English
🏠 💻 📰 👥 🔍 🧩 🅰️ 📌 ↩️

صحيح البخاري سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
عربی
اردو
حدیث کتب میں نمبر سے حدیث تلاش کریں:

صحیح بخاری میں ترقیم شاملہ سے تلاش کل احادیث (7563)
حدیث نمبر لکھیں:
حدیث میں عربی لفظ/الفاظ تلاش کریں
عربی لفظ / الفاظ لکھیں:
حدیث میں اردو لفظ/الفاظ تلاش کریں
اردو لفظ / الفاظ لکھیں:
4. باب إذا أعتق عبدا بين اثنين أو أمة بين الشركاء:
باب: اگر مشترک غلام یا لونڈی کو آزاد کر دیا جائے۔
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 2524
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ أَعْتَقَ نَصِيبًا لَهُ فِي مَمْلُوكٍ أَوْ شِرْكًا لَهُ فِي عَبْدٍ، وَكَانَ لَهُ مِنَ الْمَالِ مَا يَبْلُغُ قِيمَتَهُ بِقِيمَةِ الْعَدْلِ فَهُوَ عَتِيقٌ". قَالَ نَافِعٌ: وَإِلَّا فَقَدْ عَتَقَ مِنْهُ مَا عَتَقَ، قَالَ أَيُّوبُ: لَا أَدْرِي أَشَيْءٌ قَالَهُ نَافِعٌ، أَوْ شَيْءٌ فِي الْحَدِيثِ.
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی (ساجھے) غلام کا اپنا حصہ آزاد کر دیا۔ یا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے) یہ الفاظ فرمائے «شركا له في عبد» (شک راوی حدیث ایوب سختیانی کو ہوا) اور اس کے پاس اتنا مال بھی تھا جس سے پورے غلام کی مناسب قیمت ادا کی جا سکتی تھی تو وہ غلام پوری طرح آزاد سمجھا جائے گا۔ (باقی حصوں کی قیمت اس کو دینی ہو گی) نافع نے بیان کیا ورنہ اس کا جو حصہ آزاد ہو گیا بس وہ آزاد ہو گیا۔ ایوب نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں یہ (آخری ٹکڑا) خود نافع نے اپنی طرف سے کہا تھا یا یہ بھی حدیث میں شامل ہے۔ [صحيح البخاري/كتاب العتق/حدیث: 2524]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

