مطلب بن ابی وداعہ سہمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ اپنے ساتوں پھیروں سے فارغ ہوئے حجر اسود کے بالمقابل آ کر کھڑے ہوئے، پھر مطاف کے کنارے میں دو رکعتیں پڑھیں اور آپ کے اور طواف کرنے والوں کے بیچ میں کوئی آڑ نہ تھی۔ ابن ماجہ کہتے ہیں: یہ (بغیر سترہ کے نماز پڑھنا) مکہ کے ساتھ خاص ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الحج 89 (2016)، سنن النسائی/القبلة 9 (759)، الحج 162 (2962)، (تحفة الأشراف: 11285)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/399) (ضعیف)» (سند میں کثیر بن مطلب مجہول راوی ہیں، نیز سند میں بھی اختلاف ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 928)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (2016) نسائي (759،2962) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 484
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2958
اردو حاشہ: فائدہ: یہ روایت ضعیف ہے اس لیے امام ابن ماجہ کا اس سے استدلال کرتے ہوئے یہ کہنا کہ مکے میں نمازی کے آگے سے گزرجانا جائز ہے۔ صحیح نہیں ہے بلکہ نمازی کے آگے سے گزرجانا ہر جگہ ہی ممنوع ہے۔ لوگ حرم مکی (خانہ کعبہ) اور مسجد نبوی میں اس کا خیال نہیں رکھتے تو یہ ایک کوتاہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہاں ایسا کرنا جائز ہے وہاں بھی اس سے بچنا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2958
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 759
´نمازی اور سترہ کے درمیان گزرنے کی رخصت کا بیان۔` مطلب بن ابی وداعۃ سہمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے خانہ کعبہ کا سات چکر لگایا، پھر مقام ابراہیم کے حاشیہ میں اپنے جوتوں کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھی، اور آپ کے اور طواف کرنے والوں کے درمیان کوئی (سترہ) نہ تھا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 759]
759 ۔ اردو حاشیہ: اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ خانہ کعبہ میں نمازی کے آگے سے گزرنا جائز ہے، بعض محدثین کا موقف بھی یہی ہے کہ مسجد حرام، یعنی بیت اللہ شریف میں سترے کے بارے میں نرمی ہے جس طرح کہ امام عبدالرزاق رحمہ اللہ نے اپنی ”المصنف“ میں ان الفاظ سے باب باندھا ہے: «باب: لا يقطعُ الصَّلاةَ بمكة شيء»[المصنف: 35/2] پھر اس باب کے تحت جو مرفوع حدیث بیان کی ہے، وہ یہی ”کثیر بن کثیر عن ابیه عن جدہ“ یعنی سنن نسائی والی روایت ہے۔ یہ روایت دوسری کتب سنن میں بھی موجود ہے۔ بیت اللہ میں سترے کی نرمی کے متعلق مرفوعاً یہی روایت بیان کی جاتی ہے، لیکن یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں اس روایت کے ضعف کی طرف بڑے خوبصورت اور نفیس انداز میں اشارہ فرمایا ہے۔ اس روایت کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «رجاله موتقون إلا انه معلول»”اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں مگر یہ حدیث معلول (پوشیدہ علت کی وجہ سے ضعیف) ہے۔“[فتح الباري: 745/1، تحت حدیث: 501] امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح الجامع میں ان الفاظ سے باب باندھا ہے «باب السترة بمکة و غیرھا» یعنی ”مکہ اور مکہ کے علاوہ دوسری جگہ سترے کا بیان۔“ پھر حضرت ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث بیان فرمائی ہے جس کا مفہوم یہ ہے: ابوجحیفہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطحاء مکہ میں اپنے سامنے نیزہ گاڑ کر ہمیں نماز پڑھائی۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 501] اسی طرح امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے ”المصنف“ میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا یہ اثر نقل فرمایا ہے کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے مسجد حرام، یعنی بیت اللہ شریف میں (اپنے سامنے) لاٹھی گاڑ کر نماز پڑھی۔ [مصنف ابن أبى شيبة، قدركم يستر المصلي، حديث: 2853] اس سے معلوم ہوا کہ نماز کے لیے سترے کا حکم عام ہے، چاہے مکہ، مدینہ یا کوئی اور جگہ ہو۔ بیعت اللہ شریف اور مسجد نبوی ہو یا کوئی اور مسجد، نمازی کے لیے سترہ بہرحال ضروری ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ «لاتصل إلا الی سترة»[صحیح ابن خزیمة: 10/2، حدیث: 800] یعنی ”سترے ہی کی طرف نماز پڑھو۔“ نیز فرمایا: «إذا صلّى أحدُكم فلْيُصلِّ إلى سُترةٍ ولْيدنُ منها»[سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 695] ”جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے تو وہ سترے کی طرف پڑھے اور سترے کے قریب کھڑا ہو۔“ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حدیث میں وارد ہے کہ نمازی اپنے آگے سے کسی کو گزرنے نہ دے بلکہ گزرنے والے کو روکے۔ اگر کوئی نہ رکے تو اسے زبردستی روکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازی کے آگے سے گزرنے والے کو شیطان قرار دیا ہے۔ مذکورہ دلائل سے جہاں سترے کا وجوب معلوم ہوتا ہے وہاں بیت اللہ شریف میں لوگوں کے ازدحام اور ان کی کثرت کا مسئلہ بھی درپیش ہے، لہٰذا اس کا لحاظ رکھنا بھی مناسب ہے، اس لیے «فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ»[التغابن 16: 64] پر عمل کرنا چاہیے۔ حرمین شریفین میں بھی سترے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ ہاں، اضطراری صورت اس سے مستثنیٰ ہے۔ وہاں لوگوں کی کثرت کی وجہ سے کوشش کے باوجود بھی اگر سترے کا اہتمام نہیں ہو سکا تو ایسا شخص اس آیت کا مصداق قرار پائے گا: «فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ »[البقرۃ 173: 2] ان شاء اللہ۔ اس طرح کا مجبور شخص عدم سترہ کی سخت وعید سے بچ جائے گا۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 759
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2962
´طواف کی دونوں رکعتیں کہاں پڑھے؟` مطلب بن ابی وداعہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جس وقت آپ طواف کے اپنے سات پھیروں سے فارغ ہوئے، تو مطاف کے کنارے آئے، اور آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، اور آپ کے اور طواف کرنے والوں کے درمیان کسی طرح کی آڑ نہ تھی ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2962]
اردو حاشہ: (1)”کنارے کے پاس“ تاکہ طواف کرنے والوں کو دقت نہ ہو اور وہ نماز میں خلل نہ ڈالیں۔ معلوم ہوا طواف کی دو رکعتیں اگر مقام ابراہیم کے قریب پڑھنی ممکن نہ ہوں تو طواف کرنے والوں سے باہر آکر پڑھنی چاہئیں۔ بعض لوگ مقام ابراہیم کے پاس نماز پڑھنے کے لیے طواف کرنے والوں کے درمیان ہی میں نماز شروع کر دیتے ہیں، اس سے فریقین کو پریشانی ہوتی ہے۔ طواف کرنے والوں کو طواف کرنے میں اور نمازی کو اپنی نماز کی ادائیگی میں، بلکہ بسا اوقات رش کی وجہ سے نماز قطع کرنے تک کی نوبت آجاتی ہے، یہ درست نہیں بلکہ ایسی صورت میں دو رکعتیں مطاف سے باہر پڑھی جائیں۔ (2)”کوئی شخص نہ تھا“ ابوداؤد میں ہے کہ آپ کے سامنے کوئی سترہ نہ تھا۔ (سنن ابی داؤد، المناسك، حدیث: 2016) اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ مسجد حرام میں سترہ ضروری نہیں۔ لیکن یہ استدلال محل نظر ہے۔ کیونکہ مذکورہ بالا روایت اور یہ دونوں ضعیف ہیں۔ مسجد حرام ہو یا کوئی اور جگہ سترے کا اہتمام ضروری ہے جیسا کہ یہ بات رسول اللہﷺ کے قول و فعل سے ثابت ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: زاد المعاد: 1/ 305) البتہ اگر رش کی بنا پر اس کا اہتمام ممکن نہ ہو تو یہ اضطراری حالت ہے، لیکن کسی بھی صحیح حدیث سے اس کا عدم اہتمام ثابت نہیں۔ واللہ أعلم! اس مسئلے کی تفصیل پیچھے حدیث: 759 میں گزر چکی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2962
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2016
