18. باب اسْتِحْبَابِ مُبَايَعَةِ الإِمَامِ الْجَيْشَ عِنْدَ إِرَادَةِ الْقِتَالِ وَبَيَانِ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ تَحْتَ الشَّجَرَةِ:
18. باب: لڑائی کے وقت مجاہدین سے بیعت لینا مستحب ہے اور شجرہ کے نیچے بیعت رضوان کے بیان میں۔
Chapter: It is recommended for the army to swear allegiance to the ruler when intending to fight, and an account of Bay'at Ar-Ridwan beneath the tree
● صحيح البخاري | 4152 | جابر بن عبد الله | عطش الناس يوم الحديبية ورسول الله بين يديه ركوة فتوضأ منها ثم أقبل الناس نحوه فقال رسول الله ما لكم قالوا يا رسول الله ليس عندنا ماء نتوضأ به ولا نشرب إلا ما في ركوتك قال فوضع النبي يده في الركوة جعل الماء يفور من بين أصابعه كأمثال العيون فشربنا وتوضأنا ف |
● صحيح البخاري | 3576 | جابر بن عبد الله | عطش الناس يوم الحديبية والنبي بين يديه ركوة فتوضأ فجهش الناس نحوه فقال ما لكم قالوا ليس عندنا ماء نتوضأ ولا نشرب إلا ما بين يديك فوضع يده في الركوة جعل الماء يثور بين أصابعه كأمثال العيون فشربنا وتوضأنا قلت كم كنتم قال لو كنا مائة |
● صحيح البخاري | 5639 | جابر بن عبد الله | حضرت العصر وليس معنا ماء غير فضلة فجعل في إناء فأتي النبي به فأدخل يده فيه وفرج أصابعه حي على أهل الوضوء البركة من الله لقد رأيت الماء يتفجر من بين أصابعه فتوضأ الناس وشربوا فجعلت لا آلوا ما جعلت في بطني منه فعلمت أنه بركة قلت لجابر كم كنتم يومئذ قال ألفا |
● صحيح مسلم | 4810 | جابر بن عبد الله | صلى بها ولم يبايع عند شجرة إلا الشجرة التي بالحديبية |
● سنن الدارمي | 26 | جابر بن عبد الله | وضع رسول الله كفه في الماء والقدح وقال بسم الله ثم قال أسبغوا الطهور فوالذي هو ابتلاني ببصري رأيت العيون عيون الماء تخرج من بين أصابعه فلم يرفعها حتى توضؤوا أجمعون |
● سنن الدارمي | 27 | جابر بن عبد الله | اذكروا اسم الله فشربنا حتى وسعنا وكفانا كم كنتم قال كنا ألفا وخمس مئة ولو كنا مئة ألف لكفانا |
● مسندالحميدي | 1259 | جابر بن عبد الله | أنتم اليوم خير أهل الأرض |
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4810
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
صحابہ کرام جب حدیبیہ کے مقام پر پہنچے،
تو انہیں پیاس محسوس ہوئی اور وہاں کے کنویں میں بہت کم پانی تھا،
اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور برکت کی دعا فرمائی،
تو اس میں پانی جوش مارنے لگا،
لوگوں نے خود بھی پیا اور سواریوں کو بھی پلایا،
جیسا کہ کتاب الجہاد والسیر کی سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی روایت نمبر 132 میں گزر چکا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4810
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1259
1259- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: حدیبیہ کے دن ہم لوگ 1400 کی تعداد میں تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج کے دن تم لوگ روئے زمین کے سب سے بہتر فرد ہو۔“ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: اگر میری بصارت کام کرتی ہوتی، تو میں تمہیں اس درخت کی جگہ دکھاتا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1259]
فائدہ:
