Abu Sa'id Al-Khudri (RAA) narrated, “We used to offer it (Zakat-ul-fitr) during the lifetime of the Prophet as one sa’ of food or one sa' of dates, or one sa' of barley or one sa' of raisins’’ Agreed upon. In another narration, “or one sa' of dried cottage cheese.” Abu Sa'id then added, “As for myself, I would continue to give it as I used to give during the time of the Prophet. Abu Dawud also transmitted on the authority of Abu Sa'id, “I would never give but a sa'.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
● صحيح البخاري | 1508 | سعد بن مالك | صاعا من طعام أو صاعا من تمر أو صاعا من شعير أو صاعا من زبيب |
● صحيح البخاري | 1510 | سعد بن مالك | نخرج في عهد رسول الله يوم الفطر صاعا من طعام |
● صحيح البخاري | 1505 | سعد بن مالك | نطعم الصدقة صاعا من شعير |
● صحيح مسلم | 2285 | سعد بن مالك | زكاة الفطر ورسول الله فينا عن كل صغير وكبير حر ومملوك من ثلاثة أصناف صاعا من تمر صاعا من أقط صاعا من شعير |
● صحيح مسلم | 2287 | سعد بن مالك | صاعا من تمر أو صاعا من زبيب أو صاعا من شعير أو صاعا من أقط |
● صحيح مسلم | 2284 | سعد بن مالك | زكاة الفطر عن كل صغير وكبير حر أو مملوك صاعا من طعام أو صاعا من أقط أو صاعا من شعير أو صاعا من تمر أو صاعا من زبيب |
● جامع الترمذي | 673 | سعد بن مالك | نخرج زكاة الفطر إذ كان فينا رسول الله صاعا من طعام أو صاعا من شعير أو صاعا من تمر أو صاعا من زبيب أو صاعا من أقط فلم نزل نخرجه حتى قدم معاوية المدينة فتكلم فكان فيما كلم به الناس إني لأرى مدين من سمراء الشام تعدل صاعا من تمر قال فأخذ ال |
● سنن أبي داود | 1616 | سعد بن مالك | صاعا من طعام أو صاعا من أقط أو صاعا من شعير أو صاعا من تمر أو صاعا من زبيب |
● سنن أبي داود | 1618 | سعد بن مالك | نخرج على عهد رسول الله صاع تمر أو شعير أو أقط أو زبيب |
● سنن ابن ماجه | 1829 | سعد بن مالك | زكاة الفطر إذ كان فينا رسول الله صاعا من طعام صاعا من تمر صاعا من شعير صاعا من أقط صاعا من زبيب |
● سنن النسائى الصغرى | 2513 | سعد بن مالك | صدقة الفطر صاعا من شعير أو صاعا من تمر أو صاعا من أقط |
● سنن النسائى الصغرى | 2514 | سعد بن مالك | صاعا من طعام أو صاعا من شعير أو صاعا من تمر أو صاعا من زبيب أو صاعا من أقط |
● سنن النسائى الصغرى | 2515 | سعد بن مالك | صاعا من طعام أو صاعا من تمر أو صاعا من شعير أو صاعا من أقط |
● سنن النسائى الصغرى | 2516 | سعد بن مالك | صاعا من تمر أو صاعا من شعير أو صاعا من زبيب أو صاعا من دقيق أو صاعا من أقط أو صاعا من سلت |
● سنن النسائى الصغرى | 2519 | سعد بن مالك | صاعا من شعير أو تمر أو زبيب أو أقط |
● سنن النسائى الصغرى | 2520 | سعد بن مالك | صاعا من تمر أو صاعا من شعير أو صاعا من أقط لا نخرج غيره |
● صحيح البخاري | 1506 | سعد بن مالك | كنا نخرج زكاة الفطر صاعا من طعام او صاعا من شعير او صاعا من تمر او صاعا من اقط او صاعا من زبيب |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | 278 | سعد بن مالك | كنا نخرج زكاة الفطر صاعا من طعام |
● بلوغ المرام | 506 | سعد بن مالك | صاعا من طعام او صاعا من تمر او صاعا من شعير او صاعا من زبيب |
● مسندالحميدي | 759 | سعد بن مالك | ما كنا نخرج على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم في زكاة الفطر إلا صاعا من تمر، أو صاعا من شعير، أو صاعا من أقط |
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 506
لغوی تشریح 506:
کُنَّا نُعْطِیھَا ہم صدقۂ فطر (فطرانہ) ادا کیا کرتے تھے۔
صَاعًا مِن طَعَامٍ طعام کا لفظ ما بعد مذکور چیزوں کے مقابلے میں بولا گیا ہے جو اس بات کا مقتضی ہے کہ طعام اور دوسری اجناس کے مابین فرق وتغایر ہے۔ طعام کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد گندم ہے۔ طعام بول کر اہل عرب عموماً اس سے مراد گندم لیتے ہیں۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ”طعام“ میں اجمال ہے اور مابعد اس کی تفصیل ہے۔ اور بعض روایات میں اس کی صراحت بھی ہے، اس لیے یہی قول راجح ہے۔
