کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح مسلم تفصیلات

صحيح مسلم
مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام
The Book of Mosques and Places of Prayer
55. باب قَضَاءِ الصَّلاَةِ الْفَائِتَةِ وَاسْتِحْبَابِ تَعْجِيلِ قَضَائِهَا:
55. باب: قضا نماز کا بیان اور ان کو جلد پڑھنے کا استحباب۔
Chapter: Making up a missed prayer. And it is recommended to hasten to make it up
حدیث نمبر: 1563
Save to word اعراب
وحدثني احمد بن سعيد بن صخر الدارمي ، حدثنا عبيد الله بن عبد المجيد ، حدثنا سلم بن زرير العطاردي ، قال: سمعت ابا رجاء العطاردي ، عن عمران بن حصين ، قال: " كنت مع نبي الله صلى الله عليه وسلم في مسير له، فادلجنا ليلتنا، حتى إذا كان في وجه الصبح، عرسنا فغلبتنا اعيننا، حتى بزغت الشمس، قال: فكان اول من استيقظ منا ابو بكر، وكنا لا نوقظ نبي الله صلى الله عليه وسلم من منامه، إذا نام حتى يستيقظ، ثم استيقظ عمر، فقام عند نبي الله صلى الله عليه وسلم، فجعل يكبر ويرفع صوته بالتكبير، حتى استيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما رفع راسه وراى الشمس قد بزغت، قال: ارتحلوا، فسار بنا حتى إذا ابيضت الشمس، نزل فصلى بنا الغداة، فاعتزل رجل من القوم، لم يصل معنا، فلما انصرف، قال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا فلان، ما منعك ان تصلي معنا؟ قال: يا نبي الله، اصابتني جنابة، فامره رسول الله صلى الله عليه وسلم فتيمم بالصعيد، فصلى، ثم عجلني في ركب بين يديه نطلب الماء، وقد عطشنا عطشا شديدا، فبينما نحن نسير، إذا نحن بامراة سادلة رجليها بين مزادتين، فقلنا لها: اين الماء؟ قالت: ايهاه، ايهاه، لا ماء لكم، قلنا: فكم بين اهلك وبين الماء؟ قالت: مسيرة يوم وليلة، قلنا: انطلقي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالت: وما رسول الله، فلم نملكها من امرها شيئا، حتى انطلقنا بها، فاستقبلنا بها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسالها، فاخبرته مثل الذي اخبرتنا، واخبرته انها موتمة لها صبيان ايتام، فامر براويته، فانيخت، فمج في العزلاوين العلياوين، ثم بعث براويتها، فشربنا ونحن اربعون رجلا عطاش، حتى روينا وملانا كل قربة معنا وإداوة وغسلنا صاحبنا، غير انا لم نسق بعيرا، وهي تكاد تنضرج من الماء، يعني المزادتين، ثم قال: هاتوا ما كان عندكم، فجمعنا لها من كسر وتمر، وصر لها صرة، فقال لها: اذهبي فاطعمي هذا عيالك، واعلمي انا لم نرزا من مائك، فلما اتت اهلها، قالت: لقد لقيت اسحر البشر، او إنه لنبي كما زعم، كان من امره ذيت وذيت، فهدى الله ذاك الصرم بتلك المراة، فاسلمت واسلموا ".وحَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ صَخْرٍ الدَّارِمِيُّ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ ، حَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ زَرِيرٍ الْعُطَارِدِيُّ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا رَجَاءٍ الْعُطَارِدِيَّ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ ، قَالَ: " كُنْتُ مَعَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسِيرٍ لَهُ، فَأَدْلَجْنَا لَيْلَتَنَا، حَتَّى إِذَا كَانَ فِي وَجْهِ الصُّبْحِ، عَرَّسْنَا فَغَلَبَتْنَا أَعْيُنُنَا، حَتَّى بَزَغَتِ الشَّمْسُ، قَالَ: فَكَانَ أَوَّلَ مَنِ اسْتَيْقَظَ مِنَّا أَبُو بَكْرٍ، وَكُنَّا لَا نُوقِظُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَنَامِهِ، إِذَا نَامَ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ، ثُمَّ اسْتَيْقَظَ عُمَرُ، فَقَامَ عِنْدَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلَ يُكَبِّرُ وَيَرْفَعُ صَوْتَهُ بِالتَّكْبِيرِ، حَتَّى اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَفَعَ رَأْسَهُ وَرَأَى الشَّمْسَ قَدْ بَزَغَتْ، قَالَ: ارْتَحِلُوا، فَسَارَ بِنَا حَتَّى إِذَا ابْيَضَّتِ الشَّمْسُ، نَزَلَ فَصَلَّى بِنَا الْغَدَاةَ، فَاعْتَزَلَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، لَمْ يُصَلِّ مَعَنَا، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا فُلَانُ، مَا مَنَعَكَ أَنْ تُصَلِّيَ مَعَنَا؟ قَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَصَابَتْنِي جَنَابَةٌ، فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَيَمَّمَ بِالصَّعِيدِ، فَصَلَّى، ثُمَّ عَجَّلَنِي فِي رَكْبٍ بَيْنَ يَدَيْهِ نَطْلُبُ الْمَاءَ، وَقَدْ عَطِشْنَا عَطَشًا شَدِيدًا، فَبَيْنَمَا نَحْنُ نَسِيرُ، إِذَا نَحْنُ بِامْرَأَةٍ سَادِلَةٍ رِجْلَيْهَا بَيْنَ مَزَادَتَيْنِ، فَقُلْنَا لَهَا: أَيْنَ الْمَاءُ؟ قَالَتْ: أَيْهَاهْ، أَيْهَاهْ، لَا مَاءَ لَكُمْ، قُلْنَا: فَكَمْ بَيْنَ أَهْلِكِ وَبَيْنَ الْمَاءِ؟ قَالَتْ: مَسِيرَةُ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، قُلْنَا: انْطَلِقِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: وَمَا رَسُولُ اللَّهِ، فَلَمْ نُمَلِّكْهَا مِنْ أَمْرِهَا شَيْئًا، حَتَّى انْطَلَقْنَا بِهَا، فَاسْتَقْبَلْنَا بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهَا، فَأَخْبَرَتْهُ مِثْلَ الَّذِي أَخْبَرَتْنَا، وَأَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا مُوتِمَةٌ لَهَا صِبْيَانٌ أَيْتَامٌ، فَأَمَرَ بِرَاوِيَتِهَ، فَأُنِيخَتْ، فَمَجَّ فِي الْعَزْلَاوَيْنِ الْعُلْيَاوَيْنِ، ثُمَّ بَعَثَ بِرَاوِيَتِهَا، فَشَرِبْنَا وَنَحْنُ أَرْبَعُونَ رَجُلًا عِطَاشٌ، حَتَّى رَوِينَا وَمَلَأْنَا كُلَّ قِرْبَةٍ مَعَنَا وَإِدَاوَةٍ وَغَسَّلْنَا صَاحِبَنَا، غَيْرَ أَنَّا لَمْ نَسْقِ بَعِيرًا، وَهِيَ تَكَادُ تَنْضَرِجُ مِنَ الْمَاءِ، يَعْنِي الْمَزَادَتَيْنِ، ثُمَّ قَالَ: هَاتُوا مَا كَانَ عِنْدَكُمْ، فَجَمَعْنَا لَهَا مِنْ كِسَرٍ وَتَمْرٍ، وَصَرَّ لَهَا صُرَّةً، فَقَالَ لَهَا: اذْهَبِي فَأَطْعِمِي هَذَا عِيَالَكِ، وَاعْلَمِي أَنَّا لَمْ نَرْزَأْ مِنْ مَائِكِ، فَلَمَّا أَتَتْ أَهْلَهَا، قَالَتْ: لَقَدْ لَقِيتُ أَسْحَرَ الْبَشَرِ، أَوْ إِنَّهُ لَنَبِيٌّ كَمَا زَعَمَ، كَانَ مِنْ أَمْرِهِ ذَيْتَ وَذَيْتَ، فَهَدَى اللَّهُ ذَاكَ الصِّرْمَ بِتِلْكَ الْمَرْأَةِ، فَأَسْلَمَتْ وَأَسْلَمُوا ".
سلم بن زریر عطاری نے کہا: میں نے ابورجاء عطاری سے سنا، وہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت کر رہے تھے، کہا: میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا، ہم اس رات چلتے رہے حتی کہ جب صبح قریب آئی تو ہم (تھکاوٹ کے سبب) اتر پڑے، ہم پر (نیند میں ڈوبی) آنکھیں غالب آگئیں یہاں تک کہ سورج چمکنے لگا۔ ہم میں جو سب سے پہلے بیدار ہوئے وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سو جاتے تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جگایا نہیں کرتے تھے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بیدار ہو جاتے، پھر عمر رضی اللہ عنہ جاگے، وہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کھڑے ہوگئے اور «اللہ اکبر» پکارنے لگے اور (اس) تکبیر میں آواز اونچی کرنے لگے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جاگ گئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اور دیکھا کہ سورج چمک رہا ہے تو فرمایا: (آگے) چلو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں لے کر چلے یہاں تک کہ سورج (روشن) ہو کر سفید ہو گیا، آپ اترے، ہمیں صبح کی نماز پڑھائی۔ لوگوں میں سے ایک آدمی الگ ہو گیا اور اس نے ہمارے ساتھ نماز نہ پڑھی، جب سلام پھیرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: فلاں! تم نے ہمارے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی؟ اس نے کہا: اے اللہ کے نبی! مجھے جنابت لاحق ہو گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا، اس نے مٹی سے تیمم کیا اور نماز پڑھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چند سواروں سمیت پانی کی تلاش میں جلدی اپنے آگے روانہ کیا، ہم سخت پیاسے تھے، جب ہم چل رہے تھے تو ہمیں ایک عورت ملی جس نے اپنے پاؤں دو مشکوں کے درمیان لٹکائے ہوئے تھے (بکری کی مشکوں سمیت پاؤں لٹکائے، اونٹ پر سوار تھی)، ہم نے اس سے پوچھا: پانی کہاں ہے؟ کہنے لگی: افسوس! تمہارے لیے پانی نہیں ہے۔ ہم نے پوچھا: تمہارے گھر اور پانی کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟ اس نے کہا: ایک دن اور رات کی مسافت ہے۔ ہم نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلو۔ کہنے لگی: اللہ کا رسول کیا ہوتا ہے؟ ہم نے اسے اس کے معاملے میں (فیصلے کا) کچھ اختیار نہ دیا حتی کہ اسے لے آئے، اس کے ساتھ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حاضر ہوئے، آپ نے اس سے پوچھا تو اس نے آپ کو اسی طرح بتایا جس طرح ہمیں بتایا تھا، اور آپ کو یہ بھی بتایا کہ وہ یتیم بچوں والی ہے، اس کے (زیر کفالت) بہت سے یتیم بچے ہیں۔ آپ نے اس کی پانی ڈھونے والی اونٹنی کے بارے میں حکم دیا، اسے بٹھایا گیا اور آپ نے کلی کر کے مشکوں کے اوپر کے دونوں سوراخوں میں پانی ڈالا، پھر آپ نے اس کی اونٹنی کو کھڑا کیا تو ہم سب نے اور ہم چالیس (شدید) پیاسے افراد تھے (ان مشکوں سے) پانی پیا یہاں تک کہ ہم سیراب ہوگئے اور ہمارے پاس جتنی مشکیں اور پانی کے برتن تھے سب بھر لیے اور اپنے ساتھی کو غسل بھی کرایا، البتہ ہم نے کسی اونٹ کو پانی نہ پلایا اور وہ یعنی دونوں مشکیں پانی (کی مقدار زیادہ ہو جانے کے سبب) پھٹنے والی ہو گئیں، پھر آپ نے فرمایا: تمہارے پاس جو کچھ ہے، لے آؤ۔ ہم نے ٹکڑے اور کھجوریں اکٹھی کیں، اس کے لیے ایک تھیلی کا منہ بند کر دیا گیا تو آپ نے اس سے کہا: جاؤ اور یہ خوراک اپنے بچوں کو کھلاؤ اور جان لو! ہم نے تمہارے پانی میں کمی نہیں کی۔ جب وہ اپنے گھر والوں کے پاس پہنچی تو کہا: میں انسانوں کے سب سے بڑے ساحر سے مل کر آئی ہوں یا پھر جیسا کہ وہ خود کو سمجھتا ہے، وہ نبی ہے، اور اس کا معاملہ اس طرح سے ہے۔ پھر (آخر کار) اللہ نے اس عورت کے سبب سے لوگوں سے کٹی ہوئی اس آبادی کو ہدایت عطا کر دی، وہ مسلمان ہوگئی اور (باقی) لوگ بھی مسلمان ہوگئے۔ (یہ پچھلے واقعے سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ ہے۔)
ترقیم فوادعبدالباقی: 682

