English
🏠 💻 📰 👥 🔍 🧩 🅰️ 📌 ↩️

صحيح مسلم سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
ترقيم عبدالباقی
عربی
اردو
حدیث کتب میں نمبر سے حدیث تلاش کریں:

ترقیم شاملہ سے تلاش کل احادیث (7563)
حدیث نمبر لکھیں:
ترقیم فواد عبدالباقی سے تلاش کل احادیث (3033)
حدیث نمبر لکھیں:
حدیث میں عربی لفظ/الفاظ تلاش کریں
عربی لفظ / الفاظ لکھیں:
حدیث میں اردو لفظ/الفاظ تلاش کریں
اردو لفظ / الفاظ لکھیں:

55. باب قَضَاءِ الصَّلاَةِ الْفَائِتَةِ وَاسْتِحْبَابِ تَعْجِيلِ قَضَائِهَا:
باب: قضا نماز کا بیان اور ان کو جلد پڑھنے کا استحباب۔
اظهار التشكيل
ترقیم عبدالباقی: 680 ترقیم شاملہ: -- 1560
حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى التُّجِيبِيُّ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، " أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حِينَ قَفَلَ مِنْ غَزْوَةِ خَيْبَرَ، سَارَ لَيْلَهُ حَتَّى إِذَا أَدْرَكَهُ الْكَرَى عَرَّسَ، وَقَالَ لِبِلَالٍ: اكْلَأْ لَنَا اللَّيْلَ، فَصَلَّى بِلَالٌ مَا قُدِّرَ لَهُ، وَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ، فَلَمَّا تَقَارَبَ الْفَجْرُ، اسْتَنَدَ بِلَالٌ إِلَى رَاحِلَتِهِ مُوَاجِهَ الْفَجْرِ، فَغَلَبَتْ بِلَالًا عَيْنَاهُ، وَهُوَ مُسْتَنِدٌ إِلَى رَاحِلَتِهِ، فَلَمْ يَسْتَيْقِظْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا بِلَالٌ وَلَا أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، حَتَّى ضَرَبَتْهُمُ الشَّمْسُ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَّلَهُمُ اسْتِيقَاظًا، فَفَزِعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَيْ بِلَالُ؟ فَقَالَ بِلَالٌ: أَخَذَ بِنَفْسِي، الَّذِي أَخَذَ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، يَا رَسُولَ اللَّهِ بِنَفْسِكَ، قَالَ: اقْتَادُوا، فَاقْتَادُوا رَوَاحِلَهُمْ شَيْئًا، ثُمَّ تَوَضَّأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَمَرَ بِلَالًا فَأَقَامَ الصَّلَاةَ، فَصَلَّى بِهِمُ الصُّبْحَ، فَلَمَّا قَضَى الصَّلَاةَ، قَالَ: مَنْ نَسِيَ الصَّلَاةَ فَلْيُصَلِّهَا، إِذَا ذَكَرَهَا، فَإِنَّ اللَّهَ، قَالَ: وَأَقِمِ الصَّلاةَ لِذِكْرِي سورة طه آية 14 "، قَالَ يُونُسُ: وَكَانَ ابْنُ شِهَابٍ يَقْرَؤُهَا: لِلذِّكْرَى.
یونس نے ابن شہاب کے حوالے سے خبر دی، انہوں نے سعید بن مسیب سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب جنگ خیبر سے واپس ہوئے تو رات بھر چلتے رہے یہاں تک کہ جب آپ کو نیند نے آلیا، آپ نے (سواری سے) اتر کر پڑاؤ کیا اور بلال رضی اللہ عنہ سے کہا: ہمارے لیے رات کا پہرہ دو (نظر رکھو کہ کب صبح ہوتی ہے؟) بلال رضی اللہ عنہ نے مقدور بھر نماز پڑھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ سو گئے۔ جب فجر قریب ہوئی تو بلال رضی اللہ عنہ نے (مطلع) فجر کی طرف رخ کرتے ہوئے اپنی سواری کے ساتھ ٹیک لگائی، جب وہ ٹیک لگائے ہوئے تھے تو ان پر نیند غالب آگئی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے نہ بلال اور نہ ہی ان کے صحابہ میں سے کوئی بیدار ہوا یہاں تک کہ ان پر دھوپ پڑنے لگی، سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے اور گھبرا گئے۔ فرمانے لگے: اے بلال! تو بلال رضی اللہ عنہ نے کہا: میری جان کو بھی اسی نے قبضے میں لیا تھا جس نے۔ میری ماں باپ آپ پر قربان، اے اللہ کے رسول! آپ کی جان کو قبضے میں لے لیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سواریاں آگے بڑھاؤ۔ وہ اپنی سواریوں کو لے کر کچھ آگے بڑھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا، انہوں نے نماز کی اقامت کہی، پھر آپ نے ان کو صبح کی نماز پڑھائی، جب نماز ختم کی تو فرمایا: جو شخص نماز (پڑھنا) بھول جائے تو جب اسے یاد آئے اسے پڑھے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي» (اور میری یاد کے وقت نماز قائم کرو۔) یونس نے کہا: ابن شہاب سے «لِلذِّكْرِ» (یاد کرنے کے لیے) پڑھتے تھے۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة/حدیث: 1560]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہ خیبر سے واپس لوٹے۔ ایک رات چلتے رہے حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نیند غالب آ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ کیا اور بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: تم آج رات ہماری حفاظت کرو۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب تک اللہ کو منظور رہا نفل پڑھتے رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی سو گئے۔ جب صبح کا وقت آ گیا تو بلال ؓ فجر پھوٹنے کی (جگہ) کی طرف رخ کر کے اپنی سواری کو ٹیک لگا کر بیٹھ گئے تو بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اس کی آنکھیں غالب آ گئیں کیونکہ وہ سواری کو ٹیک لگائے ہوئے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، بلال اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے کوئی بھی بیدار نہ ہوا حتیٰ کہ ان پر دھوپ پڑنے لگی۔ سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھبرا کر فرمایا: اے بلال! بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے ماں باپ آپ پر قربان۔ میری روح کو اس ذات نے پکڑ لیا، جس نے آپ کی روح کو قبضے میں کرلیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوچ کرو تو صحابہ اکرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اپنی سواریوں کو تھوڑا سا چلایا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا۔ انہوں نے نماز کا اہتمام کیا (اذان اور اقامت کہی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز پڑھائی۔ نماز پڑھنے کے بعد فرمایا: جو نماز بھول جائے، وہ یاد آتے ہی پڑھ لے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان ہے میری یاد کے لیے نماز پڑھئے (طٰہٰ: ۱۴) ابن شہاب، ذِکرِي (میری یاد کے لیے) کی بجائے لِلذِّکرٰی (یاد آنے پر) پڑھتے تھے۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة/حدیث: 1560]
ترقیم فوادعبدالباقی: 680
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

الحكم على الحديث: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
ترقیم عبدالباقی: 680 ترقیم شاملہ: -- 1561
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، وَيَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ كلاهما، عَنْ يَحْيَى ، قَالَ ابْنُ حَاتِمٍ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ كَيْسَانَ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: عَرَّسْنَا مَعَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ نَسْتَيْقِظْ حَتَّى طَلَعَتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِيَأْخُذْ كُلُّ رَجُلٍ بِرَأْسِ رَاحِلَتِهِ، فَإِنَّ هَذَا مَنْزِلٌ حَضَرَنَا، فِيهِ الشَّيْطَانُ، قَالَ: فَفَعَلْنَا، ثُمَّ دَعَا بِالْمَاءِ، فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، وَقَالَ يَعْقُوبُ: ثُمَّ صَلَّى سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، فَصَلَّى الْغَدَاةَ ".