أَقِط ”ہمزہ“ پر فتحہ اور ”قاف“ کے نیچے کسرہ ہے، پنیر کو کہتے ہیں۔ یہ دراصل دودھ ہوتا ہے جو خشک کر کے جمایا جاتا ہے اور پتھر کی طرح سخت ہو جاتا ہے۔
فَلَا أَزَالُ أُخْرِجُہُ اور میں ہمیشہ ایک صاع کی مقدار ہی فطرانے میں نکالتا رہوں گا، خواہ کوئی جنس ہو، گندم ہو یا دوسری اجناس۔ اور ایک صاع پانچ رطل اور تہائی رطل کا ہوتا ہے اور یہ وزن چار مد کے مساوی ہوتا ہے۔ جدید حساب کے مطابق ایک صاع کا وزن تقریباً ڈھائی کلو گرام کا ہوتا ہے۔
فائدہ 506:
صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین میں گندم کے سوا باقی تمام اجناس میں سے احادیث کی روشنی میں ایک ایک صاع فطرانے کے طور پر دینے کا اتفاق تھا، صرف گندم میں اختلاف تھا۔ حضرت معاویۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی راے کے پیش نظر گندم کا آدھا صاع نکالنے کا مشورہ دیا۔ گندم چونکہ مہنگی بھی تھی اور قلیل بھی تو ان کی اس راے سے بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے اتفاق کر لیا، دیکھیے: (صحیح البخاری، کتاب الزکاۃ، حدیث: 1508، وصحیح مسلم، الزکاۃ، حدیث: (18) -985) امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے اس مذکورہ بالا اختلاف کی طرف اشارہ کرتے ہوے فرمایا ہے: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے بعض اہل علم کا مؤقف یہ بھی ہے کہ ہر چیز کا ایک صاع دیا جائے سوائے گندم کے کہ اس کا فطرانے میں نصف صاع بھی کفایت کر جاتا ہے۔“ (جامع الترمذی، الزکاۃ، حدیث: 673) اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ حضرت معاویۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اجتھاد ہی ہے یا سنت سے اس کی دلیل بھی ملتی ہے؟ ہاں، اس بارے میں مرفوع احادیث بھی آتی ہیں جنھیں کچھ علماء نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن راجح بات یہی ہے کہ آدھے صاع گندم کی حدیث کے بہت سے شواہد ہیں جیسا کہ شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں «وَ لِلحَدِيْثِ شَوَاهِدٌ كَثِيرَةٌ» (الصحیحۃ: 171، 3) اور وہ حدیث یہ ہے کہ أُدُّو صَاعًا مِّن بَرٍ أو قُمْح بَینَ اثْنَینِ۔۔۔۔۔۔ ”گندم کا ایک صاع دو افراد کو ادا کرو۔“ اس حدیث سے واضح ہوا کہ نصف صاع ایک فرد کو دیا جاسکتا ہے۔ اس کی تائید جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صحیح امر سے بھی ہوتی ہے، فرماتے ہیں: ((صَدَقَۃُ الْفِطرِ عَلٰی کُلِّ مُسلِمٍ صَغِیرٍ وَ کَبِیرٍ، عَبدٍ أو حُرٍّ مُدَّانِ مِن قُمحٍ۔۔۔)) ”فطرانہ ہر مسلمان پر (ضروری ہے)، خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، غلام ہو یا آزاد، گندم کے دو مد (آدھا صاع)۔“ (سنن دارقطنی: 2 346) اس بحث سے معلوم ہوا کہ یہ صرف حضرت حضرت معاویۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کی راے نہ تھی بلکہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین بھی ان کی راے سے متفق تھے اور ان کی اس راے کی تائید مرفوع صحیح حدیث سے بھی ہوتی ہے، اس لیے اگر کوئی شخص ایک صاع گندم کے بجائے آدھا صاع گندم بھی فطرانے میں دے دیتا ہے تو ان شاء اللہ یہ بھی جائز ہو گا۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (سنن ابی داؤد (مفصل) للألبانی: 324/5) لیکن افضل اور اولٰی گندم کا پورا صاع دینا ہی ہے جیسا کہ عمومی احادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 506
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 278
´صدقہ فطر کا بیان`
«. . . انه سمع ابا سعيد الخدري يقول: كنا نخرج زكاة الفطر صاعا من طعام، او صاعا من شعير، او صاعا من تمر، او صاعا من اقط، او صاعا من زبيب . . .»
”. . . سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم اناج کا ایک صاع یا جَو کا ایک صاع یا کھجور کا ایک صاع یا پنیر کا ایک صاع یا خشک انگور کا صاع صدقہ فطر ادا کرتے تھے . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 278]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1506، ومسلم 985، من حديث مالك به]
تفقہ:
① یہ صدقہ فطر مسلمانوں پر فرض ہے۔ دیکھئے [ح 211]
② ایک روایت میں آیا ہے کہ ہم صدقہ فطر ادا کرتے تھے۔۔۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان ہوتے تھے۔ [صحيح مسلم: 985 2284] معلوم ہوا کہ درج بالا حدیث مرفوع ہے۔
③ صاع کے وزان کے بارے میں اختلاف ہے - راجح یہی ہے کہ ڈھائی کلووزن کے مطابق صاع نکالا جائے تاکہ آدمی کسی شک میں نہ رہے
④ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے گندم کا آدھا صاع ثابت ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ وغیرہ سے پورا صاع ثابت ہے لہٰذا راجح یہی ہے کہ پورا صاع ادا کیا جائے۔
⑤ بہتر اور افضل یہی ہے کہ گندم، جو، کھجور اور انگور وغیرہ پھلوں، غلے اور کھانے سے صاع نکالا جائے لیکن اگر مجبوری یا کوئی شرعی عذر ہو تو صاع کی مروجہ رقم سے ادائیگی بھی جائز ہے۔ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے بصرہ میں عدی کی طرف حکم لکھ کر بھیجا تھا کہ اہلِ دیوان کے عطیات میں سے ہر انسان کے بدلے آدھا درہم لیا جائے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 3/174 ح10368، وسنده صحيح]
◈ ابواسحاق السبیعی فرماتے تھے کہ میں نے لوگوں کو رمضان میں صدقہ فطر میں طعام (کھانے) کے بدلے دراہم دیتے ہوئے پایا ہے [ابن ابئ شيبه ح 10371، و سنده صحيح]
⑥ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ صدقۂ فطر صرف کھجور میں سے دیتے تھے سوائے ایک دفعہ کے (جب کھجوریں نہ ملیں تو) آپ نے جَو دیئے۔ [الموطأ 1/284 ح635، وسنده صحيح]
⑦ صدقۂ فطر صرف مساکین کا حق ہے۔ [ديكهئے سنن ابي داؤد: 1609، وسنده حسن]
لہٰذا اسے آٹھ قسم کے مستحقین زکوٰۃ میں تقسیم کرنا غلط ہے۔ دیکھئے زاد المعاد [2/22] اور ”عبادات میں بدعات اور سنت نبوی سے ان کا رد“ [ص212]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 176
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1616
´صدقہ فطر کتنا دیا جائے؟`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان باحیات تھے، ہم لوگ صدقہ فطر ہر چھوٹے اور بڑے، آزاد اور غلام کی طرف سے غلہ یا پنیر یا جو یا کھجور یا کشمش سے ایک صاع نکالتے تھے، پھر ہم اسی طرح نکالتے رہے یہاں تک کہ معاویہ رضی اللہ عنہ حج یا عمرہ کرنے آئے تو انہوں نے منبر پر چڑھ کر لوگوں سے کچھ باتیں کیں، ان میں ان کی یہ بات بھی شامل تھی: میری رائے میں اس گیہوں کے جو شام سے آتا ہے دو مد ایک صاع کھجور کے برابر ہیں، پھر لوگوں نے یہی اختیار کر لیا، اور ابوسعید نے کہا: لیکن میں جب تک زندہ رہوں گا برابر ایک ہی صاع نکالتا رہوں گا۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں: اسے ابن علیہ اور عبدہ وغیرہ نے ابن اسحاق سے، ابی اسحاق نے عبداللہ بن عبداللہ بن عثمان بن حکیم بن حزام سے، عبداللہ بن عبداللہ نے عیاض سے اور عیاض نے ابوسعید سے اسی مفہوم کے ساتھ نقل کیا ہے، ایک شخص نے ابن علیہ سے «أو صاعًا من حنطة» بھی نقل کیا ہے لیکن یہ غیر محفوظ ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1616]
1616. اردو حاشیہ:
➊ جب صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کی آراء میں اختلا ف ہو تو بلاشبہ وہی قول اور عمل حق اور راحج ہوگا۔جس پر دوررسالت ﷺ میں عمل ہوتا رہا۔ صدقہ فطر کے معاملے میں کچھ صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے پر عمل کرتے ہوئے آدھا صاع گندم دینا شروع کردیا تھا۔مگر کچھ نے اسے قبول نہیں کیا۔تو ان کی رائے حجت نہ ہوئی۔
➋ لفظ طعام اگرچہ عام ہے۔مگر کچھ علماء اس طرف گئے ہیں کہ اس کا اطلاق گندم پر بالخصوص ہوتا ہے۔(خطابی)اس لئے گندم سے صدقہ فطر دینا ہو تو بھی ایک صاع دیاجائے۔
