لیث نے ابن شہاب سے خبر دی، انہوں عبید اللہ بن عبد اللہ سے، انہوں نے حضرت ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ وہ اپنے بچے کو، جس نے ابھی کھانا شروع نہ کیا تھا، لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اسے آپ کی گود میں ڈال دیا تو اس نے پیشاب کر دیا، آپ نے اس پر پانی چھڑکنے سے زیادہ کچھ نہ کیا۔
حضرت ام قیس بنت محصن رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ وہ اپنے بچے کو جس نے ابھی کھانا کھانا شروع نہیں کیا تھا لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اسے آپصلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں رکھ دیا، یعنی بٹھا دیا اس نے پیشاب کر دیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پانی چھڑکنے سے زیادہ کچھ نہیں کیا۔
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 223
´بچوں کے پیشاب کے بارے میں` «. . . عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ أُمِّ قَيْسٍ بِنْتِ مِحْصَنٍ، " أَنَّهَا أَتَتْ بِابْنٍ لَهَا صَغِيرٍ لَمْ يَأْكُلِ الطَّعَامَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَجْلَسَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجْرِهِ، فَبَالَ عَلَى ثَوْبِهِ، فَدَعَا بِمَاءٍ فَنَضَحَهُ وَلَمْ يَغْسِلْهُ " . . . .» ”. . . عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ (بن مسعود) سے یہ حدیث روایت کرتے ہیں، وہ ام قیس بنت محصن نامی ایک خاتون سے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں اپنا چھوٹا بچہ لے کر آئیں۔ جو کھانا نہیں کھاتا تھا۔ (یعنی شیرخوار تھا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی گود میں بٹھا لیا۔ اس بچے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے پر پیشاب کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگا کر کپڑے پر چھڑک دیا اور اسے نہیں دھویا . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ بَوْلِ الصِّبْيَانِ:: 223]
تشریح: شیرخوار بچہ جس نے کچھ بھی کھانا پینا نہیں سیکھا ہے، اس کے پیشاب پر پانی کے چھینٹے کافی ہیں۔ مگر یہ حکم صرف مرد بچوں کے لیے ہے۔ بچیوں کا پیشاب بہرحال دھونا ہی ہو گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 223
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 36
´شیر خوار بچے کا پیشاب` «. . . عن ام قيس ابنة محصن: انها اتت بابن لها صغير لم ياكل الطعام إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاجلسه رسول الله صلى الله عليه وسلم فى حجره فبال على ثوبه، فدعا بماء فنضحه ولم يغسله . . .» ”. . . ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ اپنے چھوٹے بچے کو جس نے ابھی کھانا شروع نہیں کیا تھا، لے کر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کو اپنی گود میں بٹھا لیا، پھر اس بچے نے آپ کے کپڑوں پر پیشاب کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا، پھر آپ نے کپڑے پر پانی چھڑکا اور اسے نہ دھویا . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 36]
تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 223، من حديث مالك به و رواه مسلم 287، من حديث ابن شهاب الزهري به]
