الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
نماز کے مسائل
حدیث نمبر: 1286
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سهل بن حماد، حدثنا شعبة، عن عمرو بن مرة، حدثني ابو البختري، عن عبد الرحمن اليحصبي، عن وائل الحضرمي، انه صلى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فكان "يكبر إذا خفض وإذا رفع، ويرفع يديه عند التكبير، ويسلم عن يمينه، وعن يساره". قال: قلت: حتى يبدو وضح وجهه؟ قال: نعم.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، حَدَّثَنِي أَبُو الْبَخْتَرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْيَحْصُبِيِّ، عَنْ وَائِلٍ الْحَضْرَمِيِّ، أَنَّهُ صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَانَ "يُكَبِّرُ إِذَا خَفَضَ وَإِذَا رَفَعَ، وَيَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ التَّكْبِيرِ، وَيُسَلِّمُ عَنْ يَمِينِهِ، وَعَنْ يَسَارِهِ". قَالَ: قُلْتُ: حَتَّى يَبْدُوَ وَضَحُ وَجْهِهِ؟ قَالَ: نَعَمْ.
سیدنا وائل حضرمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب جھکتے اور اٹھتے تو تکبیر کہتے، اور اپنے دونوں ہاتھ تکبیر کے وقت اٹھاتے تھے، اور دائیں و بائیں طرف سلام پھیرتے تھے،کہا گیا: یہاں تک کہ چہرے کی سفیدی دکھنے لگتی۔ کہا: ہاں۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 1287]»
یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 997] و [البيهقي 26/2]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1283 سے 1286)
ان روایات سے تین مقامات پر رفع یدین کا ثبوت ملا۔
یعنی تکبیرِ تحریمہ، رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت، چوتھا مقام تیسری رکعت کے لئے جب کھڑے ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رفع یدین کرتے تھے۔
یہ ہی سنّت ہے، اور عربی کا قاعدہ ہے کہ «كَانَ» کی خبر فعل مضارع ہو تو اس سے استمرار ثابت ہوتا ہے، مذکورہ بالا روایت اور دیگر روایات میں ہے «كَانَ يُكَبِّرُ وَيَرْفَعُ يَدَيْهِ.» اس سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مذکورہ بالا مقامات پر نماز میں ہمیشہ رفع یدین کرتے تھے۔
اور اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمیشہ رفع یدین کرنا ثابت ہوا، اور یہ کہنا کہ صرف ابتدائے اسلام میں رفع یدین اس وجہ سے کی جاتی تھی کہ لوگ بغل میں بت چھپائے رہتے تھے، یہ کہانی بالکل لغو اور باطل ہے، اگر بت چھپا کر لانے والے مسلمان تھے تو یہ صحابہ کرام پر بڑا عظیم بہتان ہے، اور کافر و منافق بھی ایسا نہیں کر سکتے تھے۔
بعض لوگ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت سے استدلال کرتے ہیں اور ان مقامات پر رفع یدین کرنے کو منسوخ گردانتے ہیں، یہ غلط ہے، جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا، اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول اگر صحیح سند سے ثابت بھی ہو تو وہ شاذ ہے کیونکہ اکثر صحابہ کرام نے رفع یدین کا ذکر کیا ہے، جیسا کہ دس صحابہ نے رفع الیدین کی تائید کی۔
دیکھئے: حدیث رقم (1394)، نیز (1345) میں بھی رفع الیدین کا ذکر ہے۔
صرف اکیلے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
اس لئے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول و فعل شاذ ہونے کے سبب نا قابلِ حجت و نا قابلِ عمل ہوگا۔
واللہ اعلم۔
ہمارے احناف بھائی رفع الیدین کے سلسلے میں ان کے فعل کو حجت مانتے ہیں لیکن بہت سے مسائل میں ان کی مخالفت کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر:
1- سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے نزدیک سورة الفاتحۃ قرآن میں سے نہیں ہے۔
2- قرآن پاک کی سورتوں کی ترتیب ان کے نزدیک اس طرح تھی: بقرہ، نساء، آل عمران۔
٣- وہ ہر نماز کو اوّل وقت میں پڑھنے کے قائل تھے، احناف آخر وقت میں پڑھتے ہیں۔
دیکھئے: حدیث (1219، 1259) و [بخاري 527] ۔
4- سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: اللہ حلالہ کرنے والے پر اور کروانے والے پر لعنت کرے۔
دیکھئے: [سنن دارمي 2300] لیکن احناف خوب حلالہ کرتے اور کراتے ہیں۔
5- نماز میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ ایک طرف سلام پھیرنے کو ترجیح دیتے تھے۔
دیکھئے: حدیث نمبر (1384)۔
6- رکوع میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے اہل و عیال دونوں ہاتھ گھٹنوں کے درمیان رکھتے تھے، حالانکہ یہ حکم منسوخ ہو گیا تھا اور ایسا کرنے پر سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اپنے لڑکے کو مارا بھی تھا۔