محمد بن حاتم اور یعقوب بن ابراہیم دورقی دونوں نے یحییٰ سے روایت کیا، کہا: ہمیں یزید بن کیسان نے حدیث سنائی، کہا: ہمیں ابوحازم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث سنائی، کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ رات کے آخری حصے میں (آرام کے لیے) سواریوں سے اترے، اور بیدار نہ ہو سکے یہاں تک کہ سورج طلوع ہو گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر شخص اپنی سواری کی نکیل پکڑے (اور آگے چلے) کیونکہ اس جگہ ہمارے درمیان شیطان موجود ہوا ہے۔ کہا: ہم نے (ایسا ہی) کیا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا، وضو کیا، پھر دو سجدے کیے (دو رکعتیں ادا کیں۔) یعقوب نے کہا: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں ادا کیں۔ پھر نماز کی اقامت کہی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھائی۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة/حدیث: 1561]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رات کے آخری حصہ میں پڑاؤ کیا اور ہم سورج نکلنے تک بیدار نہ ہو سکے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر انسان اپنی سواری کا سر پکڑ لے یعنی لگا یا مہار پکڑ کر چل پڑے۔ کیونکہ یہ ایسی جگہ ہے جس میں ہمارے ساتھ شیطان آ گیا ہے۔ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کر کے دو رکعتیں (سنت) پڑھیں۔ پھر جماعت کھڑی کی گئی (اقامت کہی گئی) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھائی۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة/حدیث: 1561]
ترقیم فوادعبدالباقی: 680
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

الحكم على الحديث: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
ترقیم عبدالباقی: 681 ترقیم شاملہ: -- 1562
وحَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ ، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" إِنَّكُمْ تَسِيرُونَ عَشِيَّتَكُمْ وَلَيْلَتَكُمْ، وَتَأْتُونَ الْمَاءَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ غَدًا، فَانْطَلَقَ النَّاسُ، لَا يَلْوِي أَحَدٌ عَلَى أَحَدٍ"، قَالَ أَبُو قَتَادَةَ: فَبَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسِيرُ، حَتَّى ابْهَارَّ اللَّيْلُ، وَأَنَا إِلَى جَنْبِهِ، قَالَ: فَنَعَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَالَ عَنْ رَاحِلَتِهِ، فَأَتَيْتُهُ فَدَعَمْتُهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ أُوقِظَهُ، حَتَّى اعْتَدَلَ عَلَى رَاحِلَتِهِ، قَالَ: ثُمَّ سَارَ حَتَّى تَهَوَّرَ اللَّيْلُ، مَالَ عَنْ رَاحِلَتِهِ، قَالَ: فَدَعَمْتُهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ أُوقِظَهُ، حَتَّى اعْتَدَلَ عَلَى رَاحِلَتِهِ، قَالَ: ثُمَّ سَارَ، حَتَّى إِذَا كَانَ مِنْ آخِرِ السَّحَرِ، مَالَ مَيْلَةً هِيَ أَشَدُّ مِنَ الْمَيْلَتَيْنِ الأُولَيَيْنِ حَتَّى كَادَ يَنْجَفِلُ، فَأَتَيْتُهُ فَدَعَمْتُهُ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ قُلْتُ: أَبُو قَتَادَةَ، قَالَ: مَتَى كَانَ هَذَا مَسِيرَكَ مِنِّي؟ قُلْتُ: مَا زَالَ هَذَا مَسِيرِي مُنْذُ اللَّيْلَةِ، قَالَ: حَفِظَكَ اللَّهُ بِمَا حَفِظْتَ بِهِ نَبِيَّهُ، ثُمَّ قَالَ: هَلْ تَرَانَا نَخْفَى عَلَى النَّاسِ، ثُمَّ قَالَ: هَلْ تَرَى مِنْ أَحَدٍ؟ قُلْتُ: هَذَا رَاكِبٌ، ثُمَّ قُلْتُ: هَذَا رَاكِبٌ آخَرُ، حَتَّى اجْتَمَعْنَا، فَكُنَّا سَبْعَةَ رَكْبٍ، قَالَ: فَمَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الطَّرِيقِ، فَوَضَعَ رَأْسَهُ، ثُمَّ قَالَ: احْفَظُوا عَلَيْنَا صَلَاتَنَا، فَكَانَ أَوَّلَ مَنِ اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالشَّمْسُ فِي ظَهْرِهِ، قَالَ: فَقُمْنَا فَزِعِينَ، ثُمَّ قَالَ: ارْكَبُوا، فَرَكِبْنَا، فَسِرْنَا حَتَّى إِذَا ارْتَفَعَتِ الشَّمْسُ نَزَلَ، ثُمَّ دَعَا بِمِيضَأَةٍ، كَانَتْ مَعِي فِيهَا شَيْءٌ مِّنْ مَاءٍ، قَالَ: فَتَوَضَّأَ مِنْهَا وُضُوءًا دُونَ وُضُوءٍ، قَالَ: وَبَقِيَ فِيهَا شَيْءٌ مِّنْ مَاءٍ، ثُمَّ قَالَ لِأَبِي قَتَادَةَ: احْفَظْ عَلَيْنَا مِيضَأَتَكَ، فَسَيَكُونُ لَهَا نَبَأٌ، ثُمَّ أَذَّنَ بِلَالٌ بِالصَّلَاةِ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ صَلَّى الْغَدَاةَ، فَصَنَعَ كَمَا كَانَ يَصْنَعُ كُلَّ يَوْمٍ، قَالَ: وَرَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَكِبْنَا مَعَهُ، قَالَ: فَجَعَلَ بَعْضُنَا يَهْمِسُ إِلَى بَعْضٍ، مَا كَفَّارَةُ مَا صَنَعْنَا بِتَفْرِيطِنَا فِي صَلَاتِنَا؟ ثُمَّ قَالَ: أَمَا لَكُمْ فِيَّ أُسْوَةٌ، ثُمَّ قَالَ: أَمَا إِنَّهُ لَيْسَ فِي النَّوْمِ تَفْرِيطٌ،" إِنَّمَا التَّفْرِيطُ عَلَى مَنْ لَمْ يُصَلِّ الصَّلَاةَ، حَتَّى يَجِيءَ وَقْتُ الصَّلَاةِ الأُخْرَى، فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ، فَلْيُصَلِّهَا حِينَ يَنْتَبِهُ لَهَا، فَإِذَا كَانَ الْغَدُ، فَلْيُصَلِّهَا عِنْدَ وَقْتِهَا"، ثُمَّ قَالَ: مَا تَرَوْنَ النَّاسَ صَنَعُوا؟ قَالَ: ثُمَّ قَالَ: أَصْبَحَ النَّاسُ فَقَدُوا نَبِيَّهُمْ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَعْدَكُمْ لَمْ يَكُنْ لِيُخَلِّفَكُمْ، وَقَالَ النَّاسُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَيْدِيكُمْ، فَإِنْ يُطِيعُوا أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ يَرْشُدُوا، قَالَ فَانْتَهَيْنَا إِلَى النَّاسِ حِينَ امْتَدَّ النَّهَارُ، وَحَمِيَ كُلُّ شَيْءٍ، وَهُمْ يَقُولُونَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلَكْنَا، عَطِشْنَا، فَقَالَ: لَا هُلْكَ عَلَيْكُمْ، ثُمَّ قَالَ: أَطْلِقُوا لِي غُمَرِي، قَالَ: وَدَعَا بِالْمِيضَأَةِ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُبُّ، وَأَبُو قَتَادَةَ يَسْقِيهِمْ، فَلَمْ يَعْدُ أَنْ رَأَى النَّاسُ مَاءً فِي الْمِيضَأَةِ تَكَابُّوا عَلَيْهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَحْسِنُوا الْمَلَأَ، كُلُّكُمْ سَيَرْوَى، قَالَ: فَفَعَلُوا، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُبُّ وَأَسْقِيهِمْ، حَتَّى مَا بَقِيَ غَيْرِي، وَغَيْرُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ثُمَّ صَبَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي: اشْرَبْ، فَقُلْتُ: لَا أَشْرَبُ حَتَّى تَشْرَبَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: إِنَّ سَاقِيَ الْقَوْمِ آخِرُهُمْ شُرْبًا، قَالَ: فَشَرِبْتُ، وَشَرِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَأَتَى النَّاسُ الْمَاءَ جَامِّينَ رِوَاءً، قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَبَاحٍ: إِنِّي لَأُحَدِّثُ هَذَا الْحَدِيثَ فِي مَسْجِدِ الْجَامِعِ، إِذْ قَالَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ : انْظُرْ أَيُّهَا الْفَتَى، كَيْفَ تُحَدِّثُ، فَإِنِّي أَحَدُ الرَّكْبِ تِلْكَ اللَّيْلَةَ، قَالَ: قُلْتُ: فَأَنْتَ أَعْلَمُ بِالْحَدِيثِ، فَقَالَ: مِمَّنْ أَنْتَ؟ قُلْتُ: مِنَ الأَنْصَارِ، قَالَ: حَدِّثْ، فَأَنْتُمْ أَعْلَمُ بِحَدِيثِكُمْ، قَالَ: فَحَدَّثْتُ الْقَوْمَ، فَقَالَ عِمْرَانُ: لَقَدْ شَهِدْتُ تِلْكَ اللَّيْلَةَ، وَمَا شَعَرْتُ أَنَّ أَحَدًا حَفِظَهُ كَمَا حَفِظْتُهُ.
ثابت نے عبداللہ بن رباح سے اور انہوں نے حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطاب فرمایا اور کہا: تم اپنی (پوری) شام اور (پوری) رات چلتے رہو گے تو ان شاء اللہ کل تک پانی پر پہنچ جاؤ گے۔ لوگ چل پڑے، کوئی مڑ کر دوسرے کی طرف دیکھتا بھی نہ تھا۔ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اسی عالم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے یہاں تک کہ رات آدھی گزر گئی، میں آپ کے پہلو میں چل رہا تھا، کہا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اونگھ آگئی اور آپ سواری سے ایک طرف جھک گئے، میں آپ کے پاس آیا اور آپ کو جگائے بغیر آپ کو سہارا دیا حتی کہ آپ اپنی سواری پر سیدھے ہو گئے، پھر آپ چلتے رہے یہاں تک کہ رات کا بیشتر حصہ گزر گیا، آپ (پھر) سواری پر (ایک طرف) جھکے، کہا: میں نے آپ کو جگائے بغیر آپ کو سہارا دیا یہاں تک کہ آپ اپنی سواری پر سیدھے ہو گئے، کہا: پھر چلتے رہے حتی کہ سحری کا آخری وقت تھا تو آپ (پھر) جھکے، یہ جھکنا پہلے دونوں بار کے جھکنے سے زیادہ تھا، قریب تھا کہ آپ اونٹ سے گر پڑتے، میں آپ کے پاس آیا اور آپ کو سہارا دیا تو آپ نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور فرمایا: یہ کون ہے؟ میں نے عرض کی: ابوقتادہ ہوں۔ فرمایا: تم کب سے میرے ساتھ اس طرح چل رہے ہو؟ میں نے عرض کی: میں رات ہی سے اس طرح سفر کر رہا ہوں۔ فرمایا: اللہ اسی طرح تمہاری حفاظت کرے جس طرح تم نے اس کے نبی کی حفاظت کی۔ پھر فرمایا: کیا تم دیکھ رہے ہو (کہ) ہم لوگوں سے اوجھل ہیں؟ پھر پوچھا: تمہیں کوئی (اور) نظر آرہا ہے؟ میں نے عرض کی: یہ ایک سوار ہے۔ پھر عرض کی: یہ ایک اور سوار ہے حتی کہ ہم اکٹھے ہوئے تو سات سوار تھے، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم راستے سے ایک طرف ہٹے، پھر سر (نیچے) رکھ دیا (اور لیٹ گئے) پھر فرمایا: ہمارے لیے ہماری نماز کا خیال رکھنا۔ پھر جو سب سے پہلے جاگے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے، سورج آپ کی پشت پر (چمک رہا) تھا، کہا: ہم سخت تشویش کے عالم میں کھڑے ہوئے، پھر آپ نے فرمایا: سوار ہوجاؤ۔ ہم سوار ہوئے اور (آگے) چل پڑے حتی کہ جب سورج بلند ہو گیا تو آپ اترے، پھر آپ نے وضو کا برتن مانگا جو میرے ساتھ تھا، اسی میں کچھ پانی تھا، کہا: پھر آپ نے اس سے (مکمل) وضو کے مقابلے میں کچھ ہلکا وضو کیا، اور اس میں کچھ پانی بچ بھی گیا، پھر آپ نے (مجھے) ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ہمارے لیے اپنے وضو کا برتن محفوظ رکھنا، اس کی ایک خبر ہو گی۔ پھر بلال رضی اللہ عنہ نے نماز کے لیے اذان کہی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں پڑھیں، پھر آپ نے اسی طرح جس طرح روز کرتے تھے صبح کی نماز پڑھائی، کہا: اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہو گئے ہم بھی آپ کی معیت میں سوار ہو گئے، کہا: ہم میں سے کچھ لوگ ایک دوسرے سے کھسر پھسر کرنے لگے کہ ہم نے نماز میں جو کوتاہی کی ہے اس کا کفارہ کیا ہے؟ اس پر آپ نے فرمایا: کیا تمہارے لیے میرے عمل میں نمونہ نہیں؟ پھر آپ نے فرمایا: سمجھ لو! نیند (آجانے) میں (کسی کی) کوئی کوتاہی نہیں۔ کوتاہی اس کی ہے جس نے (جاگنے کے بعد) دوسری نماز کا وقت آجانے تک نماز نہیں پڑھی، جو اس طرح (نیند) کرے تو جب وہ جاگے تو یہ نماز پڑھ لے، پھر جب دوسرا دن آئے تو اسے وقت پر ادا کرے۔ پھر فرمایا: تم کیا دیکھتے ہو (دوسرے) لوگوں نے کیا کیا؟ کہا: پھر آپ نے فرمایا: لوگوں نے صبح کی تو اپنے نبی کو گم پایا۔ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پیچھے ہیں، وہ ایسے نہیں کہ تمہیں پیچھے چھوڑ دیں۔ (دوسرے) لوگوں نے کہا: بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم سے آگے ہیں۔ اگر وہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی بات کریں تو صحیح راستے پر چلیں گے۔ کہا: تو ہم لوگوں تک (اس وقت) پہنچ پائے جب دن چڑھ آیا تھا اور ہر شے تپ گئی تھی اور وہ کہہ رہے تھے: اے اللہ کے رسول! ہم پیاس سے مر گئے۔ تو آپ نے فرمایا: تم پر کوئی ہلاکت نہیں آئی۔ پھر فرمایا: میرا چھوٹا پیالہ میرے پاس آنے دو۔ کہا: پھر وضو کے پانی والا برتن منگوایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اس سے پیالے میں) انڈیلتے گئے اور ابوقتادہ رضی اللہ عنہ لوگوں کو پلاتے گئے، زیادہ دیر نہ گزری کہ لوگوں نے وضو کے برتن میں جو تھوڑا سا پانی تھا، دیکھ لیا، اس پر جھرمٹ بنا کر اکٹھے ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا طریقہ اختیار کرو، تم میں سے ہر ایک اچھی طرح پیاس بجھا لے گا۔ کہا: لوگوں نے ایسا ہی کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانی (پیالے میں) انڈیلتے گئے اور میں لوگوں کو پلاتا گیا یہاں تک کہ میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کوئی نہ بچا، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پانی ڈالا اور مجھ سے فرمایا: پیو۔ میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! جب تک آپ نہیں پی لیں گے میں نہیں پیوں گا۔ فرمایا: قوم کو پانی پلانے والا ان سب سے آخر میں پیتا ہے۔ کہا: تب میں نے پی لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نوش فرمایا، کہا: اس کے بعد لوگ اس حالت میں (اگلے) پانی پر پہنچے کہ سب (نے اپنے) برتن پانی سے بھرے ہوئے تھے اور (خوب) سیراب تھے۔ (ثابت نے) کہا، عبداللہ بن رباح نے کہا: میں یہ حدیث جامع مسجد میں سب لوگوں کو سناؤں گا۔ تب عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے جوان! خیال رکھنا کہ تم کس طرح حدیث بیان کرتے ہو، اس رات میں بھی قافلے کے سواروں میں سے ایک تھا۔ کہا: میں نے عرض کی: آپ اس حدیث کو زیادہ جاننے والے ہیں۔ تو انہوں نے پوچھا: تم کس قبیلے سے ہو؟ میں نے کہا: انصار سے۔ فرمایا: حدیث بیان کرو تم اپنی احادیث سے زیادہ آگاہ ہو (انصار میں سے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے اس سارے واقعے کا سب سے زیادہ اور باریکی سے مشاہدہ کیا تھا بلکہ وہ اس سارے واقعے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ تھے، آگے ان سے سننے والے عبداللہ بن رباح بھی انصار میں سے تھے۔) کہا: میں نے لوگوں کو حدیث سنائی تو عمران رضی اللہ عنہ نے کہا: اس رات میں بھی موجود تھا اور میں نہیں سمجھتا کہ اسے کسی نے اس طرح یاد رکھا جس طرح تم نے اسے یاد رکھا ہے۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة/حدیث: 1562]
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطاب فرمایا اور کہا: تم آج زوال سے لے کر رات تک چلو گے اور کل صبح ان شاء اللہ پانی پر پہنچو گے تو لوگ چل پڑے کوئی کسی دوسرے کی طرف متوجہ نہیں ہو رہا تھا۔ ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے۔ میں بھی ساتھ تھا حتیٰ کہ آدھی رات گزر گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اونگھ آ گئی اور اپنی سواری پر ایک طرف جھکے، میں نے آگے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جگائے بغیر سہارا دیا حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر سیدھے ہو گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے حتیٰ کہ رات کا اکثر حصہ گزر گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر ایک طرف جھک گئے۔ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جگائے بغیر سہارا دیا۔ حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر سیدھے بیٹھ گئے پھر چلتے رہے یہاں تک کہ رات کا آخری حصہ آ پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی دوبار سے زیادہ جھک گئے۔ قریب تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گر جائیں تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر آپ کو سہارا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھا کر پوچھا: یہ کون ہے؟ میں نے کہا میں ابو قتادہ ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم کب سے میرے ساتھ اس طرح چل رہے ہو؟ میں نے عرض کیا۔ رات بھر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس طرح چل رہا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تیری حفاظت فرمائے، کیونکہ تم نے اس کے نبی کی حفاظت کی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے خیال میں ہم لوگوں سے اوجھل ہو سکتے ہیں؟ پھر فرمایا: کیا تمہیں کوئی نظر آ رہا ہے؟ میں نے کہا یہ ایک سوار ہے۔ پھر میں نے کہا: یہ دوسرا سوار ہے، حتیٰ کہ سات سوار جمع ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم راستہ سے ایک طرف ہٹ گئے اور اپنا سر زمین پر رکھ لیا۔ یعنی سونے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ ہماری نماز کی حفاظت کرنا۔ پھر سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے جبکہ سورج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر آ چکا تھا اور ہم بھی گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سوار ہو جاؤ تو ہم سوار ہو کر چل پڑے۔ حتیٰ کہ سورج بلند ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سواری سے اترے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضوء کا برتن طلب کیا جو میرے پاس تھا، اس میں تھوڑا سا پانی تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے تخفیف کے ساتھ وضوء کیا یعنی کم مرتبہ اعضاء دھوئے کہ کم پانی استعمال کیا اور برتن میں تھوڑا سا پانی بچ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو قتادہ سے فرمایا: ہمارے لیے اپنے برتن کو محفوظ رکھنا، جلد یہ کہ ایک بڑی خیر کا سبب ہو گا۔ پھر بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اذان کہی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں ادا کیں۔ پھر صبح کی نماز پڑھائی، اس کو اسی طرح پڑھایا جس طرح روزانہ پڑھاتے تھے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہو گئے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوار ہو گئے اور ہم ایک دوسرے سے سرگوشی کرنے لگے کہ نماز کے بارے میں جو ہم نے کوتاہی کی ہے اس کا کفارہ کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہارے لیے نمونہ نہیں ہوں؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں سو جانے کی صورت میں کوتاہی نہیں ہے، کوتاہی تو اس صورت میں ہے کہ انسان نماز نہ پڑھے (حالانکہ پڑھ سکتا ہے) یہاں تک کہ دوسری نماز کا وقت ہو جائے۔ جس کو یہ صورت (کہ سویا رہے) پیش آ جائے تو وہ بیدار ہونے پر نماز پڑھ لے اور اگلے دن نماز اپنے وقت پر پڑھے (عمداً مؤخر نہ کرے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تمہارے خیال میں لوگوں نے کیا کیا؟ پھر فرمایا: لوگوں نے صبح کے وقت اپنے نبی کو اپنے اندر نہیں پایا تو ابوبکر اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پیچھے ہیں وہ تمہیں اپنے پیچھے نہیں چھوڑ سکتے اور دوسرے لوگوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے آگے ہیں۔ پس اگر لوگ ابوبکر اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی اطاعت کریں گے تو ہدایت پائیں گے (یعنی ان کی بات مان لیں گے تو میرے انتظار میں رکے رہیں گے کیونکہ میں تو پیچھے ہوں) پھر ہم لوگوں کے پاس اس وقت پہنچے جب دن کافی چڑھ آیا اور ہر چیز گم ہو گئی اور لوگ کہہ رہے تھے کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم پیاسے مرگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ہلاک نہیں ہوگے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرا چھوٹا پیالہ لاؤ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کا برتن منگوایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانی ڈالنے لگے اور ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پلا رہے تھے جوں ہی لوگوں نے برتن میں معمولی سا پانی دیکھا تو اس پر ٹوٹ پڑے (ہر ایک کی خواہش تھی کہ میں پانی سے محروم نہ رہوں) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا اخلاق اختیار کرو، سب سیراب ہو جاؤ گے تو لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر عمل کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانی انڈیلنے لگے اور میں انہیں پلانے لگا۔ حتیٰ کہ میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی باقی نہ رہا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی ڈالا اور مجھے فرمایا: پیو میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں پی لیں گے میں نہیں پیوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کو پانی پلانے والا آخر میں پیتا ہے تو میں نے پی لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پی لیا۔ پھر سب لوگ سیراب ہو کر آرام کے ساتھ پانی تک پہنچ گئے۔ ثابت کہتے ہیں، عبداللہ بن رباح نے بتایا میں جامع مسجد میں یہ حدیث بیان کررہا تھا کہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اے نوجوان! سوچ لو، کیسے بیان کر رہے ہو کیونکہ اس رات کے سواروں میں سے ایک میں بھی ہوں تو میں نے کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم واقعہ بہتر جانتے ہیں۔ انہوں نے پوچھا: تم کس خاندان سے ہو؟ میں نے کہا: انصار سے ہوں۔ انہوں نے کہا۔ بیان کرو تم اپنے واقعات کو بہتر جانتے ہو تو میں نے لوگوں کو پورا واقعہ سنایا۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں بھی اس رات موجود تھا اور میں نہیں سمجھتا کسی نے اس واقعہ کو اس طرح یاد رکھا ہے جیسا تو نے یاد رکھا ہے۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة/حدیث: 1562]
ترقیم فوادعبدالباقی: 681
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

الحكم على الحديث: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
ترقیم عبدالباقی: 682 ترقیم شاملہ: -- 1563
وحَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ صَخْرٍ الدَّارِمِيُّ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ ، حَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ زَرِيرٍ الْعُطَارِدِيُّ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا رَجَاءٍ الْعُطَارِدِيَّ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ ، قَالَ: " كُنْتُ مَعَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسِيرٍ لَهُ، فَأَدْلَجْنَا لَيْلَتَنَا، حَتَّى إِذَا كَانَ فِي وَجْهِ الصُّبْحِ، عَرَّسْنَا فَغَلَبَتْنَا أَعْيُنُنَا، حَتَّى بَزَغَتِ الشَّمْسُ، قَالَ: فَكَانَ أَوَّلَ مَنِ اسْتَيْقَظَ مِنَّا أَبُو بَكْرٍ، وَكُنَّا لَا نُوقِظُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَنَامِهِ، إِذَا نَامَ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ، ثُمَّ اسْتَيْقَظَ عُمَرُ، فَقَامَ عِنْدَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلَ يُكَبِّرُ وَيَرْفَعُ صَوْتَهُ بِالتَّكْبِيرِ، حَتَّى اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَفَعَ رَأْسَهُ وَرَأَى الشَّمْسَ قَدْ بَزَغَتْ، قَالَ: ارْتَحِلُوا، فَسَارَ بِنَا حَتَّى إِذَا ابْيَضَّتِ الشَّمْسُ، نَزَلَ فَصَلَّى بِنَا الْغَدَاةَ، فَاعْتَزَلَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، لَمْ يُصَلِّ مَعَنَا، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا فُلَانُ، مَا مَنَعَكَ أَنْ تُصَلِّيَ مَعَنَا؟ قَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَصَابَتْنِي جَنَابَةٌ، فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَيَمَّمَ بِالصَّعِيدِ، فَصَلَّى، ثُمَّ عَجَّلَنِي فِي رَكْبٍ بَيْنَ يَدَيْهِ نَطْلُبُ الْمَاءَ، وَقَدْ عَطِشْنَا عَطَشًا شَدِيدًا، فَبَيْنَمَا نَحْنُ نَسِيرُ، إِذَا نَحْنُ بِامْرَأَةٍ سَادِلَةٍ رِجْلَيْهَا بَيْنَ مَزَادَتَيْنِ، فَقُلْنَا لَهَا: أَيْنَ الْمَاءُ؟ قَالَتْ: أَيْهَاهْ، أَيْهَاهْ، لَا مَاءَ لَكُمْ، قُلْنَا: فَكَمْ بَيْنَ أَهْلِكِ وَبَيْنَ الْمَاءِ؟ قَالَتْ: مَسِيرَةُ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، قُلْنَا: انْطَلِقِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: وَمَا رَسُولُ اللَّهِ، فَلَمْ نُمَلِّكْهَا مِنْ أَمْرِهَا شَيْئًا، حَتَّى انْطَلَقْنَا بِهَا، فَاسْتَقْبَلْنَا بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهَا، فَأَخْبَرَتْهُ مِثْلَ الَّذِي أَخْبَرَتْنَا، وَأَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا مُوتِمَةٌ لَهَا صِبْيَانٌ أَيْتَامٌ، فَأَمَرَ بِرَاوِيَتِهَ، فَأُنِيخَتْ، فَمَجَّ فِي الْعَزْلَاوَيْنِ الْعُلْيَاوَيْنِ، ثُمَّ بَعَثَ بِرَاوِيَتِهَا، فَشَرِبْنَا وَنَحْنُ أَرْبَعُونَ رَجُلًا عِطَاشٌ، حَتَّى رَوِينَا وَمَلَأْنَا كُلَّ قِرْبَةٍ مَعَنَا وَإِدَاوَةٍ وَغَسَّلْنَا صَاحِبَنَا، غَيْرَ أَنَّا لَمْ نَسْقِ بَعِيرًا، وَهِيَ تَكَادُ تَنْضَرِجُ مِنَ الْمَاءِ، يَعْنِي الْمَزَادَتَيْنِ، ثُمَّ قَالَ: هَاتُوا مَا كَانَ عِنْدَكُمْ، فَجَمَعْنَا لَهَا مِنْ كِسَرٍ وَتَمْرٍ، وَصَرَّ لَهَا صُرَّةً، فَقَالَ لَهَا: اذْهَبِي فَأَطْعِمِي هَذَا عِيَالَكِ، وَاعْلَمِي أَنَّا لَمْ نَرْزَأْ مِنْ مَائِكِ، فَلَمَّا أَتَتْ أَهْلَهَا، قَالَتْ: لَقَدْ لَقِيتُ أَسْحَرَ الْبَشَرِ، أَوْ إِنَّهُ لَنَبِيٌّ كَمَا زَعَمَ، كَانَ مِنْ أَمْرِهِ ذَيْتَ وَذَيْتَ، فَهَدَى اللَّهُ ذَاكَ الصِّرْمَ بِتِلْكَ الْمَرْأَةِ، فَأَسْلَمَتْ وَأَسْلَمُوا ".
سلم بن زریر عطاری نے کہا: میں نے ابورجاء عطاری سے سنا، وہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت کر رہے تھے، کہا: میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا، ہم اس رات چلتے رہے حتی کہ جب صبح قریب آئی تو ہم (تھکاوٹ کے سبب) اتر پڑے، ہم پر (نیند میں ڈوبی) آنکھیں غالب آگئیں یہاں تک کہ سورج چمکنے لگا۔ ہم میں جو سب سے پہلے بیدار ہوئے وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سو جاتے تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جگایا نہیں کرتے تھے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بیدار ہو جاتے، پھر عمر رضی اللہ عنہ جاگے، وہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کھڑے ہوگئے اور «اللہ اکبر» پکارنے لگے اور (اس) تکبیر میں آواز اونچی کرنے لگے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جاگ گئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اور دیکھا کہ سورج چمک رہا ہے تو فرمایا: (آگے) چلو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں لے کر چلے یہاں تک کہ سورج (روشن) ہو کر سفید ہو گیا، آپ اترے، ہمیں صبح کی نماز پڑھائی۔ لوگوں میں سے ایک آدمی الگ ہو گیا اور اس نے ہمارے ساتھ نماز نہ پڑھی، جب سلام پھیرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: فلاں! تم نے ہمارے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی؟ اس نے کہا: اے اللہ کے نبی! مجھے جنابت لاحق ہو گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا، اس نے مٹی سے تیمم کیا اور نماز پڑھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چند سواروں سمیت پانی کی تلاش میں جلدی اپنے آگے روانہ کیا، ہم سخت پیاسے تھے، جب ہم چل رہے تھے تو ہمیں ایک عورت ملی جس نے اپنے پاؤں دو مشکوں کے درمیان لٹکائے ہوئے تھے (بکری کی مشکوں سمیت پاؤں لٹکائے، اونٹ پر سوار تھی)، ہم نے اس سے پوچھا: پانی کہاں ہے؟ کہنے لگی: افسوس! تمہارے لیے پانی نہیں ہے۔ ہم نے پوچھا: تمہارے گھر اور پانی کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟ اس نے کہا: ایک دن اور رات کی مسافت ہے۔ ہم نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلو۔ کہنے لگی: اللہ کا رسول کیا ہوتا ہے؟ ہم نے اسے اس کے معاملے میں (فیصلے کا) کچھ اختیار نہ دیا حتی کہ اسے لے آئے، اس کے ساتھ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حاضر ہوئے، آپ نے اس سے پوچھا تو اس نے آپ کو اسی طرح بتایا جس طرح ہمیں بتایا تھا، اور آپ کو یہ بھی بتایا کہ وہ یتیم بچوں والی ہے، اس کے (زیر کفالت) بہت سے یتیم بچے ہیں۔ آپ نے اس کی پانی ڈھونے والی اونٹنی کے بارے میں حکم دیا، اسے بٹھایا گیا اور آپ نے کلی کر کے مشکوں کے اوپر کے دونوں سوراخوں میں پانی ڈالا، پھر آپ نے اس کی اونٹنی کو کھڑا کیا تو ہم سب نے اور ہم چالیس (شدید) پیاسے افراد تھے (ان مشکوں سے) پانی پیا یہاں تک کہ ہم سیراب ہوگئے اور ہمارے پاس جتنی مشکیں اور پانی کے برتن تھے سب بھر لیے اور اپنے ساتھی کو غسل بھی کرایا، البتہ ہم نے کسی اونٹ کو پانی نہ پلایا اور وہ یعنی دونوں مشکیں پانی (کی مقدار زیادہ ہو جانے کے سبب) پھٹنے والی ہو گئیں، پھر آپ نے فرمایا: تمہارے پاس جو کچھ ہے، لے آؤ۔ ہم نے ٹکڑے اور کھجوریں اکٹھی کیں، اس کے لیے ایک تھیلی کا منہ بند کر دیا گیا تو آپ نے اس سے کہا: جاؤ اور یہ خوراک اپنے بچوں کو کھلاؤ اور جان لو! ہم نے تمہارے پانی میں کمی نہیں کی۔ جب وہ اپنے گھر والوں کے پاس پہنچی تو کہا: میں انسانوں کے سب سے بڑے ساحر سے مل کر آئی ہوں یا پھر جیسا کہ وہ خود کو سمجھتا ہے، وہ نبی ہے، اور اس کا معاملہ اس طرح سے ہے۔ پھر (آخر کار) اللہ نے اس عورت کے سبب سے لوگوں سے کٹی ہوئی اس آبادی کو ہدایت عطا کر دی، وہ مسلمان ہوگئی اور (باقی) لوگ بھی مسلمان ہوگئے۔ (یہ پچھلے واقعے سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ ہے۔) [صحيح مسلم/كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة/حدیث: 1563]