تفقہ ➊ ایسے بچے جنہوں نے ابھی روٹی وغیرہ کھانا شروع نہیں کی، ان کے پیشاب کی جگہ پر صرف پانی چھڑکنے اور وہ نابالغہ بچی جس نے ابھی روٹی وغیرہ کھانی شروع نہیں کی، اس کے پیشاب کی جگہ کو دھونے والی حدیث متواتر ہے۔ دیکھئے: [نظم المتناثر 37] ➋ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی چھوٹے بچوں سے بھی پیار و محبت اور شفقت کا برتاؤ کرتے تھے۔ الله تعالیٰ نے آپ کو رحمت للعالمین بنا کر بھیجا۔ صلی اللہ علیہ وسلم ➌ شیر خوار بچہ اگر کپڑے یا جسم پر پیشاب کر دے تو متاثرہ مقام کو دھونا ضروری نہیں ہے بلکہ صرف پانی چھڑک دینا ہی کافی ہے۔ دیکھئے: [موطأ امام مالک: ح: 461] ➍ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے چھوٹے بچے کے پیشاب سے متاثرہ حصے کے بارے میں فرمایا: ”اس پر پانی چھڑکنا چاہئے۔“[مصنف ابن ابي شيبه 119/1 ح1274، وسنده صحيح] ➎ ام قیس کا نام جزامہ بنت وہب بن محصن ہے۔ رضی اللہ عنہا ➏ اس پر اجماع ہے کہ کھانا کھانے والے ہر آدمی کا پیشاب نجس ہے۔ [التمهيد 109/9] ➐ کتاب و سنت کے مقابلے میں ہر قیاس مردود ہے۔ ➑ سیدنا ابوالسمح رضی اللہ عنہ سے مروی ایک مرفوع حدیث میں آیا ہے کہ بچی کے پیشاب کی وجہ سے دھویا جاتا ہے اور بچے کے پیشاب کی وجہ سے پانی چھڑکا جاتا ہے۔ [سنن ابي داؤد 376 وسنده صحيح وصححه ابن خزيم: 283 والحاكم: 166/1، والذهبي] اس حدیث کو حافظ ابن عبد البر کا ضعیف قرار دینا غلط ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 56
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 223
´ بچوں کے پیشاب کے بارے میں` «. . . عَنْ أُمِّ قَيْسٍ بِنْتِ مِحْصَنٍ، " أَنَّهَا أَتَتْ بِابْنٍ لَهَا صَغِيرٍ لَمْ يَأْكُلِ الطَّعَامَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَجْلَسَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجْرِهِ، فَبَالَ عَلَى ثَوْبِهِ، فَدَعَا بِمَاءٍ فَنَضَحَهُ وَلَمْ يَغْسِلْهُ . . .» ”. . . عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ (بن مسعود) یہ حدیث روایت کرتے ہیں، وہ ام قیس بنت محصن نامی ایک خاتون سے کہ` وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں اپنا چھوٹا بچہ لے کر آئیں۔ جو کھانا نہیں کھاتا تھا۔ (یعنی شیرخوار تھا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی گود میں بٹھا لیا۔ اس بچے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے پر پیشاب کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگا کر کپڑے پر چھڑک دیا اور اسے نہیں دھویا . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ بَوْلِ الصِّبْيَانِ: 223]
تخريج الحديث: [164۔ البخاري فى: 4 كتاب الوضوء: 59 باب بول الصبيان 223، مسلم 287، حميدي 343، بغوي 294] لغوي توضيح: «حِجْر» گود۔ «فَنَضَحَهُ» اس پر چھینٹے مارے یا پانی چھڑکا۔ فھم الحدیث: معلوم ہوا کہ دودھ پیتے بچے کا پیشاب نجس نہیں یہی وجہ ہے کہ آپ نے اس دھویا نہیں۔ البتہ اگر بچی ہو تو اس کا پیشاب نجس ہے خواہ وہ دودھ ہی پیتی ہو جیسا کہ فرمان نبوی ہے کہ دودھ پیتے لڑکے کے پیشاب پر چھینٹے مارے جائیں اور لڑکی کے پیشاب کو دھویا جائے۔ [صحيح: صحيح أبوداود: كتاب الطهارة 364، أبو داود 378، ترمذي 610]
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 164
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 26
«والنجاسات هي غائط الإنسان وبوله إلا الذكر الرضيع» ”اور نجاستیں یہ ہیں: مطلق طور پر انسان کا پیشاب اور پاخانہ۔ مگر دودھ پیتے بچے کا پیشاب (نجس نہیں)۔“
جیسا کہ دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ حضرت ابوالسمح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «يُغْسَلُ مِنْ بَوْلِ الْجَارِيَةِ، وَيُرَشُّ مِنْ بَوْلِ الْغُلَامِ» ”لڑکی کے پیشاب سے آلودہ کپڑا دھویا جائے گا اور لڑکے کے پیشاب سے آلودہ کپڑے پر پانی کے چھینٹے مارے جائیں گے۔“[أبو داود 376]۱؎
➋ اس معنی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی مرفوع روایت مروی ہے: «بول الغلام الرضيع ينضح و بون الجارية يغسله»[أبو داود 378]۲؎
