-" خيركم خيركم لاهله، وإذا مات صاحبكم فدعوه".-" خيركم خيركم لأهله، وإذا مات صاحبكم فدعوه".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل کے لیے بہترین ہو۔ جب تمہارا کوئی ساتھی فوت ہو جائے تو اس کا (برا تذکرہ) ترک کر دیا کرو۔“
-" خيركم خيركم لاهله وانا خيركم لاهلي وإذا مات صاحبكم فدعوه".-" خيركم خيركم لأهله وأنا خيركم لأهلي وإذا مات صاحبكم فدعوه".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل کے لیے بہترین ہے اور میں اپنے اہل کے حق میں سب سے بہتر ہوں۔ جب تمہارا کوئی ساتھی فوت ہو جائے تو اس کا (برا تذکرہ) نہ کیا کرو۔“
-" الا عسى احدكم ان يضرب امراته ضرب الامة! الا خيركم خيركم لاهله".-" ألا عسى أحدكم أن يضرب امرأته ضرب الأمة! ألا خيركم خيركم لأهله".
سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آگاہ ہو جاؤ، ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی اپنی بیوی کی لونڈی کی طرح پٹائی کر دے۔ خبردار، تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی کے لیے بہتر ہے۔“
-" إن الله يوصيكم بالنساء خيرا، إن الله يوصيكم بالنساء خيرا فإنهن امهاتكم وبناتكم وخالاتكم، إن الرجل من اهل الكتاب يتزوج المراة وما يعلق يداها الخيط فما يرغب واحد منهما عن صاحبه [حتى يموتا هرما]".-" إن الله يوصيكم بالنساء خيرا، إن الله يوصيكم بالنساء خيرا فإنهن أمهاتكم وبناتكم وخالاتكم، إن الرجل من أهل الكتاب يتزوج المرأة وما يعلق يداها الخيط فما يرغب واحد منهما عن صاحبه [حتى يموتا هرما]".
سیدنا مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا: ”اللہ تعالی تمہیں عورتوں سے حسن سلوک کرنے کی وصیت کرتا ہے، کیونکہ وہ تمہاری مائیں، بیٹیاں اور خالائیں ہیں۔ (دیکھو کہ) اہل کتاب کا آدمی کم عمر اور فقیر عورت سے شادی کرتا ہے۔ پھر ان میں سے کوئی دوسرے سے بےرغبتی نہیں کرتا، حتی کہ وہ دونوں عمر رسیدہ ہو کر مر جاتے ہیں۔“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھی، اس وقت میں (کم سن) لڑکی تھی اور موٹے بدن والی نہیں تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا: ”تم لوگ آگے نکل جاؤ۔“ سو وہ آگے نکل گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”آؤ، میں تجھ سے (دوڑ میں) مقابلہ کرتا ہوں۔“ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مقابلہ کیا اور آگے نکل گئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، بعد میں میں موٹے بدن والی ہو گئی اور اس واقعہ کو بھول گئی۔ (پھر ایک دن) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر پر نکلی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا: ”تم لوگ آگے نکل جاؤ۔“ پس وہ آگے نکل گئے۔ پھر مجھے فرمایا: ”آؤ، میں تم سے (دوڑ میں) مقابلہ کرتا ہوں۔“ میں پہلے والے مقابلے کو بھول چکی تھی، چونکہ میرا بدن بھاری ہو چکا تھا اس لیے میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میری یہ حالت ہے، میں آپ سے کیسے مقابلہ کر سکتی ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تجھے ایسا ضرور کرنا ہو گا۔“ پس میں نے مقابلہ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے آگے نکل گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے لگ گئے اور فرمایا: ”یہ اس (سابقہ) فتح کے بدلے میں ہے۔“
- (كذلك سوقك بالقوارير، يعني النساء. قاله - صلى الله عليه وسلم - في حجة الوداع).- (كذلك سَوْقُكَ بالقوارير، يعني النساء. قاله - صلى الله عليه وسلم - في حجة الوداع).