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا کہ ہم رات بھر چلتے رہے حتیٰ کہ صبح کا وقت ہو گیا تو ہم نے پڑاؤ کیا اور ہم پر نیند نے غلبہ پا لیا، حتیٰ کہ سورج نکل آیا۔ ہم میں سب سے پہلے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیدار ہوئے۔ ہماری عادت تھی کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سو جاتے تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نیند سے جگاتے نہیں تھے، حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی بیدار ہو جاتے، پھر (ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیدار ہو گئے تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے ہو کر اللّٰہ اکبر کہنے لگے اور تکبیر بھی بلند آواز سے کہتے حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہو گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر مبارک اٹھایا اور سورج کو دیکھا کہ وہ نکل چکا ہے تو فرمایا کوچ کرو ہمارے ساتھ آپ بھی چلتے رہے، حتیٰ کہ سورج سفید ہو گیا (یعنی سرخی ختم ہوگئی دھوپ پھیل گئی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری سے اتر کر صبح کی نماز پڑھائی۔ ایک آدمی لوگوں سے الگ رہا۔ اس نے ہمارے ساتھ نماز نہ پڑھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سلام پھیرا تو اس سے پوچھا: اے فلاں! تم نے ہمارے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی؟ اس نے جواب دیا: اے اللہ کےنبی! مجھے جنابت لاحق ہو گئی تھی (جنابت کی بنا پر جماعت میں شریک نہیں ہوا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تیمّم کا حکم دیا اور اس نے مٹی سے تیمّم کیا اور نماز پڑھ لی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ساتھیوں کے ساتھ مجھے آگے پانی کی تلاش میں دوڑایا۔ کیونکہ ہمیں سخت پیاس لگ چکی تھی۔ ہم جا رہے تھے کہ اچانک ہمیں ایک عورت ملی جو دو مشکوں کے درمیان پاؤں لٹکائے ہوئے تھی تو ہم نے اس سے پوچھا: پانی کہاں ہے؟ اس نے کہا: دور بہت ہی دور۔ تم پانی حاصل نہیں کر سکتے۔ ہم نے پوچھا: تیرے گھر والوں سے پانی کتنی دور ہے؟ اس نے کہا ایک دن، رات کا فاصلہ ہے۔ ہم نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلو۔ اس نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہوتا ہے؟ ہم نے اس کا معاملہ اس کے اختیار میں نہ رہنے دیا اور اس کو لے کر چل کر پڑے اور ہم اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہی کچھ بتایا جو ہمیں بتا چکی تھی اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی بتایا وہ یتیموں والی ہے۔ اس کے کئی یتیم بچے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پانی والے اونٹ کے بارے میں حکم دیا۔ اسے بٹھایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مشکوں کے اوپر والے دہانوں میں کلی کی پھر اس کے اونٹ کو اٹھا دیا گیا تو ہم نے پانی پیا جبکہ ہم چالیس پیاسے آدمی تھے۔ ہم سیراب ہو گئے اور ہمارے پاس جو مشکیزہ اور برتن تھا اس کو ہم نے بھر لیا اور آپنے ساتھی کو غسل کروایا۔ ہاں ہم نے کسی اونٹ کو پانی نہیں پلایا اور اس کی مشکیں پھٹنے کو تھیں یعنی اس کی مشکیں پہلے سے بھی زیادہ بھر گئیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کچھ تمہارے پاس ہے لاؤ ہم نے اس کے لیے روٹی کے ٹکڑے اور کھجوریں جمع کیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک تھیلی میں باندھ دیا اور اسے فرمایا: جاؤ، اسے اپنے بچوں کو کھلاؤ اور جان لو ہم نے تیرے پانی کو کچھ کم نہیں کیا۔ جب وہ اپنے گھر والوں کے پاس آئی تو کہنے لگی آج میں سب انسانوں سے بڑے جادوگر کو مل چکی ہوں یا وہ نبی ہے جیسا کہ اس کا دعویٰ ہے، اس نے یہ کام دکھائے تو اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی وجہ ان بستی والوں کو ہدایت دی۔ وہ مسلمان ہوئی اور بستی والے بھی مسلمان ہو گئے۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة/حدیث: 1563]
ترقیم فوادعبدالباقی: 682
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

الحكم على الحديث: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
ترقیم عبدالباقی: 682 ترقیم شاملہ: -- 1564
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ ، حَدَّثَنَا عَوْفُ بْنُ أَبِي جَمِيلَةَ الأَعْرَابِيُّ ، عَنْ أَبِي رَجَاءٍ الْعُطَارِدِيِّ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ الْحُصَيْنِ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَسَرَيْنَا لَيْلَةً، حَتَّى إِذَا كَانَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ قُبَيْلَ الصُّبْحِ، وَقَعْنَا تِلْكَ الْوَقْعَةَ الَّتِي لَا وَقْعَةَ عِنْدَ الْمُسَافِرِ أَحْلَى مِنْهَا، فَمَا أَيْقَظَنَا إِلَّا حَرُّ الشَّمْسِ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ سَلْمِ بْنِ زَرِيرٍ، وَزَادَ وَنَقَصَ، وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ: فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَرَأَى مَا أَصَابَ النَّاسَ، وَكَانَ أَجْوَفَ جَلِيدًا، فَكَبَّرَ وَرَفَعَ صَوْتَهُ بِالتَّكْبِيرِ، حَتَّى اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِشِدَّةِ صَوْتِهِ بِالتَّكْبِيرِ، فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، شَكَوْا إِلَيْهِ الَّذِي أَصَابَهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا ضَيْرَ، ارْتَحِلُوا، وَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ.