دیکھئے: [نسائي 1033]، احناف کیوں رکوع میں گھٹنوں کے درمیان ہاتھ نہیں رکھتے؟
7- تسبیح کے دانوں پر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے تسبيح و تہلیل پڑھنے کو سخت ناپسند کیا۔
دیکھئے: حدیث نمبر (210)، لیکن احناف ہاتھ میں مالا لئے خوب بازاروں میں گھومتے ہیں۔
8- سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے کہ فرشتے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم تک درود پہنچاتے ہیں۔
ص: 289، پھر احناف کیوں حجاج سے سلام کہلواتے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ دیگر انسانوں کی طرح سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی بتقاضۂ بشریت کچھ چوک ہوئی، اس لئے جو بات ان کی دیگر صحابہ کرام کے اقوال کے مطابق ہے مانی جائے گی، اور جو خلافِ سنّت یا خلافِ اجماعِ صحابہ ہے وہ بات قابلِ عمل اور حجت نہ ہوگی۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
42. باب مَنْ أَحَقُّ بِالإِمَامَةِ:
42. امامت کرانے کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟
حدیث نمبر: 1287
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يحيى بن حسان، حدثنا وهيب بن خالد، حدثنا ايوب، عن ابي قلابة، عن مالك بن الحويرث، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم في نفر من قومي ونحن شببة، فاقمنا عنده عشرين ليلة، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم رفيقا، فلما راى شوقنا إلى اهلينا، قال: "ارجعوا إلى اهليكم فكونوا فيهم، فمروهم وعلموهم، وصلوا كما رايتموني اصلي، فإذا حضرت الصلاة، فليؤذن لكم احدكم، ثم ليؤمكم اكبركم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَفَرٍ مِنْ قَوْمِي وَنَحْنُ شَبَبَةٌ، فَأَقَمْنَا عِنْدَهُ عِشْرِينَ لَيْلَةً، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَفِيقًا، فَلَمَّا رَأَى شَوْقَنَا إِلَى أَهْلِينَا، قَالَ: "ارْجِعُوا إِلَى أَهْلِيكُمْ فَكُونُوا فِيهِمْ، فَمُرُوهُمْ وَعَلِّمُوهُمْ، وَصَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي، فَإِذَا حَضَرَتْ الصَّلَاةُ، فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أَحَدُكُمْ، ثُمَّ لِيَؤُمَّكُمْ أَكْبَرُكُمْ".
سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اپنی قوم (بنی لیث) کے کچھ لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، ہم سب ہی نوجوان تھے اور ہم نے بیس دن آپ کے پاس قیام کیا، آپ بڑے نرم دل تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل و عیال کے پاس چلے جانے کا ہمارا اشتیاق دیکھا تو فرمایا: جاؤ اپنے اہل و عیال کے پاس چلے جاؤ اور ان کے ساتھ رہو، انہیں بتاؤ اور سکھاؤ اور ویسے ہی نماز پڑھو جیسے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے، جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے کوئی تمہارے لئے اذان دے پھر تم میں جو سب سے بڑا ہو وہ تمہاری امامت کرائے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1288]»
یہ حدیثت صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 628]، [مسلم 672]، [ابن حبان 1658]، [بيهقي فى المعرفة 5895]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
حدیث نمبر: 1288
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عفان، حدثنا همام، عن قتادة، عن ابي نضرة، عن ابي سعيد الخدري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا اجتمع ثلاثة، فليؤمهم احدهم، واحقهم بالإمامة اقرؤهم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةُ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا اجْتَمَعَ ثَلَاثَةٌ، فَلْيَؤُمَّهُمْ أَحَدُهُمْ، وَأَحَقُّهُمْ بِالْإِمَامَةِ أَقْرَؤُهُمْ".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تین آ دمی جمع ہو جائیں تو ان میں سے ایک جو سب سے زیا دہ (قرآن) پڑھا ہو وہی ان کی امامت کا حقدار ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1289]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 672]، [نسائي 781]، [مسند أبى يعلی 1291]، [ابن حبان 1232]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1286 سے 1288)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو سب سے زیادہ قرآن پڑھا ہوا ہو وہ امامت کرانے کا حق دار ہے۔
[مسلم شريف 672] میں تفصیل سے ہے کہ امامت جو سب سے زیادہ قرآن کا قاری ہو وہ کرائے، اور سب ہی ایک جیسے ہوں تو جو سب سے زیادہ حدیث کا علم رکھتا ہے وہ نماز پڑھائے، اس میں بھی سب برابر ہوں تو جو ہجرت کے اعتبار سے سب پر مقدم ہو وہ امامت کرائے۔