اس حدیث میں بیعت رضوان کا ذکر ہے جو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی افواہ پھیلنے کے وقت ایک درخت کے نیچے ہوئی تھی۔ اس حدیث سے مجاہدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1257
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3576
3576. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ حدیبیہ کے دن لوگوں کو پیاس لگی اور نبی کریم ﷺ کے سامنے ایک چھاگل تھے، جس سے آپ نے وضو فرمایا۔ لوگ جلدی جلدی پانی لینے کے لیے آپ کی طرف دوڑ پڑے۔ آپ نے پوچھا: ”تمھیں کیا ہوگیا ہے؟“انھوں نے عرض کیا: ہمارے پاس پانی نہیں جس سے ہم وضو کریں بلکہ پینے کے لیے بھی پانی نہیں ہے۔ صرف اسی قدر پانی کی مقدار ہے جو آپ کے سامنے ہے۔ آپ نے اس چھاگل پر اپنا دست مبارک رکھ دیا تو آپ کی انگلیوں سے پانی ایسے پھوٹ کر بہنے لگا جیسے چشموں سے ابل کر نکلتاہے۔ چنانچہ ہم سب نے وہ پانی پیا اور اس سے وضو بھی کیا۔ (راوی کہتا ہے کہ) میں نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا: آپ اس وقت کتنے آدمی تھے؟انھوں نے فرمایا: اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تو ہمیں یہ پانی کافی ہوتا، تاہم اس وقت بھی پندرہ سوآدمی تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3576]
حدیث حاشیہ:
کیوں کہ آپ کی انگلیوں سے اللہ تعالیٰ نے چشمہ جاری کردیا، پھر پانی کی کیا کمی تھی۔
یہ آپ کا معجزہ تھا۔
(صلی اللہ علیه وسلم)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3576
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5639
5639. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں ایک دفعہ نبی ﷺ کے ہمراہ تھا جبکہ عصر کا وقت ہو گیا اور ہمارے پاس تھوڑے سے بچے ہوئے پانی کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔ اسے ایک برتن میں ڈال کر نبی ﷺ کی خدمت میں لایا گیا۔ آپ نے اس میں اپنا دست مبارک رکھا اور انگلیاں پھیلا دیں، پھر فرمایا: ”اے وضو کرنے والو! وضو کر لو۔ یہ اللہ کی طرف سے برکت ہے۔“ میں نے دیکھا کہ پانی آپ ﷺ کی انگلیوں کے درمیان سے پھوٹ پھوٹ کر نکل رہا تھا چنانچہ سب لوگوں نے اس سے وضو کیا اور اسے نوش کیا۔ میں نے اس امر کی پروا کیے بغیر کہ پیٹ میں کتنا پانی جا رہا ہے خوب پانی پیا کیونکہ مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ یہ بابرکت پانی ہے۔ (راوئ حدیث کہتے ہیں کہ) میں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا: اس دن آپ کتنے لوگ تھے؟ انہوں نے کہا: ایک ہزار چار سو۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے میں عمرو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5639]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے متبرک پانی پینا ثابت ہوا۔
معجزہ نبوی کی برکت سے یہ پانی اس قدر بڑھا کہ پندرہ سو اصحاب کرام کو سیراب کر گیا۔
اور حصین کی روایت کو حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مغازی میں اورعمرو بن مرہ کی روایت کو مسلم اورامام احمد بن حنبل نے وصل کیا۔
قسطلانی نے کہا کہ اس مقام پر صحیح بخاری کے تین ربع ختم ہو گئے اور آخری چوتھا ربع باقی ہے۔
یا اللہ! جس طرح تو نے یہ تین ربع پورے کرائے ہیں اس چوتھے ربع کو بھی میری قلم سے پورا کرا دے تیرے لیے کچھ مشکل نہیں ہے۔
یا اللہ! میری دعا قبول فرما لے اور جن بھائیوں نے تیرے پیارے نبی کے کلام کی خدمت کی ہے ان کو دنیا و آخرت میں بے شمار برکتیں عطا فرما اور ہم سب کو بخش دیجیو۔
