سعد بن عثمان کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو بخارا میں ایک سفید خچر پر سوار دیکھا وہ سیاہ خز ۱؎ کا عمامہ باندھے ہوئے تھے اس نے کہا: یہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہنایا ہے۔
وضاحت: ۱؎: خز: ایک قسم کا ریشمی اونی کپڑا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/تفسیر القرآن سورة الحاقة 67 (3321)، (تحفة الأشراف: 15578) (ضعیف الإسناد)»
Narrated Saad: I saw a man riding on a white mule and he had a black turban of silk and wool. He said: The Messenger of Allah ﷺ put it on me. This is the version of Uthman, and there is the word akhbara in his tradition.
USC-MSA web (English) Reference: Book 33 , Number 4027
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (3321) سعد بن عثمان،لم يوثقه غير ابن حبان فھو مجهول كما في التحرير (2250) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 144
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4038
فوائد ومسائل: اون اور ریشم کے مرکب لباس کو خز کہا جاتا ہے۔ (ابن الأثیر) جبکہ علامہ منذری رضی اللہ کا کہنا ہے کہ خرگوش کے بالوں سے بنے لباس کو خز کہتے ہیں اور اصلایہ لفظ نر خرگوش پر بولا جاتا ہے۔ بعض مواقع پر مطلقا ریشم کے معنی بھی مستعمل ہے۔ خالص ریشم کا استعمال مردوں کے لئے حرام ہے۔ مخلوط اور مرکب میں اختلاف ہے، جبکہ کئی صحابہ وتابعین سے مروی ہے کہ وہ حضرات اس قسم کا لباس استعمال کرتے تھے جن روایات میں منع کا بیان ہے، وہ اس معنی میں ہیں کہ غیر مسلم اور مرفہ الحال لوگوں سے مشابہت نہ ہو۔ خرگوش یا اس قسم کی دیگر اشیا سے بنے لباس پہننا جائز ہے، جیسے کہ آج کل کا مصنوعی ریشم ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4038
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3321
´سورۃ الحاقہ سے بعض آیات کی تفسیر۔` عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن سعد رازی سے روایت ہے کہ ان کے باب عبداللہ نے ان کو خبر دی، انہوں نے کہا: میں نے ایک شخص کو بخارا میں خچر پر سوار سر پر سیاہ عمامہ باندھے ہوئے دیکھا وہ کہتا تھا: یہ وہ عمامہ ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پہنایا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3321]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: باب سے اس حدیث کا ظاہری تعلق نہیں ہے، اسے صرف یہ بتانے کے لیے ذکر کیا گیا ہے کہ اس سے پہلے مذکورہ حدیث کی سند میں جس میں عبدالرحمن بن سعد کا ذکرہے اس سے یہی عبدالرحمن بن عبداللہ بن سعد رازی مراد ہیں۔
نوٹ: (سند میں سعد بن عثمان الرازی الدشتکی مقبول راوی ہیں، لیکن متابعت نہ ہونے کی وجہ سے وہ لین الحدیث ہیں)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3321