English
🏠 💻 📰 👥 🔍 🧩 🅰️ 📌 ↩️

سنن نسائي سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
عربی
اردو
حدیث کتب میں نمبر سے حدیث تلاش کریں:

سنن نسائی میں ترقیم شاملہ سے تلاش کل احادیث (5761)
حدیث نمبر لکھیں:
حدیث میں عربی لفظ/الفاظ تلاش کریں
عربی لفظ / الفاظ لکھیں:
حدیث میں اردو لفظ/الفاظ تلاش کریں
اردو لفظ / الفاظ لکھیں:
183. باب : أين يقصر المعتمر
باب: عمرہ کرنے والا بال کہاں کتروائے؟
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 2990
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُسْلِمٍ، أَنَّ طَاوُسًا أَخْبَرَهُ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ ," أَنَّهُ قَصَّرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِشْقَصٍ فِي عُمْرَةٍ عَلَى الْمَرْوَةِ".
معاویہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے مروہ پر ایک عمرہ کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال تیر کے لمبے پھل سے کترے۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2990]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر حدیث رقم: 2738 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن

الرواة الحديث:
اسم الشهرة
الرتبة عند ابن حجر/ذهبي
أحاديث
👤←👥معاوية بن أبي سفيان الأموي، أبو عبد الرحمنصحابي
👤←👥عبد الله بن العباس القرشي، أبو العباس
Newعبد الله بن العباس القرشي ← معاوية بن أبي سفيان الأموي
صحابي
👤←👥طاوس بن كيسان اليماني، أبو عبد الرحمن
Newطاوس بن كيسان اليماني ← عبد الله بن العباس القرشي
ثقة إمام فاضل
👤←👥الحسن بن مسلم الخزاعي
Newالحسن بن مسلم الخزاعي ← طاوس بن كيسان اليماني
ثقة
👤←👥ابن جريج المكي، أبو خالد، أبو الوليد
Newابن جريج المكي ← الحسن بن مسلم الخزاعي
ثقة
👤←👥يحيى بن سعيد القطان، أبو سعيد
Newيحيى بن سعيد القطان ← ابن جريج المكي
ثقة متقن حافظ إمام قدوة
👤←👥محمد بن المثنى العنزي، أبو موسى
Newمحمد بن المثنى العنزي ← يحيى بن سعيد القطان
ثقة ثبت
تخريج الحديث:
کتاب
نمبر
مختصر عربی متن
سنن النسائى الصغرى
2990
قصر عن النبي بمشقص في عمرة على المروة
سنن النسائى الصغرى
2991
قصرت عن رسول الله على المروة بمشقص أعرابي
صحيح البخاري
1730
قصرت عن رسول الله بمشقص
صحيح مسلم
3022
قصرت عن رسول الله بمشقص وهو على المروة
صحيح مسلم
3021
قصرت من رأس رسول الله عند المروة بمشقص فقلت له لا أعلم هذا إلا حجة عليك
سنن أبي داود
1802
قصرت عن النبي بمشقص على المروة
سنن أبي داود
1803
قصرت عن رسول الله بمشقص أعرابي على المروة
مسندالحميدي
616
سنن نسائی کی حدیث نمبر 2990 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2990
اردو حاشہ:
(1) یہ واقعہ جعرانہ کا ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ عمرہ 8 ہجری میں فتح مکہ کے بعد ہوا۔ اس وقت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہو چکے تھے۔ عمرے کا اختتام چونکہ مروہ پر ہوتا ہے، لہٰذا حجامت بھی وہیں یا اس کے قرب وجوار میں بنوائی جائے گی اگرچہ شرعاً کوئی جگہ مقرر نہیں۔
(2) تیر کے ساتھ لمبے بال تیر کے ساتھ کاٹے جا سکتے ہیں۔ بالوں کو کسی چیز پر رکھ کر اوپر سے تیر پھیر دیا جائے۔ موجودہ دور میں اس کے لیے نت نئے طریقے رائج ہیں۔ غرض اصل مقصود بالوں کا کتروانا یا منڈوانا ہے۔
[سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2990]