آمین یا رب العالمین (راز)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5639
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3576
3576. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ حدیبیہ کے دن لوگوں کو پیاس لگی اور نبی کریم ﷺ کے سامنے ایک چھاگل تھے، جس سے آپ نے وضو فرمایا۔ لوگ جلدی جلدی پانی لینے کے لیے آپ کی طرف دوڑ پڑے۔ آپ نے پوچھا: ”تمھیں کیا ہوگیا ہے؟“انھوں نے عرض کیا: ہمارے پاس پانی نہیں جس سے ہم وضو کریں بلکہ پینے کے لیے بھی پانی نہیں ہے۔ صرف اسی قدر پانی کی مقدار ہے جو آپ کے سامنے ہے۔ آپ نے اس چھاگل پر اپنا دست مبارک رکھ دیا تو آپ کی انگلیوں سے پانی ایسے پھوٹ کر بہنے لگا جیسے چشموں سے ابل کر نکلتاہے۔ چنانچہ ہم سب نے وہ پانی پیا اور اس سے وضو بھی کیا۔ (راوی کہتا ہے کہ) میں نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا: آپ اس وقت کتنے آدمی تھے؟انھوں نے فرمایا: اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تو ہمیں یہ پانی کافی ہوتا، تاہم اس وقت بھی پندرہ سوآدمی تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3576]
حدیث حاشیہ:
1۔
حدیبیہ ایک مقام ہے جوحرم مکہ کی مغربی حدہے۔
مکہ مکرمہ سے کوئی دس میل اور جدہ سے کوئی تیس میل کے فاصلے پر واقع ہے۔
وہاں ایک کبڑا درخت تھا جس کی وجہ سے اس مقام کا یہ نام رکھا گیا۔
رسول اللہ ﷺ عمرہ کرنے کی غرض سے مہاجرین وانصار اور دیگرقبائل کے ہمراہ نکلے تھے لیکمن مقام حدیبیہ پر آپ کو روک لیا گیا۔
یہ واقعہ ذوالقعدہ چھ ہجری میں پیش آیا۔
2۔
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے ایک عظیم معجزے کاذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی انگلیوں سے پانی کا چشمہ جاری کردیا۔
پھر پانی کی کیا کمی تھی۔
حضرت جابر ؓکے کہنے کے مطابق وہ ایک لاکھ کی تعداد کو سیراب کرنے کے لیے کافی تھا۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3576
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4152
4152. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ حدیبیہ کے دن لوگوں کو پیاس لگی جبکہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے پانی کا ایک برتن تھا۔ آپ نے اس سے وضو فرمایا۔ پھر لوگ آپ کے پاس حاضر ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا: ”تمہیں کیا ہو گیا ہے؟“ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہمارے پاس پانی نہیں ہے جس سے ہم وضو کریں اور اسے پئیں۔ صرف وہی پانی ہے جو آپ کے برتن میں ہے۔ نبی ﷺ نے اپنا دست مبارک پانی کے برتن میں رکھا تو آپ کی انگلیوں سے پانی فوارے کی طرح پھوٹنے لگا۔ حضرت جابر ؓ نے کہا: ہم سب نے پانی پیا اور اس سے وضو کیا۔ (راوی کہتا ہے:) میں نے حضرت جابر ؓ سے پوچھا: اس روز تمہاری تعداد کتنی تھی؟ انہوں نے کہا: اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تو ہم سب کو پانی کافی ہوتا، ویسے ہم اس روز پندرہ سو (1500) کی تعداد میں تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4152]
حدیث حاشیہ:
1۔
قبل ازیں حضرت براء بن عازب ؓ سے مروی حدیث میں تھاکہ رسول اللہ ﷺ نے کنویں سے پانی کا ڈول منگوایا، اس سے کلی کی، پھر دعا فرمائی اور اسے کنویں میں ڈال دیا جبکہ حدیث جابر ؓ میں ہے کہ آپ نے پانی کے برتن میں ہاتھ رکھا تو آپ کی انگلیوں سے چشمے کی طرح پانی اُبلنے لگا دراصل کئی ایک مواقع ہیں جہاں پانی کے متعلق معجزات کا ظہور ہوا۔