الحكم على الحديث: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

الرواة الحديث:
اسم الشهرة
الرتبة عند ابن حجر/ذهبي
أحاديث
👤←👥عبد الله بن عمر العدوي، أبو عبد الرحمنصحابي
👤←👥نافع مولى ابن عمر، أبو عبد الله
Newنافع مولى ابن عمر ← عبد الله بن عمر العدوي
ثقة ثبت مشهور
👤←👥أيوب السختياني، أبو عثمان، أبو بكر
Newأيوب السختياني ← نافع مولى ابن عمر
ثقة ثبتت حجة
👤←👥حماد بن زيد الأزدي، أبو إسماعيل
Newحماد بن زيد الأزدي ← أيوب السختياني
ثقة ثبت فقيه إمام كبير مشهور
👤←👥محمد بن الفضل السدوسي، أبو النعمان
Newمحمد بن الفضل السدوسي ← حماد بن زيد الأزدي
ثقة ثبت تغير في آخر عمره
تخريج الحديث:
کتاب
نمبر
مختصر عربی متن
صحيح البخاري
2491
من أعتق شقصا له من عبد أو شركا أو قال نصيبا كان له ما يبلغ ثمنه بقيمة العدل فهو عتيق إلا فقد عتق منه ما عتق
صحيح البخاري
2553
من أعتق نصيبا له من العبد فكان له من المال ما يبلغ قيمته يقوم عليه قيمة عدل وأعتق من ماله وإلا فقد عتق منه
صحيح البخاري
2522
من أعتق شركا له في عبد كان له مال يبلغ ثمن العبد قوم العبد عليه قيمة عدل فأعطى شركاءه حصصهم وعتق عليه العبد إلا فقد عتق منه ما عتق
صحيح البخاري
2521
من أعتق عبدا بين اثنين إن كان موسرا قوم عليه ثم يعتق
صحيح البخاري
2503
من أعتق شركا له في مملوك وجب عليه أن يعتق كله إن كان له مال قدر ثمنه يقام قيمة عدل ويعطى شركاؤه حصتهم ويخلى سبيل المعتق
صحيح البخاري
2523
من أعتق شركا له في مملوك عليه عتقه كله إن كان له مال يبلغ ثمنه إن لم يكن له مال يقوم عليه قيمة عدل فأعتق منه ما أعتق
صحيح البخاري
2524
من أعتق نصيبا له في مملوك أو شركا له في عبد كان له من المال ما يبلغ قيمته بقيمة العدل فهو عتيق
صحيح البخاري
2525
وجب عليه عتقه كله إذا كان للذي أعتق من المال ما يبلغ يقوم من ماله قيمة العدل يدفع إلى الشركاء أنصباؤهم ويخلى سبيل المعتق
صحيح مسلم
3770
من أعتق شركا له في عبد كان له مال يبلغ ثمن العبد قوم عليه قيمة العدل فأعطى شركاءه حصصهم وعتق عليه العبد إلا فقد عتق منه ما عتق
صحيح مسلم
4329
من أعتق عبدا بينه وبين آخر قوم عليه في ماله قيمة عدل لا وكس ولا شطط ثم عتق عليه في ماله إن كان موسرا
صحيح مسلم
4325
من أعتق شركا له في عبد كان له مال يبلغ ثمن العبد قوم عليه قيمة العدل فأعطى شركاءه حصصهم وعتق عليه العبد إلا فقد عتق منه ما عتق
صحيح مسلم
4326
من أعتق شركا له من مملوك عليه عتقه كله إن كان له مال يبلغ ثمنه فإن لم يكن له مال عتق منه ما عتق
صحيح مسلم
4327
من أعتق نصيبا له في عبد كان له من المال قدر ما يبلغ قيمته قوم عليه قيمة عدل إلا فقد عتق منه ما عتق
صحيح مسلم
4330
من أعتق شركا له في عبد عتق ما بقي في ماله إذا كان له مال يبلغ ثمن العبد
جامع الترمذي
1347
من أعتق نصيبا له في عبد كان له من المال ما يبلغ ثمنه فهو عتيق من ماله
جامع الترمذي
1346
من أعتق نصيبا أو قال شقصا أو قال شركا له في عبد كان له من المال ما يبلغ ثمنه بقيمة العدل فهو عتيق إلا فقد عتق منه ما عتق
سنن أبي داود
3943
من أعتق شركا من مملوك له عليه عتقه كله إن كان له ما يبلغ ثمنه إن لم يكن له مال عتق نصيبه
سنن أبي داود
3940
من أعتق شركا له في مملوك أقيم عليه قيمة العدل فأعطى شركاءه حصصهم وأعتق عليه العبد إلا فقد عتق منه ما عتق
سنن أبي داود
3946
من أعتق شركا له في عبد عتق منه ما بقي في ماله إذا كان له ما يبلغ ثمن العبد
سنن أبي داود
3947
إذا كان العبد بين اثنين فأعتق أحدهما نصيبه إن كان موسرا يقوم عليه قيمة لا وكس ولا شطط ثم يعتق
سنن النسائى الصغرى
4702
من أعتق شركا له في عبد أتم ما بقي في ماله إن كان له مال يبلغ ثمن العبد
سنن النسائى الصغرى
4703
من أعتق شركا له في مملوك كان له من المال ما يبلغ ثمنه بقيمة العبد فهو عتيق من ماله
سنن ابن ماجه
2528
من أعتق شركا له في عبد أقيم عليه بقيمة عدل فأعطى شركاءه حصصهم إن كان له من المال ما يبلغ ثمنه وعتق عليه العبد إلا فقد عتق منه ما عتق
موطا امام مالك رواية ابن القاسم
518
من اعتق شركا له فى عبد فكان له مال يبلغ ثمن العبد قوم عليه قيمة العدل فاعطى شركاءه حصصهم وعتق عليه، وإلا فقد عتق منه ما عتق
بلوغ المرام
1222
من أعتق شركا له في عبد فكان له مال يبلغ ثمن العبد قوم عليه قيمة عدل فأعطي شركاؤه حصصهم وعتق عليه العبد وإلا فقد عتق منه ما عتق
مسندالحميدي
686
أيما عبد كان بين اثنين فأعتق أحدهما نصيبه، فإن كان موسرا فإنه يقوم عليه بأعلى القيمة
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2524 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2524
حدیث حاشیہ:
یعنی یہ عبارت والا فقد عتق منه ما عتق حدیث میں داخل ہے یا نافع کا قول ہے۔
مگر اور راویوں نے جیسے عبیداللہ اور مالک وغیرہ ہیں، اس فقرے کو حدیث میں داخل کیا ہے اور وہی راجح ہے۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2524]