➌ اس حدیث میں یہ دلیل بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مختلف قیمتوں کی حامل مختلف اجناس کی تعین فرمائی اور صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین بھی یہی اجناس دیتے تھے۔کہیں بھی قیمت ادا کرنے کا ارشاد نہیں ہے۔لہذا جنس کی صورت میں ادایئگی زیادہ افضل اور راحج ہے۔تینوں آئمہ اسی طرف گئے ہیں۔صرف امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جواز قیمت کے قائل ہیں۔اور امام بخار ی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی (باب العرض فی الذکاۃ) میں یہی ثابت کیا ہے۔کہ فرض زکواۃ میں بدل جائز ہے۔اور حضرت معاز رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اہل یمن سے کہا تھا۔کہ جو اور مکئی کی بجائے کپڑے پیش کردو یہ تم پر آسان ہے۔اور یہ مدینہ میں اصحاب نبی رضوان اللہ عنہم اجمعین کے لئے مفید تر ہیں۔(صحیح بخاری کتاب الزکاۃ باب 33)علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ الیل الجرار میں عذر کی بنا پرقیمت کی ادایئگی کو جائز بتاتے ہیں۔(اور مقصد اورفائدہ کی نظر سے قیمت کونظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا) راحج بہرحال جنس ہی ہے۔(مرعاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ لمصابیح حدیث 1833]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1616
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2514
´صدقہ فطر میں کشمش (خشک انگور) دینے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہمارے درمیان موجود تھے تو ہم صدقہ فطر گی ہوں سے ایک صاع، یا جو سے، یا کھجور سے، یا کشمش سے، یا پنیر سے ایک صاع نکالتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2514]
اردو حاشہ:
(1) لفظ طعام سے مراد گندم بھی ہو سکتی ہے کیونکہ باقی چیزوں کا الگ بیان ہے مگر لغت کے لحاظ سے ہر مطعوم (خوراک والی چیز) کو طعام کہا جا سکتا ہے۔ اور اس میں گندم بھی داخل ہوگی۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ گندم میں ایک صاع ہی کے قائل تھے، نیز حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی رائے کہ آدھا صاع گندم بھی دی جا سکتی ہے، وہ سخت مخالف تھے مگر یہ صرف سیدنا معاویہ ہی کی رائے نہ تھی بلکہ بعض دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اس رائے کے حامل تھے، جیسے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ وغیرہ۔ دیکھیے (سنن الدارقطني: 2/ 346، والروضة الندیة مع التعلیقات الرضیة: 1/ 549) مزید برآں یہ کہ یہ صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رائے یا ان کا اجتہاد ہی نہ تھا بلکہ رسول اللہﷺ سے اس بارے میں مروی حدیث بھی ہے جیسا کہ حدیث: 2510 کے فوائد میں گزرا۔ ممکن ہے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کو وہ حدیث معلوم نہ ہو، اور یہ بعید از قیاس بھی نہیں۔ جس سے ان کے موقف میں مزید سختی پیدا ہوگئی۔ واللہ أعلم
(2) کشمش انگور سے تیار ہوتی ہے۔ چونکہ انگور زیادہ دیر تک رکھا نہیں جا سکتا، لہٰذا صدقۃ الفطر میں انگور دینا درست نہیں بلکہ اسے خشک کر کے کشمش کی صورت میں دیا جائے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2514
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2515
´صدقہ فطر میں کشمش (خشک انگور) دینے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہم میں تھے تو ہم صدقہ فطر گی ہوں سے، کھجور سے، یا جو سے، یا پنیر سے ایک صاع نکالتے تھے، اور ہم برابر اسی طرح نکالتے رہے۔ یہاں تک کہ معاویہ رضی اللہ عنہ شام سے آئے، اور انہوں نے جو باتیں لوگوں کو بتائیں ان میں ایک بات یہ بھی تھی کہ شامی گی ہوں کے دو مد (مدینہ کے) ایک صاع کے برابر ہیں، تو لوگوں نے اسی کو اختیار کر لیا۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2515]
اردو حاشہ:
صاع چار مد کا ہوتا ہے گویا گندم کا نصف صاع قیمت کے لحاظ سے کھجور وغیرہ کے صاع کے برابر تھا۔ صاع دراصل برتن کی صورت میں ایک پیمانہ ہے، وزن نہیں۔ ظاہر ہے برتن کے اندر ہر جنس برابر وزن کی نہیں ہوتی۔ گندم کا الگ وزن ہوگا، کھجوروں کا الگ، جو کا الگ اور کشمش کا الگ، لہٰذا اصل تو یہی ہے کہ صاع بھر کر غلہ دیا جائے جو بھی ہو، مگر وہ صاع ہر جگہ مہیا نہیں۔ بعض علماء نے حجاز کا پرانا صاع نبوی مہیا ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ اور یہ بھی کہا ہے کہ اس میں تقریباً ڈھائی کلو گندم آتی ہے۔ (مد کا پیمانہ تو میں نے بھی سعیدی خاندان کے ہاں دیکھا ہے) عام طور پر صاع کا جو وزن کتابوں میں مرقوم ہے، وہ بھی کوئی ڈھائی کلو بنتا ہے کیونکہ رطل نوے مثقال کا ہوتا ہے اور ہر مثقال ساڑھے چار ماشے کا، لہٰذا رطل: 405=41/2x90 ماشے کا ہوا۔ اور ایک صاع 5 رطل کا ہوتا ہے، لہٰذا صاع 2150=51/3x405 ماشے کا ہوا جو 180 تولے بنتے ہیں اور ایک تولہ 11.664 گرام کا ہوتا ہے، لہٰذا 2099.52=11.664x180 گرام ہوا، لہٰذا صدقہ فطر میں احتیاطاً ڈھائی کلو غلہ دیا جائے۔ (دیکھئے، حدیث: 2447)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2515
