الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
Establishing the Prayer and the Sunnah Regarding Them
97. بَابُ : مَا جَاءَ فِي الأَذَانِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ
97. باب: جمعہ کے دن اذان کا بیان۔
حدیث نمبر: 1135
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا يوسف بن موسى القطان ، حدثنا جرير . ح وحدثنا عبد الله بن سعيد ، حدثنا ابو خالد الاحمر جميعا، عن محمد بن إسحاق ، عن الزهري ، عن السائب بن يزيد ، قال:" ما كان لرسول الله صلى الله عليه وسلم إلا مؤذن واحد إذا خرج اذن، وإذا نزل اقام، وابو بكر، وعمر كذلك، فلما كان عثمان، وكثر الناس زاد النداء الثالث على دار في السوق يقال لها الزوراء، فإذا خرج اذن وإذا نزل اقام".
(مرفوع) حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى الْقَطَّانُ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ . ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ جَمِيعًا، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ ، قَالَ:" مَا كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا مُؤَذِّنٌ وَاحِدٌ إِذَا خَرَجَ أَذَّنَ، وَإِذَا نَزَلَ أَقَام، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ كَذَلِكَ، فَلَمَّا كَانَ عُثْمَانُ، وَكَثُرَ النَّاسُ زَادَ النِّدَاءَ الثَّالِثَ عَلَى دَارٍ فِي السُّوقِ يُقَالُ لَهَا الزَّوْرَاءُ، فَإِذَا خَرَجَ أَذَّنَ وَإِذَا نَزَلَ أَقَامَ".
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صرف ایک ہی مؤذن تھے ۱؎، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم (خطبہ کے لیے) نکلتے تو وہ اذان دیتے، اور جب منبر سے اترتے تو اقامت کہتے، ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما کے زمانہ میں بھی ایسا ہی تھا، جب عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے اور لوگ زیادہ ہو گئے، تو انہوں نے زوراء نامی ۲؎ بازار میں ایک مکان پر، تیسری اذان کا اضافہ کر دیا، چنانچہ جب عثمان رضی اللہ عنہ (خطبہ دینے کے لیے) نکلتے تو مؤذن (دوبارہ) اذان دیتا، اور جب منبر سے اترتے تو تکبیر کہتا ۳؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الجمعة 21 (912)، 22 (913)، 24 (915)، 25 (916)، سنن ابی داود/الصلاة 225 (1088، 1090)، سنن الترمذی/الصلاة 255 (516)، سنن النسائی/الجمعة 15 (1393، 1394)، (تحفة الأشراف: 3799)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/449، 450) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یعنی جمعہ کے دن کے لئے ایک ہی مؤذن تھا، اب یہ اعتراض نہ ہو گا کہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ بھی آپ ﷺ کے مؤذن تھے، کیونکہ وہ صرف فجر کی اذان دیا کرتے تھے، بلال رضی اللہ عنہ کی اذان کے بعد، اور ابو محذورہ رضی اللہ عنہ مکہ میں اذان دیتے تھے، اور سعد القرظ قبا میں اذان دیتے تھے، اور حارث صدائی کبھی کبھی سفر وغیرہ میں اذان دیا کرتے تھے، انہوں نے صرف اذان سیکھی تھی۔ ۲؎: زوراء: مدینہ کے ایک بازار کا نام تھا۔ ۳؎:تکبیر کو شامل کر کے یہ تیسری اذان ہوئی، اور یہ ترتیب میں پہلی اذان ہے جو خلیفہ راشد عثمان رضی اللہ عنہ کی سنت ہے، دوسری اذان اس وقت ہو گی جب امام خطبہ دینے کے لئے منبر پر بیٹھے گا، اور تیسری اذان، اقامت (تکبیر) ہے، اگر کوئی اذان اور اقامت ہی پر اکتفا کرے تو اس نے نبی اکرم ﷺ اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے سنت کی اتباع کی۔

It was narrated that Sa’ib bin Yazid said: “The Messenger of Allah (ﷺ) had only one Mu’adh-dhin. When he came out he would give the Adhan and when he came down (from the pulpit) he would give the Iqamah. Abu Bakr and ‘Umar did likewise, but when ‘Uthman (became caliph) the numbers of people had increased, he added the third call from atop a house in the marketplace that was called Zawra’. When he came out (the Mu’adh-dhin) would call the Adhan, and when he came down from the pulpit, he would call the Iqamah.
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

