الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
کتاب الاستئذان کے بارے میں
21. باب لَعْنِ الْمُخَنَّثِينَ وَالْمُتَرَجِّلاَتِ:
21. عورتوں کی مشابہت کرنے والے مخنث اور مردوں کے مشابہہ بننے والی عورتوں کا بیان
حدیث نمبر: 2685
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، ووهب بن جرير , قالا: حدثنا هشام هو الدستوائي، عن يحيى، عن عكرمة، عن ابن عباس: ان النبي صلى الله عليه وسلم لعن المخنثين من الرجال، والمترجلات من النساء، وقال:"اخرجوهم من بيوتكم". قال: فاخرج النبي صلى الله عليه وسلم فلانا، واخرج عمر فلانا او فلانة. قال عبد الله: فاشك.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، وَوَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا هِشَامٌ هُوَ الدَّسْتَوَائِيُّ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَعَنَ الْمُخَنَّثِينَ مِنَ الرِّجَالِ، وَالْمُتَرَجِّلَاتِ مِنَ النِّسَاءِ، وَقَالَ:"أَخْرِجُوهُمْ مِنْ بُيُوتِكُمْ". قَالَ: فَأَخْرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فُلَانًا، وَأَخْرَجَ عُمَرُ فُلَانًا أَوْ فُلَانَةً. قَالَ عَبْد اللَّهِ: فَأَشُكُّ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مخنث مردوں پر اور مردوں کی چال ڈھال اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت بھیجی اور فرمایا: ان زنانے مردوں کو اپنے گھروں سے باہر نکال دو۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں ہجڑے کو نکال باہر کیا تھا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فلاں یا فلانہ (مرد یا عورت) کو نکال دیا تھا۔
امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: یہ شک مجھے ہوا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2691]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5885، 5886]، [ترمذي 2785]، [أبويعلی 2433]، [شرح السنة 3207]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2684)
«مخنّث» مرد و عورت کی درمیانی مخلوق ہے جو نہ مرد ہوتے ہیں اور نہ عورت۔
عرفِ عام میں ان کو ہیجڑے کہا جاتا ہے۔
مردوں کا زنانی حرکات اختیار کرنا، بال، کپڑے، چال چلن میں عورتوں کی مشابہت اور عورتوں کا اسی طرح مردوں کی مشابہت اختیار کرنا نہایت مذموم فعل ہے، اور ایسے لوگ بڑے منہ پھٹ، بے غیرت، بے حیاء ہوتے ہیں، اس لئے ان کو گھروں سے باہر نکال دینے کا حکم دیا گیا ہے۔
آج کل فیشن کے طور پر اسکول کالج کے لڑکے اور لڑکیاں ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔
شریعتِ اسلامیہ ان مذموم حرکات سے روکتی ہے۔
الله تعالیٰ نے جس جنس کو جیسا بنایا ہے اس کو ویسے ہی رہنا چاہیے۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2686
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا الحكم بن المبارك، اخبرنا مالك، عن ابي النضر، عن زرعة بن عبد الرحمن، عن ابيه وكان من اصحاب الصفة، قال: جلس عندنا رسول الله صلى الله عليه وسلم وفخذي منكشفة، فقال: "خمر عليك، اما علمت ان الفخذ عورة؟".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ زُرْعَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ الصُّفَّةِ، قَالَ: جَلَسَ عِنْدَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفَخِذِي مُنْكَشِفَةٌ، فَقَالَ: "خَمِّرْ عَلَيْكَ، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْفَخِذَ عَوْرَةٌ؟".