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
الرواة:
اسم الشهرةالرتبة عند ابن حجر/ذهبي
عمران بن حصين الأزدي، أبو نجيدصحابي
عمران بن ملحان العطاردي، أبو رجاءثقة
سلم بن زرير العطاردي، أبو يونسصدوق حسن الحديث
عبيد الله بن عبد المجيد الحنفي، أبو عليثقة
أحمد بن سعيد الدارمي، أبو جعفرثقة حافظ

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

   صحيح البخاري348عمران بن الحصينعليك بالصعيد فإنه يكفيك
   صحيح البخاري3571عمران بن الحصينأمره أن يتيمم بالصعيد ثم صلى أمر بمزادتيها فمسح في العزلاوين فشربنا عطاشا أربعين رجلا حتى روينا فملأنا كل قربة معنا وإداوة غير أنه لم نسق بعيرا وهي تكاد تنض من الملء هاتوا ما عندكم فجمع لها من الكسر والتمر حتى أتت أهلها قالت لقيت أسحر الناس أو هو نبي كما
   صحيح مسلم1563عمران بن الحصينأمره رسول الله فتيمم بالصعيد فصلى
   سنن النسائى الصغرى322عمران بن الحصينعليك بالصعيد فإنه يكفيك
   بلوغ المرام110عمران بن الحصين‏‏‏‏إنما يكفيك ان تقول بيديك هكذا

   صحيح البخاري344عمران بن الحصينما رزئنا من مائك شيئا لكن الله هو الذي أسقانا
   بلوغ المرام20عمران بن الحصين ان النبي صلى الله عليه وآله وسلم واصحابه توضئوا من مزادة امراة مشركة
   صحيح مسلم1563عمران بن الحصيناذهبي فاطعمي هذا عيالك، واعلمي انا لم نرزا من مائك

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 1563 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1563  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
أَدْلَجْنَا:
ہم تقریباً رات بھر چلتے رہے۔
(2)
بَزَغَتِ الشَّمْسُ:
سورج نکل آیا۔
(3)
سَادِلَةٍ:
لٹکائے ہوئے۔
(4)
مَزَادَتَيْنِ:
مَزَادَۃ بڑی مشک،
مَزَادَتَيْنِ وہ مشکیں جو اونٹ کے اوپر لادی جاتی ہیں۔
أَيْهَاهْ أَيْهَاهْ بہت دور جہاں پہنچنے کی جلد امید نہ ہو۔
(5)
فَلَمْ نُمَلِّكْهَا مِنْ أَمْرِهَا شَيْئًا:
ہم نے اس کو اپنی مرضی نہ کرنے دی۔
(6)
مُوتِمَةٌ:
یتیم بچوں والی جن کا باپ فوت ہوچکا ہے۔
(7)
رَاوِيَة:
پانی ڈھونے والے اونٹ۔
(8)
عَزْلَاوَيْنِ:
عَزْلَاء کی تثنیہ ہے،
پانی نکالنے والا منہ کبھی مشکیزے کے نچلے کی بجائے اوپر والے منہ کو بھی کہہ دیتے ہیں،
جس سے پانی ڈالا جاتا ہے۔
اس لیے یہاں اس کی صفت علیا لائی گئی ہے۔
(9)
تَنْضَرِجُ مِنَ الْمَاءِ:
پانی کی زیادتی سے پھٹنا۔
(10)
كِسَرٍ:
كسرةکی جمع ہے،
ٹکڑے۔
(11)
صَرَّ لَهَا صُرَّةً:
اس کےلیےتھیلی باندھی۔
(12)
صُرَّةً:
تھیلی۔
(13)
لَمْ نَرْزَأْ:
ہم نے کچھ کم نہیں کیا۔
(14)
ذَيْتَ ذَيْتَ:
كيت وكيت ياكذا وكذا کے ہم معنی ہے۔
یعنی یہ کام کیے یا اس اس طرح کیا۔
(15)
صَرْمَ:
گھروں کا اجتماع،
جماعت اور گروہ۔
فوائد ومسائل:

حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم بشر تھے بشری تقاضا کی بنا پر ہی آپﷺ پر غلبہ پایا اور آپﷺ نے نیند سے مجبور ہو کر رات کےآخری حصے میں آرام کے لیے پڑاؤ کیا اور نماز کے لیے آپﷺ نے یہ انتظام کیا کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ جاگ کر صبح کا انتظار کریں اور جب فجر طلوع ہو تو ساتھیوں کو جگا دیں لیکن سفر کی تھکاوٹ کیوجہ سے وہ بھی سو گئے حتیٰ کہ سورج نکل آیا۔

صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ادب واحترام کی بنا پر جگاتے نہیں تھے اور یہ بات بھی ملحوظ ہوتی تھی کہ ممکن ہے آپﷺ پر نیند کی حالت میں وحی کا نزول ہو رہا ہو اور آپﷺ کو بیدار کرنا اس میں خلل اندازی کا سبب بنے اور سورج کے بلند ہونے کی صورت میں جب آپﷺ کو بیدار کرنے کی ضرورت لاحق ہوئی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس مقصد کے لیے بلند آواز سے اللہ اکبر کہنا شروع کیا۔
آپﷺ کو براہ راست بیدار نہیں کیا۔
اس سے معلوم ہوا کسی بزرگ اور واجب الاحترام شخصیت کو نماز کے لیے بیدار کرنا بے ادبی یا گستاخی نہیں ہے۔

نیند کی وجہ سے اگر نماز قضا ہو جائے تو باعث افسوس تو ہے لیکن گناہ اور جرم نہیں ہے۔

جو شخص مسلمانوں کے ساتھ جماعت میں شریک نہ ہو۔
اس سے اس کا سبب معلوم کرنا چاہیے۔
اگر اس کا عذر شرعی ہو تو اسے قبول کر لینا چاہیے جیسا کہ جنبی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عدم واقفیت کی بنا پر تیمم نہ کیا۔
اس لیے نماز میں شریک نہ ہوا تو آپﷺ نے اس سے اس کا سبب پوچھا بتانے پر مسئلہ اس کو سمجھا دیا جس سے ثابت ہوا پانی اگر نہ ملے تو جنبی تیمم کر کے نماز پڑھ لے گا اور بعد میں پانی جب مل جائےگا تو غسل کر لے گا۔

ضرورت کے تحت اجنبی عورت سے بات چیت کرنا جائز ہے اور کافر کی چیز سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اور کافر کے ساتھ احسان بھی کیا جا سکتا ہے۔

پیاس کی ضرورت غسل جنابت پرمقدم ہے۔
پانی پینے کی ضرورت سے زائد ہو تو اس سے غسل کیا جائے گا۔

اس واقعہ میں بھی آپﷺ کے اس معجزہ کا ظہور ہوا کہ آپﷺ نے مشکیزہ کا منہ کھول کر اس میں کلی فرمائی۔
اس مشکیزہ سے چالیس صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے وضو کیا۔
پانی پیا اور اپنے پانی کے تمام برتن بھر لیے۔
جنبی صحابی کو غسل کروایا۔
بعض مشکیزہ کے پانی میں کسی قسم کی کمی نہ ہوئی بلکہ وہ پہلے سے زیادہ بھرا معلوم ہوتا تھا۔

نیند کی حالت میں دل اگرچہ بیدار ہوتا تھا لیکن آنکھیں سو جاتی تھیں۔
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فجر کے طلوع ہونے اور سورج کے نکلنے کا پتہ نہ چل سکا کیونکہ سورج کا تعلق دیکھنے سے ہے جو آنکھوں کا فعل ہے،
دل کا نہیں۔

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صبح کی نماز فوت ہو گئی تو آپﷺ نے صبح کی نماز سے پہلے صبح کی سنتیں پڑھیں،
جس سے معلوم ہوا کہ قضاء شدہ نماز کے ساتھ اس کی سنتیں پڑھنا بہتر ہے۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ۔
اورامام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا یہی موقف ہے احناف کے نزدیک سنتوں کی قضائی نہیں ہے۔
بعض احناف کا خیال ہے اگر نماز کے ساتھ سنتیں قضا ہو جائیں تو پھر ان کی قضائی ہے۔
اگرصرف سنتیں رہ جائیں تو قضائی نہیں ہے۔
10۔
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قضا ہونے والی نماز کے لیے اذان کہی جائے گی اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے قول جدید کے مطابق تکبیر کہہ لینا ہی کافی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1563   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 20  
´مشرکین کے زیر استعمال برتن`
«. . . ان النبي صلى الله عليه وآله وسلم واصحابه توضئوا من مزادة امراة مشركة . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے ایک مشرکہ عورت کے مشکیزہ سے پانی لے کر اس سے وضو کیا . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 20]
لغوی تشریح:
«مَزَادَة» میم کے فتحہ اور زائے معجمہ کے ساتھ ہے۔ چمڑے کے مشکیزے کو کہتے ہیں جو دو چمڑوں سے بنایا جاتا ہے اور ان کے درمیان تیسرے کو بھی لگا دیا جاتا ہے تاکہ وہ وسیع ہو جائے۔

