ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب شام کا کھانا سامنے ہو اور نماز بھی تیار ہو تو پہلے کھانا کھاؤ“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 16940، 17264)، وحدیث علی بن محمد أخرجہ: صحیح مسلم/المساجد 16 (558)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأذان 42 (671)، سنن الدارمی/الصلاة 58 (1317) (صحیح)»
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث935
اردو حاشہ: فائده: نماز سے پہلے کھانا کھا لینے کا حکم شدید بھوک ہی کی صورت میں ہے۔ بصورت دیگر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے سے گریز سخت نا مناسب ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 935
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:182
فائدہ: کھانا سامنے ہو اور نماز کی اقامت کہی جائے تو پہلے کھانا کھانا چاہیے، تاکہ نماز کے خشوع و خضوع میں فرق نہ پڑے، اور نماز مکمل یکسوئی کے ساتھ ادا کی جائے۔ یہ ضابطہ تمام نمازوں کے لیے ہے۔ چونکہ نماز مغرب یا عشاء کے وقت کھانا کھایا جا تا ہے اس لیے احادیث میں ان کا ذکر ہے۔ امام صاحب اس سے مستثنٰی ہیں کیونکہ اس نے نماز پڑھانی ہوتی ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاری: 675، الأذان، الإمام إلى الصلاة وبيده مايأكل)
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 182
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5465
5465. سیدنا عائشہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جب نماز کھڑی کر دی جائے اور رات کا کھانا سامنے ہو تو پہلے عشائیہ تناول کرو۔“ وہیب اور یحییٰ بن سعید نے حضرت ہشام سے یہ الفاظ بیان کیے ہیں: ”جب رات کا کھانا چن دیا جائے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5465]
حدیث حاشیہ: یعنی کھانا سامنے آ جائے تو پہلے کھانا کھا لینا چاہیئے تاکہ پھر نماز سکون سے ادا کی جا سکے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5465
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:671
671. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: ”اگر دوران اقامت میں کھانا سامنے رکھ دیا جائے تو پہلے کھانا کھا لو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:671]
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ نے اس روایت کو دو مختلف الفاظ سے بیان کیا ہے: ایک روایت میں اِذَا حَضَرَ ہے جس کے معنی ہیں: جب وہ حاضر اور تیار ہو۔ دوسری روایت میں ہے، اِذَا وُضِعَ ”جب اسے پیش کردیا جائے۔ “ چونکہ حَضَرَکے الفاظ میں زیادہ عموم ہے، لہٰذا اسےوُضِعَ کے معنی میں لیا جائے گا۔ اس تائید دیگر روایات سے بھی ہوتی ہے جن کے الفاظ إذا قدم یا إذا قرب ہیں۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ جب کھانا موجود ہویا اسے بول وبراز مجبور کررہے ہوں تو ایسے حالات میں نماز نہیں ہوتی۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1246(560) وفتح الباري: 280/2)(2) کھانے کو نماز پر مقدم کرنے کے سلسلے میں علماء وفقہاء نے مختلف توجیہات بیان کی ہیں: بعض علماء کہتے ہیں کہ جب کھانا خراب ہونے کا اندیشہ ہوتو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ یہ قلت طعام پرمحمول ہے کہ کھانا تھوڑا ہو اور کھانے والے زیادہ ہوں اور اندیشہ ہوکہ اگر نماز شروع کردی گئی تو کھانا ختم ہوجائے گا، ایسے حالات میں پہلے کھانا کھا لیا جائے، پھر نماز پڑھی جائے۔ ہمارے نزدیک بہتر توجیہ یہ ہے کہ مذکورہ اجازت اس وقت ہے جبکہ اشتغال قلب کا اندیشہ ہو، یعنی اگر کھانا نہ کھایا جائے تو نماز میں خیال کھانے کی طرف لگا رہے۔ اگر ایسی صورت ہوتو پہلے کھانا کھائے پھر نماز پڑھے۔ امام بخاری ؒ کا میلان بھی اسی طرف معلوم ہوتا ہے کیونکہ حضرت ابو درداء ؓ کے مقولے میں اس بات کی صراحت ہے۔ امام بخاری ؒ کا رجحان عنوان کے تحت دیے گئے آثار سے معلوم ہوتا ہے۔ (فتح الباري: 20/2) والله أعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 671
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5465
5465. سیدنا عائشہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جب نماز کھڑی کر دی جائے اور رات کا کھانا سامنے ہو تو پہلے عشائیہ تناول کرو۔“ وہیب اور یحییٰ بن سعید نے حضرت ہشام سے یہ الفاظ بیان کیے ہیں: ”جب رات کا کھانا چن دیا جائے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5465]
حدیث حاشیہ: (1) ان احادیث کا تقاضا ہے کہ جب کھانا اور نماز دونوں حاضر ہوں تو پہلے کھانا کھا لینا چاہیے تاکہ دل کھانے کی طرف لٹکا نہ رہے اور نماز اطمینان و سکون سے ادا کی جائے۔ اسی طرح اگر کھانے کے دوران میں نماز کھڑی ہو جائے تو کھانا چھوڑنا نہیں چاہیے بلکہ فراغت کے بعد اطمینان سے نماز کی طرف جانا چاہیے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ”جب تم میں سے کوئی کھانے پر ہو تو جب تک اس سے اپنی ضرورت پوری نہ کر لے جلدی مت کرے اگرچہ نماز کے لیے اقامت ہی کیوں نہ کہہ دی جائے۔ “(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 674)(2) یہ ضابطہ تمام نمازوں کے لیے ہے۔ چونکہ نماز مغرب یا عشاء کے وقت کھانا کھایا جاتا ہے، اس لیے احادیث میں ان کا ذکر آیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5465