الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
وصیت کے مسائل
20. باب إِذَا تَصَدَّقَ الرَّجُلُ عَلَى بَعْضِ وَرَثَتِهِ:
20. کوئی آدمی اپنے بعض وارثین پر صدقہ کرے؟
حدیث نمبر: 3268
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا مروان بن محمد، حدثنا سعيد، عن مكحول، قال: "إذا تصدق الرجل على بعض ورثته وهو صحيح باكثر من النصف، رد إلى الثلث، وإذا اعطى النصف، جاز له ذلك". قال سعيد: وكان قضاة اهل دمشق يقضون بذلك.(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ مَكْحُولٍ، قَالَ: "إِذَا تَصَدَّقَ الرَّجُلُ عَلَى بَعْضِ وَرَثَتِهِ وَهُوَ صَحِيحٌ بِأَكْثَرَ مِنْ النِّصْفِ، رُدَّ إِلَى الثُّلُثِ، وَإِذَا أَعْطَى النِّصْفَ، جَازَ لَهُ ذَلِكَ". قَالَ سَعِيدٌ: وَكَانَ قُضَاةُ أَهْلِ دِمَشْقَ يَقْضُونَ بِذَلِكَ.
مکحول رحمہ اللہ نے کہا: کوئی آدمی بحالت تندرستی اپنے کسی وارث پر آدھے سے زیادہ مال صدقہ کرے تو وہ تہائی تک محدود کر دیا جائے، اور اگر خود سے نصف مال دے دے تو یہ اس کے لئے جائز ہو گا۔ سعید نے کہا: اہل دمشق اسی کا فتویٰ دیتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3279]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ سعید: ابن عبدالعزيز تنوخی ہیں۔ اس کا شاہد [مصنف عبدالرزاق 16398] میں دیکھئے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 3264 سے 3268)
بحالتِ تندرستی آدمی اپنے مال میں سے جس کو جتنا چاہے دے سکتا ہے، لیکن وارثین کے درمیان عدل و انصاف ملحوظ رکھنا چاہیے، کسی وارث کے ساتھ ظلم و زیادتی جائز نہیں، ہر آدمی کو قیامت کے دن اس کا حساب دینا ہوگا، الله تعالیٰ سب کو اپنی رعیت اور وارثین کے ساتھ عدل و انصاف کی توفیق بخشے، آمین۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
21. باب مَنْ قَالَ الْكَفَنُ مِنْ جَمِيعِ الْمَالِ:
21. کفن کا خرچ تمام مال میں سے ہو گا
حدیث نمبر: 3269
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) حدثنا عبد الله بن محمد بن ابي شيبة، حدثنا حفص، عن إسماعيل بن ابي خالد، عن الحكم، عن إبراهيم، قال: "الكفن من جميع المال".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: "الْكَفَنُ مِنْ جَمِيعِ الْمَالِ".
ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا: کفن (کا خرچ مرنے والے کے) تمام مال میں سے ہو گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3280]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 1920، 1928، 1931]، [عبدالرزاق 6223]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 3270
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا إبراهيم بن موسى، عن معاذ، عن اشعث، عن الحسن:"في رجل مات وترك قيمة الفي درهم، وعليه مثلها او اكثر، قال: يكفن منها، ولا يعطى دينه".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، عَنْ مُعَاذٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنْ الْحَسَنِ:"فِي رَجُلٍ مَاتَ وَتَرَكَ قِيمَةَ أَلْفَيْ دِرْهَمٍ، وَعَلَيْهِ مِثْلُهَا أَوْ أَكْثَرُ، قَالَ: يُكَفَّنُ مِنْهَا، وَلَا يُعْطَى دَيْنُهُ".