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1803
حج قران کا بیان۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: کیا تمہیں نہیں معلوم کہ میں نے مروہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال ایک اعرابی کے تیر کی پیکان سے کترے۔ حسن کی روایت میں «لحجته» (آپ کے حج میں) ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1803]
1803. اردو حاشیہ:
➊ حضرت معاویہ نے یہ خدمت حج کے موقع پر نہیں بلکہ عمرہ جعرانہ کے موقع پر سر انجام دی تھی۔جیسے کہ سنن نسائی کی روایت میں «فی عمرتة» ‏‏‏‏ کی صراحت ہے۔ (سنن نسائی مناسک الحج حدیث:2990)اور حج کےموقع پر کی تعبیر یاتومجاز ہے یا وہم۔ واللہ اعلم .
➋ عمرے میں صفا مروہ کی سعی کے بعد آدمی بال کتروا کر حلال ہوتا ہے۔ جبکہ عورتوں کو ایک پورا برابر بال کاٹنا کافی ہوتے ہیں۔
[سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعیدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1803]

الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:616
616- سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔یہ چیز سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف حجت ہے یعنی انہوں نے یہ جو کہا کہ میں نے ایک دیہاتی کی قینچی کے ذریعے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مروہ پہاڑ کے قریب چھوٹے کیے تھے۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ یہ اس وقت ہواتھا، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج تمتع کرنے سے منع کیا تھا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:616]
فائدہ:
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:
﴿ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِن شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ﴾ (الفتح: 27)
تم لوگ مسجد حرام میں ضرور داخل ہو گے، ان شاء اللہ اس حال میں کہ تم سرمنڈوائے اور بال تراشے ہو گے کسی کا خوف نہیں ہوگا
قربانی کرنے کے بعد بالوں کو منڈوانا چاہیے، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا: «حلق رسول الله فى حجته» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے موقع پر اپنے سر کے بال منڈوائے۔ [صحيح البخاري: 1726] تفصیل کے لیے بخاری (1726۔ 1730)
جانور ذبح کرنے سے پہلے اگر سرمنڈوالیا جائے تو یہ بھی صحیح ہے۔ «في حجته» ‏‏‏‏ [صحيح البخاري: 721]
عمرے کے بعد سر کے بال منڈوانا صحيح ہے۔ [صحيح البخاري: 1731]
اگر کسی کے سر کے بال نہیں ہیں؟ امام ابن المنذر نیشا پوری رحمہ اللہ نے فرمایا: اجماع ہے کہ گنجا (حج میں) بال مونڈتے وقت اپنے سر پر استرا پھیرے گا۔ (کتاب الاجماع: 198) تا کہ سنت کا پورا اتباع ہو جائے۔
[مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 616]

الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3021
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، مجھے معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے بال مروہ کے پاس، تیر کی دھار یا قینچی سے کاٹے تھے؟ تو میں نے انہیں جواب دیا، میرے نزدیک، میرے علم میں تمہارا یہ فعل، تمہارے خلاف دلیل ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3021]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
انسان جب عمرہ کرتا ہے تو بال مروہ پر کٹواتا یا منڈواتا ہے۔
اور حج میں بال منیٰ میں کٹوائے یا منڈوائے جاتے ہیں اس لیے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس واقعہ سے معلوم ہو ا یہ واقعہ عمرہ کا ہے جبکہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حج تمتع اور حج قران سے روکتے تھے حج افراد کا حکم دیتے تھے اس لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا،
یہ واقعہ تمہارے خلاف جاتا ہے۔
اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ عمرۃ القضاء یا عمرہ جعرانہ سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ وہ صلح حدیبیہ کے بعد دل سے مسلمان ہو چکے تھے۔
اگرچہ اسلام کا اظہار فتح مکہ کے وقت کیا ہے۔
اور حجۃ الوداع میں آپ صلی الله عليہ وسلم کے بال حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منیٰ میں تقسیم کیے تھے اور آپ صلی الله عليہ وسلم نے وہیں سر منڈوایا تھا۔
[تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3021]

مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1730
1730. حضرت معاویہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں نے ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال قینچی سے چھوٹے کیے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1730]
حدیث حاشیہ:
ارکان حج کی بجا آوری کے بعد حاجی کو سر کے بال منڈانے ہیں یا کتروانے، ہر دو صورتیں جائز ہیں، مگر منڈانے والوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار مغفرت کی دعا فرمائی اور کتروانے والوں کے لیے ایک بار، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عنداللہ اس موقع پر بالوں کا منڈوانا زیادہ محبوب ہے۔
اس روایت میں حضرت معاویہ کا بیان وارد ہوتا ہے، اس کے وقت کی تعیین کرنے میں شارحین کے مختلف اقوال ہیں۔
یہ بھی ہے کہ یہ واقعہ حجۃ الوداع کے متعلق نہیں ہے ممکن ہے کہ یہ ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہو کیوں کہ اصحاب سیر کے بیان کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت سے پہلے بھی حج کئے ہیں۔
علامہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔
وقد أخرج بن عساكر في تاريخ دمشق من ترجمة معاوية تصريح معاوية بأنه أسلم بين الحديبية والقضية وأنه كان يخفي إسلامه خوفا من أبويه وكان النبي صلى الله عليه وسلم لما دخل في عمرة القضية مكة خرج أكثر أهلها عنها حتى لا ينظرونه وأصحابه يطوفون بالبيت فلعل معاوية كان ممن تخلف بمكة لسبب اقتضاه ولا يعارضه أيضا قول سعد بن أبي وقاص فيما أخرجه مسلم وغيره فعلناها يعني العمرة في أشهر الحج وهذا يومئذ كافر بالعرش بضمتين يعني بيوت مكة يشير إلى معاوية لأنه يحمل على أنه أخبر بما استصحبه من حاله ولم يطلع على إسلامه لكونه كان يخفيه ويعكر على ما جوزوه أن تقصيره كان في عمرة الجعرانة أن النبي صلى الله عليه وسلم ركب من الجعرانة بعد أن أحرم بعمرة ولم يستصحب أحدا معه إلا بعض أصحابه المهاجرين فقدم مكة فطاف وسعى وحلق ورجع إلى الجعرانة فأصبح بها كبائت فخفيت عمرته على كثير من الناس كذا أخرجه الترمذي وغيره ولم يعد معاوية فيمن صحبه حينئذ ولا كان معاوية فيمن تخلف عنه بمكة في غزوة حنين حتى يقال لعله وجده بمكة بل كان مع القوم وأعطاه مثل ما أعطى أباه من الغنيمة مع جملة المؤلفة وأخرج الحاكم في الإكليل في آخر قصة غزوة حنين أن الذي حلق رأسه صلى الله عليه وسلم في عمرته التي اعتمرها من الجعرانة أبو هند عبد بني بياضة فإن ثبت هذا وثبت أن معاوية كان حينئذ معه أو كان بمكة فقصر عنه بالمروة أمكن الجمع بأن يكون معاوية قصر عنه أولا وكان الحلاق غائبا في بعض حاجته ثم حضر فأمره أن يكمل إزالة الشعر بالحلق لأنه أفضل ففعل وإن ثبت أن ذلك كان في عمرة القضية وثبت أنه صلى الله عليه وسلم حلق فيها جاء هذا الاحتمال بعينه وحصل التوفيق بين الأخبار كلها وهذا مما فتح الله علي به في هذا الفتح ولله الحمد ثم لله الحمد أبدا۔
(فتح الباري)
خلاصہ اس عبارت کا یہ ہے کہ حضرت معاویہ ؓ سال حدیبیہ اور سال عمرۃ القضاء کے درمیان اسلام لا چکے تھے، مگر وہ والدین کے ڈر سے اپنے اسلام کو ظاہر نہیں کر رہے تھے، عمرۃ القضاء میں جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب طواف کعبہ میں مشغول تھے تمام کفار مکہ شہر چھوڑ کر باہر چلے گئے تاکہ وہ اہل اسلام کو دیکھ نہ سکیں اس موقع پر شاید حضرت معاویہ ؓ مکہ شریف ہی میں رہ گئے ہوں (اور ممکن ہے کہ مذکورہ بالا واقعہ بھی اسی وقت سے تعلق رکھتا ہو)
اور سعد بن وقاص ؓ کا وہ قول جسے مسلم نے روایت کیا ہے اس کے خلاف نہیں ہے جس میں ذکر ہے کہ حضرت معاویہ ؓ عمرۃ القضاء کے موقع پر مکہ شریف کے کسی گھر میں چھت پر چھپے ہوئے تھے۔
یہ اس لیے کہ وہ اپنے اسلام کو اپنے رشتہ داروں سے ابھی تک پوشیدہ رکھے ہوئے تھے اور جس نے اس واقعہ کو عمرہ جعرانہ سے متعلق بتلایا ہے وہ درست نہیں معلوم ہوتا کیوں کہ اس موقع پر جو صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ان میں حضرت معاویہ ؓ کا شمار نہیں ہے اور غزوہ حنین کے موقع پر انہوں نے اپنے والد کے ساتھ مال غنیمت سے مولفین میں شامل ہو کر حصہ لیا تھا۔
غزوہ حنین کے قصہ کے آخر میں حاکم نے نقل کیا ہے کہ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مونڈنے والا بنی بیاضہ کا ایک غلام تھا جس کا نام ابو ہند تھا، اگر یہ ثابت ہے اور یہ بھی ثابت ہو جائے کہ حضرت معاویہ ؓ اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے یا مکہ میں موجود تھے تو یہ امکان ہے کہ انہوں نے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال قینچی سے کترے ہوں اور حلاق اس وقت غائب رہاہو پھر اس کے آجانے پر اس سے کرایا ہو کیوں کہ حلق افضل ہے اور اگر یہ عمرۃ القضیہ میں ثابت ہو جب کہ وہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلق ثابت ہے تو یہ احتمال صحیح ہے کہ اس موقع پر انہوں نے یہ خدمت انجام دی ہو۔
مختلف روایات میں تطیبق کی یہ توفیق محض اللہ کے فضل سے حاصل ہوئی ہے۔
و للہ الحمد۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1730]

الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1730
1730. حضرت معاویہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں نے ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال قینچی سے چھوٹے کیے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1730]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی حدیث میں صراحت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کے بال حجۃ الوداع کے موقع پر منڈوائے تھے اور بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے انہیں چھوٹا کرایا تھا۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4411)
حضرت امیر معاویہ ؓ نے عمرۂ جعرانه کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک قینچی سے چھوٹے کیے تھے کیونکہ یہ بات تواتر سے ثابت ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے بال منڈوائے تھے۔
اور حضرت ابو طلحہ ؓ نے آپ کے بال مبارک لوگوں میں تقسیم کیے تھے۔
اور عمرۂ قضاء جو سات ہجری میں ہوا اس وقت حضرت معاویہ ؓ مسلمان نہیں ہوئے تھے، اس لیے عمرۂ جعرانه میں انہوں نے یہ خدمت سر انجام دی ہو گی۔
(2)
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ حضرت امیر معاویہ ؓ صلح حدیبیہ اور عمرۃ القضاء کے درمیان مسلمان ہو چکے تھے لیکن انہوں نے اپنے والدین سے ڈرتے ہوئے اپنا اسلام پوشیدہ رکھا اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمرۃ القضاء کے موقع پر مکہ مکرمہ تشریف لائے تو اہل مکہ نے مکہ خالی کر دیا تھا تاکہ وہ اہل اسلام کو بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھ نہ سکیں، ممکن ہے کہ حضرت امیر معاویہ ؓ اس وقت کسی وجہ سے مکہ مکرمہ ہی میں رہے ہوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال چھوٹے کرنے کا موقع انہی حالات میں پیش آیا ہو۔
اور جن حضرات نے اس واقعے کو عمرۂ جعرانه سے متعلق بیان کیا ہے وہ اس لیے صحیح نہیں کہ جو حضرات اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے ان میں حضرت معاویہ ؓ موجود نہیں تھے، پھر اس موقع پر آپ کا سر مونڈنے والا بنو بیاضہ کا ایک غلام تھا جس کا نام ابو ہند ہے۔
(فتح الباري: 713/3)
بہرحال امام بخاری ؒ نے ان روایات سے ثابت کیا ہے کہ احرام کھولتے وقت بالوں کا مونڈنا اور چھوٹے کرنا دونوں جائز ہیں۔
اور مونڈنا افضل ہے کیونکہ اس میں بالکل زینت ختم ہو جاتی ہے اور حاجی کو ترک زینت ہی کا حکم ہے جبکہ بال چھوٹے کرانے میں زینت کا کچھ نہ کچھ حصہ سر پر باقی رہ جاتا ہے۔
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1730]