سیدہ صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی ساتھ حج کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہیں راستہ میں تھے کہ ایک آدمی اترا، اور عورتوں کی سواریوں کو تیز تیز چلانے لگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس طرح شیشوں (عورتوں) کو لے کر چلتے ہیں؟“ سو وہ چل رہے تھے کہ سیدہ صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کا اونٹ بیٹھ گیا، حالانکہ ان کی سواری سب سے اچھی تھی، وہ رونے لگیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور اپنے ہاتھ سے ان کے آنسو پونچھنے لگ گئے، وہ اور زیادہ رونے لگیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو منع کرتے رہے۔ جب وہ بہت زیادہ رونے لگ گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ڈانٹ ڈپٹ کی اور لوگوں کو اترنے کا حکم دے دیا، سو وہ اتر گئے، اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اترنے کا ارادہ نہیں تھا۔ وہ کہتی ہیں: صحابہ اکرام اتر پڑے اور اس دن میری باری تھی۔ جب صحابہ اترے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خیمہ نصب کیا گیا، آپ اس میں داخل ہو گئے۔ وہ کہتی ہیں: یہ بات میری سمجھ میں نہ آ سکی کہ میں کیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گھس جاؤں اور مجھے یہ ڈر بھی تھا کہ ممکن ہے کہ) آپ کے دل میں میرے بارے میں کوئی ناراضی ہو۔ وہ کہتی ہیں: میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئی اور ان سے کہا: تم جانتی ہو کہ میں کسی چیز کے عوض اپنے دن کا سودا نہیں کروں گی، لیکن میں تجھے اپنی باری کا دن اس شرط پر ہبہ کرتی ہوں کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مجھ سے راضی کروا دو۔ انہوں نے کہا: ٹھیک ہے۔ اب وہ کہتی ہیں: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے زعفران میں رنگی ہوئی چادر لی اور اس پر پانی چھڑکا تاکہ اس کی خوشبو تروتازہ ہو جائے، پھر اپنے کپڑے زیب تن کیے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلی گئیں اور (جا کر) خیمہ کا ایک کنارہ اٹھایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اے عائشہ! تجھے کیا ہوا؟ یہ دن تیرا تو نہیں ہے۔“ انہوں نے کہا: یہ اللہ کا فضل ہے، وہ جسے چاہتا ہے، عطا کرتا ہے۔ آپ اپنی اہلیہ کے پاس ہی ٹھرے رہے۔ جب شام ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ”اے زینب! اپنی بہن صفیہ کو ایک اونٹ مستعار دے دو۔“ کیونکہ ان کے پاس سواریاں زیادہ تھیں۔ زینب نے کہا: کیا میں آپ کی یہودیہ کو مستعار دے دوں؟ یہ بات سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے ناراض ہو گئے اور اس سے بولنا ترک کر دیا اور اس سے کوئی بات نہ کی، حتی کہ مکہ پہنچ گئے، پھر منی والے دن (بیت گئے) یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس آ گئے اور محرم اور صفر کے (دو ماہ) بھی گزر گئے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ زینب کے پاس گئے اور نہ ہی اس کے لیے کوئی باری مقرر کی۔ وہ بھی آپ سے ناامید ہو گئی۔ جب ربیع الاول کا مہینہ تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس گئے۔ زینب نے آپ کا سایہ دیکھا اور کہا: یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو میرے پاس آتے ہی نہیں، سو یہ (سائے والا) کون ہو سکتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے داخل ہوئے، جب زینب نے آپ کو دیکھا تو کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کے آنے سے (مجھے اتنی خوشی ہوئی ہے) کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ میں کیا کروں۔ وہ کہتی ہیں: ان کی ایک لونڈی تھی، جس کو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے چھپا کر رکھتی تھیں۔ پھر اس نے کہا: فلاں لونڈی آپ کے لیے ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ زینب کی چارپائی کی طرف گئے، اسے اٹھا لیا گیا تھا، آپ نے اس کو اپنے ہاتھ سے بچھایا، پھر اپنی اہلیہ سے مباشرت کی اور ان سے راضی ہوئے۔
- (إن الشهر يكون تسعة وعشرين يوما).- (إنّ الشهر يكون تسعةً وعشرينَ يوماً).
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں سے ایک مہینے کی لیے ایلا کیا (یعنی قریب نہ آنے کی) قسم اٹھائی، جب انتیس دن گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بوقت صبح یا بوقت شام (اپنی بیویوں کے پاس) تشریف لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ آپ نے تو قسم اٹھائی تھی کہ ایک مہینہ کے لیے (ان کے پاس) داخل نہیں ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک مہینہ انتیس دنوں کا بھی ہوتا ہے۔“ یہ حدیث متواتر ہے، جو صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت سے مروی ہے۔
- (إن المراة خلقت من ضلع، لن تستقيم لك على طريقة، فإن استمتعت بها؛ استمتعت بها وبها عوج، وإن: ذهبت تقيمها كسرتها، وكسرها طلاقها).- (إن المرأة خلقت من ضلع، لن تستقيم لك على طريقة، فإن استمتعت بها؛ استمتعت بها وبها عِوَجٌ، وإن: ذهبت تقيمها كسرتها، وكسرها طلاقها).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورت کی تخلیق پسلی سے ہوئی ہے، یہ کسی طریقے سے بھی تیرے لیے (مکمل) سیدھی نہیں ہو گی۔ پس اگر تو اس سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے تو اسی کجی کی حالت میں فائدہ اٹھاتا رہ۔ اگر تو اسے سیدھا کرنے لگے گا تو اسے توڑ ڈالے گا اور اس کا توڑ دینا اس کو طلاق دینا ہے۔“
-" إني احرج حق الضعيفين: اليتيم والمراة".-" إني أحرج حق الضعيفين: اليتيم والمرأة".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں دو ضعیفوں یعنی عورت اور یتیم کے حق کو ممنوع اور حرام قرار دیتا ہوں۔“