حسن رحمہ اللہ نے کہا: کوئی آدمی فوت ہو گیا اور دو ہزار درہم چھوڑ گیا، اور اس پر اتنا ہی یا اس سے زیادہ قرض ہو، انہوں نے کہا: اس سے اس کے کفن دفن کا انتظام کیا جائے گا، اور قرض ادا نہ کیا جائے گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى الحسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3281]»
اس اثر کی سند صحیح ہے، لیکن کسی اور نے روایت نہیں کیا۔ اسی کے مثل [ابن أبى شيبه 1922] میں ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 3268 سے 3270)
میت پر اگر قرض ہے تو سب سے پہلے قرض ادا کرنا ضروری ہے، لیکن اگر اتنا مال نہ ہو کہ قرض ادا کیا جا سکے تو سب سے پہلے اس کے کفن دفن کا ہی انتظام کیا جائے گا، جیسا کہ حسن رحمہ اللہ نے فرمایا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى الحسن
حدیث نمبر: 3271
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) حدثنا قبيصة، حدثنا سفيان، عمن سمع إبراهيم، قال: "يبدا بالكفن، ثم الدين، ثم الوصية".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَمَّنْ سَمِعَ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: "يُبْدَأُ بِالْكَفَنِ، ثُمَّ الدَّيْنِ، ثُمَّ الْوَصِيَّةِ".
ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا: ایسی صورت میں ابتداء کفن سے ہو گی، پھر (جو بچے اس سے) قرض ادا کیا جائے، اور اس کے بعد وصیت نافذ کی جائے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه جهالة، [مكتبه الشامله نمبر: 3282]»
اس اثر کی سند میں راوی مجہول ہے، لیکن [عبدالرزاق 6224] نے بسند صحیح روایت کیا ہے۔ نیز امام بخاری نے اس روایت کو تعلیقاً ذکر کیا ہے۔ دیکھئے: [فتح الباري 140/3-141]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه جهالة
حدیث نمبر: 3272
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) حدثنا قبيصة، انبانا سفيان، عن فراس، عن الشعبي:"في المراة تموت، قال: "تكفن من مالها، ليس على الزوج شيء".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، أنبأنا سُفْيَانُ، عَنْ فِرَاسٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ:"فِي الْمَرْأَةِ تَمُوتُ، قَالَ: "تُكَفَّنُ مِنْ مَالِهَا، لَيْسَ عَلَى الزَّوْجِ شَيْءٌ".
امام شعبی رحمہ اللہ سے مروی ہے: جو عورت فوت ہو جائے تو اس کے مال سے ہی اس کی تکفین ہوگی، شوہر پر اس کا بار نہ ہو گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3283]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 1930]۔ یہ اس صورت میں ہے جب بیوی نے اپنا نجی مال چھوڑا ہو۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 3273
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) حدثنا سعيد بن المغيرة، عن ابن المبارك، عن ابن جريج، عن عطاء، قال: "الحنوط، والكفن من راس المال".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: "الْحَنُوطُ، وَالْكَفَنُ مِنْ رَأْسِ الْمَالِ".
عطاء نے کہا: حنوط اور کفن میت کے اصل مال سے ہو گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ابن جريج قد عنعن، [مكتبه الشامله نمبر: 3284]»
اس اثر کی سند ابن جریج کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن [مصنف عبدالرزاق 6222] میں صحیح سند سے مروی ہے، چنانچہ امام بخاری نے کتاب الجنائز میں اسی طرح باب باندھا: «باب: الكفن من جميع المال وبه قال عطاء» ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ابن جريج قد عنعن
حدیث نمبر: 3274
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) حدثنا محمد بن عيينة، عن علي بن مسهر، عن إسماعيل، عن الحسن، قال: "الكفن من وسط المال، يكفن على قدر ما كان يلبس في حياته، ثم يخرج الدين، ثم الثلث".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُسْهِرٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل، عَنْ الْحَسَنِ، قَالَ: "الْكَفَنُ مِنْ وَسَطِ الْمَالِ، يكفن على قدر ما كان يلبس في حياته، ثم يخرج الدين، ثم الثلث".
