English
🏠 💻 📰 👥 🔍 🧩 🅰️ 📌 ↩️

صحيح البخاري سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
عربی
اردو
حدیث کتب میں نمبر سے حدیث تلاش کریں:

صحیح بخاری میں ترقیم شاملہ سے تلاش کل احادیث (7563)
حدیث نمبر لکھیں:
حدیث میں عربی لفظ/الفاظ تلاش کریں
عربی لفظ / الفاظ لکھیں:
حدیث میں اردو لفظ/الفاظ تلاش کریں
اردو لفظ / الفاظ لکھیں:
10M. باب:
باب:۔۔۔
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 1886
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" كَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ، فَنَظَرَ إِلَى جُدُرَاتِ الْمَدِينَةِ أَوْضَعَ رَاحِلَتَهُ، وَإِنْ كَانَ عَلَى دَابَّةٍ حَرَّكَهَا مِنْ حُبِّهَا".
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے حمید نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی سفر سے واپس آتے اور مدینہ کی دیواروں کو دیکھتے تو اپنی سواری تیز فرما دیتے اور اگر کسی جانور کی پشت پر ہوتے تو مدینہ کی محبت میں اسے ایڑ لگاتے۔ [صحيح البخاري/كتاب فضائل المدينة/حدیث: 1886]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

الحكم على الحديث: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

الرواة الحديث:
اسم الشهرة
الرتبة عند ابن حجر/ذهبي
أحاديث
👤←👥أنس بن مالك الأنصاري، أبو حمزة، أبو النضرصحابي
👤←👥حميد بن أبي حميد الطويل، أبو عبيدة
Newحميد بن أبي حميد الطويل ← أنس بن مالك الأنصاري
ثقة مدلس
👤←👥إسماعيل بن جعفر الأنصاري، أبو إسحاق
Newإسماعيل بن جعفر الأنصاري ← حميد بن أبي حميد الطويل
ثقة
👤←👥قتيبة بن سعيد الثقفي، أبو رجاء
Newقتيبة بن سعيد الثقفي ← إسماعيل بن جعفر الأنصاري
ثقة ثبت
تخريج الحديث:
کتاب
نمبر
مختصر عربی متن
صحيح البخاري
1886
إذا قدم من سفر فنظر إلى جدرات المدينة أوضع راحلته وإن كان على دابة حركها من حبها
صحيح البخاري
1802
إذا قدم من سفر فأبصر درجات المدينة أوضع ناقته وإن كانت دابة حركها
جامع الترمذي
3441
إذا قدم من سفر فنظر إلى جدرات المدينة أوضع راحلته وإن كان على دابة حركها من حبها
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1886 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1886
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکی تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آبائی وطن مکہ تھا مگر مدینہ تشریف لے جانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنا حقیقی مستقر بنا لیا اور اس کی آبادی و ترقی میں اس قدر کوشاں ہوئے کہ اہل مدینہ کے رگ و ریشہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بس گئی اور اہل مدینہ اوس اور خزرج نے کبھی تصور بھی نہیں کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دوسری جگہ کے باشندے ہیں اور مہاجر کی شکل میں یہاں تشریف لائے ہیں۔
مسلمانوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ اپنے پیارے رسول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداءمیں جس ملک میں بھی گئے۔
اسی کے باشندے ہو گئے اوراس ملک میں اپنی مساعی سے چار چاند لگا دیئے اور ہمیشہ کے لیے اسی ملک کو اپنا وطن بنا لیا۔
ایسے صدہا نمونے آج بھی موجود ہیں۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1886]

الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1886
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کا نتیجہ ہے کہ وہاں کھانے پینے کی ایک ہی چیز سے ایسی سیرابی حاصل ہوتی ہے کہ دوسرے شہروں میں اس طرح کی دو تین چیزیں کھانے سے بھی نہیں ہوتی۔
(2)
اگر سوال ہو کہ اس دعا کے تقاضے کے مطابق مدینہ طیبہ (مسجد نبوی)
میں نماز کا ثواب بھی مکہ مکرمہ (مسجد حرام)
میں نماز کے ثواب سے دوگنا ہونا چاہیے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے مراد دنیا کی برکت ہے جیسا کہ صاع اور مد کی برکت سے مراد دنیا کی برکت ہے یا اس برکت سے خارجی دلیل کی وجہ سے نماز کو خاص کر لیا گیا ہے۔
عثمان بن عمر کی متابعت کو کتاب علل حدیث الزھری میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے۔
(فتح الباري: 127/4)
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1886]

