(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: حدثنا هشام بن عبد الملك، وعبد الله بن يزيد , قالا: حدثنا داود بن ابي الفرات، قال: حدثنا عبد الله بن بريدة، عن ابي الاسود الديلي، قال: اتيت المدينة فجلست إلى عمر بن الخطاب فمر بجنازة فاثني على صاحبها خيرا، فقال عمر: وجبت، ثم مر باخرى فاثني على صاحبها خيرا، فقال عمر: وجبت , ثم مر بالثالث فاثني على صاحبها شرا، فقال عمر: وجبت، فقلت: وما وجبت يا امير المؤمنين؟ قال: قلت كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ايما مسلم شهد له اربعة قالوا خيرا ادخله الله الجنة" , قلنا: او ثلاثة , قال: او ثلاثة , قلنا: او اثنان , قال: او اثنان. (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ , قَالَا: حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي الْفُرَاتِ، قال: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ الدِّيلِيِّ، قال: أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ فَجَلَسْتُ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَمُرَّ بِجَنَازَةٍ فَأُثْنِيَ عَلَى صَاحِبِهَا خَيْرًا، فَقَالَ عُمَرُ: وَجَبَتْ، ثُمَّ مُرَّ بِأُخْرَى فَأُثْنِيَ عَلَى صَاحِبِهَا خَيْرًا، فَقَالَ عُمَرُ: وَجَبَتْ , ثُمَّ مُرَّ بِالثَّالِثِ فَأُثْنِيَ عَلَى صَاحِبِهَا شَرًّا، فَقَالَ عُمَرُ: وَجَبَتْ، فَقُلْتُ: وَمَا وَجَبَتْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ؟ قال: قُلْتُ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيُّمَا مُسْلِمٍ شَهِدَ لَهُ أَرْبَعَةٌ قَالُوا خَيْرًا أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ" , قُلْنَا: أَوْ ثَلَاثَةٌ , قَالَ: أَوْ ثَلَاثَةٌ , قُلْنَا: أَوِ اثْنَانِ , قَالَ: أَوِ اثْنَانِ.
ابو اسود دیلی کہتے ہیں کہ میں مدینہ آیا تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا اتنے میں ایک جنازہ لے جایا گیا، تو اس کی تعریف کی گئی تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: واجب ہو گئی، پھر ایک دوسرا جنازہ لے جایا گیا، تو اس کی (بھی) تعریف کی گئی، تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: واجب ہو گئی، پھر ایک تیسرا جنازہ لے جایا گیا، تو اس کی مذمت کی گئی، تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: واجب ہو گئی، تو میں نے پوچھا: امیر المؤمنین! کیا واجب ہو گئی؟ انہوں نے کہا: میں نے وہی بات کہی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی: ”جس مسلمان کے لیے بھی چار لوگوں نے خیر کی گواہی دی تو اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا“، ہم نے پوچھا: (اگر) تین گواہی دیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین ہی سہی“، (پھر) ہم نے پوچھا: (اگر) دو گواہی دیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو ہی سہی“۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1936
1936۔ اردو حاشیہ: گواہی کے لیے جو شرائط ضروری ہیں، وہ ان میں پائی جائیں، یعنی وہ عادل مسلمان ہوں۔ عادل سے مراد کہ وہ شرعی فرائض کے پابند اور کبیرہ گناہوں سے محفوظ ہوں۔ ظاہر ہے اس قسم کے گواہ ہی سچی گواہی دیں گے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1936
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1368
1368. حضرت ابو الاسود سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:میں ایک دفعہ مدینہ طیبہ آیا جبکہ وہاں وبا پھیلی ہوئی تھی۔ میں سیدنا عمر ؓ کے پا بیٹھ گیا۔ ان کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو اس کی میت کی اچھی تعریف کی گئی۔ اس پر حضرت عمر ؓ نے فرمایا: واجب ہوگئی۔ پھر دوسرا جنازہ گزرا تو اس کی بھی تعریف کی گئی، تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا:واجب ہوگئی۔ پھر تیسرا جنازہ گزرا تو اس کی بُرائی بیان کی گئی اس پر آپ نے فرمایا واجب ہوگئی۔ ابوالاسود کہتے ہیں:میں نے کہا:امیرالمومنین! کیا واجب ہوگئی؟انھوں نے فرمایا:میں نے وہی کہا ہے جو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:”جس مسلمان کے لیے چار آدمی اچھی گواہی دیں تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔“ ہم نے عرض کیا:اگر تین آدمی گواہی دیں تو؟آپ ؓ نے فرمایا:”تین بھی۔“ پھر ہم نے عرض کیا:دو آدمی بھی؟آپ نے فرمایا:”دو آدمی بھی۔“ پھر ہم نے ایک شخص کی گواہی کے متعلق سوال نہیں کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1368]
حدیث حاشیہ: باب کا مقصد یہ ہے کہ مرنے والوں نیکیوں کا ذکر خیر کرنا اور اسے نیک لفظوں سے یاد کرنا بہتر ہے۔ علامہ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: فِي رِوَايَةِ الِنَضْرِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَبِيهِ عِنْدَ الْحَاكِمِ كُنْتُ قَاعِدًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمُرَّ بِجِنَازَةٍ فَقَالَ مَا هَذِهِ الْجِنَازَةُ قَالُوا جِنَازَةُ فُلَانٍ الْفُلَانِيِّ كَانَ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَعْمَلُ بِطَاعَةِ اللَّهِ وَيَسْعَى فِيهَا وَقَالَ ضِدَّ ذَلِكَ فِي الَّتِي أَثْنَوْا عَلَيْهَا شَرًّا فَفِيهِ تَفْسِيرُ مَا أُبْهِمَ مِنَ الْخَيْرِ وَالشَّرِّ فِي رِوَايَةِ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَلِلْحَاكِمِ أَيْضًا مِنْ حَدِيثِ جَابِرٍ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لَنِعْمَ الْمَرْءُ لَقَدْ كَانَ عَفِيفًا مُسْلِمًا وَفِيهِ أَيْضًا فَقَالَ بَعْضُهُمْ بِئْسَ الْمَرْءُ كَانَ إِنْ كَانَ لَفَظًّا غَلِيظًا۔ (فتح الباري) یعنی مسند حاکم میں نضربن انس عن ابیہ کی روایت میں یوں ہے کہ میں حضور ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک جنازہ وہاں سے گزارا گیا۔ آپ ﷺ نے پوچھا کہ یہ کس کا جنازہ ہے؟ لوگوں نے کہا کہ فلان بن فلان کا ہے جو اللہ اور رسول سے محبت رکھتا اور طاعت الٰہی میں عمل کرتا اور کوشاں رہتا تھا اور جس پر برائی کی گئی اس کا ذکر اس کے برعکس کیا گیا۔ پس اس روایت میں ابہام خیرو شر کی تفصیل مذکور ہے اور حاکم میں حدیث جابر بھی یوں ہے کہ بعض لوگوں نے کہا کہ یہ شخص بہت اچھا پاک دامن مسلمان تھا اور دوسرے کے لیے کہا گیا کہ وہ برا آدمی اور بداخلاق سخت کلامی کرنے والا تھا۔ خلاصہ یہ کہ مرنے والے کے متعلق اہل ایمان نیک لوگوں کی شہادت جس طور بھی ہو وہ بڑا وزن رکھتی ہے لفظ أنتُم شهداءُاللہِ في الأرضِ۔ میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔ خود قرآن مجید میں بھی یہ مضمون ان لفظوں میں مذکور ہے: ﴿وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ﴾(البقرة) ہم نے تم کو درمیانی امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بن جاؤ۔ شہادت کی ایک صورت یہ بھی ہے جو یہاں حدیث میں مذکور ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1368
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2643
2643. حضرت ابو الاسود سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں ایک دفعہ مدینہ طیبہ آیا تو وہاں ایک وبائی مرض پھیلا ہوا تھا جس میں لوگ بڑی تیزی سے فوت ہو رہے تھے۔ میں حضرت عمر ؓ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اتنے میں ایک جنازہ گزرا۔ اس کی تعریف کی گئی تو حضرت عمر ؓ نے کہا: واجب ہو گئی۔ پھر دوسرا جنازہ گزرا، اس کی بھی تعریف کی گئی تو اس کے متعلق بھی حضرت عمر ؓ نے فرمایا: واجب ہو گئی۔ پھر تیسرا جنازہ نکلا اور اس کی برائی بیان کی گئی تو سیدنا عمر ؓ نے فرمایا: واجب ہو گئی۔ میں نے عرض کیا: امیر المومنین! کیا چیز واجب ہو گئی؟ انھوں نے فرمایا: میں نے وہی کہا جو نبی ﷺ نے فرمایا تھا: ”جس مسلمان کے لیے چارآدمی اس کی نیک سیرتی کی گواہی دیں اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائےگا۔“ ہم نے عرض کیا: اگر تین آدمی گواہی دیں تو؟ فرمایا: ”تین بھی۔“ ہم نے عرض کیا: اگرصرف دو آدمی گواہی دیں تو؟ آپ نے فرمایا: ”دو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:2643]
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ نکالا کہ تعدیل اور تزکیہ کے لیے کم سے کم دو شخصوں کی گواہی ضروری ہے۔ امام مالک اور شافعی کا یہی قول ہے۔ لیکن امام ابوحنیفہ کے نزدیک ایک کی بھی گواہی کافی ہے۔ (قسطلانی) حدیث کا مطلب یہ کہ جس کی مسلمانوں نے تعریف کی اس کے لیے جنت واجب ہوگئی اور جس کی برائی کی اس کے لیے دوزخ واجب ہوگئی۔ جس کا مطلب رائے عامہ کی تصویب ہے۔ سچ ہے آوازہ خلق کو نقارہ خدا کہتے ہیں۔ مجتہد مطلق امام بخاری کا ان روایات کے لانے کامقصد یہ ہے کہ تعدیل و تزکیہ میں رائے عامہ کا کافی دخل ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2643
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1368
