی فضیلت ہے کہ صرف یہ اجر و ثواب حاصل کرنے کے لئے بازار جاتے اور واپس آجاتے تھے۔
الله تعالیٰ ذکرِ الٰہی سے ایسا ہی لگاؤ اور انس ہمیں بھی عطا فرمائے، آمین۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف أزهر بن سنان
57. باب: «تَسَمَّوْا بِاسْمِي وَلاَ تَكَنَّوْا بِكُنْيَتِي» :
57. میرے نام پر نام رکھو میری کنیت پر کنیت نہ رکھو
حدیث نمبر: 2728
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن عامر، عن هشام، عن محمد بن سيرين، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "تسموا باسمي ولا تكنوا بكنيتي".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "تَسَمُّوا بِاسْمِي وَلَا تَكَنَّوْا بِكُنْيَتِي".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے نام پر نام رکھو، میری کنیت پر کنیت نہ رکھو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2735]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 110، 3539]، [مسلم 2134]، [أبوداؤد 4965]، [ابن ماجه 3735]، [أبويعلی 6102]، [ابن حبان 5812]، [الحميدي 1178]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2727)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت ابوالقاسم تھی اور نام محمد و احمد تھا۔
اس حدیث میں کنیت ابوالقاسم رکھنے کی ممانعت ہے جس میں کئی حکمتیں ہیں: ایک یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا نام اور کنیت رکھنے میں پیغاماتِ الٰہیہ کے خلط ملط ہونے، اور جو حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نہ ہو اس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے کا اندیشہ و امکان تھا۔
اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا۔
بعض علماء کے نزدیک یہ ممانعت اب تک برقرار ہے، بعض علماء نے کہا کہ اب ایسا اندیشہ نہیں اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اور کنیت ایک ساتھ بھی رکھی جاسکتی ہے، اور بعض نے کہا کہ کنیت اور نام جمع کرنا منع ہے، دوسرا قول راجح ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
58. باب في حُسْنِ الأَسْمَاءِ:
58. اچھے ناموں کا بیان
حدیث نمبر: 2729
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عفان بن مسلم، حدثنا هشيم، اخبرنا داود بن عمرو، عن عبد الله بن ابي زكريا الخزاعي، عن ابي الدرداء، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إنكم تدعون يوم القيامة باسمائكم واسماء آبائكم، فاحسنوا اسماءكم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي زَكَرِيَّا الْخُزَاعِيِّ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّكُمْ تُدْعَوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِأَسْمَائِكُمْ وَأَسْمَاءِ آبَائِكُمْ، فَأَحْسِنُوا أَسْمَاءَكُمْ".
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم قیامت کے دن اپنے اور اپنے آباء کے ناموں سے پکارے جاؤ گے لہٰذا اپنے نام اچھے رکھو۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 2736]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4948]، [ابن حبان 5818]، [موارد الظمآن 1944]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
59. باب مَا يُسْتَحَبُّ مِنَ الأَسَمْاءِ:
59. جو نام رکھنے مستحب ہیں
حدیث نمبر: 2730
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن كثير، اخبرنا عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "احب الاسماء إلى الله: عبد الله، وعبد الرحمن".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا عَبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَحَبُّ الْأَسْمَاءِ إِلَى اللَّهِ: عَبْدُ اللَّهِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الله تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین نام عبداللہ اور عبدالرحمٰن ہیں۔

تخریج الحدیث: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 2737]»
یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2132]، [أبوداؤد 4949]، [ترمذي 2835]، [ابن ماجه 3728]، [أحمد 24/2]، [شرح السنة 3367]، [طبراني 370/12، 13374]، [الحاكم 274/4]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2728 سے 2730)
عبداللہ، عبدالرحمٰن، اسی طرح عبدالقدوس و عبدالسلام وغیرہ نام رکھنا مستحب ہے، کیونکہ اس قسم کے ناموں میں عبودیت و بندگی ظاہر ہوتی ہے، اس کے بعد انبیاء کرام کے نام رکھنا بھی بہتر ہے، لیکن وہ نام جن کے معانی اچھے نہ ہوں یا برے لوگوں کے نام ہوں، جیسے فرعون، ہامان، شداد، شیطان وغیرہ رکھنا مکروہ ہیں، اور جن ناموں سے شرک ظاہر ہو ایسے نام رکھنا بالاتفاق منع ہے، جیسے عبدالنبی، عبدالحسین وغیرہ۔
بعض علماء نے غلام محمد یا غلام علی اور غلام حسین کا نام رکھنا مکروہ کہا ہے۔
یہ شاید اس لئے کہ بندہ و غلام ہر انسان الله تعالیٰ کا ہے، بندگی اور غلامی کی نسبت کسی مخلوق کی طرف مناسب نہیں۔
والله اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: لم يحكم عليه المحقق
60. باب مَا يُكْرَهُ مِنَ الأَسْمَاءِ:
60. وہ نام جن کا رکھنا مکروہ ہے
حدیث نمبر: 2731
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا زكريا بن عدي، حدثنا معتمر، عن الركين، عن ابيه، عن سمرة: ان النبي صلى الله عليه وسلم"نهى ان نسمي ارقاءنا اربعة اسماء: افلح، ونافع، ورباح، ويسار".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، عَنْ الرُّكَيْنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَمُرَةَ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"نَهَى أَنْ نُسَمِّيَ أَرِقَّاءَنَا أَرْبَعَةَ أَسْمَاءٍ: أَفْلَحُ، وَنَافِعٌ، وَرَبَاحٌ، وَيَسَارٌ".