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2516
´صدقہ فطر میں آٹا دینے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صدقہ فطر کھجور سے، یا جو سے، یا کشمش سے، یا آٹا یا پنیر سے، یا بے چھلکے والی جو سے ایک صاع ہی نکالا ہے۔ سفیان کو شک ہوا تو انہوں نے «من دقیق أوسلت» شک کے ساتھ روایت کی ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2516]
اردو حاشہ:
شیخ البانی رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق حدیث میں ”دقیق“ ”آٹے“ کا ذکر درست نہیں۔ متقدمین اکثر محدثین نے بھی اسے غیر محفوظ قرار دیا ہے۔ دیکھیے (ذخیرۃ العقبٰی، شرح سنن النسائي: 22/ 302۔303) باقی ساری حدیث حسن صحیح ہے۔ مزید دیکھیے: (إرواء الغلیل: 3/ 338) لیکن چونکہ یہ ہماری عام خوراک ہے، نیز حدیث میں گندم کا صریح ذکر بھی آیا ہے، اس لیے اس کا صدقہ فطر میں دینا جائز ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2516
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2519
´صدقہ فطر میں جَو دینے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صدقہ فطر ایک صاع جَو یا کھجور یا انگور یا پنیر نکالتے تھے۔ اور ہم برابر ایسا ہی کرتے چلے آ رہے تھے یہاں تک کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا۔ تو انہوں نے کہا: میں سمجھتا ہوں کہ شامی گیہوں کے دو مد (یعنی نصف صاع) جو کے ایک صاع کے برابر ہیں۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2519]
اردو حاشہ:
یہ رائے صرف سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ہی کی نہ تھی بلکہ کچھ دیگر صحابہ کرامؓ بھی اس رائے کے حامل تھے۔ دیکھئے حدیث: 2514 کے فوائد ومسائل۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2519
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2520
´صدقہ فطر میں پنیر دینے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں (صدقہ فطر) کھجور یا جو یا پنیر سے ایک صاع نکالتے تھے۔ اس کے علاوہ کچھ نہ نکالتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2520]
اردو حاشہ:
(1) حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ ہی کی دوسری روایت میں کشمش اور طعام کا بھی ذکر ہے، بلکہ سلت کا بھی ذکر ہے۔ گندم کا صراحتاً ذکر نہیں الا یہ کہ طعام سے گندم مراد لی جائے۔
(2) پنیر دودھ کو گرم کر کے تیار کیا جاتا ہے۔ جمہور اہل علم کے نزدیک پنیر بھی ایک صاع دیا جائے گا جبکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک قیامت کے لحاظ سے دیا جائے گا، مگر احادیث میں صراحتاً پنیر کے بھی صاع ہی کا ذکر ہے اور یہی صحیح ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2520
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1829
´صدقہ فطر کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے ہم تو صدقہ فطر میں ایک صاع گیہوں، ایک صاع کھجور، ایک صاع جو، ایک صاع پنیر، اور ایک صاع کشمش نکالتے تھے، ہم ایسے ہی برابر نکالتے رہے یہاں تک کہ معاویہ رضی اللہ عنہ ہمارے پاس مدینہ آئے، تو انہوں نے جو باتیں لوگوں سے کیں ان میں یہ بھی تھی کہ میں شام کے گیہوں کا دو مد تمہارے غلوں کی ایک صاع کے برابر پاتا ہوں، تو لوگوں نے اسی پر عمل شروع کر دیا۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: میں جب تک زندہ رہوں گا اسی طرح ایک صاع نکالتا رہوں گا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ می۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1829]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حضرت ابو سعید نے حضرت معاویہ سے اتفاق نہیں کیا، اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر بھی اس مسئلہ میں حضرت معاویہ سے متفق نہیں تھے جیسے کہ حدیث: 1825 میں بیان ہوا۔
(2)
گندم کا نصف صاع فی کس صدقہ فطر ادا کرنے کی ایک مرفوع حدیث جامع ترمذی میں مذکور ہے۔ (جامع الترمذي، الزکاۃ، باب ما جاء فی صدقة الفطر، حدیث: 674)
لیکن وہ ضعیف ہے کیونکہ ابن جریج نے عمرو بن شعیب سے ”عن“ کے لفظ کے ساتھ روایت کیا ہے اور ابن جریج مدلس ہے۔
ایسے راوی کی وہ روایت قبول نہیں کی جاتی جو وہ ”عن“ کے ساتھ روایت کرے، اس لیے صحیح بات یہی ہے کہ نصف صاع کا حکم نبی اکرم ﷺ کا ارشاد نہیں بلکہ صحابہ کرام ؓ کا اجتہاد ہے۔
احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے کہ گندم ہو یا کوئی اور چیز اس میں سے پورا صاع صدقہ فطر ادا کیا جائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1829
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 673
´صدقہ فطر کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں ہم لوگ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود تھے - صدقہ فطر ۱؎ میں ایک صاع گیہوں ۲؎ یا ایک صاع جو، یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع کشمش یا ایک صاع پنیر نکالتے تھے۔ تو ہم اسی طرح برابر صدقہ فطر نکالتے رہے یہاں تک کہ معاویہ رضی الله عنہ مدینہ آئے، تو انہوں نے لوگوں سے خطاب کیا، اس خطاب میں یہ بات بھی تھی کہ میں شام کے دو مد گیہوں کو ایک صاع کھجور کے برابر سمجھتا ہوں۔ تو لوگوں نے اسی کو اختیار کر لیا یعنی لوگ دو مد آدھا صاع گیہوں دینے لگے۔ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 673]
اردو حاشہ:
1؎:
صدقہ فطر کی فرضیت رمضان کے آغاز کے بعد عید سے صرف دو روز پہلے 2ھ میں ہوئی،
اس کی ادائیگی کا حکم بھی نماز عید سے پہلے پہلے ہے تاکہ معاشرے کے ضرورت مند حضرات اس روز مانگنے سے بے نیاز ہو کر عام مسلمانوں کے ساتھ عید کی خوشی میں شریک ہو سکیں،
اس کی مقدار ایک صاع ہے خواہ کوئی بھی جنس ہو،
صدقہء فطر کے لیے صاحب نصاب ہونا ضروری نہیں۔
اور صاع ڈھائی کلو گرام کے برابر ہوتا ہے۔
2؎: ((صَاعاً مِنْ طَعَامِِ)) میں طعام سے مراد حنطۃ (گیہوں) ہے کیونکہ طعام کا لفظ مطلقاً گیہوں کے معنی میں بولا جاتا تھا جب کہا جاتا ہے:
”إِذْهَبْ إِلى سُوْقِ الطَّعَامِ“ تو اس سے ”سوق الحنطۃ“ (گیہوں کا بازار) ہی سمجھا جاتا تھا،
اور بعض لوگوں نے کہا ((مِنْ طَعَامِِ)) مجمل ہے اور آگے اس کی تفسیرہے،
یہ ”عَطْفُ الْخَاصِ عَلَی الْعَامِ“ ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 673
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:759
759- سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اقدس میں ہم صدقہ فطر میں کھجور کاایک صاع یا پنیر کا ایک صاع دیا کرتے تھے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:759]
فائدہ:
ایک صاع کا وزن تقریبا اڑھائی کلو بنتا ہے۔ حسب توفیق مذکورہ جنسوں میں سے گھر کی فی فرد کی طرف سے اڑھائی کلو جنس یا اس کی قیمت ادا کر دی جائے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 759
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1505
1505. حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم جو کا ایک صاع بطور فطرانہ کھلایا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1505]
حدیث حاشیہ:
تفصیل سے بتلایا جاچکا ہے کہ صاع سے مراد صاع حجازی ہے جو عہد رسالت ﷺ میں مروج تھا۔
جس کا وزن تین سیر سے کچھ کم ہوتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1505
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1506
1506. حضرت ابو سعیدخدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم ایک صاع خوراک یاایک صاع جویا ایک صاع کھجور یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع منقی بطور صدقہ فطر دیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1506]
حدیث حاشیہ:
طعام سے اکثر لوگوں کے نزدیک گیہوں ہی مراد ہے۔
بعضوں نے کہا جو کے سوا دوسرے اناج اور اہل حدیث اور شافعیہ اور جمہور علماء کا یہی قول ہے کہ اگر صدقہ فطر میں گیہوں دے تو بھی ایک صاع دینا کافی سمجھا۔
ابن خزیمہ اور حاکم نے ابوسعید ؓ سے نکالا۔
میں تو وہی صدقہ دوں گا جو آنحضرت ﷺ کے زمانے میں دیا کرتا تھا۔
یعنی ایک صاع کھجور یا ایک صاع گیہوں یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع جو۔
ایک شخص نے کہا یا دو مد نصف صاع گیہوں‘ انہوں نے کہا نہیں یہ معاویہ ؓ کی ٹھہرائی ہوئی بات ہے۔
(وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1506
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1510