فائدہ:
اس حدیث سے اہل کتاب کے علاوہ مشرکین کے زیر استعمال برتنوں کے پاک ہونے کی رہنمائی ملتی ہے اور یہ اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ مردہ جانوروں کی کھال دباغت کے بعد پاک ہو جاتی ہے کیونکہ جس مشکیزے سے آپ نے پانی لیا وہ ایک مشرکہ عورت کے قبضے میں تھا اور مشرکین کے ذبح کردہ جانور کی کھال سے تیار کیا گیا تھا اور ان کے ذبائح تو مردار ہی ہوتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ مشرکین کے ایسے برتن جن میں نجاست وغیرہ کا اندیشہ نہ ہو، ان کا استعمال بغیر کسی تردد و تذبذب کے جائز اور درست ہے۔

راویٔ حدیث:
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہما: آپ خزاعی اور کعبی تھے۔ آپ کا شمار اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ہوتا ہے۔ آپ کی کنیت ابونجید تھی۔ غزوہ خیبر کے زمانے میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ بصرہ میں سکونت پذیر ہوئے اور وہیں 52 یا 53 ہجری میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 20   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 344  
344. حضرت عمران بن حصین خزاعی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم ایک مرتبہ نبی ﷺ کے ہمراہ سفر میں تھے اور رات بھر چلتے رہے۔ جب آخر شب ہوئی تو ہم کچھ دیر کے لیے سو گئے، اور مسافر کے نزدیک اس وقت سے زیادہ کوئی نیند میٹھی نہیں ہوتی۔ ہم ایسے سوئے کہ آفتاب کی گرمی ہی سے بیدار ہوئے۔ سب سے پہلے جس کی آنکھ کھلی وہ فلاں شخص تھا، پھر فلاں شخص اور پھر فلاں شخص۔ ابو رجاء ان (فلاں، فلاں اور فلاں) کے نام لیتے تھے، لیکن عوف بھول گئے۔۔ پھر چوتھے حضرت عمر بن خطاب ؓ جاگے۔ اور (ہمارا دستور یہ تھا کہ) جب نبی ﷺ استراحت فرماتے تو کوئی آپ کو بیدار نہ کرتا تھا تا آنکہ آپ خود بیدار ہو جاتے کیونکہ ہم نہیں جانتے تھے کہ آپ کو خواب میں کیا پیش آ رہا ہے؟ جب حضرت عمر ؓ نے بیدار ہو کر وہ حالت دیکھی جو لوگوں پر طاری تھی، اور وہ دلیر آدمی تھے، تو انھوں نے بآواز بلند تکبیر کہنا شروع کی۔ سو وہ برابر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:344]
حدیث حاشیہ:
یعنی حضرت یوسف علیہ السلام نے کہا تھا کہ خدایا اگرتومجھے نہ بچائے گا تومیں ان عورتوں کی طرف جھک جاؤں گا اور میں نادانوں میں سے ہوجاؤں گا۔
پس لفظ صابی اسی سے بنا ہے جس کے معنی دوسری طرف جھک جانے کے ہیں۔
سفر مذکور کون سا سفر تھا؟ بعض نے اسے سفرخبیر، بعض نے سفرحدیبیہ، بعض نے سفرتبوک اور بعض نے طریق مکہ کا سفر قراردیا ہے۔
بہرحال ایک سفر تھا جس میں یہ واقعہ پیش آیا۔
چونکہ تکان غالب تھی اور پچھلی رات، پھر اس وقت ریگستان عرب کی میٹھی ٹھنڈی ہوائیں، نتیجہ یہ ہوا کہ سب کو نیند آگئی، آنحضرت ﷺ بھی سوگئے۔
حتیٰ کہ سورج نکل آیا، اور مجاہدین جاگے۔
حضرت عمر ؓ نے یہ حال دیکھا توزور زور سے نعرہ تکبیر بلند کرنا شروع کیاتاکہ حضور ﷺ کی آنکھ بھی کھل جائے۔
چنانچہ آپ ﷺ بھی جاگ اٹھے اور آپ ﷺ نے لوگوں کو تسلی دلائی کہ جو ہوا اللہ کے حکم سے ہوا فکر کی کوئی بات نہیں۔
پھر آپ ﷺ نے وہاں سے کوچ کا حکم دیا اور تھوڑی دورآگے بڑھ کر پھر پڑاؤ کیاگیا اور آپ ﷺ نے وہاں اذان کہلواکر جماعت سے نماز پڑھائی اور نماز کے بعد ایک شخص کو علیحدہ بیٹھے ہوئے دیکھا تومعلوم ہواکہ اس کو غسل کی حاجت ہوگئی ہے اور وہ پانی نہ ہونے کی وجہ سے نماز نہ پڑھ سکا ہے۔
اس پر آپ نے فرمایا کہ اس حالت میں تجھ کو مٹی پر تیمم کرلینا کافی تھا۔
ترجمۃ الباب اسی جگہ سے ثابت ہوتا ہے۔
بعد میں آپ ﷺ نے پانی کی تلاش میں حضرت علی ؓ اور حضرت عمران بن حصین ؓ کومقرر فرمایا اور انھوں نے اس مسافرعورت کو دیکھا کہ پانی کی پکھالیں اونٹ پر لٹکائے ہوئے جارہی ہے، وہ اس کو بلا کر حضور ﷺ کے پاس لائے، ان کی نیت ظلم وبرائی کی نہ تھی بلکہ عورت سے قیمت سے پانی حاصل کرنا یا اس سے پانی کے متعلق معلومات حاصل کرنا تھا۔
آپ نے اس کی پکھالوں کے منہ کھلوادیے اور ان میں اپنا ریق مبارک ڈالا جس کی برکت سے وہ پانی اس قدر زیادہ ہو گیا کہ مجاہدین اور ان کے جانورسب سیراب ہوگئے اور اس جنبی شخص کو غسل کے لیے بھی پانی دیا گیا۔