سیدنا سمره رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنے غلاموں کے یہ چار نام رکھنے سے منع فرمایا: افلح، نافع، رباح، اورنجاح۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2738]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2136]، [أبوداؤد 4958]، [ترمذي 2836]، [ابن ماجه 3729]، [ابن حبان 5837]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2730)
«أفلح» اور «نجاح» کے معنی کامیابی، «نافع» اور «رباح» کے معانی فائدہ مند کے ہیں، گو یہ معانی اچھے ہیں لیکن اس سے بدفالی کا پہلو نکلتا ہے شاید اس لئے کراہت ظاہر کی گئی، مثلاً کوئی پوچھے: یہاں رباح یا نجاح ہے؟ تو جواب یہ دیا جائے کہ نہیں ہے، تو اس سے بدفالی مراد ہو سکتی ہے۔
(والله اعلم)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
61. باب في تَغْيِيرِ الأَسْمَاءِ:
61. نام تبدیل کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 2732
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا حجاج بن منهال، حدثنا حماد هو: ابن سلمة، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر: ان ام عاصم كان يقال لها عاصية، "فسماها النبي صلى الله عليه وسلم جميلة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ هُوَ: ابْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّ أُمَّ عَاصِمٍ كَانَ يُقَالُ لَهَا عَاصِيَةُ، "فَسَمَّاهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمِيلَةَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سیدہ ام عاصم رضی اللہ عنہا جن کا نام عاصیہ (نافرمان) تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام (بدل کر) جمیلہ رکھ دیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2739]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2139]، [ابن ماجه 3733]، [ابن حبان 5819]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2733
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى بن سعيد، حدثنا شعبة، حدثنا عطاء بن ابي ميمونة، عن ابي رافع، عن ابي هريرة، قال: كان اسم زينب، برة، "فسماها النبي صلى الله عليه وسلم زينب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ أَبِي مَيْمُونَةَ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قالَ: كَانَ اسْمُ زَيْنَبَ، بَرَّةَ، "فَسَمَّاهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْنَبَ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا نام برۃ (بہت نیکوکار) تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (بدل کر) زینب رکھ دیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2740]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6192]، [مسلم 2141]، [ابن ماجه 3732]، [ابن حبان 5830]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2731 سے 2733)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ وہ نام جن کے معانی اچھے نہ ہوں انہیں بدل دینا چاہیے، جیسے عاصیہ، حزن وغیرہ نام ہیں، اسی طرح وہ نام جن میں تزکیہ یا خودنمائی پائی جائے وہ بھی بدل دیئے جائیں۔
جیسے برہ ہے، لوگ کہتے تھے کہ وہ اپنے آپ کو نیک و اچھی سمجھتی ہیں اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام برہ کے بجائے زینب رکھ دیا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
62. باب في النَّهْيِ عَنْ أَنْ يَقُولَ مَا شَاءَ اللَّهُ وَشَاءَ فُلاَنٌ:
62. یہ کہنے کی ممانعت کہ جو اللہ اور فلان چاہے
حدیث نمبر: 2734
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا شعبة، عن عبد الملك بن عمير، عن ربعي بن حراش، عن الطفيل اخي عائشة، قال: قال رجل من المشركين لرجل من المسلمين: نعم القوم انتم لولا انكم تقولون: ما شاء الله، وشاء محمد. فسمع النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: "لا تقولوا: ما شاء الله وشاء محمد، ولكن، قولوا: ما شاء الله، ثم شاء محمد".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنِ الطُّفَيْلِ أَخِي عَائِشَةَ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ لِرَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ: نِعْمَ الْقَوْمُ أَنْتُمْ لَوْلَا أَنَّكُمْ تَقُولُونَ: مَا شَاءَ اللَّهُ، وَشَاءَ مُحَمَّدٌ. فَسَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "لَا تَقُولُوا: مَا شَاءَ اللَّهُ وَشَاءَ مُحَمَّدٌ، وَلَكِنْ، قُولُوا: مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ شَاءَ مُحَمَّدٌ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی طفیل سے مروی ہے کہ مشرکین میں سے ایک شخص نے مسلمانوں کے ایک شخص سے کہا: تم لوگ بہت اچھے ہو، اگر ماشاء الله وشاء محمد نہ کہو یعنی یہ نہ کہو کہ جو اللہ چاہے اور محمد چاہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سنا تو فرمایا: یہ نہ کہو جو اللہ چاہے اور محمد چاہیں، اس کے بجائے یہ کہو: جو اللہ چاہے پھر محمد بھی چاہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2741]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن ماجه 2117، 2118]، [أحمد 214/1]، [أبويعلی 4655]، [ابن حبان 5725]، [الموارد 1998]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2733)
بعض روایات میں ہے کہ صرف یہ کہو: «ماشاء اللّٰه»، اللہ جو چاہے۔
دنیا کا ہر کام مشیتِ الٰہی سے ہوتا ہے، اس میں کسی بھی فرد و بشر کی مشیت کا کوئی دخل نہیں، اس لئے خالق اور مخلوق کے لئے مشیت کو جمع کرنا خلافِ توحید ہے، یعنی شاء الله و شاء فلاں کہنا کسی بھی طرح جائز نہیں۔
امام نسائی رحمہ اللہ نے صحیح سند سے روایت کیا ہے کہ ایک یہودی نے کہا: تم لوگ شرک کرتے ہو، یوں کہتے ہو جو اللہ چاہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں۔
دوسری روایت میں ہے کہ ایک شخص نے کہا: «ماشاء اللّٰه وشئت» جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے مجھے اللہ کا شریک بنا دیا۔
صرف اتنا کہو: «ماشاء اللّٰه وحده» (جو اکیلا اللہ چاہے)۔
[ابن ماجه 2118] ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    3    4    5    6    7    8    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.