زرعہ بن عبدالرحمٰن نے اپنے والد عبدالرحمٰن (بن جرہد رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا جو اصحابِ صفہ میں سے تھے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس بیٹھے اور میری ران کھلی ہوئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو ڈھک لو، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ران عورة ہے (یعنی چھپانے کی چیز ہے)۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد وله شواهد أيضا يتقوى بها، [مكتبه الشامله نمبر: 2692]»
اس حدیث کی اسناد جید ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4014]، [ترمذي 2795]، [ابن حبان 1710]، [موارد الظمآن 353]، [الحميدي 880]۔ سنن ابی داؤد میں ہے کہ جرہد اصحابِ صفہ میں سے تھے۔ نیز عبدالرحمٰن بن جرہد کا شمار صحابہ میں نہیں ہے۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 2685)
امام اوزاعی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ مسجد میں ران، جانگھ عورۃ ہے، حمام میں نہیں۔
اکثر علماء اور مجتہدین کا قول یہی ہے کہ ران عورۃ ہے اس کو چھپانا چاہیے، اس سے معلوم ہوا کہ جانگھیا نیکر پہننا درست نہیں کیونکہ ران اس سے کھلی رہتی ہے، بلکہ شرم گاہ تک کھل جاتی ہے، اور لڑکی تو سر سے پیر تک عورۃ ہے اس لئے مسلمان لڑکیوں کا اسکول میں فراک، نیکر، اسکرٹ وغیرہ پہننا بالکل حرام ہے۔
«فاعتبروا يا أولي الأبصار» ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد وله شواهد أيضا يتقوى بها
22. باب في النَّهْيِ عَنْ دُخُولِ الْمَرْأَةِ الْحَمَّامَ:
22. عورت کو اس حمام میں جانے کی ممانعت جہاں مرد نہاتے ہوں
حدیث نمبر: 2687
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يعلى، حدثنا الاعمش، عن عمرو بن مرة، عن سالم بن ابي الجعد، قال: دخل على عائشة نسوة من اهل حمص يستفتينها، فقالت: لعلكن من النسوة اللاتي يدخلن الحمامات؟. قلن: نعم. قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول: "ما من امراة تضع ثيابها في غير بيت زوجها، إلا هتكت ما بينها وبين الله عز وجل". [إسناده منقطع ابو الجعد سالم لم يسمع من عائشة ولكن الحديث صحيح بالإسناد التالي. ويعلى هو: ابن عبيد]
قال ابو محمد: اخبرنا عبيد الله، عن إسرائيل، عن منصور، عن سالم، عن ابي المليح، عن عائشة، هذا الحديث. [إسناده صحيح وهو مكرر سابقه]
(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، قَالَ: دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ نِسْوَةٌ مِنْ أَهْلِ حِمْصَ يَسْتَفْتِينَهَا، فَقَالَتْ: لَعَلَّكُنَّ مِنَ النِّسْوَةِ اللَّاتِي يَدْخُلْنَ الْحَمَّامَاتِ؟. قُلْنَ: نَعَمْ. قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: "مَا مِنْ امْرَأَةٍ تَضَعُ ثِيَابَهَا فِي غَيْرِ بَيْتِ زَوْجِهَا، إِلَّا هَتَكَتْ مَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ". [إسناده منقطع أبو الجعد سالم لم يسمع من عائشة ولكن الحديث صحيح بالإسناد التالي. ويعلى هو: ابن عبيد]
قَالَ أَبُو مُحَمَّد: أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ، عَنْ عَائِشَةَ، هَذَا الْحَدِيثَ. [إسناده صحيح وهو مكرر سابقه]
سالم بن ابی الجعد نے کہا: ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں کچھ حمص (شام) کی عورتیں حاضر ہوئیں، ان سے کچھ پوچھنا چاہتی تھیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: شاید تم ان عورتوں میں سے ہو جو حمام میں جاتی ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: جس عورت نے اپنے خاوند کے گھر کے سوا کسی اور جگہ اپنے کپڑے اتارے تو اس نے وہ پردہ پھاڑ ڈالا جو اس کے اور اللہ کے درمیان ہے۔
امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: ہمیں عبیداللہ نے خبر دی اسرائیل سے، انہوں نے منصور سے، انہوں نے سالم سے، انہوں نے ابوالملیح سے، انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ حدیث روایت کی۔

تخریج الحدیث: «إسناده منقطع أبو الجعد سالم لم يسمع من عائشة ولكن الحديث صحيح بالإسناد التالي. ويعلى هو: ابن عبيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2693، 2694]»