اس کے بعد آپ نے پکھالوں کے منہ بندکرادیے اور وہ پانی سے بالکل لبریز تھیں۔
ان میں ذرا بھی پانی کم نہیں ہوا تھا۔
آپ نے احسان کے بدلے احسان کے طور پر اس عورت کے لیے کھانا غلہ صحابہ کرام سے جمع کرایا اور اس کو عزت واحترام کے ساتھ رخصت کردیا۔
جس کے نتیجہ میں آگے چل کر اس عورت اور اس کے قبیلہ والوں نے اسلام قبول کرلیا۔
حضرت امام المحدثین ؒ کا مقصد اس روایت کی نقل سے یہ ہے کہ پانی نہ ملنے کی صورت میں مٹی پر تیمم کرلینا وضو اور غسل ہر دو کی جگہ کافی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 344   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:344  
344. حضرت عمران بن حصین خزاعی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم ایک مرتبہ نبی ﷺ کے ہمراہ سفر میں تھے اور رات بھر چلتے رہے۔ جب آخر شب ہوئی تو ہم کچھ دیر کے لیے سو گئے، اور مسافر کے نزدیک اس وقت سے زیادہ کوئی نیند میٹھی نہیں ہوتی۔ ہم ایسے سوئے کہ آفتاب کی گرمی ہی سے بیدار ہوئے۔ سب سے پہلے جس کی آنکھ کھلی وہ فلاں شخص تھا، پھر فلاں شخص اور پھر فلاں شخص۔ ابو رجاء ان (فلاں، فلاں اور فلاں) کے نام لیتے تھے، لیکن عوف بھول گئے۔۔ پھر چوتھے حضرت عمر بن خطاب ؓ جاگے۔ اور (ہمارا دستور یہ تھا کہ) جب نبی ﷺ استراحت فرماتے تو کوئی آپ کو بیدار نہ کرتا تھا تا آنکہ آپ خود بیدار ہو جاتے کیونکہ ہم نہیں جانتے تھے کہ آپ کو خواب میں کیا پیش آ رہا ہے؟ جب حضرت عمر ؓ نے بیدار ہو کر وہ حالت دیکھی جو لوگوں پر طاری تھی، اور وہ دلیر آدمی تھے، تو انھوں نے بآواز بلند تکبیر کہنا شروع کی۔ سو وہ برابر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:344]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے اس عنوان کے تحت دو مسئلے بیان کیے ہیں، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
۔
تیمم طہارت اصلیہ ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ شریعت نے نماز کے لیے طہارت کو ضروری قراردیا ہے اور طہارت دو الگ الگ صورتوں میں دو طرح سے حاصل کی جا سکتی ہے۔
اگر پانی میسر ہو اور اس کے استعمال پر قدرت نہ ہوتو پانی کے ذریعے سے طہارت حاصل کی جائے۔
اگر پانی نہ ہو یا اس کے استعمال پر قدرت نہ ہو تو مٹی اس کا بدل ہے گویا حصول طہارت میں پانی اصل ہے اور مٹی اس کا بدل ہے اصل کے نہ ملنے سے بدل سے وہ تمام کام لیے جائیں گے جو اصل سے لیے جاتے ہیں۔
شریعت نے ان دونوں کو ایک ہی درجہ دیا ہے جس طرح ایک وضو سے ہر قسم کی نمازیں:
فرائض، نوافل فوت شدہ نمازیں عیدین اور نماز جنازہ وغیرہ ادا کیا جا سکتا ہے، اسی طرح ایک تیمم سے بھی سب کام لیے جائیں گے اور یہ ہر وقت کے ختم ہونے سے ختم نہیں ہو گا۔
البتہ نواقض تیمم میں ایک چیز نواقض وضو سے زائد ہے اور وہ ہے پانی کا دستیاب ہونا، یعنی پانی دستیاب ہوتے ہی تیمم ختم ہوجائے گا۔
بعض حضرات کے نزدیک تیمم طہارت ضروریہ ہے، یعنی تیمم کے ذریعے سے طہارت حاصل کرنا مجبوری کے درجے کی چیز ہے جتنی ضرورت ہو، اتنے وقت تک تیمم سے کام لے سکتے ہیں، ضرورت پوری ہوتے ہی یہ طہارت ختم ہو جائے گی۔
ایک تیمم سے وقت کے دوران میں صرف وقتی فریضہ ہی ادا کیا جا سکتا ہے، کسی دوسرے فریضے کی قضا بھی نہیں دے سکتے، اس کے لیے دوسرا تیمم کرنا ہوگا۔
دوسرے لفظوں میں تیمم رافع حدث نہیں بلکہ صرف استباحت صلاۃ کا کام دے سکتا ہے۔
امام بخاری ؒ اس رائے سے متفق نہیں وہ فرماتے ہیں کہ پاک مٹی مومن کے حق میں وضو کی جگہ ہے، اگر پانی میسر نہ ہوتو یہ اس سے بے نیاز کر دیتی ہے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ تیمم مطلق طور پر وجہ ارض سے جائز ہے، خواہ وہ زرخیز ہو یا بنجر بعض حضرات یہ فرق کرتے ہیں کہ تراب منبت (زرخیز مٹی)
سے جائز ہے، غیر منبت سے جائز نہیں، امام بخاری ؒ اس فرق کو قبول نہیں کرتے۔
وہ فرماتے ہیں:
زمین شور(بنجر زمین)
پر بھی تیمم کیا جا سکتا ہے، اس کی وضاحت بھی پہلے ہو چکی ہے۔
ہم نے اس سلسلے میں امام ابن خزیمہ ؒ کے ایک وقیع استدلال کا بھی حوالہ دیا تھا۔