➌ حضرت ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ وہ اپنے چھوٹے بچے کو لے کر، جو کہ ابھی کھانا نہیں کھاتا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، اس بچے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے پر پیشاب کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا اور «وفنضحه ولم يغسله» اس کپڑے پر پانی کے چھینٹے مارے اور اسے دھویا نہیں۔ [بخاري 223]۳؎
➍ حضرت ام فضل رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث میں ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں پیشاب کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دھویا نہیں (بلکہ چھینٹے مارنے پر ہی اکتفاء کیا)۔ [أبوداود 375]۴؎
➎ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بچہ لایا گیا، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیشاب کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوا کر اس پر پھینک دیا «ولم يغسله»”اور اسے دھویا نہیں۔“[بخاري 222]۵؎
اس مسئلہ میں علماء نے تین مذاہب اختیار کیے ہیں۔
➊ (علی رضی اللہ عنہ، احمد رحمہ اللہ، اسحاق رحمہ اللہ، زہری رحمہ اللہ) ان کا موقف حدیث کے ظاہری مفہوم کے مطابق ہی ہے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا، امام ثوری، امام نخعی، امام داؤد، امام عطاء، امام ابن وہب، امام حسن اور امام مالک رحمہم اللہ اجمعین سے ایک روایت میں یہی مذہب منقول ہے۔ [شرح زرقاني على مؤطا 129/1]۶؎
➋ (اوزاعی رحمہ اللہ) لڑکا اور لڑکی دونوں کے پیشاب میں صرف چھینٹے مارنا ہی کافی ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ سے بھی اسی طرح کی ایک روایت منقول ہے۔ [المجموع 548/2]۷؎
➌ (حنفیہ، مالکیہ) دونوں کے پیشاب کو دھونا ضروری ہے۔ [الدر المختار 293/1]۸؎ (راجح) پہلا موقف راجح ہے۔ تیسرے مذہب والوں نے ان احادیث سے استدلال کیا ہے جن میں بالعموم پیشاب کے نجس ہونے کا ذکر ہے۔ حالانکہ ”مطلق کو مقید پر محمول کرنا واجب ہے۔“ اور اسی طرح ”عام کو خاص پر محمول کرنا بھی واجب ہے۔“علاوہ ازیں لڑکی کے پیشاب پر (لڑکے کے پیشاب کو) قیاس کرنا بھی فاسد ہے کیونکہ یہ واضح نص کے خلاف ہے، نیز گزشتہ صریح احادیث آخری دونوں مذاہب کو رد کرتی ہیں۔ [فتح الباري 390/1]۹؎ (ابن حزم رحمہ اللہ) اپنے قول میں منفرد ہیں کہ مذکر خواہ کوئی بھی ہو (یعنی اگرچہ جوان بھی ہو) اس کے پیشاب پر صرف چھینٹے ہی مارے جائیں گے۔ (حالانکہ حدیث میں صرف دودھ پینے والے بچے کا ہی ذکر ہے)۔ [نيل الأوطار 95/1]۱۰؎ ------------------ ۱؎[صحيح: صحيح أبو داود 362، كتاب الطهارة: باب بول الصبي يصيب الثو ب، أبو داود 376، نسائي 158/1 ابن ماجة 566، ابن خزيمة 283، بيهقي 415/2، دارقطني 130/1، حاكم 166/1] ۲؎[صحيح: صحيح أبو داود 364، كتاب الطهارة: باب بول الصبي يصيب الثوب، أبو داود 378، ترمذي 610، ابن ماجة 020، أحمد 76/1، شرح معاني الآثار 92/1، دارقطني 129/1، حاكم 160/1، بيهقي 415/2، ابن خزيمة 284، ابن حبان 247] ۳؎[بخاري 223، كتاب الوضوء: باب بول الصبيان، مسلم 287، أحمد 355/6، أبوداود 374، ترمذي 71، نسائي 157/1 ابن ماجة 524، حميدي 343، ابن الجارود 139، ابوعوانة 202/1، ابن خزيمة 144/1، شرح معاني الآثار 92/1، بيهقي 414/2، شرح السنة 284/1] ۴؎[صحيح: صحيح أبوداود 361، كتاب الطهارة: باب بول الصبي يصيب الثو ب، أبوداود 375، ابن ماجة 522، شرح معاني الآثار 92/1، حاكم 166/1، بيهقي 414/2 ابن خزيمة 282، شرح السنة 385/1، طبراني كبير 5/3] ۵؎[مسلم 286، كتاب الطهارة: باب حكم بول الطفل الرضيع و كيفية غسله، بخاري 222، ابن ماجة 523، احمد 52/6] ۶؎[شرح زرقاني على مؤطا 129/1، الكافي 91/1، قوانين الأحكام الشرعية ص/ 47، مغني المحتاج 84/1، كشاف القناع 217/1، المهذب 49/1] ۷؎[المجموع 548/2، مغني المحتاج 84/1، شرح زرقاني على مؤطا 129/1] ۸؎[روضة الطالبين 141/1، شرح المهذب 409/2، بداية المجتهد 77/1، فتح القدير 140/1، الدر المختار 293/1] ۹؎[نيل الأوطار 96/1، تلخيص الحبير 37/1، فتح الباري 390/1، عون المعبود 33/2، فقو الأثر 62/1، الفقه الإسلامي وأدلته 311/1، سبل السلام 69/1] ۱۰؎[نيل الأوطار 95/1، الروضة الندية 76/1] ------------------