اس روایت کی سند میں انقطاع ہے، کیونکہ سالم بن ابوالجعد نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نہیں سنا، لیکن امام دارمی رحمہ اللہ نے دوسری سند میں سالم اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے درمیان ابوالملیح کا ذکر کیا ہے جنہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا ہے، لہٰذا سند صحیح ہے، اور ابوداؤد و ترمذی و ابن ماجہ میں اسی طرح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4010]، [ترمذي 2803]، [ابن ماجه 3750]، [أبويعلی 4390]، [المستدرك للحاكم 289/4]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2686)
پہلے زمانے میں گھروں میں غسل خانوں کا رواج نہ تھا اور مرد و عورت باہر جا کر حمامات میں نہایا کرتے تھے، جہاں مالش بھی ہوتی، گرم پانی ملتا، اور اکثر عورت مرد یکجا ہو جاتے، عریانیت و فحاشی، فسق و فجور تک نوبت پہنچ جاتی۔
آج بھی ہندوستان و پاکستان میں بعض مقامات میں ایسے حمام پائے جاتے ہیں۔
کیونکہ اس میں اختلاط مرد و زن اور بے حیائی ہوتی ہے، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حمامات میں جانے سے منع فرمایا۔
ہاں! مرد کے لئے کامل ستر پوشی کے ساتھ جہاں اختلاط نہ ہو نہانا جائز ہے، اور مرد کا مرد کے سامنے بھی کشفِ ستر جائز نہیں، چہ جائے کہ مرد عورت کے سامنے یا عورت مرد کے سامنے برہنہ ہو۔
یہ اللہ کے پردے کو چاک کرنا ہے، یعنی شرم و حیا، تقویٰ و پرہیزگاری اور عصمت و عفت کا پردہ ایسا کرنے سے پھٹ جاتا ہے، کیونکہ عورت جب اپنے گھر کے علاوہ کہیں کپڑے اتارے گی تو اس کا فسق و فجور میں مبتلا ہونا یقینی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده منقطع أبو الجعد سالم لم يسمع من عائشة ولكن الحديث صحيح بالإسناد التالي. ويعلى هو: ابن عبيد
23. باب لاَ يُقِيمَنَّ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ مِنْ مَجْلِسِهِ:
23. کوئی آدمی اپنے بھائی کو اس کی جگہ سے ہرگز نہ اٹھائے
حدیث نمبر: 2688
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا مسدد، حدثنا بشر بن المفضل، حدثنا عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا يقيم الرجل يعني: اخاه من مجلسه، ثم يقعد فيه، ولكن تفسحوا وتوسعوا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يُقِيمُ الرَّجُلُ يَعْنِي: أَخَاهُ مِنْ مَجْلِسِهِ، ثُمَّ يَقْعُدُ فِيهِ، وَلَكِنْ تَفَسَّحُوا وَتَوَسَّعُوا".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو اس کی جگہ سے نہ اٹھائے تاکہ خود وہاں بیٹھ جائے، ہاں جگہ دے دو یا مجلس میں کشادگی رکھو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2695]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6269، 6270]، [مسلم 2177]، [أبوداؤد 4828]، [ترمذي 2749]، [ابن حبان 586]، [الحميدي 679]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2687)
آدابِ مجلس میں سے ہے کہ جو شخص پہلے جہاں آ کر بیٹھ گیا اسے کسی امیر کبیر کے لئے اس کی جگہ سے نہ اٹھایا جائے، کیونکہ اس میں بیٹھنے والے کی اہانت و حقارت ہے۔
بعض علماء نے کہا کہ یہ حکم خاص مجالس کے لئے ہے، مگر صحیح یہ ہے کہ یہ حکم عام ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں ہے کہ ان کے لئے کوئی شخص اپنی جگہ چھوڑ دیتا تو وہ کبھی وہاں نہیں بیٹھتے تھے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
24. باب إِذَا قَامَ مِنْ مَجْلِسِهِ ثُمَّ رَجَعَ فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ:
24. کوئی آدمی اپنی جگہ سے اٹھ کر جائے واپس آ کر وہی اس جگہ بیٹھنے کا زیادہ مستحق ہے
حدیث نمبر: 2689
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا احمد بن عبد الله، حدثنا زهير، حدثنا سهيل، عن ابيه، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا قام احدكم او الرجل من مجلسه ثم رجع إليه، فهو احق به".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا سُهَيْلٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا قَامَ أَحَدُكُمْ أَوِ الرَّجُلُ مِنْ مَجْلِسِهِ ثُمَّ رَجَعَ إِلَيْهِ، فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی یا یہ کہا: جب کوئی آدمی اپنی جگہ سے اٹھ جائے (کسی حاجت سے) پھر لوٹ کر آئے تو وہی زیادہ حقدار ہے اس جگہ بیٹھنے کا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2696]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2179]، [أبوداؤد 4853]، [ابن ماجه 3717]، [ابن حبان 588]، [موارد الظمآن 1957]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2688)