حسن رحمہ اللہ نے کہا: کفن (میت کے) مال سے ہی دیا جائے گا، اور جس طرح اپنی زندگی میں پہنتا تھا ویسا ہی کفن ہو گا، پھر قرض نکالا جائے گا، اور اس کے بعد تہائی مال کی وصیت نافذ کی جائے گی۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف إسماعيل وهو: ابن مسلم المكي، [مكتبه الشامله نمبر: 3285]»
اس اثر کی سند اسماعیل بن مسلم مکی کی وجہ سے ضعیف ہے، کہیں اور یہ روایت نہیں مل سکی لیکن اسی طرح کا قول (3271) میں گذر چکا ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 3270 سے 3274)
میت کے ترکے کی اس ترتیب سے تقسیم ہوگی: پہلے کفن دفن کا انتظام، پھر جو بچے اس میں سے قرض ادا کیا جائے، اس کے بعد اگر کوئی وصیت ہے وہ جاری کی جائے گی، پھر ورثاء میں مال تقسیم کیا جائے گا۔
والله اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف إسماعيل وهو: ابن مسلم المكي
22. باب إِذَا أَوْصَى الرَّجُلُ إِلَى الرَّجُلِ وَهُوَ غَائِبٌ:
22. کوئی آدمی ایسے شخص کے لئے وصیت کرے جو غائب ہو
حدیث نمبر: 3275
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا ابو النعمان، حدثنا هشيم، انبانا منصور، عن الحسن، انه كان يقول: "إذا اوصى الرجل إلى الرجل وهو غائب، فليقبل وصيته، وإن كان حاضرا، فهو بالخيار: إن شاء، قبل، وإن شاء، ترك".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَنْبَأَنَا مَنْصُورٌ، عَنِ الْحَسَنِ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: "إِذَا أَوْصَى الرَّجُلُ إِلَى الرَّجُلِ وَهُوَ غَائِبٌ، فَلْيَقْبَلْ وَصِيَّتَهُ، وَإِنْ كَانَ حَاضِرًا، فَهُوَ بِالْخِيَارِ: إِنْ شَاءَ، قَبِلَ، وَإِنْ شَاء، َتَرَكَ".
حسن رحمہ اللہ کہتے تھے: کوئی آدمی کسی ایسے شخص کے لئے وصیت کرے جو غائب ہو تو اس کو وہ وصیت قبول کر لینی چاہیے، اور اگر وہ (موصی الیہ) موجود ہو تو اسے اختیار ہے چاہےتو قبول کر لے اور اگر چاہے تو چھوڑ دے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى الحسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3286]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10998]۔ ابوالنعمان: محمد بن الفضل ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى الحسن
حدیث نمبر: 3276
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) حدثنا صالح بن عبد الله، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، قال: سالت الحسن، ومحمدا عن"الرجل يوصي إلى الرجل، قالا: نختار ان يقبل".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، قَالَ: سَأَلْتُ الْحَسَنَ، وَمُحَمَّدًا عَنِ"الرَّجُلِ يُوصِي إِلَى الرَّجُلِ، قَالَا: نَخْتَارُ أَنْ يَقْبَلَ".
ایوب (السختیانی) سے مروی ہے کہ میں نے حسن اور محمد رحمہما اللہ سے پوچھا: کوئی آدمی کسی کے لئے وصیت کرے تو؟ دونوں نے کہا: اس کو وصیت قبول کر لینی چاہیے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3287]»
اس اثر کی سند صحیح ہے، لیکن کہیں اور یہ روایت نہیں ملی، اس کے ہم معنی [ابن أبى شيبه 10957] میں ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 3277
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا محمد بن اسعد، حدثنا ابو بكر، عن هشام، عن الحسن، قال: "إذا اوصى الرجل إلى الرجل وهو غائب، فإذا قدم فإن شاء، قبل، فإذا قبل، لم يكن له ان يرد".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَسْعَدَ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: "إِذَا أَوْصَى الرَّجُلُ إِلَى الرَّجُلِ وَهُوَ غَائِبٌ، فَإِذَا قَدِمَ فَإِنْ شَاءَ، قَبِلَ، فَإِذَا قَبِلَ، لَمْ يَكُنْ لَهُ أَنْ يَرُدَّ".
حسن رحمہ اللہ نے کہا: کوئی آدمی کسی غائب آدمی کے لئے وصیت کرے اور وہ اسے قبول کر لے تو پھر اسے رد کرنے کا اختیار نہیں ہو گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده لين من أجل محمد بن أسعد - أو سعيد - التغلبي، [مكتبه الشامله نمبر: 3288]»
محمد بن اسعد یا سعید تغلبی کی وجہ سے اس اثر کی سند میں کمزوری ہے، لیکن ان کا متابع اور شاہد موجود ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10998 بسند حسن]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده لين من أجل محمد بن أسعد - أو سعيد - التغلبي

Previous    3    4    5    6    7    8    9    10    11    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.