فقہ الحدیث، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 143
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 303
´دودھ پینے والے بچے کے پیشاب کا حکم۔` ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ اپنے ایک چھوٹے بیٹے کو جو ابھی کھانا نہیں کھاتا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی گود میں بٹھا لیا، تو اس نے آپ کے کپڑے پر پیشاب کر دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگایا، اور اس سے کپڑے پر چھینٹا مار، اور اسے دھویا نہیں۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 303]
303۔ اردو حاشیہ: ➊ چھوٹا بچہ جس نے ابھی کھانا شروع نہ کیا ہو، اس کے پیشاب کی صفائی میں رعایت دی گئی ہے کہ اس پر پانی چھڑک دیا جائے۔ باقاعدہ نچوڑ کر دھونا ضروری نہیں، مگر یہ رعایت صرف لڑکے کے لیے ہے، لڑکی کے لیے نہیں، مگر بعض فقہاء نے اس تفریق کو تسلیم نہیں کیا۔ وہ دونوں صورتوں میں دھونے ہی کے قائل ہیں لیکن صحیح حدیث کو رائے سے رد کر دینا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ شریعت نے اس کے علاوہ اور کئی جگہوں پر اس قسم کا فرق روا رکھا ہے، مثلاً: جو شخص اونٹ کا گو شت کھائے، وہ نماز کے لیے وضو کرے گا اور دوسرے حلال جانوروں کا گو شت کھانے سے نماز کے لیے وضو کا حکم نہیں ہے اگر وہ پہلے سے باوضو ہے۔ دیکھیے: [صحيح مسلم، الحيض، حديث: 360] اگر لڑکے اور لڑکی میں فرق کر دیا تو اسے خو ش دلی سے قبول کرنا چاہیے۔ کسی بھی شرعی حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دینا اہل ایمان کا شیوہ ہے۔ اسے اپنی رائے یا قیاس، اپنی پسند یا ناپسند کی سان پر نہیں چڑھانا چاہیے ورنہ شریعت کا حکم تو باقی رہے گا اور سان ٹوٹ جائے گی۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے لڑکی اور لڑکے کے درمیان فرق کی یہ توجیہ کی ہے کہ بچے کو لوگ زیادہ اٹھاتے ہیں۔ ظاہر ہے اس کے پیشاب میں زیادہ لوگ مبتلا ہوں گے اور جو چیز جتنی عام ہو، اتنی اس میں تخفیف کی جانی چاہیے، بخلاف بچی کے کہ اسے کم ہی اٹھاتے ہیں، خصوصاًً جب وہ اتنی چھوٹی ہو۔ ➋ «فَنَضَحَهُ»”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (پیشاب) پر پانی چھڑکا۔“ یہاں «نضح» سے مراد پانی چھڑکنا اور چھینٹے مارنا ہے، پانی بہانا یا دھونا مراد نہیں ہے جیسا کہ «وَلَمْ يَغْسِلْهُ»”اور اسے دھویا نہیں“ سے اس کی تائید ہوتی ہے کیونکہ صحیح احادیث میں اس بات کی صراحت موجود ہے: ”لڑکی کا پیشاب دھویا جائے اور لڑکے کے پیشاب پر چھینٹے مارے جائیں، جب تک ان کی خوراک صرف دودھ ہو۔“ ہاں! جب لڑکا دودھ کے ساتھ ساتھ کوئی اور خوراک، مثلاًً: دلیہ، روٹی یا دہی اور چاول وغیرہ کھانا شروع کر دے تو پھر اس کا پیشاب بھی دھویا جائے گا۔ دیکھیے: [سنن أبى داود، الطهارة، أحا ديث: 376- 379] ➌ بچوں کے ساتھ پیار و محبت کرنی چاہیے۔ اگر ان کی طرف سے کوئی تکلیف پہنچے تو پھر بھی ان سے نرمی اور شفقت سے پیش آنا چاہیے۔ ➍ نیک لوگوں کے پاس دعا کے لیے جانا چاہیے۔ «والله أعلم»
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 303
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 71
´دودھ پیتے بچے کے پیشاب پر پانی چھڑک لینا کافی ہے۔` ام قیس بنت محصن رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں اپنے بچے کو لے کر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئی، وہ ابھی تک کھانا نہیں کھاتا تھا ۱؎، اس نے آپ پر پیشاب کر دیا تو آپ نے پانی منگوایا اور اسے اس پر چھڑک لیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 71]