عوف بن ابی جمیلہ اعرابی نے ابورجاء عطاری سے، انہوں نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ہم ایک سفر کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے، ہم ایک رات چلے، جب رات کا آخری حصہ آیا، صبح سے تھوڑی دیر پہلے ہم اس طرح پڑ کر سو گئے کہ اس سے زیادہ میٹھی نیند ایک مسافر کے لیے اور کوئی نہیں ہو سکتی، ہمیں سورج کی حرارت ہی نے جگایا۔ پھر سلم بن زریر کی حدیث کی طرح حدیث سنائی اور کچھ کمی بیشی بھی اور (اپنی روایت کردہ) حدیث میں انہوں نے کہا: جب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جاگے اور لوگوں کی صورت حال دیکھی، اور وہ بلند آواز آدمی تھے تو انہوں نے اونچی آواز سے «اللہ اکبر» کہا حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اونچے اللہ اکبر کہنے سے جاگ گئے، جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جاگ گئے تو لوگوں نے اپنے اس معاملے کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی (بڑا) نقصان نہیں ہوا، (آگے) چلو۔ آگے وہی حدیث بیان کی۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة/حدیث: 1564]
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو ہم رات بھر چلتے رہے۔ حتیٰ کہ رات کا آخری وقت یعنی صبح کے قریب کا وقت ہوگیا تو ہم اس طرح لیٹ گئے کہ مسافر کو اس سے زیادہ لذیذ لیٹنا نہیں ملتا۔ پھر ہمیں سورج کی گرمی ہی نے بیدار کیا۔ آگے کچھ کمی و بیشی کے ساتھ اسلم بن زریر کی مذکورہ بالا روایت کی طرح بیان کیا اور اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ جب عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیدار ہوئے اور انہوں نے لوگوں کی پریشان کن حالت دیکھی اور وہ بلند آواز اور زور آور تھے تو انہوں نے اللّٰہ اکبر کہنا شروع کیا اور تکبیر کو بلند آواز سے کہا حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بلند آواز سے بیدار ہو گئے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہو گئے تو لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی پریشانی کا تذکرہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی نقصان نہیں، کوچ کرو اور حدیث کو آخری وقت تک بیان کیا۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة/حدیث: 1564]
ترقیم فوادعبدالباقی: 682
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

الحكم على الحديث: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
ترقیم عبدالباقی: 683 ترقیم شاملہ: -- 1565
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ حُمَيْدٍ ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " إِذَا كَانَ فِي سَفَرٍ، فَعَرَّسَ بِلَيْلٍ، اضْطَجَعَ عَلَى يَمِينِهِ، وَإِذَا عَرَّسَ قُبَيْلَ الصُّبْحِ، نَصَبَ ذِرَاعَهُ وَوَضَعَ رَأْسَهُ عَلَى كَفِّهِ ".
حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر میں ہوتے اور رات (کے آخری حصے) میں آرام کے لیے لیٹتے تو دائیں پہلو پر لیٹتے اور جب صبح سے ذرا پہلے لیٹتے تو اپنی کہنی کھڑی کر لیتے اور سر ہتھیلی پر ٹکا لیتے۔ (تاکہ زیادہ گہری نیند نہ آئے۔ اس حدیث کے الفاظ بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ اوپر بیان کیے گئے دو الگ الگ واقعات ہیں۔) [صحيح مسلم/كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة/حدیث: 1565]
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں ہوتے اور رات کو پڑاؤ کرتے تو اپنے دائیں پہلو پر لیٹتے اور جب صبح کے قریب پڑاؤ کرتے تو اپنا بازو زمین پر رکھ دیتے اور اپنا سر اپنی ہتھیلی پر رکھ لیتے۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة/حدیث: 1565]
ترقیم فوادعبدالباقی: 683
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

الحكم على الحديث: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
ترقیم عبدالباقی: 684 ترقیم شاملہ: -- 1566
حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ نَسِيَ صَلَاةً فَلْيُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَهَا، لَا كَفَّارَةَ لَهَا إِلَّا ذَلِكَ "، قَالَ قَتَادَةُ: وَأَقِمْ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي.
ہمام نے ہمیں حدیث سنائی، کہا: ہمیں قتادہ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے حوالے سے حدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کوئی نماز بھول جائے تو جیسے ہی وہ اسے یاد آئے، وہ نماز پڑھ لے، اس نماز کا اس کے علاوہ اور کوئی کفارہ نہیں۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة/حدیث: 1566]
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کوئی نماز پڑھنا بھول جائے تو جب یاد آ جائے اس وقت پڑھ لے۔ اس کا یہی کفارہ ہے اور قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آیت پڑھی ﴿أَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي﴾ میری یاد کے لیے نماز پڑھو۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة/حدیث: 1566]
ترقیم فوادعبدالباقی: 684
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

الحكم على الحديث: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
ترقیم عبدالباقی: 684 ترقیم شاملہ: -- 1567
وحَدَّثَنَاه يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَسَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ جَمِيعًا، عَنْ أَبِي عَوَانَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَذْكُرْ: لَا كَفَّارَةَ لَهَا إِلَّا ذَلِكَ.
ابوعوانہ نے قتادہ سے، انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ (یہی حدیث) روایت کی، البتہ انہوں نے اس کے علاوہ اس کا اور کوئی کفارہ نہیں کے الفاظ روایت نہیں کیے۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة/حدیث: 1567]
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ بالا روایت بیان کی اور اس میں یہ ٹکڑا نقل نہیں کیا کہ اس کا کفارہ یہی ہے۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة/حدیث: 1567]
ترقیم فوادعبدالباقی: 684
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

الحكم على الحديث: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
ترقیم عبدالباقی: 684 ترقیم شاملہ: -- 1568
وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " مَنْ نَسِيَ صَلَاةً، أَوْ نَامَ عَنْهَا، فَكَفَّارَتُهَا أَنْ يُصَلِّيَهَا إِذَا ذَكَرَهَا ".
سعید نے قتادہ سے اور انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے حدیث سنائی، کہا: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کوئی نماز بھول گیا یا اسے ادا کرتے وقت سوتا رہ گیا تو اس (نماز) کا کفارہ یہی ہے کہ جب اسے یاد آئے وہ اس نماز کو پڑھ لے۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة/حدیث: 1568]
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی نماز پڑھنا بھول گیا یا اس سے سویا رہا تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ یاد آتے ہی پڑھ لے۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة/حدیث: 1568]
ترقیم فوادعبدالباقی: 684
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

الحكم على الحديث: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
ترقیم عبدالباقی: 684 ترقیم شاملہ: -- 1569
وحَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا رَقَدَ أَحَدُكُمْ عَنِ الصَّلَاةِ، أَوْ غَفَلَ عَنْهَا، فَلْيُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَهَا، فَإِنَّ اللَّهَ، يَقُولُ: أَقِمْ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي ".
مثنیٰ نے قتادہ کے حوالے سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی نماز (پڑھنے کے وقت اس) سے سویا رہے یا اس سے غافل ہو جائے تو جب اسے یاد آئے وہ (نماز) پڑھ لے، بے شک اللہ تعالیٰ نے (خود) ارشاد فرمایا ہے: «وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي» (اور میری یاد کے وقت نماز قائم کرو۔) [صحيح مسلم/كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة/حدیث: 1569]
انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی نماز سے سویا رہے یا اس سے غافل ہو جائے تو اسے یاد آنے پر پڑھ لے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: میری یاد کے لیے نماز پڑھو۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة/حدیث: 1569]
ترقیم فوادعبدالباقی: 684
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

الحكم على الحديث: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں