(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا سفيان، عن الزهري، قال: اخبرني سعيد، وعروة، سمعا حكيم بن حزام، يقول: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم فاعطاني، ثم سالته فاعطاني، ثم سالته فاعطاني، ثم قال:" إن هذا المال خضرة حلوة، فمن اخذه بطيب نفس بورك له فيه، ومن اخذه بإشراف نفس لم يبارك له فيه، وكان كالذي ياكل ولا يشبع، واليد العليا خير من اليد السفلى". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدٌ، وَعُرْوَةُ، سَمِعَا حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ، يَقُولُ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ، فَمَنْ أَخَذَهُ بِطِيبِ نَفْسٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وَكَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ، وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى".
حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا تو آپ نے مجھے دیا، پھر مانگا پھر آپ نے دیا، پھر مانگا، تو فرمایا: ”یہ مال سرسبز و شیریں چیز ہے، جو شخص اسے فیاضی نفس کے ساتھ لے گا تو اس میں برکت دی جائے گی، اور جو شخص اسے حرص و طمع کے ساتھ لے گا تو اسے اس میں برکت نہ ملے گی، اور اس شخص کی طرح ہو گا جو کھاتا ہے مگر آسودہ نہیں ہوتا (یعنی مانگنے والے کا پیٹ نہیں بھرتا)۔ اوپر والا ہاتھ، نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے“۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2532
´اوپر والے ہاتھ (یعنی دینے والے) کی فضیلت کا بیان۔` حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا تو آپ نے مجھے دیا، پھر مانگا پھر آپ نے دیا، پھر مانگا، تو فرمایا: ”یہ مال سرسبز و شیریں چیز ہے، جو شخص اسے فیاضی نفس کے ساتھ لے گا تو اس میں برکت دی جائے گی، اور جو شخص اسے حرص و طمع کے ساتھ لے گا تو اسے اس میں برکت نہ ملے گی، اور اس شخص کی طرح ہو گا جو کھاتا ہے مگر آسودہ نہیں ہوتا (یعنی مانگنے والے کا پیٹ نہیں بھرتا)۔ اوپر والا ہاتھ، نیچے والے ہات [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2532]
اردو حاشہ: (1)”سبز وشیریں“ سبز چارہ جانوروں کو بہت مرغوب ہوتا ہے اور میٹھی چیز عموماً انسانوں کو بہت پسند ہوتی ہے، اس لیے مال کو دو چیزوں سے تشبیہ دی گئی۔ (2)”دل کی پاکیزگی۔“ یعنی دل میں طمع اور لالچ نہ ہو اور نہ اس نے مانگا ہی ہو۔ یا دینے والے نے اسے خوشی سے دیا ہو، نہ کہ مجبوراً یا بغیر مانگے دیا ہو۔ (3)”دل کے طمع وحرص۔“ یعنی لینے والے کی یہ حالت ہو یا دینے والے نے طمع اور لالچ سے دیا ہو کہ مجھے زیادہ واپس ملے گا۔ (4)”سیر نہیں ہوتا۔“ کیونکہ دل غنی نہیں۔ دل غنی ہو تو تھوڑا بھی کافی محسوس ہوتا ہے ورنہ ڈھیر بھی مطمئن نہیں کر سکتے۔ (5)”اوپر والا ہاتھ۔“ یعنی دینے والا کیونکہ وہ بلند رہتا ہے۔ کسی کے سامنے ذلیل نہیں ہوتا۔ (6)”نیچے والے ہاتھ“ یعنی مانگنے والا۔ وہ حقیقتاً بھی دینے والے کے ہاتھ کے نیچے ہوتا ہے اور رتبے کے لحاظ سے بھی کم ہوتا ہے۔ (7) حدیث کا مقصود یہ ہے کہ انتہائی حاجت کے بغیر نہیں مانگنا چاہیے اور اگر خود بخود ملے تو پھر بھی دل میں حرص وطمع نہیں ہونا چاہیے اور جب ضرورت پوری ہو جائے تو مانگنے سے رک جانا چاہیے بلکہ کسی کا دیا بھی قبول نہ کرے۔ اس میں عزت ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 2532