إلخ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
43. باب مَقَامِ مَنْ يُصَلِّي مَعَ الإِمَامِ إِذَا كَانَ وَحْدَهُ:
43. امام کے ساتھ اکیلا آدمی کہاں کھڑا ہو
حدیث نمبر: 1289
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا شعبة، عن الحكم، قال: سمعت سعيد بن جبير يحدث، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: كنت عند خالتي ميمونة، فجاء النبي صلى الله عليه وسلم بعد العشاء فصلى اربع ركعات، ثم قام، فقال:"انام الغليم؟"او كلمة نحوها، فقام فصلى فجئت، فقمت عن يساره، فاخذ بيدي فجعلني عن يمينه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ يُحَدِّثُ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهِ عَنْهُمَا، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ خَالَتِي مَيْمُونَةَ، فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ الْعِشَاءِ فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ قَامَ، فَقَالَ:"أَنَامَ الْغُلَيِّمُ؟"أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا، فَقَامَ فَصَلَّى فَجِئْتُ، فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ، فَأَخَذَ بِيَدِي فَجَعَلَنِي عَنْ يَمِينِهِ.
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: میں اپنی خالہ (صاحبہ) سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کے بعد تشریف لائے اور آپ نے چار رکعت نماز پڑھی، پھر کھڑے ہوئے تو فرمایا: کیا بٹوا سو گیا؟ یا اسی طرح کا کوئی کلمہ کہا، پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے تو میں جا کر آپ کے بائیں طرف مل گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اپنے دائیں طرف کر لیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1290]»
اس حدیث کی سند صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 378]، [مسلم 411]، [مسند أبى يعلی 3558] و [الحميدي 1232]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1288)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اکیلا آدمی نمازِ جماعت میں امام کے دائیں طرف کھڑا ہو گا، اور جو امامت کرائے وہ دو آدمیوں میں بائیں طرف رہے گا۔
نیز اس حدیث سے گھر میں نماز پڑھنا بھی ثابت ہوا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرض نمازوں کے علاوہ سنن و نوافل زیادہ تر گھر میں ہی پڑھتے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گھروں میں نماز پڑھا کرو، گھروں کو قبرستان نہ بناؤ۔
یہ اس لئے فرمایا کیونکہ قبرستان میں نماز نہیں پڑھی جاتی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
44. باب فِيمَنْ يُصَلِّي خَلْفَ الإِمَامِ وَالإِمَامُ جَالِسٌ:
44. امام بیٹھا ہو تو اس کے پیچھے نماز پڑھنے کا بیان
حدیث نمبر: 1290
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن عبد المجيد، حدثنا مالك، عن ابن شهاب، عن انس رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم ركب فرسا فصرع عنه، فجحش شقه الايمن، فصلى صلاة من الصلوات وهو جالس، فصلينا معه جلوسا، فلما انصرف، قال:"إنما جعل الإمام ليؤتم به، فلا تختلفوا عليه، فإذا صلى قائما، فصلوا قياما، وإذا ركع فاركعوا، وإذا رفع، فارفعوا، وإذا قال: سمع الله لمن حمده، فقولوا: ربنا ولك الحمد، وإن صلى قاعدا، فصلوا قعودا اجمعون".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهِ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكِبَ فَرَسًا فَصُرِعَ عَنْهُ، فَجُحِشَ شِقُّهُ الْأَيْمَنُ، فَصَلَّى صَلَاةً مِنْ الصَّلَوَاتِ وَهُوَ جَالِسٌ، فَصَلَّيْنَا مَعَهُ جُلُوسًا، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ:"إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَلَا تَخْتَلِفُوا عَلَيْهِ، فَإِذَا صَلَّى قَائِمًا، فَصَلُّوا قِيَامًا، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا رَفَعَ، فَارْفَعُوا، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، وَإِنْ صَلَّى قَاعِدًا، فَصَلُّوا قُعُودًا أَجْمَعُونَ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھوڑے پر سوار ہوئے تو آپ اس پر سے گر پڑے، اس سے آپ کا دایاں پہلو زخمی ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (فرض) نمازوں میں سے کوئی نماز بیٹھ کر پڑھی، پس ہم نے بھی آپ کے ساتھ بیٹھ کر ہی نماز پڑھی، جب آپ فارغ ہوئے تو فرمایا: امام اس لئے مقرر کیا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، اس لئے اس (امام) کی مخالفت نہ کرو، لہٰذا جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھائے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو، جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ «سمع الله لمن حمده» کہے تو تم «ربنا ولك الحمد» کہو، اور اگر وہ امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم سب بھی بیٹھ کر ہی نماز پڑھو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1291]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 689]، [مسلم 411]، [أبوداؤد 601]، [نسائي 831]، [أبويعلی 3558]، [ابن حبان 2102]، [الحميدي 1223]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