1510. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایاکہ ہم رسول اللہ کے عہد مبارک میں عید الفطر کے دن خوراک میں سے ایک صاع ادا کیا کرتے تھے، ان دنوں ہماری خوراک جو، کشمکش، پنیر اور کھجوریں ہواکرتی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1510]
حدیث حاشیہ:
صدقہ فطر عید سے ایک دو دن پہلے بھی نکالا جاسکتا ہے مگر نماز عید سے پہلے تو اسے ادا کرہی دینا چاہیے۔
جیسا کہ دوسری روایات میں صاف موجود ہے «مَنْ أَدَّاهَا قَبْلَ الصَّلَاةِ، فَهِيَ زَكَاةٌ مَقْبُولَةٌ، وَمَنْ أَدَّاهَا بَعْدَ الصَّلَاةِ، فَهِيَ صَدَقَةٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ» (أبوداود وابن ماجة)
یعنی جو اسے نماز عید سے قبل ادا کردے گا اس کی یہ زکوٰۃ الفطر مقبول ہوگی اور جو نماز کے بعد ادا کرے گا اس صورت میں یہ ایسا ہی معمولی صدقہ ہوگا جیسے عام صدقات ہوتے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1510
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1505
1505. حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم جو کا ایک صاع بطور فطرانہ کھلایا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1505]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اس روایت کو انتہائی اختصار سے بیان کیا ہے جبکہ تفصیل آئندہ بیان ہو گی کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں ایک صاع کھانے کا بطور صدقہ فطر دیا کرتے تھے۔
(حدیث: 1508)
اس کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز سال کے بیشتر حصے میں بطور خوراک استعمال ہوتی ہو اس سے فطرانہ ادا کیا جائے اور اس کی مقدار ایک صاع ہے۔
(2)
ہمارے ہاں صاع حجازی کے وزن کے متعلق کچھ اختلاف ہے، عام طور پر ہمارے سامنے دو موقف ہیں:
٭ دو سیر 10 چھٹانک 3 تولہ اور 4 ماشہ، یعنی پونے تین سیر، رائج الوقت تقریبا اڑھائی کلو۔
٭ 2 سیر 4 چھٹانک، رائج الوقت تقریبا 2 کلو 100 گرام ہمارے نزدیک دوسرا موقف صحیح ہے کیونکہ صاع حجازی میں 5 1/3 رطل ہوتے ہیں۔
مختلف فقہاء کی تصریح کے مطابق ایک رطل نوے (90)
مثقال کا ہوتا ہے، تو صاع حجازی کے 480 مثقال بنتے ہیں، ایک مثقال ساڑھے چار ماشے کا ہوتا ہے، اس حساب کے مطابق 480 مثقال کے دو ہزار ایک سو ساٹھ (2160)
ماشے ہوئے۔
چونکہ ایک تولے میں بارہ ماشے ہوتے ہیں، لہذا بارہ پر تقسیم کرنے سے ایک صاع کا ایک سو اَسی (180)
تولے وزن بنتا ہے۔
جدید اعشاری نظام کے مطابق تین تولے کے تقریبا 35 گرام ہوتے ہیں، اس حساب سے ایک سو اَسی تولے (180)
وزن کے دو ہزار ایک سو (2100)
گرام بنتے ہیں، یعنی ایک صاع حجازی کا وزن دو کلو، سو گرام ہے۔
پرانے وزن کے مطابق دو سیر چار چھٹانک ہے۔
آئندہ ہم کسی مقام پر صاع کی حقیقت بھی بیان کریں گے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1505
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1506
1506. حضرت ابو سعیدخدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم ایک صاع خوراک یاایک صاع جویا ایک صاع کھجور یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع منقی بطور صدقہ فطر دیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1506]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس روایت میں خوراک سے مراد گندم لی گئی ہے کیونکہ اس کے بعد ”جو“ کا ذکر ہے جسے بطور خوراک استعمال کیا جاتا تھا اور گندم خوراک کی بہترین قسم ہے۔
لیکن ہمارے نزدیک لفظ طعام سے گندم مراد لینا محل نظر ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں وسیع پیمانے پر گندم دستیاب نہ تھی، اس لیے حضرت ابو سعید خدری ؓ نے پہلے مجمل طور پر طعام کا لفظ استعمال فرمایا، پھر اس کی تفصیل بیان کی کہ جو، کھجور، پنیر اور منقی سے ایک صاع دیا کرتے تھے، اس کی تائید ایک روایت سے ہوتی ہے جس میں حضرت ابو سعید خدری ؓ خود فرماتے ہیں کہ ان دنوں ہماری خوراک جو، منقی، پنیر اور کھجور ہوا کرتی تھی۔
(صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1510) (2)
جن روایات میں صدقہ فطر کے سلسلے میں گندم کا ذکر ہے کہ اسے رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں ادا کیا جاتا تھا، محدثین نے اسے غیر محفوظ قرار دیا ہے، علاوہ ازیں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں کھجور، منقی اور جو سے صدقہ فطر ادا کیا جاتا تھا، ان دنوں گندم دستیاب نہ تھی۔
(صحیح ابن خزیمة: 85/4)