اردو حاشہ: 1؎: یعنی اس کی غذا صرف دودھ تھی، ابھی اس نے کھانا شروع نہیں کیا تھا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 71
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 667
حضرت ام قیس بنت محصن رضی اللہ تعالی عنہا (جو سب سے پہلے ہجرت کرنے والی ان عورتوں میں سے ہیں، جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی بیعت کی تھی، اور یہ عکاشہ بنت محصن جو بنو اسد بن خزیمہ کے ایک فرد ہیں کی بہن ہیں) بیان کرتی ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں اپنا بیٹا لے کر حاضر ہوئی جو ابھی کھانا کھانے کی عمر کو نہیں پہنچا تھا، عبیداللہ کہتے ہیں، اس نے مجھے بتایا میرے اس بیٹے نے رسول اللہ ﷺ کی گود میں بول کر دیا، تو رسول اللہ ﷺ نے پانی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:667]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: 1۔ ان احادیث میں صرف ان شیر خواربچوں کے پیشاب کا ذکرہے جو کھانا نہیں کھاتے بچیوں اور ان بچوں کے پیشاب کا ذکر نہیں جو کھانا کھاتے ہیں۔ 2۔ ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ نے شیر خوار بچہ جو کھانا نہیں کھاتا تھا، کے پیشاب پر چھینٹے مارے ہیں، اس کو اچھی طرح دھویا نہیں ہے۔ لہٰذا ایسے بچے کے پیشاب پر جب وہ کسی کپڑے پر کر دے، پانی چھڑک دینا کافی ہے عام نجاست کی طرح دھونے کی ضرورت نہیں ہے۔ شیر خوار بچوں کے سلسلہ میں ائمہ کو موقف مندرجہ ذیل ہے: 1۔ شیرخوار بچہ ہو یا بچی دونوں کے پیشاب کو دھونا ضروری ہے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور مالکیہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہی نظریہ ہے۔ 2۔ شیر خوار بچہ ہو یا بچی دونوں کے پیشاب پر چھینٹے مارنا کافی ہے امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ کی رائے یہی ہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا ایک قول بھی یہی ہے۔ 3۔ شیر خوار بچہ کے بول پر پانی چھڑکنا کافی ہے اور شیر خوار بچی کے بول کو دھونا پڑے گا امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اسحاق رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور قول یہی ہے اور شافعی اس قول کو اختیار کرتے ہیں مذکورہ بالا حدیث سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ اگر شیرخوار بچہ روٹی کھانے لگے تو پھر بالاتفاق اس کے بول کو دھونا ہو گا۔ (صحیح مسلم مع نووی ج: 1، ص: 139)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 667
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:223
223. حضرت ام قیس بنت محصن ؓ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس اپنا چھوٹا بچہ لے کر آئیں جو ابھی کھانا نہیں کھاتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے اپنی گود میں بٹھا لیا تو اس نے آپ کے کپڑے پر پیشاب کر دیا۔ آپ نے پانی منگوا کر اس پر چھڑک دیا لیکن اسے دھویا نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:223]
حدیث حاشیہ: 1۔ ان احادیث میں بچوں کے پیشاب کا حکم بیان ہوا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ پیشاب بچے کا ہو یا بچی کا دونوں ہی ناپاک ہیں، البتہ حالات وظروف کے پیش نظر بچے کے پیشاب کے متعلق تخفیف ہے۔ بچہ اگر پیشاب کردے تو س پر پانی چھڑک دینا کافی ہے، البتہ بچی کے پیشاب کو دھونا ہوگا۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث میں اس کی صراحت منقول ہے: ”بچے کے پیشاب پر پانی چھڑکا جائے اور بچی کے پیشاب کو دھویاجائے۔ “(سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 377) لیکن بچے کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ دودھ کے علاوہ اور کوئی غذا نہ کھاتاہو۔ حضرت لبابہ بنت حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بچی کا پیشاب دھویاجائے اور بچے کے پیشاب پر پانی چھڑک دیا جائے۔ “(سنن أبي داود، الطھارۃ، حدیث 375) حضرت ابوالسمح کی روایت میں بچے کے پیشاب پر رش کرنے کے الفاظ ہیں۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 376) واضح رہے کہ نضح کا استعمال جب کپڑے کے ساتھ ہو تو اس سےمراد تھوڑا تھوڑا پانی بہانا ہوتا ہے، جسے رش (چھڑکنا) بھی کہاجاتا ہے۔ 2۔ لڑکے کے پیشاب کے لیے طریقہ تطہیر میں تخفیف کیوں رکھی گئی ہے؟ اس کی وجہ بیان کی گئی ہے کہ لڑکی کے مقابلے میں لڑکے کے ساتھ تعلق خاطر زیادہ ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ لڑکے کواٹھانے والے والدین کے علاوہ دیگرخویش واقارب اور دوست احباب بہت ہوتے ہیں جبکہ لڑکی کو اٹھانے والے اس کے مقابلے میں کم ہوتے ہیں، جب کسی معاملے میں ابتلاء زیادہ ہو تو شریعت اس پر تخفیف کردیتی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس توجیہ کو قوی قراردیا ہے۔ (فتح الباري: 427/1) بعض حضرات نے لکھا ہے کہ لڑکے کے مزاج میں حرارت (گرمی) غالب ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس کے مزاج میں لطافت ہوتی ہے، اس لطافت کی وجہ سے صرف پانی کا بہادینا کافی ہے، کیونکہ ایسا کرنے سے پیشاب کے اجزاء کپڑے سے نکل جائیں گے، لیکن لڑکی کے مزاج میں برودت (ٹھنڈک) کی وجہ سے کثافت ہوتی ہے، اس بنا پر اس کے پیشاب میں بھی کثافت کے اثرات ہوتے ہیں جو صرف پانی کے بہاؤ سے زائل نہیں ہوتے جب تک انھیں اچھی طرح دھویا نہ جائے۔ بعض حضرات لڑکے اور لڑکی کے پیشاب میں فرق نہیں کرتے، بلکہ کہتے ہیں کہ دونوں کی طہارت دھونے سے ہوگی، حالانکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ایک روایت بایں الفاظ مروی ہے کہ آپ نے پیشاب پر پانی بہادیا اور اسے دھویا نہیں۔ (صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 662 (286) ) اور ام قیس والی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے پانی چھڑکنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کیا۔ (صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 665 (287) ) بلکہ بعض روایات میں ہے کہ آپ نے ایک ہی دفعہ اس پر پانی بہایا۔ (صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 663(286) لیکن اصلاحی صاحب کے تدبر کا نتیجہ بایں الفاظ ظاہر ہوتا ہے: ”یہ بات کہ لڑکے اور لڑکیوں کے پیشاب میں کوئی فرق نہیں تو اس کی کوئی علت نہیں۔ “(تدبر حدیث: 305/1) ہم نے وضاحت کی ہے کہ یہ رخصت اس وقت تک کے لیے ہے جب بچہ دودھ کے علاوہ اور کوئی چیز نہ کھاتا ہو لیکن اصلاحی صاحب کی سنیے فرماتے ہیں: ” یہ بات کہ بچہ ابھی کھانا نہیں کھاتا تھا کس کی وضاحت ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ بات آنحضرت ﷺ نے نہیں فرمائی۔ یہ بات بچے کی ماں نے کہی یا ابن شہاب نے گھسائی ہے اوراپنا فقہی مذہب روایت میں ڈال دیا ہے۔ “(تدبر حدیث: 315/1) ہم عرض کریں گے کہ اس کج بحثی کی یہاں ضرورت ہی کیا ہے کہ کھانا نہ کھانے کی وضاحت کس نے کی ہے؟ اصل مسئلہ توحدیث سے ثابت ہورہا ہے کہ شیر خوار بچے کے پیشاب پر پانی کا بہا دینا یا چھڑک دینا کافی ہے۔ اس کی بابت اصلاحی صاحب کا ”تدبر“ خاموش ہے، حالانکہ اصل ضرورت تو مسئلے کی نوعیت کو واضح کرنا ہے وہ ان کے” تدبر“ میں کہیں بھی نہیں۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان صاحب کا مقصد احادیث کی تشریح وتوضیح نہیں بلکہ صرف یہ ہے کہ ان میں شکوک وشبہات پیدا کرکے یا امام زہری کے خلاف زہر افشانی کرکے انکار حدیث کا راستہ ہموار کیا جائے۔ ھداھم اللہ تعالیٰ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 223