جو آدمی واپس آنے کی نیّت سے کسی حاجت کے لئے اپنی جگہ سے اٹھ کر کہیں جائے، واپس آ کر اس جگہ بیٹھنے کا وہی زیادہ حقدار ہے۔
کوئی دوسرا شخص بیٹھ بھی جائے تو اس کو وہاں سے ہٹ جانا چاہیے۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
25. باب في النَّهْيِ عَنِ الْجُلُوسِ في الطُّرُقَاتِ:
25. راستوں میں بیٹھنے کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 2690
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا شعبة، حدثنا ابو إسحاق، عن البراء: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم مر بناس جلوس من الانصار، فقال: "إن كنتم لا بد فاعلين، فاهدوا السبيل، وافشوا السلام، واعينوا المظلوم". قال شعبة: لم يسمع هذا الحديث ابو إسحاق من البراء.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق، عَنِ الْبَرَاءِ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِنَاسٍ جُلُوسٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ: "إِنْ كُنْتُمْ لَا بُدَّ فَاعِلِينَ، فَاهْدُوا السَّبِيلَ، وَأَفْشُوا السَّلَامَ، وَأَعِينُوا الْمَظْلُومَ". قَالَ شُعْبَةُ: لَمْ يَسْمَعْ هَذَا الْحَدِيثَ أَبُو إِسْحَاق مِنَ الْبَرَاءِ.
سیدنا براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصار کے کچھ لوگوں کے پاس سے گذرے جو راستے میں بیٹھے ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہارا یہاں بیٹھنا ضروری ہی ہے تو (بھولے بھٹکے کو) راستہ بتاؤ، سلام کا جواب دو، اور مظلوم کی مدد کرو۔
شعبہ نے کہا: ابواسحاق نے اس حدیث کو سیدنا براء رضی اللہ عنہ سے نہیں سنا۔

تخریج الحدیث: «إسناده منقطع ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2697]»
اس روایت کی سند میں انقطاع ہے لیکن دیگر اسانید سے یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2726]، [أبويعلی 1717]، [مشكل الآثار للطحاوي 60/1]۔ اور بخاری و مسلم میں سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے اس کا شاہد موجود ہے: «اياكم و الجلوس فى الطرقات......» ۔ دیکھئے: [بخاري 6229]، [مسلم 2121]، [أبويعلی 1247]، [ابن حبان 595]، [موارد الظمآن 1954]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2689)
بازار اور راستے ایسی جگہیں ہیں کہ انسان وہاں بیٹھ کر ذکرِ الٰہی سے غافل، غیبت و چغلی میں ملوث، عورتوں کو دیکھنے، اور کئی فتوں میں مبتلا ہو جاتا ہے، اسی لئے حکم ہوا کہ اگر بیٹھنا ضروری ہو تو مذکورہ بالا افعال و اعمال سے گریز کیا جائے، جیسا کہ صحیحین میں ہے کہ بیٹھنا اتنا ضروری ہی ہو تو راستے کو اس کا حق ادا کرو، اور وہ یہ ہے کہ نظر نیچی رکھو، راستے سے روکاوٹ ہٹا دو، سلام کا جواب دو، اور اچھی بات کا حکم دو، بری بات یا برے کام سے روکو، اگر یہ کام کوئی نہ کر سکے تو راستے میں نہ بیٹھنا ہی بہتر ہے۔
والله اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده منقطع ولكن الحديث صحيح
26. باب في وَضْعِ إِحْدَى الرِّجْلَيْنِ عَلَى الأُخْرَى:
26. ایک پیر دوسرے پر رکھنے کا بیان
حدیث نمبر: 2691
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن احمد بن ابي خلف , حدثنا سفيان، قال: سمعت الزهري يحدث، عن عباد بن تميم، عن عمه، قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم "مستلقيا في المسجد، واضعا إحدى رجليه على الاخرى".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي خَلَفٍ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ، عَنْ عَمِّهِ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "مُسْتَلْقِيًا فِي الْمَسْجِدِ، وَاضِعًا إِحْدَى رِجْلَيْهِ عَلَى الْأُخْرَى".