حدیث نمبر: 1291
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا احمد بن يونس، حدثنا زائدة، حدثنا موسى بن ابي عائشة، عن عبيد الله بن عبد الله، قال: دخلت على عائشة فقلت لها: لا تحدثيني عن مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقالت: بلى، ثقل رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:"اصلى الناس؟"قلنا: لا، هم ينتظرونك يا رسول الله، فقال:"ضعوا لي ماء في المخضب". قالت: ففعلنا، فاغتسل، ثم ذهب لينوء فاغمي عليه، ثم افاق، فقال:"اصلى الناس؟"فقلنا: لا، هم ينتظرونك يا رسول الله، فقال:"ضعوا لي ماء في المخضب". ففعلنا، ثم ذهب لينوء، فاغمي عليه، ثم افاق، فقال:"اصلى الناس؟"فقلنا: لا، هم ينتظرونك يا رسول الله. قالت: والناس عكوف في المسجد ينتظرون رسول الله صلى الله عليه وسلم لصلاة العشاء الآخرة. قالت: فارسل رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى ابي بكر ان يصلي بالناس. قالت: فاتاه الرسول، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم يامرك بان تصلي بالناس. فقال ابو بكر وكان رجلا رقيقا: يا عمر، صل بالناس. فقال له عمر: انت احق بذلك. قالت: فصلى بهم ابو بكر تلك الايام. قالت: ثم إن رسول الله صلى الله عليه وسلم وجد من نفسه خفة فخرج بين رجلين احدهما العباس لصلاة الظهر، وابو بكر يصلي بالناس، فلما رآه ابو بكر ذهب ليتاخر، فاوما إليه النبي صلى الله عليه وسلم ان لا يتاخر، وقال لهما:"اجلساني إلى جنبه". فاجلساه إلى جنب ابي بكر. قالت: فجعل ابو بكر يصلي وهو قائم بصلاة النبي صلى الله عليه وسلم، والناس يصلون بصلاة ابي بكر والنبي صلى الله عليه وسلم قاعد". قال عبيد الله: فدخلت على عبد الله بن عباس، فقلت له: الا اعرض عليك ما حدثتني عائشة عن مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال: هات، فعرضت حديثها عليه، فما انكر منه شيئا غير انه قال: اسمت لك الرجل الذي كان مع العباس؟ قلت: لا، فقال: هو علي بن ابي طالب.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ فَقُلْتُ لَهَا: لا تُحَدِّثِينِي عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَتْ: بَلَى، ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:"أَصَلَّى النَّاسُ؟"قُلْنَا: لَا، هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ:"ضَعُوا لِي مَاءً فِي الْمِخْضَبِ". قَالَتْ: فَفَعَلْنَا، فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوءَ فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَفَاقَ، فَقَالَ:"أَصَلَّى النَّاسُ؟"فَقُلْنَا: لَا، هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ:"ضَعُوا لِي مَاءً فِي الْمِخْضَبِ". فَفَعَلْنَا، ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوءَ، فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَفَاقَ، فَقَالَ:"أَصَلَّى النَّاسُ؟"فَقُلْنَا: لَا، هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَتْ: وَالنَّاسُ عُكُوفٌ فِي الْمَسْجِدِ يَنْتَظِرُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِصَلَاةِ الْعِشَاءِ الْآخِرَةِ. قَالَتْ: فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ. قَالَتْ: فَأَتَاهُ الرَّسُولُ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكَ بِأَنْ تُصَلِّيَ بِالنَّاسِ. فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ وَكَانَ رَجُلًا رَقِيقًا: يَا عُمَرُ، صَلِّ بِالنَّاسِ. فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: أَنْتَ أَحَقُّ بِذَلِكَ. قَالَتْ: فَصَلَّى بِهِمْ أَبُو بَكْرٍ تِلْكَ الْأَيَّامَ. قَالَتْ: ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَدَ مِنْ نَفْسِهِ خِفَّةً فَخَرَجَ بَيْنَ رَجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا الْعَبَّاسُ لِصَلَاةِ الظُّهْرِ، وَأَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ، فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ ذَهَبَ لِيَتَأَخَّرَ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا يَتَأَخَّرَ، وَقَالَ لَهُمَا:"أَجْلِسَانِي إِلَى جَنْبِهِ". فَأَجْلَسَاهُ إِلَى جَنْبِ أَبِي بَكْرٍ. قَالَتْ: فَجَعَلَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي وَهُوَ قَائِمٌ بِصَلَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاةِ أَبِي بَكْرٍ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ". قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: فَدَخَلْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، فَقُلْتُ لَهُ: أَلَا أَعْرِضُ عَلَيْكَ مَا حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: هَاتِ، فَعَرَضْتُ حَدِيثَهَا عَلَيْهِ، فَمَا أَنْكَرَ مِنْهُ شَيْئًا غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: أَسَمَّتْ لَكَ الرَّجُلَ الَّذِي كَانَ مَعَ الْعَبَّاسِ؟ قُلْتُ: لَا، فَقَالَ: هُوَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ.
عبدالله بن عبداللہ (بن عتبہ) نے کہا: میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے عرض کیا: کیا آپ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کی حالت بیان نہیں کریں گی؟ کہا: ضرور، (سنو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مرض بڑھ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟ ہم نے کہا: نہیں اے اللہ کے رسول! لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے لئے ٹب میں پانی رکھ دو، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ہم نے پانی رکھ دیا، آپ نے بیٹھ کر غسل فرمایا، آپ اٹھنے لگے تو بیہوش ہو گئے، جب ہوش آیا تو پھر پوچھا: کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے؟ ہم نے عرض کیا نہیں اے اللہ کے رسول! لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پھر) فرمایا: ٹب میں میرے لئے پانی رکھ دو، فرماتی ہیں: ہم نے پھر پانی رکھ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر غسل فرمایا، پھر آپ نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن پھر بے ہوش ہو گئے، جب ہوش ہوا تو پھر یہ ہی فرمایا: کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ نہیں یا رسول اللہ لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ لوگ مسجد میں عشاء کی نماز کے لئے بیٹھے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے، کہا آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آدمی بھیجا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں، وہ شخص سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیتے ہیں کہ آپ نماز پڑھا دیں۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ بہت نرم دل کے انسان تھے۔ انہوں نے کہا: عمر! تم نماز پڑھا دو، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس کے آپ ہی زیادہ حق دار ہیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: چنانچہ (آپ کی) بیماری کے ان ایام میں ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھاتے رہے، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مزاج کچھ ہلکا محسوس ہوا تو آپ دو آدمیوں کا سہارا لے کر جن میں سے ایک عباس رضی اللہ عنہ تھے ظہر کی نماز کے لئے باہر تشریف لے گئے، اس وقت سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھا رہے تھے، جب ابوبکر نے آپ کو دیکھا تو پیچھے ہٹنا چاہا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارے سے انہیں روکا کہ پیچھے نہ ہٹو، پھر آپ نے ان دونوں آدمیوں سے فرمایا کہ: مجھے ابوبکر کے بازو میں بٹھا دو، چنانچہ ان دونوں نے آپ کو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں بٹھا دیا اور اب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کرتے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے، اور سب لوگ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے تھے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے، عبید اللہ نے کہا: پھر میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں گیا اور ان سے عرض کیا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے بارے میں جو حدیث بیان کی کیا میں وہ آپ کو سناؤں؟ انہوں نے کہا ضرور سناؤ چنانچہ میں نے پوری حدیث انہیں سنا دی، انہوں نے اس میں کسی چیز کا انکار نہیں کیا، بس صرف یہ کہا: کیا (عائشہ رضی اللہ عنہا) نے اس آدمی کا نام بتایا جو عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے؟ میں نے عرض کیا: نہیں، تو انہوں نے بتایا کہ وہ (دوسرے شخص) علی بن ابی طالب ہیں (رضی اللہ عنہ وارضاه)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1292]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 687]، [مسلم 418]، [مسند أبى يعلی 4478]، [ابن حبان 2116]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1289 سے 1291)