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3441
سفر سے لوٹے تو کیا دعا پڑھے؟
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے واپس لوٹتے اور مدینہ کی دیواریں دکھائی دینے لگتیں تو آپ اپنی اونٹنی (سواری) کو (اپنے وطن) مدینہ کی محبت میں تیز دوڑاتے ۱؎ اور اگر اپنی اونٹنی کے علاوہ کسی اور سواری پر ہوتے تو اسے بھی تیز بھگاتے۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3441]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ محبت مدینہکے ساتھ خاص بھی ہو سکتی ہے،
نیز یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہر انسان کو اپنے وطن (گھر)سے محبت ہوتی ہے،
تو اس محبت کی وجہ سے کوئی بھی انسان اپنے گھر جلد پہنچنے کی چاہت میں اسی طرح جلدی کرے جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر پہنچنے کے لیے کرتے تھے (بہرحال یہ سنت عادت ہو گی،
نہ کہ سنت عبادت)
[سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3441]

مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1802
1802. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر سے مدینہ طیبہ واپس آتے اور مدینہ کی راہوں کو دیکھتے تو (فرط شوق سے) اپنی اونٹنی کو تیز کردیتے۔ اگر کوئی اور سواری ہوتی تو اسے بھی ایڑی لگاتے۔ ابوعبد اللہ (امام بخاری ؒ)نے کہاکہ حارث بن عمیر نے حمید ہی کے طریق سے اس روایت میں یہ اضافہ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ کی محبت کی وجہ سے ایسا کرتے تھے۔ اسماعیل نے حمید سےدرجات كےبجائے جدرات کے الفاظ نقل کیے ہیں۔ (اور) یہ الفاظ بیان کرنے میں حارث بن عمیر نے اسماعیل کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1802]
حدیث حاشیہ:
حافظ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرز عمل سے وطن کی محبت کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے انسان جہاں پیدا ہوتا ہے، اس جگہ سے محبت ایک فطری جذبہ ہے، سفر میں بھی اپنے وطن کا اشتیاق باقی رہتا ہے۔
الغرض وطن سے محبت ایک قدرتی بات ہے اور اسلام میں یہ مذموم نہیں ہے مشہور مقولہ ہے حب الوطن من الإیمان وطنی محبت بھی ایمان میں داخل ہے۔
جدرات یعنی مدینہ کے گھروں کی دیواروں پر نظر پڑتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سواری تیز فرما دیتے تھے۔
بعض روایتوں میں دوحات کا لفظ آیا ہے یعنی مدینہ کے درخت نظر آنے لگتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وطن کی محبت میں سواری تیز کردیتے۔
آپ حج کے یا جہاد وغیرہ کے جس سفر سے بھی لوٹتے اسی طرح اظہار محبت فرمایا کرتے تھے۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1802]

الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1802
1802. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر سے مدینہ طیبہ واپس آتے اور مدینہ کی راہوں کو دیکھتے تو (فرط شوق سے) اپنی اونٹنی کو تیز کردیتے۔ اگر کوئی اور سواری ہوتی تو اسے بھی ایڑی لگاتے۔ ابوعبد اللہ (امام بخاری ؒ)نے کہاکہ حارث بن عمیر نے حمید ہی کے طریق سے اس روایت میں یہ اضافہ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ کی محبت کی وجہ سے ایسا کرتے تھے۔ اسماعیل نے حمید سےدرجات كےبجائے جدرات کے الفاظ نقل کیے ہیں۔ (اور) یہ الفاظ بیان کرنے میں حارث بن عمیر نے اسماعیل کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1802]
حدیث حاشیہ:
(1)
جس روایت میں درجات المدينة کے بجائے جدرات المدينة ہے اس کے معنی مدینہ کی عمارتیں ہیں۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ طیبہ کی عمارتیں اور مکانات نظر آتے تو فراوانئ شوق کی وجہ سے اپنی سواری کو تیز کر دیتے، اس سے مدینہ طیبہ کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے، نیز اس سے وطن کی محبت اور اس سے تعلق خاطر (دلی لگاؤ)
کی مشروعیت بھی ثابت ہوتی ہے۔
(2)
انسان جہاں پیدا ہوتا ہے اس جگہ سے محبت ایک فطری امر ہے۔
اسلام میں یہ محبت مذموم نہیں، البتہ اس کے متعلق یہ حدیث بالکل بے اصل ہے کہ وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے۔
(فتح الباري: 783/3)
جدرات المدینہ والی روایت خود امام بخاری ؒ نے متصل سند سے بیان کی ہے۔
(صحیح البخاري، فضائل المدینة، حدیث: 1886)
اسی طرح حارث بن عمیر کی متابعت کو امام احمد نے موصولا بیان کیا ہے۔
(مسندأحمد: 159/3)
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1802]