ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے سیاحت کی اجازت دے دیجئیے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کی سیاحت اللہ کے راہ میں جہاد کرنا ہے“۔
Narrated Abu Umamah: A man said: Messenger of Allah, allow tourism for me. The Prophet ﷺ said: The tourism of my people is striving in the path of Allah, the Exalted.
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2480
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (724)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2486
فوائد ومسائل: 1۔ سیروسیاحت کی عام عرفی مفہوم میں شریعت کے اندر کوئی حیثیت نہیں، جیسے کے خوش حال بے فکرے لوگ کسی اہم مقصد کے بغیر ہی ملک ملک گھومتے پھرتے ہیں۔ اس میں بالمعوم مال کا اسراف ہے۔ اور وقت کا ضاع بھی۔ شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی۔ جبکہ مسلمان کی پوری زندگی با مقصد اعمال میں بسر ہوتی ہے۔ اسلام میں اس کا نعم البدل جہاد ہے۔ اور قرآن مجید میں جوکئی مقامات (سِيرُوا فِي الْأَرْضِ) کا حکم ہے۔ وہ علم اور تدبر فی الانفس والآفاق کی غرض سے ہے۔ اس نیت سے سیاحت میں کوئی حرج نہیں۔ اور جہاد کی سیاحت ان سب اغراض کی جامع ہے۔
2۔ صوفیاء کی سیاحت کا شریعت میں کوئی جواز نہیں سوائے اس کے کہ تعلیم وتعلم کی غرض سے ہو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2486