سنن ابي داود سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
عربی
اردو
169. باب النظر في الصلاة
باب: نماز میں (ادھر ادھر) دیکھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 912
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ. ح وحَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ وَهَذَا حَدِيثُهُ، وَهُوَ أَتَمُّ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ الطَّائِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ عُثْمَانُ، قَالَ: دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْجِدَ فَرَأَى فِيهِ نَاسًا يُصَلُّونَ رَافِعِي أَيْدِيهِمْ إِلَى السَّمَاءِ، ثُمَّ اتَّفَقَا، فَقَالَ:" لَيَنْتَهِيَنَّ رِجَالٌ يَشْخَصُونَ أَبْصَارَهُمْ إِلَى السَّمَاءِ". قَالَ مُسَدَّدٌ فِي الصَّلَاةِ:" أَوْلَا تَرْجِعُ إِلَيْهِمْ أَبْصَارُهُمْ".
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ کچھ لوگ نماز میں اپنے ہاتھ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعا کر رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو لوگ نماز میں اپنی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں انہیں چاہیئے کہ اس سے باز آ جائیں ورنہ (ہو سکتا ہے کہ) ان کی نگاہیں ان کی طرف واپس نہ لوٹیں یعنی بینائی جاتی رہے“۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 912]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الصلاة 26 (430)، سنن النسائی/ السہو 5 (1185)، (تحفة الأشراف: 2128)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 68 (1045)، مسند احمد (5/108) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي:صحيح
انظر الحديث السابق (661)
انظر الحديث السابق (661)
الرواة الحديث:
تخريج الحديث:
کتاب | نمبر | مختصر عربی متن |
|---|---|---|
صحيح مسلم |
966
| لينتهين أقوام يرفعون أبصارهم إلى السماء في الصلاة أو لا ترجع إليهم |
سنن أبي داود |
912
| لينتهين رجال يشخصون أبصارهم إلى السماء |
سنن ابن ماجه |
1045
| لينتهين أقوام يرفعون أبصارهم إلى السماء أو لا ترجع أبصارهم |
بلوغ المرام |
193
| لينتهين اقوام يرفعون ابصارهم إلى السماء في الصلاة، او لا ترجع إليهم |
سنن ابوداود کی حدیث نمبر 912 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 912
912۔ اردو حاشیہ:
نماز کے دوران میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھانا جائز ہے، جیسے کہ قنوت میں اٹھائے جاتے ہیں اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی اللہ کی حمد کے لئے اٹھائے تھے۔ دیکھئے: (حدیث۔ 940۔ 941) لیکن نظریں آسمان کی طرف اٹھانا صحیح نہیں، اس حدیث میں انکار نظریں اٹھانے پر ہے، نہ کہ ہاتھ اٹھانے پر۔
نماز کے دوران میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھانا جائز ہے، جیسے کہ قنوت میں اٹھائے جاتے ہیں اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی اللہ کی حمد کے لئے اٹھائے تھے۔ دیکھئے: (حدیث۔ 940۔ 941) لیکن نظریں آسمان کی طرف اٹھانا صحیح نہیں، اس حدیث میں انکار نظریں اٹھانے پر ہے، نہ کہ ہاتھ اٹھانے پر۔
[سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعیدی، حدیث/صفحہ نمبر: 912]
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 193
نماز كے دوران ميں آسمان کی جانب نظریں اٹھانا حرام ہے
«. . . وعن جابر بن سمرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: لينتهين اقوام يرفعون ابصارهم إلى السماء في الصلاة، او لا ترجع إليهم . . .»
”. . . سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مسلمان قوم نماز میں اپنی نظریں آسمان کی جانب اٹھانے سے باز آ جائے ورنہ ایسا نہ ہو کہ پھر ان کی نظریں واپس ہی نہ آئیں . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 193]
«. . . وعن جابر بن سمرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: لينتهين اقوام يرفعون ابصارهم إلى السماء في الصلاة، او لا ترجع إليهم . . .»
”. . . سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مسلمان قوم نماز میں اپنی نظریں آسمان کی جانب اٹھانے سے باز آ جائے ورنہ ایسا نہ ہو کہ پھر ان کی نظریں واپس ہی نہ آئیں . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 193]
� لغوی تشریح:
«لِيَنْتَهِيَنَّ» انتھاء سے ماخوذ ہے اور اس میں لام، قسم محذوف کے جواب میں آیا ہے۔ آخر میں نون مشددہ تاکید کے لیے ہے اور یہ خبر امر کے معنی میں ہے، یعنی رک جائیں، باز آجائیں۔
«أَوْ لَا تَرْجِعُ» یعنی ان کی نظریں واپس نہیں لوٹیں گی۔
«إِلَيْهِمْ» ان کی طرف، یعنی وہ نابینے ہو کر رہ جائیں گے۔ دونوں میں سے ایک کا وقوع لازمی ہے یا تو لوگ نماز میں اپنی نظریں اٹھانے سے باز آ جائیں گے یا پھر بطور سزا اللہ تعالیٰ ان کی آنکھیں چھین لے گا۔
«وَلَا وَهُوَ يُدَافِعُهُ الْأَخْبَثَانِ» یعنی اس وقت بھی نماز نہیں ہوتی جب نمازی پیشاب یا پاخانہ روک کر نماز پڑھے۔ «وَهُوَ» کی ”واؤ“ حالیہ ہے۔ اور دو خبیث چیزوں سے مراد پیشاب اور پاخانہ ہے۔ مدافعت باب مفاعلہ ہے جس میں مشارکت کا خاصا ہے۔ اس کے معنی ہیں: ایک دوسرے کو دھکیلنا۔ گویا نمازی ان کو دھکیلتا اور روکتا ہے اور وہ نمازی کو فراغت کی طرف کھینچتے اور دھکیلتے ہیں۔
فوائد و مسائل:
➊ نماز كے دوران ميں آسمان کی جانب نظریں اٹھانا حرام ہے۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ ایسا کرنے والے کی نماز ہی نہیں رہتی۔ [المحلي لا بن حزم: 74، مسئله 382] امام نووی رحمہ اللہ نے شرح صحیح مسلم میں کہا ہے کہ اس میں سخت نہی اور وعید ہے۔ انہوں نے اس نہی کے تحریمی ہونے پر علماء کا اجماع نقل کیا ہے۔ [صحيح مسلم بشرح النووي، 199/4، 200، مطبوعة مؤسسة قرطبة]
➋ اسی طرح نماز شروع کرنے سے پہلے قضائے حاجت کی اگر شدید حاجت ہو تو اسے روک کر نماز ادا نہیں کرنی چاہئیے۔ ایسی نماز نہیں ہو گی۔ بول و براز کی جب شدید حاجت ہو تو اس وقت یہ دونوں، نمازی کو ان سے فراغت کی جانب بزور کھینچ لے جانے کی کوشش کرتے ہیں جس سے نماز میں یکسوئی نہیں رہتی۔
«لِيَنْتَهِيَنَّ» انتھاء سے ماخوذ ہے اور اس میں لام، قسم محذوف کے جواب میں آیا ہے۔ آخر میں نون مشددہ تاکید کے لیے ہے اور یہ خبر امر کے معنی میں ہے، یعنی رک جائیں، باز آجائیں۔
«أَوْ لَا تَرْجِعُ» یعنی ان کی نظریں واپس نہیں لوٹیں گی۔
«إِلَيْهِمْ» ان کی طرف، یعنی وہ نابینے ہو کر رہ جائیں گے۔ دونوں میں سے ایک کا وقوع لازمی ہے یا تو لوگ نماز میں اپنی نظریں اٹھانے سے باز آ جائیں گے یا پھر بطور سزا اللہ تعالیٰ ان کی آنکھیں چھین لے گا۔
«وَلَا وَهُوَ يُدَافِعُهُ الْأَخْبَثَانِ» یعنی اس وقت بھی نماز نہیں ہوتی جب نمازی پیشاب یا پاخانہ روک کر نماز پڑھے۔ «وَهُوَ» کی ”واؤ“ حالیہ ہے۔ اور دو خبیث چیزوں سے مراد پیشاب اور پاخانہ ہے۔ مدافعت باب مفاعلہ ہے جس میں مشارکت کا خاصا ہے۔ اس کے معنی ہیں: ایک دوسرے کو دھکیلنا۔ گویا نمازی ان کو دھکیلتا اور روکتا ہے اور وہ نمازی کو فراغت کی طرف کھینچتے اور دھکیلتے ہیں۔
فوائد و مسائل:
➊ نماز كے دوران ميں آسمان کی جانب نظریں اٹھانا حرام ہے۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ ایسا کرنے والے کی نماز ہی نہیں رہتی۔ [المحلي لا بن حزم: 74، مسئله 382] امام نووی رحمہ اللہ نے شرح صحیح مسلم میں کہا ہے کہ اس میں سخت نہی اور وعید ہے۔ انہوں نے اس نہی کے تحریمی ہونے پر علماء کا اجماع نقل کیا ہے۔ [صحيح مسلم بشرح النووي، 199/4، 200، مطبوعة مؤسسة قرطبة]
➋ اسی طرح نماز شروع کرنے سے پہلے قضائے حاجت کی اگر شدید حاجت ہو تو اسے روک کر نماز ادا نہیں کرنی چاہئیے۔ ایسی نماز نہیں ہو گی۔ بول و براز کی جب شدید حاجت ہو تو اس وقت یہ دونوں، نمازی کو ان سے فراغت کی جانب بزور کھینچ لے جانے کی کوشش کرتے ہیں جس سے نماز میں یکسوئی نہیں رہتی۔
[بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 193]


تميم بن طرفة الطائي ← جابر بن سمرة العامري