صحیح مسلم میں ہے حضرت ابو سعید ؓ فرماتے ہیں کہ ہم تین اقسام سے صدقہ فطر ادا کرتے تھے، یعنی ایک صاع کھجور یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع جو دیا کرتے تھے۔
(صحیح مسلم، الزکاة، حدیث: 2287(985)
ان تمام روایات کا تقاضا ہے کہ اس روایت میں طعام سے مراد گندم نہیں ہے، ممکن ہے کہ طعام سے مراد مکئی ہو کیونکہ اہل حجاز کے ہاں ان دنوں مکئی کو بطور خوراک استعمال کیا جاتا تھا۔
(فتح الباري: 471/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1506
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1508
1508. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم نبی ﷺ کے عہد مبارک میں خوراک یا کھجور یا جو یا منقی کا ایک صاع بطور صدقہ فطر دیتے تھے جب حضرت معاویہ ؓ کا دورآیا اور(شام سے) گندم آئی تو انھوں نے کہا کہ میرے خیال کے مطابق گندم کا ایک مد دیگر اجناس کے دو مد کے برابر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1508]
حدیث حاشیہ:
(1)
ابوداود میں اس روایت کی تفصیل ہے، حضرت ابو سعید خدری ؓ نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں ہر چھوٹے بڑے آزاد اور غلام کی طرف سے خوراک، پنیر، جو، کھجور اور منقی کا ایک صاع بطور فطرانہ دیا کرتے تھے۔
لمبا عرصہ ہمارا یہی معمول رہا حتی کہ حضرت امیر معاویہ ؓ حج یا عمرہ کرنے کے لیے آئے تو انہوں نے منبر پر لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
میرے خیال کے مطابق ملک شام کی گندم کے دو مد ہمارے ہاں کھجور کے ایک صاع کے مساوی ہیں۔
لوگوں نے ان کی بات پر عمل کرنا شروع کر دیا، لیکن میں تو جب تک زندہ رہوں گا وہی صدقہ دیتا رہوں گا (جو رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں دیتا تھا۔
) (سنن أبي داود، الزکاة، حدیث: 1616)
امام بخاری ؒ نے خوراک، جو، کھجور اور منقی کے متعلق الگ الگ عنوان قائم کیے ہیں کہ ان سے صدقہ فطر ادا کیا جا سکتا ہے لیکن پنیر کے متعلق مستقل عنوان قائم نہیں کیا۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری ؒ کے نزدیک پنیر سے صدقہ فطر اس وقت ادا کیا جائے جب دوسری اشیاء دستیاب نہ ہوں یا ان سے صدقہ فطر دینے کی ہمت نہ ہو۔
(فتح الباري: 469/3)
ان روایات کا تقاضا ہے کہ ہر فرد کی طرف سے فطرانہ ایک صاع ادا کیا جائے، البتہ گندم سے نصف صاع ادا کرنے کی روایات بھی منقول ہیں جن کی ہم حدیث: 1512 کے تحت شرح کریں گے۔
إن شاءاللہ
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1508
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1510
1510. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایاکہ ہم رسول اللہ کے عہد مبارک میں عید الفطر کے دن خوراک میں سے ایک صاع ادا کیا کرتے تھے، ان دنوں ہماری خوراک جو، کشمکش، پنیر اور کھجوریں ہواکرتی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1510]
حدیث حاشیہ:
(1)
صدقہ فطر کی ادائیگی عید کی نماز سے پہلے پہلے ضروری ہے اگرچہ تقسیم بعد میں کر دیا جائے، نماز عید کے بعد فطرانہ ادا کرنا درست نہیں۔
اس کی حیثیت عام صدقے کی نہیں کہ جس وقت مرضی ہو ادا کر دیا جائے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عید گاہ جانے سے پہلے فطرانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔
(صحیح ابن خزیمة: 91/4)
حضرت ابن عمر ؓ اپنا فطرانہ عید سے دو تین دن پہلے تحصیل دار کے پاس بھیج دیا کرتے تھے جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔
(الموطأ للإمام مالك مع تنویرالحوالك: 210/1)
البتہ حاکم وقت جمع شدہ فطرانہ عید کے بعد بھی ضرورت مند حضرات میں تقسیم کر سکتا ہے۔
امام ابن خزیمہ نے اس سلسلے میں ایک عنوان بھی قائم کیا ہے۔
(صحیح ابن خزیمة، باب: 401)
بطور دلیل وہ حدیث پیش کی ہے جس میں حضرت ابو ہریرہ ؓ کو فطرانے کی نگہداشت پر تعینات کرنے کا ذکر ہے، نیز اس میں سے شیطان کے چرا لینے، پھر ایک وظیفہ بتانے کا بھی بیان ہے۔
(صحیح ابن خزیمة: 91/4)
حدیث ابو سعید میں یوم الفطر سے مراد دن کا پہلا حصہ ہے، یعنی نماز صبح سے نماز عید کے درمیان وقت، اس میں صدقہ فطر ادا کر دیا جاتا تھا۔
یہ تاویل اس لیے ضروری ہے کہ دن کا لفظ لغوی اعتبار سے طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک بولا جاتا ہے جبکہ صدقہ فطر کی ادائیگی کے لیے اتنا وسیع وقت نہیں ہے۔
(فتح الباري: 473/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1510