اس روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی نماز فجر نیند کی وجہ سے قضا ہو گئی تھی جبکہ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپ کی آنکھیں بند ہو جاتی تھیں دل بیدار رہتا تھا، بظاہر ان دونوں روایات میں تعارض ہے اس تعارض کو دو طرح سے دور کیا گیا ہے۔
دل کے بیدار رہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایسے محسوسات کا ادراک کرتا ہے جو اس سے براہ راست متعلق ہیں، جیسے حدث وغیرہ لیکن جو محسوسات آنکھ یا کسی اور چیز سے متعلق ہیں، ان کا ادراک دل نہیں کرتا، یہاں طلوع سحر کے ادراک کا تعلق دل سے نہیں آنکھ سے ہے جو اس وقت سو چکی تھی۔
دل کی دو حالتیں ہیں ایک بیداری جو عام طور پر رہتی تھی دوسری نیند جو کبھی کبھار پیش آتی تھی، اتفاق سے یہ واقعہ دل کی حالت نیند میں پیش آگیا۔
بعض حضرات نے یہ جواب دیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو بعض اوقات بیداری کی حالت میں بعض مصالح کے پیش نظر سہو ہوتا تھا۔
پھر جب بیداری میں سہو کی صورت پیش آسکتی ہے تو نیند کی حالت میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔
(فتح الباري: 583/1)

آخر میں امام بخاری ؒ نے لفظ صابي کی لغوی تحقیق فرمائی ہے، اس مناسبت سے قرآن کریم میں جو صابئین آیا ہے اس کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں، اس سلسلے میں انھوں نے ابو العالیہ کے قول کا حوالہ دیا ہے، جسے ابن ابی حاتم ؒ نے موصولاً بیان کیا ہے۔
ابن مردویہ ؒ نے حضرت ابن عباس ؓ سے بإسناد حسن نقل کیا ہے کہ صابئین اہل کتاب نہیں تھے۔
امام بخاری ؓ نے یہ وضاحت اس لیے کی ہے کہ حدیث میں آنے والے لفظ صابي کی وضاحت ہو جائے کہ اس سے مراد وہ طائفہ نہیں جس کا ذکر قرآن میں ہے۔
(فتح الباري: 588/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 344   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.