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 518
مشترکہ غلام کی آزادی کا بیان
«. . . 244- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من أعتق شركا له فى عبد فكان له مال يبلغ ثمن العبد قوم عليه قيمة العدل فأعطى شركاءه حصصهم وعتق عليه، وإلا فقد عتق منه ما عتق. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص (مشترکہ) غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے، پھر اس کا مال اگر غلام کی قیمت کے برابر ہو تو غلام کی قیمت کا حساب لگا کر اس کی ملکیت میں شریکوں کو ان کے حصے دیئے جائیں گے اور وہ غلام اس کی طرف سے آزاد ہو جائے گا ورنہ اتنا حصہ ہی اس میں سے آزاد ہو گا جو کہ آزاد ہوا ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 518]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2522، ومسلم 1501، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ اسلام اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ غلاموں کو آزاد کیا جائے۔
➋ جس شخص نے کسی غلام میں اپنا حصہ آزاد کردیا تو یہ غلام اس شخص کی غلامی سے آزاد ہوجائے گا لیکن اگر کسی اور شخص کا حصہ باقی رہا تو یہ غلام دوسرے شخص کا غلام ہی رہے گا اِلا یہ کہ وہ بھی آزاد کردے۔
➌ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی غلام میں اپنا حصہ آزاد کیا تو اس کی پوری آزادی اسی کے ذمہ ہے بشرطیکہ اس کے پاس مال ہو ورنہ غلام کی قیمت لگائی جائے گی اور اس غلام سے کہا: جائے گا کہ وہ کوشش (مال جمع) کرکے اپنے آپ کو آزاد کروالے لیکن اس پر سختی نہ کی جائے۔ [صحيح بخاري: 2527، صحيح مسلم: 1503،]
➍ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے اپنی موت کے وقت اپنے چھ غلاموں کو آزاد کردیا، ان کے علاوہ اس کا اور کوئی مال نہیں تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان غلاموں کو بلایا اور ان کے تین حصے کئے پھر قرعہ اندازی کرکے دو غلاموں کو آزاد کردیا اور چار کو غلامی میں برقرار رکھا۔ آپ نے (اس طریقے سے) آزاد کرنے والے شخص کی مذمت فرمائی۔ [صحيح مسلم: 1668، دارالسلام: 4335]
معلوم ہوا کہ مرنے والا صرف ایک ثلث (ایک تہائی) کی وصیت کر سکتا ہے۔
[موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 244]

فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4702
مال لگائے بغیر تجارت میں حصہ دار بننے کا بیان۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ایک غلام میں اپنا حصہ آزاد کر دیا تو جتنا حصہ باقی ہے وہ بھی اسی کے مال سے آزاد ہو گا بشرطیکہ اس کے پاس غلام کی (بقیہ) قیمت بھر مال ہو ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4702]
اردو حاشہ:
اس روایت کی مناسبت اگلے باب سے ہے، الا یہ کہ اس باب کے معنیٰ یہ ہوں کہ شراکت مال، یعنی روپے پیسے کے علاوہ اور چیزوں میں بھی ہو سکتی ہے، مثلاً: غلام۔ پھر یہ حدیث اگلے باب سے متعلق بھی ہو سکتی ہے۔
[سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4702]

الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3940
جنہوں نے اس حدیث میں محنت کرانے کا ذکر نہیں کیا ان کی دلیل کا بیان۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے رویت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص (مشترک) غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے تو اس غلام کی واجبی قیمت لگا کر ہر ایک شریک کو اس کے حصہ کے مطابق ادا کرے گا اور غلام اس کی طرف سے آزاد ہو جائے گا اور اگر اس کے پاس مال نہیں ہے تو جتنا آزاد ہوا ہے اتنا ہی حصہ آزاد رہے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب العتق /حدیث: 3940]
فوائد ومسائل:
آزاد کر نے والے کو ترغیب وتشویق دی گئی ہے کہ اگر وہ یہ مالی بوچھ برداشت کرسکتا ہے تو کر لے، اس میں بڑی فضیلت ہے۔
[سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعیدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3940]

مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2528
ساجھے کا غلام ہو اور ساجھی دار اپنا حصہ آزاد کر دے تو ایسے غلام کا حکم۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی غلام میں سے اپنے حصہ کو آزاد کر دے، تو کسی عادل شخص سے غلام کی قیمت لگوائی جائے گی، اور اس کے بقیہ شرکاء کے حصہ کی قیمت بھی اسے ادا کرنی ہو گی، بشرطیکہ اس کے پاس اس قدر مال ہو جتنی غلام کی قیمت ہے، اور اس طرح پورا غلام اس کی طرف سے آزاد ہو جائے گا، لیکن اگر اس کے پاس مال نہ ہو تو ایسی صورت میں بس اسی قدر غلام آزاد ہو گا جتنا اس نے آزاد کر دیا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب العتق/حدیث: 2528]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
انصاف کے ساتھ قیمت لگانے مطلب یہ ہے کہ یہ اندازہ کیا جائے کہ اس زمانے میں اس جگہ یہ غلام کتنی قیمت میں فروخت ہوسکتا ہے مثلاً:
اگر وہ آدھے غلام کا مالک تھا اور غلام کی قیمت کا اندازہ سو دینار ہے تو پچاس دینار اپنے دوسرے شریک یا شریکوں کو ادا کرکے باقی آدھا غلام بھی خرید کر آزاد کردے۔

(2)
مذکورہ مثال میں اگرآزاد کرنے والا پچاس دینار کی طاقت نہ رکھتا ہو تو یہ غلام آدھا آزاد سمجھا جائے گا اورآدھا غلام لہٰذا اگروہ قتل ہوجائے تو آدھی دیت (پچاس اونٹ)
لی جائے گئی اور غلام کی قیمت سے آدھی رقم بھی لی جائے گئی۔
اور جن معاملات میں اس طرح کی تقسیم ممکن نہیں تواسے غلام ہی تصور کیا جائے گا جس طرح نامکمل ادائیگی کرنے والے مکاتب کا حکم ہے۔
واللہ أعلم۔
[سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2528]

الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:686
686- سالم بن عبداللہ اپنے والد کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: جو غلام دو آدمیوں کی ملکیت ہوان دونوں میں سے کوئی ایک شخص اپنے حصے کو آزاد کر دے۔ اگر وہ شخص خوشحال ہو، تو اس غلام کی منصفانہ طور پر کسی کمی بیشی کے بغیر مناسب قیمت لگائی جائے گی اور پھر وہ شخص اپنے ساتھی کو اس کے حصے کی تاوان کی رقم ادا کرے گا اوراس غلام کو (مکمل طور پر) آزاد کردے گا۔ سفیان کہتے ہیں:عمر و کو اس روایت کے اس طرح ہونے میں شک ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:686]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ غلامی تقسیم ہوسکتی ہے۔ ایک غلام کئی لوگ مل کر خرید تے تھے۔ اگر کوئی اپنا حصہ آزاد کرنا چاہتا تو اس کا طریقہ یہ تھا کہ پہلے غلام کی صحیح قیمت تجویز کی جائے پھر اگر آزاد کر نے والا مال دار ہے تو باقی شرکاء کو ان کے حصص کے مطابق قیمت ادا کرے اس طرح وہ غلام مکمل طور پر آزاد ہوگا۔ اگر وہ شخص مال دار نہیں ہے تو پھر صرف اس کا حصہ آزاد ہوگا مکمل طور پر آزاد نہیں ہوگا۔
[مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 687]

الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3770
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے مشترکہ غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دیا، اور اس کے پاس اتنا مال ہے، جو غلام (کے باقی حصہ) کی قیمت ادا کر سکتا ہے، تو اس کی خاطر منصفانہ قیمت لگائی جائے گی، اور وہ اپنے حصہ داروں کو ان کے حصے (کی رقم) ادا کر دے گا، اور غلام اس کی طرف سے آزاد ہو جائے گا، اگر اس کے پاس قیمت نہ ہو، تو اس نے جتنا حصہ آزاد کیا ہے اتنا آزاد ہو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3770]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
عتق:
عتق کا لفظ مختلف معانی کےلیے استعمال ہوتا ہے،
کرم،
جمال،
شرف ونجابت،
آزادی اور حریت،
اور جب کہیں أَعْتَقَ العَبدَ فلان تو معنی ہوگا،
اس نے غلام کو آزاد کر دیا۔
(2)
شرك حصہ۔
فوائد ومسائل:
اسلام نے جنگی قیدیوں کو پہلے سے موجود اور ازواج پذیر،
نظریہ کے مطابق ان کی بہتری اور تعلیم تربیت کی خاطر ان کو غلام بنانے کی اجازت دی ہے لیکن ان کو یونانیوں رومیوں اور مغربی اقوام کے دستور کے مطابق ڈھورڈنگروں کی طرح نہیں رکھا اور ان کو شرف انسانیت سے محروم نہیں کیا،
ان کو شرف انسانی بخشا اور ان کے حقوق بیان کیے،
بلکہ ان کو بھائی قرار دیا،
ان سے حسن سلوک کی تعلیم دی،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(أَكْرِمُوهُمْ كَرَامَةَ أَوْلادِكُمْ)
ان کو اپنی اولاد کی طرح عزت و شرف دو۔
اور فرمایا:
کوئی انسان عبدی (میراغلام)
امتی (میری لونڈی)
نہ کہے اور مملوک اپنے آقا کو ربی نہ کہے،
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کے آخری سانس کے وقت فرمایا:
(الصَّلاَةَ وما مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ)
نماز اور اپنے مملوکوں کا دھیان رکھنا،
اس لیے مختلف طریقوں سے ان کو آزاد کرنے کی ترغیب دلائی،
اس اصول کے مطابق اگر کوئی مشترکہ غلام میں اپنا حصہ آزاد کرتا ہے اور اس کو باقی حصہ آزاد کرنے کی توفیق حاصل ہے تو اس کو یہی حکم دیا کہ وہ باقی حصہ بھی آزاد کرے۔
[تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3770]

الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4329
حضرت سالم بن عبداللہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ایسا غلام آزاد کیا، جو اس کے اور دوسرے فرد کے درمیان مشترک تھا، تو اس کی خاطر، اس کے مال سے منصفانہ ٹھیک ٹھیک قیمت لگائی جائے گی، نہ کم نہ زیادہ، پھر اس کی طرف سے اس کے مال سے آزاد ہو جائے گا، اگر آزاد کرنے والا مالدار ہو۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4329]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
وكس:
نقصان و خسارہ۔
(2)
شطط:
ظلم و جور یا زیادتی و اضافہ۔
[تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4329]

مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2491
2491. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کردیا اور اس کے پاس اتنا (مال) ہو جو منصفانہ قیمت کے مطابق اس غلام کی قیمت کے برابر ہوسکتا ہوتو وہ غلام آزاد ہے، بصورت دیگر اتنا آزاد ہوجائے گا جتنا اس نے آزاد کردیا۔ (راوی حدیث) ایوب نے کہا: اتنا آزاد ہوجائے گا جتنا اس نے آزاد کیا ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ نافع کا قول ہے یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2491]
حدیث حاشیہ:
یعنی سارے غلام کی غلامی کی حالت میں قیمت لگائیں گے یعنی جو حصہ آزاد ہوا اگر وہ بھی آزاد نہ ہوتا تو اس کی قیمت کیا ہوتی۔
اگر اتنا مال نہ ہو تو بس جتنا حصہ اس کا تھا اتنا ہی آزاد ہوا۔
عینی نے اس مسئلہ میں چودہ مذہب بیان کئے ہیں۔
لیکن امام احمد ؒ اور شافعی ؒ اور اسحاق ؒنے اسی حدیث کے موافق حکم دیا ہے اور حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کہتے ہیں کہ ایسی صورت میں دوسرے شریک کو اختیار رہے گا خواہ اپنا حصہ بھی آزاد کردے خواہ غلام سے محنت مشقت کراکر اپنے حصہ کے دام وصول کرے۔
خواہ اگر آزاد کرنے والا مال دار ہو تو اپنے حصے کی قیمت اس سے بھرلے۔
پہلی اور دوسری صورت میں غلام کا ترکہ دونوں کو ملے گا اور تیسری صورت میں صرف آزاد کرنے والے کو۔
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے کہ غلام کی ٹھیک ٹھیک قیمت لگاکر اس کے جملہ مالکوں پر اسے تقسیم کردیا جائے۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2491]

مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2553
2553. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کردیا اور اس کے پاس اتنا مال بھی ہو کہ کسی عادل کی قیمت لگانے کے مطابق اس کی قیمت اداکی جاسکے تو اس کے مال سے پورا غلام آزاد کیاجائے، بصورت دیگر جتنا اس نے آزاد کیا اتنا ہی آزاد ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2553]
حدیث حاشیہ:
صرف وہی حصہ اس کی طرف سے آزاد ہورہے گا۔
اس حدیث کو اس لیے لائے کہ اس میں عبد کا لفظ غلام کے لیے آیا ہے۔
پس مجازاً غلام پر عبد بولا جاسکتا ہے۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2553]

الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2523
2523. حضرت ابن عمر ؓ سے ایک اور روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کردیا، پھر اگر اس کے پاس اتنا مال ہے جو غلام کی قیمت کو پہنچ جائے تو غلام کو مکمل طور پر آزاد کروانا اس کی ذمہ داری ہے۔ اوراگر اس کے پاس اتنا مال نہیں تو غلام کی عادلانہ قیمت لگائی جائےگی، پھر اس سے اتنا حصہ آزاد ہوگا جو اس نے آزاد کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2523]
حدیث حاشیہ:
اس مختصر روایت کو امام بیہقی ؒ نے بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
جس نے مشترک غلام سے اپنا حصہ آزاد کیا تو وہ غلام مکمل طور پر آزاد ہو جائے گا۔
(السنن الکبریٰ للبیھقي: 277/10)
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2523]

الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2525
2525. حضرت ابن عمر ؓ سے مزید روایت ہے کہ وہ شرکاء کے درمیان مشترک غلام یا لونڈی کے متعلق یہ فتویٰ دیتے تھے کہ ان میں سے کسی نے اپنا حصہ آزاد کردیاتو اس پر واجب ہے کہ وہ پورا غلام آزاد کرے، بشرط یہ کہ آزادکرنے والے کے پاس اتنا مال ہوجو اس کی قیمت کو پہنچ جائے۔ اس صورت میں غلام کی عادلانہ قیمت تجویز کی جائے گی اور شرکاء کو ان کے حصے حوالے کردیے جائیں گے (ان کے حصوں کے مطابق قیمت ادا کردی جائے گی۔) اورآزاد شدہ غلام کا راستہ چھوڑ دیا جائے گا۔ (اسے آزاد کردیاجائے گا۔)حضرت عمر ؓ اس فتوےکی بنیاد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث قرار دیتے تھے۔ اس روایت کو لیث، ابن ابی ذئب، ابن اسحاق، جویریہ، یحییٰ بن سعید اور اسماعیل بن امیہ نے حضرت نافع سے، انھوں نے عبداللہ بن عمر ؓ سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مختصر طور پر بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2525]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ کے بیان کردہ مسئلے میں بہت اختلاف ہے اور اس اختلاف کی بنیاد یہ ہے کہ آیا غلام کی آزادی قابل تقسیم ہے یا نہیں؟ امام بخاری ؒ کا موقف یہ ہے کہ آزادی کا تجزیہ ہو سکتا ہے۔
جب غلامی کا دور تھا تو کئی آدمی مل کر ایک غلام خرید لیتے تھے اب اگر کوئی اپنا حصہ آزاد کرنا چاہتا تو اس کے متعلق ضابطہ یہ تھا کہ پہلے غلام کی صحیح اور عادلانہ قیمت تجویز کی جائے پھر اپنا حصہ آزاد کرنے والا اگر مال دار ہے تو باقی شرکاء کو ان کے حصص کے مطابق قیمت ادا کرے، اس صورت میں وہ غلام مکمل طور پر آزاد ہو گا۔
اگر وہ شخص مال دار نہیں ہے تو پھر صرف اسی کا حصہ آزاد ہو گا، مکمل طور پر آزاد نہیں ہو گا۔
اس طرح اس کی آزادی تقسیم ہو سکتی ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آزادی تقسیم نہیں ہو سکتی بلکہ ایک حصہ آزاد کرنے سے وہ مکمل آزاد ہو جائے گا۔
اگر وہ صاحب حیثیت ہے تو اسے باقی حصوں کی قیمت کا تاوان دینا ہو گا۔
اگر صاحب حیثیت نہیں ہے تو غلام کو محنت مزدوری پر مجبور کیا جائے گا۔
اس پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اپنا حصہ آزاد کرنے والا تنگ دست ہو اور غلام بھی محنت مزدوری کے قابل نہ ہو تو پھر کیا کیا جائے گا؟ بہرحال ہمارے رجحان کے مطابق آزادی قابل تجزیہ ہے اور غلام کا کچھ حصہ آزاد اور کچھ حصہ غلام ہو سکتا ہے، اس میں کوئی اشکال نہیں۔
امام بخاری ؒ نے آئندہ باب میں اس کا مزید حل پیش فرمایا ہے۔
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2525]