1368. حضرت ابو الاسود سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:میں ایک دفعہ مدینہ طیبہ آیا جبکہ وہاں وبا پھیلی ہوئی تھی۔ میں سیدنا عمر ؓ کے پا بیٹھ گیا۔ ان کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو اس کی میت کی اچھی تعریف کی گئی۔ اس پر حضرت عمر ؓ نے فرمایا: واجب ہوگئی۔ پھر دوسرا جنازہ گزرا تو اس کی بھی تعریف کی گئی، تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا:واجب ہوگئی۔ پھر تیسرا جنازہ گزرا تو اس کی بُرائی بیان کی گئی اس پر آپ نے فرمایا واجب ہوگئی۔ ابوالاسود کہتے ہیں:میں نے کہا:امیرالمومنین! کیا واجب ہوگئی؟انھوں نے فرمایا:میں نے وہی کہا ہے جو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:”جس مسلمان کے لیے چار آدمی اچھی گواہی دیں تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔“ ہم نے عرض کیا:اگر تین آدمی گواہی دیں تو؟آپ ؓ نے فرمایا:”تین بھی۔“ پھر ہم نے عرض کیا:دو آدمی بھی؟آپ نے فرمایا:”دو آدمی بھی۔“ پھر ہم نے ایک شخص کی گواہی کے متعلق سوال نہیں کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1368]
حدیث حاشیہ: (1) ایک آدمی کی گواہی کے متعلق اس لیے سوال نہ کیا گیا کہ گواہی کا نصاب کم از کم دو آدمی ہیں، چنانچہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے گواہی کا نصاب بھی ثابت کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الشھادات، حدیث: 2643) واضح رہے کہ میت کے متعلق ان لوگوں کی گواہی کا اعتبار ہو گا جو دیندار اور دیانت دار ہوں کیونکہ بدکردار اور فسق و فجور میں مبتلا تو اپنے جیسے ہی کی تعریف کریں گے۔ اور ان لوگوں کی گواہی بھی معتبر نہیں ہو گی جنہیں میت کے ساتھ دشمنی یا حسد ہو، کیونکہ دشمن کی گواہی کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ (2) ایک حدیث میں ہے کہ جب کوئی آدمی فوت ہوتا ہے اور اس کے چار قریبی پڑوسی اس کے متعلق گواہی دیں کہ ہمیں اس میں خیر کے علاوہ کوئی چیز معلوم نہیں ہوئی تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے تمہاری بات کو مان لیا اور جو عیب اور گناہ تمہیں معلوم نہیں تھے میں نے ان سے درگزر کر دیا۔ (مسندأحمد: 242/3) اس میں کوئی شک نہیں کہ میت کے لیے لوگوں کی تعریف ایک اچھی علامت ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ضرورت کے وقت کسی کی اچھائی یا برائی بیان کی جا سکتی ہے اور ایسا کرنا ممنوعہ غیبت میں سے نہیں۔ (فتح الباري: 294/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1368
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2643
2643. حضرت ابو الاسود سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں ایک دفعہ مدینہ طیبہ آیا تو وہاں ایک وبائی مرض پھیلا ہوا تھا جس میں لوگ بڑی تیزی سے فوت ہو رہے تھے۔ میں حضرت عمر ؓ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اتنے میں ایک جنازہ گزرا۔ اس کی تعریف کی گئی تو حضرت عمر ؓ نے کہا: واجب ہو گئی۔ پھر دوسرا جنازہ گزرا، اس کی بھی تعریف کی گئی تو اس کے متعلق بھی حضرت عمر ؓ نے فرمایا: واجب ہو گئی۔ پھر تیسرا جنازہ نکلا اور اس کی برائی بیان کی گئی تو سیدنا عمر ؓ نے فرمایا: واجب ہو گئی۔ میں نے عرض کیا: امیر المومنین! کیا چیز واجب ہو گئی؟ انھوں نے فرمایا: میں نے وہی کہا جو نبی ﷺ نے فرمایا تھا: ”جس مسلمان کے لیے چارآدمی اس کی نیک سیرتی کی گواہی دیں اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائےگا۔“ ہم نے عرض کیا: اگر تین آدمی گواہی دیں تو؟ فرمایا: ”تین بھی۔“ ہم نے عرض کیا: اگرصرف دو آدمی گواہی دیں تو؟ آپ نے فرمایا: ”دو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:2643]
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں حضرت عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی بیان کی ہوئی بات کو دہرایا ہے، البتہ اس حدیث میں اچھے یا برے ہونے کی گواہی دینے والوں کی تعداد کا بیان ہے کہ اگر دو اہل ایمان بھی کسی کے متعلق گواہی دیں تو اسے تسلیم کیا جائے گا، اس لیے معلوم ہوا کہ تعدیل (نیک سیرتی بیان کرنے) کے لیے کم از کم دو آدمیوں کی گواہی کافی ہے، البتہ گواہی دینے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اچھے کردار اور مثالی عقائد و نظریات کے حامل ہوں۔ امام بخاری ؒ کے دوسرے عنوانوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تزکیے کے لیے ایک آدمی کی گواہی کو کافی سمجھتے ہیں۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2643