ان میں سےایک واقعہ حضرت جابر ؓ نے بیان کیا ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر نماز عصر کے وقت پانی نہیں تھا، صرف ایک برتن میں تھوڑا سابچا ہوا پانی تھا، رسول اللہ ﷺ نے اس برتن میں اپنا ہاتھ ڈال کر اپنی انگلیوں کوپھیلادیا اور فرمایا:
”وضو کرنےوالو! اللہ کی طرف سے اس میں برکت ڈال دی گئی ہے،آؤ اس سے وضو کرلو۔
“ (صحیح البخاري، الأشربة، حدیث: 5639)
اس کی تفصیل مسند احمد میں ہے کہ صلح حدیبیہ کے وقت ایک آدمی تھوڑا سا پانی لے کرآیا۔
رسول اللہ ﷺ نے اسے بڑے ٹب میں ڈالا، اس سے وضو کرنے کے بعد اسے کچھ وقت کے لیے چھوڑدیا گیا، لوگ وضو کرنے کے لیے اس پر ٹوٹ پڑے تو آپ نے انھیں آرام وسکون اختیار کرنے کا حکم دیا، پھر آپ نے ہاتھ رکھ دیا توآپ کی انگلیوں کے درمیان سےپانی نکلنے لگا، آپ نے فرمایا:
”اچھی طرح کرلو۔
“ (مسند أحمد: 358/3۔
)
2۔
حافظ ا بن حجر ؒ نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی انگلیوں مبارک سے پانی پھوٹنے لگا تو لوگوں نےخوب سیر ہوکر پیا اور اس وضو کیا۔
اس وقت جو پانی بچ گیاتھا اس آپ نے پانی میں پھینک دیا تو وہ بھی پانی کی کثرت سے جوش مارنے لگا، اس طرح حضرت براء اورحضرت جابر ؓ کے دونوں واقعات کو ایک ہی قراردیا جا سکتاہے۔
(فتح الباري: 551/7)
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4152
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5639
5639. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں ایک دفعہ نبی ﷺ کے ہمراہ تھا جبکہ عصر کا وقت ہو گیا اور ہمارے پاس تھوڑے سے بچے ہوئے پانی کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔ اسے ایک برتن میں ڈال کر نبی ﷺ کی خدمت میں لایا گیا۔ آپ نے اس میں اپنا دست مبارک رکھا اور انگلیاں پھیلا دیں، پھر فرمایا: ”اے وضو کرنے والو! وضو کر لو۔ یہ اللہ کی طرف سے برکت ہے۔“ میں نے دیکھا کہ پانی آپ ﷺ کی انگلیوں کے درمیان سے پھوٹ پھوٹ کر نکل رہا تھا چنانچہ سب لوگوں نے اس سے وضو کیا اور اسے نوش کیا۔ میں نے اس امر کی پروا کیے بغیر کہ پیٹ میں کتنا پانی جا رہا ہے خوب پانی پیا کیونکہ مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ یہ بابرکت پانی ہے۔ (راوئ حدیث کہتے ہیں کہ) میں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا: اس دن آپ کتنے لوگ تھے؟ انہوں نے کہا: ایک ہزار چار سو۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے میں عمرو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5639]
حدیث حاشیہ:
(1)
پانی میں اسراف اگرچہ ممنوع ہے لیکن بابرکت اشیاء کے کھانے پینے میں اسراف ممنوع نہیں ہے۔
اسے زیادہ مقدار میں کھانے پینے میں کوئی حرج نہیں اور نہ اس سے کوئی کراہت ہی کا پہلو نکلتا ہے۔
(2)
عام حالات میں پیٹ کا تیسرا حصہ پانی کے لیے ہونا چاہیے لیکن بابرکت پانی پینے میں یہ پابندی نہیں ہے کیونکہ برکت کی ضرورت سیرابی سے زیادہ ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس امر کی اطلاع تھی لیکن آپ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو منع نہیں کیا۔
(فتح الباري: 127/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5639