عباد بن تمیم نے اپنے چچا سیدنا عبداللہ بن زید بن عاصم مازنی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں چت لیٹے ہوئے دیکھا اور آپ اپنا ایک پاؤں دوسرے پر رکھے ہوئے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2698]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث بھی متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 475]، [مسلم 2100]، [أبوداؤد 4866]، [ترمذي 2765]، [نسائي 720]، [ابن حبان 5552]، [الحميدي 418]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2690)
اس حدیث سے وقتِ ضرورت مسجد میں لیٹنا، چت لیٹنا، پیر پر پیر رکھ لیٹنا ثابت ہوا۔
بعض روایت میں چت لیٹ کر ایک پاؤں دوسرے پر رکھنے کی ممانعت بھی آئی ہے، لیکن اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس طرح لیٹنا ثابت ہے۔
سیدنا عمر و سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما سے بھی ایسے لیٹنا ثابت ہے، اس لئے کہا جائے گا کہ ممانعت اس صورت میں ہے کہ جب شرم گاہ بے پردہ ہونے کا خطرہ ہو، جو شخص ستر پوشی کا پورا خیال رکھے اس کے اس طرح لیٹنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
27. باب لاَ يَتَنَاجَى اثْنَانِ دُونَ صَاحِبِهِمَا:
27. دو آدمی تیسرے کو چھوڑ کر کانا پھوسی نہ کریں
حدیث نمبر: 2692
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن موسى، عن الاعمش، عن ابي وائل، عن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا كنتم ثلاثة، فلا يتناجى اثنان دون صاحبهما، فإن ذلك يحزنه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا كُنْتُمْ ثَلَاثَةً، فَلَا يَتَنَاجَى اثْنَانِ دُونَ صَاحِبِهِمَا، فَإِنَّ ذَلِكَ يُحْزِنُهُ".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم تین آدمی ہو تو تم دو آدمی تیسرے کو اکیلا چھوڑ کر کانا پھوسی نہ کرو کیونکہ اس سے اس (تیسرے) کو رنج ہوگا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2699]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6290]، [مسلم 2184/38]، [أبوداؤد 4852]، [ترمذي 2825]، [ابن ماجه 3775]، [أبويعلی 5114]، [ابن حبان 583]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2691)
تیسرے کی موجودگی میں دو آدمیوں کا الگ ایک دوسرے سے سرگوشی کرنا منع ہے، کیونکہ اس سے تیسرے آدمی کو وہم ہو سکتا ہے کہ اس کی برائی، یا اس کے خلاف تو کوئی پلان یا سازش نہیں کر رہے ہیں، یا اس کو قابلِ اعتماد نہ سمجھا، اور اس سے اس کے دل کو ٹھیس لگے گی۔
ہاں تین سے زیادہ آدمی ہوں تو چپکے چپکے کانا پھوسی کرنے میں حرج نہیں، لیکن انسان کو مظان الریب والشک سے بچنا چاہیے۔
الله تعالیٰ کا فرمان ہے: « ﴿إِنَّمَا النَّجْوَى مِنَ الشَّيْطَانِ﴾ [المجادلة: 10] » کانا پھوسی شیطانی کام ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
28. باب في كَفَّارَةِ الْمَجْلِسِ:
28. مجلس کے کفارے کا بیان
حدیث نمبر: 2693
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا يعلى بن عبيد، حدثنا حجاج يعني: ابن دينار، عن ابي هاشم، عن رفيع: ابي العالية، عن ابي برزة الاسلمي، قال: لما كان باخرة، كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا جلس في المجلس فاراد ان يقوم، قال: "سبحانك اللهم وبحمدك، اشهد ان لا إله إلا انت، استغفرك واتوب إليك". فقالوا: يا رسول الله، إنك لتقول الآن كلاما، ما كنت تقوله فيما خلا، فقال:"هذا كفارة لما يكون في المجالس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ يَعْنِي: ابْنَ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي هَاشِمٍ، عَنْ رُفَيْعٍ: أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ، قَالَ: لَمَّا كَانَ بِأَخَرَةٍ، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَلَسَ فِي الْمَجْلِسِ فَأَرَادَ أَنْ يَقُومَ، قَالَ: "سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ". فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ لَتَقُولُ الْآنَ كَلَامًا، مَا كُنْتَ تَقُولُهُ فِيمَا خَلَا، فَقَالَ:"هَذَا كَفَّارَةٌ لِمَا يَكُونُ فِي الْمَجَالِسِ".
سیدنا ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ نے کہا: آخر (عمر) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مجلس میں بیٹھے ہوتے اور کھڑے ہونے کا ارادہ فرماتے تو کہتے: «سُبْحَانَكَ اَللّٰهُمَّ ...... أَتُوْبُ إِلَيْكَ» اے اللہ! میں تیری حمد کے ساتھ تیری پاکی بیان کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، میں تجھ سے مغفرت چاہتا ہوں اور توبہ کرتا ہوں۔ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! پہلے تو آپ یہ نہ کہتے تھے جو اب کہتے ہیں؟ فرمایا: یہ مجلس میں جو باتیں ہوئیں اس کا کفارہ ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأبو هاشم هو الرفاعي قيل: اسمه: يحيى بن دينار، [مكتبه الشامله نمبر: 2700]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4859]، [أبويعلی 7426]، [ابن حبان 594]، [موارد الظمآن 2366]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2692)
یعنی ذکرِ الٰہی کے سوا یا کسی اور سے متعلق کوئی بات ہوئی ہو تو یہ دعا اس کا کفارہ ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انسان کسی بھی مجلس سے اٹھے تو یہ دعا پڑھ لے، اس کے لئے کفارہ ہو جائے گا۔
الله تعالیٰ کا بھی فرمان ہے: « ﴿وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِينَ تَقُومُ﴾ [الطور: 48] » یعنی جب تم کھڑے ہو تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرو۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وأبو هاشم هو الرفاعي قيل: اسمه: يحيى بن دينار
29. باب إِذَا عَطَسَ الرَّجُلُ مَا يَقُولُ:
29. جب آدمی کو چھینک آئے تو کیا کہے؟
حدیث نمبر: 2694
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن عامر، عن شعبة، عن محمد بن عبد الرحمن بن ابي ليلى، عن اخيه عيسى، عن ابيه عبد الرحمن بن ابي ليلى، عن ابي ايوب الانصاري، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "العاطس يقول: الحمد لله على كل حال. ويقول الذي يشمته: يرحمكم الله، ويرد عليه: يهديكم الله ويصلح بالكم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ أَخِيهِ عِيسَى، عَنْ أَبِيهِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "الْعَاطِسُ يَقُولُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ. وَيَقُولُ الَّذِي يُشَمِّتُهُ: يَرْحَمُكُمْ اللَّهُ، وَيَرُدُّ عَلَيْهِ: يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ".
سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چھینکنے والا کہے گا: «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ» (الله کا بہت بہت شکر ہے ہر حال میں)، اور سننے والا جواب میں کہے گا: «يَرْحَمُكُمُ اللّٰهُ» (اللہ تم پر رحم کرے)، پھر چھینکنے والا کہے گا: «يَهْدِيْكُمُ اللّٰھُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ» یعنی اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہارا حال سدھار دے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف محمد بن عبد الرحمن بن أبي ليلى سيئ الحفظ جدا، [مكتبه الشامله نمبر: 2701]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے لیکن اس کا شاہد موجود ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6224]، [أبوداؤد 5033]، [ترمذي 2742]، [الطيالسي 1864]، [ابن السني فى عمل اليوم و الليلة 255]، [طبراني 161/4، 4009]، [الحاكم فى المستدرك 266/4]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف محمد بن عبد الرحمن بن أبي ليلى سيئ الحفظ جدا

Previous    1    2    3    4    5    6    7    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.