پہلی حدیث میں ہے کہ امام بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدی بھی بیٹھ کر نماز پڑھیں، لیکن پہلی والی حدیث مذکورہ بالا دوسری حدیث سے منسوخ ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے اور سب صحابہ کرام نے کھڑے ہو کر نماز پڑھی، نیز یہ معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا، آج کے زمانے میں امام اگر بیمار ہے تو کوئی دوسرا نماز پڑھا سکتا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
45. باب الإِمَامِ يُصَلِّي بِالْقَوْمِ وَهُوَ أَنْشَزُ مِنْ أَصْحَابِهِ:
45. امام کا نمازیوں سے اونچے مقام پر کھڑے ہونے کا بیان
حدیث نمبر: 1292
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو معمر إسماعيل بن إبراهيم، عن عبد العزيز بن ابي حازم، عن ابيه، عن سهل بن سعد، قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم "جلس على المنبر فكبر، فكبر الناس خلفه، ثم ركع وهو على المنبر، ثم رفع راسه فنزل القهقرى فسجد في اصل المنبر، ثم عاد حتى فرغ من آخر صلاته". قال ابو محمد: في ذلك رخصة للإمام ان يكون ارفع من اصحابه وقدر هذا العمل في الصلاة ايضا.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو مَعْمَرٍ إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَكَبَّرَ، فَكَبَّرَ النَّاسُ خَلْفَهُ، ثُمَّ رَكَعَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَنَزَلَ الْقَهْقَرَى فَسَجَدَ فِي أَصْلِ الْمِنْبَرِ، ثُمَّ عَادَ حَتَّى فَرَغَ مِنْ آخِرِ صَلَاتِهِ". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: فِي ذَلِكَ رُخْصَةٌ لِلْإِمَامِ أَنْ يَكُونَ أَرْفَعَ مِنْ أَصْحَابِهِ وَقَدْرُ هَذَا الْعَمَلِ فِي الصَّلَاةِ أَيْضًا.
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے دیکھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر بیٹھے، پھر آپ نے تکبیرِ تحریمہ کہی، لوگوں نے بھی تکبیر کہی، پھر آپ نے منبر پر ہی رکوع کیا، پھر رکوع سے سر اٹھایا، پھر اسی حالت میں آپ الٹے پاؤں پیچھے ہٹے اور منبر کے نیچے سجدہ کیا، پھر اوپر چڑھ گئے اور اسی طرح نماز پوری فرمائی۔ امام ابومحمد دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: اس سلسلے میں امام کو اجازت ہے کہ وہ نمازیوں سے اونچائی پر کھڑے ہو کرنماز پڑھائے اور نماز میں اس قدر عمل کر سکتا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو في الصحيحين بأوضح وأتم مما هنا، [مكتبه الشامله نمبر: 1293]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 377]، [مسلم 544]، [أبوداؤد 1080]، [نسائي 738]، [ابن حبان 2142]، [الحميدي 955]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1291)
یعنی نمازی نماز کی حالت میں ایک دو قدم آگے پیچھے یا اوپر نیچے اتر چڑھ سکتا ہے، اس سے نماز میں کوئی خلل نہیں پڑے گا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو في الصحيحين بأوضح وأتم مما هنا
46. باب مَا أُمِرَ الإِمَامُ مِنَ التَّخْفِيفِ في الصَّلاَةِ:
46. امام کو خفیف (ہلکی) نماز پڑھانے کا بیان
حدیث نمبر: 1293
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا جعفر بن عون، انبانا إسماعيل بن ابي خالد، عن قيس، عن ابي مسعود الانصاري، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، والله إني لاتاخر عن صلاة الغداة مما يطيل بنا فيها فلان، فما رايت النبي صلى الله عليه وسلم اشد غضبا في موعظة منه يومئذ. فقال:"ايها الناس، إن منكم منفرين، فمن صلى بالناس فليتجوز، فإن فيهم الكبير والضعيف وذا الحاجة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، أَنْبأَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ إِنِّي لَأَتَأَخَّرُ عَنْ صَلَاةِ الْغَدَاةِ مِمَّا يُطِيلُ بِنَا فِيهَا فُلَانٌ، فَمَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشَدَّ غَضَبًا فِي مَوْعِظَةٍ مِنْهُ يَوْمَئِذٍ. فَقَالَ:"أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ مِنْكُمْ مُنَفِّرِينَ، فَمَنْ صَلَّى بِالنَّاسِ فَلْيَتَجَوَّزْ، فَإِنَّ فِيهِمْ الْكَبِيرَ وَالضَّعِيفَ وَذَا الْحَاجَةِ".
سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: اے اللہ کے رسول! قسم اللہ کی میں فلاں شخص کی لمبی نماز کی وجہ سے فجر کی نماز میں لیٹ ہو جاتا ہوں، راوی نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دن سے زیادہ کبھی وعظ و نصحیت میں اتنے شدید غیظ و غضب میں نہیں دیکھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! تم میں سے بعض لوگ نفرت پھیلانے والے ہیں، جو لوگوں کو نماز پڑھائے اس کو چاہیے کہ وہ ہلکی نماز پڑھائے، کیونکہ (اس کے پیچھے ان) نمازیوں میں سے کوئی بوڑھا، کوئی ضعیف اور کوئی ضرورت والا ہو گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1294]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 90]، [مسلم 466]، [ابن حبان 2137]، [الحميدي 458]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
حدیث نمبر: 1294
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا هاشم بن القاسم، حدثنا شعبة، عن قتادة، قال: سمعت انسا يقول: كان النبي صلى الله عليه وسلم "اخف الناس صلاة في تمام".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا يَقُولُ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "أَخَفَّ النَّاسِ صَلَاةً فِي تَمَامٍ".
سیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت خفیف ہلکی اور کامل نماز پڑھاتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1295]»
اس روایت کی سند صحیح ہے، دیکھئے: [بخاري 706]، [مسلم 469]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1292 سے 1294)
یہ دونوں حدیثِ قولی ہیں جن سے معلوم ہوا کہ امام کو اتنی لمبی نماز و قرأت نہیں کرنی چاہئے کہ نمازیوں کے لئے مشکل بن جائے، اور اس شخص نے ایسا کیا اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی شدید غصے کا اظہار کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بذاتِ خود بھی ہلکی نماز پڑھاتے تاکہ کسی بھی ضعیف و ناتواں اور صاحبِ حاجت کو نماز بوجھ محسوس نہ ہو، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم تنہا اکیلے جب نماز پڑھتے تو بہت لمبی نماز ہوتی تھی، ہلکی نماز کا مقصد یہ نہیں کہ جلدی جلدی بلا تعدیل ارکان اور رکوع و سجود میں اطمینان کے بغیر نماز پڑھائی جائے، نماز ہلکی تو ہو لیکن سکون و اطمینان اور تعدیلِ ارکان کے ساتھ ہو ورنہ نماز نہیں ہوگی جیسا کہ حدیث مسئی الصلاۃ سے ثابت ہوتا ہے جو آگے آ رہی ہے۔
رقم الحدیث (1366)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
47. باب مَتَى يَقُومُ النَّاسُ إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ:
47. جب اقامت کہی جائے تو لوگ کب کھڑے ہوں
حدیث نمبر: 1295
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا وهب بن جرير، حدثنا هشام، قال: كتب إلي يحيى بن ابي كثير، عن عبد الله بن ابي قتادة، عن ابيه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "إذا نودي للصلاة، فلا تقوموا حتى تروني".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، قَالَ: كَتَبَ إِلَيَّ يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ، فَلَا تَقُومُوا حَتَّى تَرَوْنِي".
عبداللہ بن ابی قتادہ نے اپنے والد سے روایت کیا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب نماز کے لئے اقامت کہی جائے تو جب تک مجھے دیکھ نہ لو کھڑے نہ ہو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1296]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 637]، [مسلم 604]، [نسائي 789]، [ابن حبان 1755]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    4    5    6    7    8    9    10    11    12    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.