´مکہ میں نماز کا بیان۔` مطلب بن ابی وداعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو باب بنی سہم کے پاس نماز پڑھتے دیکھا، لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے گزر رہے تھے بیچ میں کوئی سترہ نہ تھا ۱؎۔ سفیان کے الفاظ یوں ہیں: ان کے اور کعبہ کے درمیان کوئی سترہ نہ تھا۔ سفیان کہتے ہیں: ابن جریج نے ان کے بارے میں ہمیں بتایا کہ کثیر نے اپنے والد سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا میں نے اسے اپنے والد سے نہیں سنا، بلکہ گھر کے کسی فرد سے سنا اور انہوں نے میرے دادا سے روایت کی ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 2016]
فوائد ومسائل: یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے الجامع الصحیح میں (کتاب الصلواة، باب السترہ بمکة، حدیث: 501) اور اس کے ضمن میں حضرت ابو حجیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صریح حدیث سے ثابت کیا ہے۔ کہ سترے کے مسئلے میں مکہ اور غیر مکہ سبھی برابر ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اشارہ ہے کہ مصنف عبدا لرزاق میں باب لايقطع الصلاة بمكة شيئ کی حدیث صحیح نہیں۔ اور وہ یہی ہے جو امام ابودائود رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کی ہے۔ (عون المعبود) اس لئے مسجد نبوی ﷺ او ر مسجد حرام میں بھی ممکن حد تک سترے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ لوگوں کے عام تساہل اور تغافل نے وہاں اس مسئلے کی اہمیت کو ختم کردیا ہے۔ جو یکسر غلط ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2016
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:588
588- سیدنا مطلب بن ابووداعہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بنو سہم کے دروازے کے قریب نماز ادا کرتے ہوۓ دیکھا۔ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے گزر رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور طواف کرنے والوں کے درمیان سترہ نہیں تھا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:588]
فائدہ: اس حدیث میں ہے کہ سترہ کے بغیر بھی نماز ہو جاتی ہے، لیکن اس حدیث کی سند میں بعض اھلہ مجہول ہے، اس وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے، سترے کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے، گھر، مسجد صحرا ہر جگہ سترے کا اہتمام کرنا چاہیے، مسجد اور صحرا کا فرق کرنا درست نہیں ہے، سترہ نہ واجب ہے اور نہ ہی اس کو چھوڑ نے کو معمول بنا لینا درست ہے۔ سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: «صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى الله عليه وسلم فى فضاء ليس بين يديه شيء»”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھلی جگہ نماز پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی چیز (بطور سترہ) نہیں تھی“۔ [المصنف لابن ابي شيبه باب من رخص فى الفضاء أن يصلى بها: 312/1، مسند أحمد: 1966 ـ مسند ابي يعلي: 23601] سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ”میں گدھی پر سوار ہو کر آیا، ان دنوں میں قریب البلوغت تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منٰی میں بغیر دیوار کے نماز پڑھ رہے تھے“۔ [صحيح البخاري: 76] ان احادیث سے ثابت ہوا کہ سترہ فرض یا واجب نہیں ہے، بلکہ مستحب ہے لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں ہے کہ اس کو مستحب سمجھ کر اس کا اہتمام نہ کیا جائے، ہاں اگر کبھی سترہ نہ مل رہا ہو تو اس صورت میں بغیر سترے کے نماز پڑھنے سے انسان گنا ہ گار نہیں ہو جاتا۔ افسوس ان لوگوں پر جو ضد میں آ کر سترہ سے بے رخی کرتے ہیں، اور اپنا معمول بنا لیتے ہیں کہ نماز سترہ کے بغیر پڑھی جائے، وہ لوگ غلطی پر ہیں، اور گناہ کے مرتکب ہورہے ہیں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا تـصـلى الا الي سترة» (سترے کے بغیر نماز نہ پڑھو)[صحيح ابن خزيمه: حديث: 800] اس سے مراد تا کید ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 588