   سنن النسائى الصغرى1394سائب بن يزيدلم يكن لرسول الله غير مؤذن واحد التأذين يوم الجمعة حين يجلس الإمام
   سنن النسائى الصغرى1395سائب بن يزيدبلال يؤذن إذا جلس رسول الله على المنبر يوم الجمعة فإذا نزل أقام ثم كان كذلك في زمن أبي بكر وعمر ما
   سنن ابن ماجه1135سائب بن يزيدما كان لرسول الله إلا مؤذن واحد إذا خرج أذن وإذا نزل أقام وأبو بكر وعمر كذلك فلما كان عثمان وكثر الناس زاد النداء الثالث على دار في السوق يقال لها الزوراء فإذا خرج أذن وإذا نزل أقام

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1135  
´جمعہ کے دن اذان کا بیان۔`
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صرف ایک ہی مؤذن تھے ۱؎، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم (خطبہ کے لیے) نکلتے تو وہ اذان دیتے، اور جب منبر سے اترتے تو اقامت کہتے، ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما کے زمانہ میں بھی ایسا ہی تھا، جب عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے اور لوگ زیادہ ہو گئے، تو انہوں نے زوراء نامی ۲؎ بازار میں ایک مکان پر، تیسری اذان کا اضافہ کر دیا، چنانچہ جب عثمان رضی اللہ عنہ (خطبہ دینے کے لیے) نکلتے تو مؤذن (دوبارہ) اذان دیتا، اور جب منبر سے اترتے تو تکبیر کہتا ۳؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1135]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
خطبہ شروع ہونے سے پہلے جو اذان کہی جاتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں جمعے کے لئے صرف وہی اذان ہوتی تھی۔
پھر نماز شروع کرتے وقت اقامت کہی جاتی تھی۔
جسے دوسری اذان کا نام دیا گیا۔
ان دو اذانوں (اذان اور اقامت)
کے علاوہ جو اذان ہے۔
اسے یہاں تیسری اذان کہا گیا ہے کیونکہ وہ ان دونوں کے بعد شروع ہوئی اور یہ وہ اذان ہے۔
جو خطبہ شروع ہونے سے کافی پہلے کہی جاتی ہے۔
تاکہ لوگ جمعے کی تیاری کرکے بروقت مسجد میں پہنچ سکیں۔

(2)
فجر کی اذان سے پہلے بھی ایک اور اذان کہی جاتی ہے۔
جسے عرف عام میں تہجد کی اذان کہتے ہیں۔
اس کی حکمت بھی یہی ہے کہ مسلمان فجر کی اذان سے پہلے بیدار ہوجائیں تاکہ ضروری حاجات سے فارغ ہوکر وضو وغیرہ کرکے بروقت فجر کی نماز کےلئے مسجد میں پہنچ سکیں۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فجر کی اس پہلی اذان پر قیاس کرتے ہوئے جمعے کی پہلی اذان شروع کی۔
کیونکہ جسطرح فجر سے پہلے کا وقت غفلت کا ہوتا ہے۔
اسی طرح جمعےسے پہلے کا وقت بھی مصروفیت کیوجہ سے ایک طرح غفلت کا وقت ہی ہوتا ہے اس طرح جمعے سے پہلے کا وقت بھی مصروفیت کی وجہ سے ایک طرح سے غفلت کا وقت ہی ہوتا ہے۔
لہٰذا وقت سے پہلے ہی توجہ دلانے اور ہوشیار کرنے کے لئے اذان کہی جاتی ہے۔

(3)
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جمعے کی پہلی اذان مسجد سے باہر بازار میں کہلوائی تاکہ زیادہ لوگ متوجہ ہوسکیں۔
آج کے دور میں لاؤڈ اسپیکر کی وجہ سے مسجد کے اندر کہی ہوئی اذان سے بھی یہی مقصد حاصل ہوجاتا ہے۔
اس لئے اس اذان کامسجد سے باہر ہونا ضروری نہیں۔

(4)
جمعے کی پہلی اذان خلفائے راشدین رضوان للہ عنہم اجمعین کی سنت ہے۔
اللہ کےرسولﷺ نے فرمایا تھا۔
میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین رضوان للہ عنہم اجمعین کی سنت اختیار کرو (سنن ابن ماجه حدیث: 42)
 سنت نبوی ﷺ کےمطابق صرف ایک اذان کہنا یا خلیفہ راشد رضوان للہ عنہم اجمعین کی سنت کے مطابق دو اذانیں کہنا دونوں طرح جائز ہے۔
تاہم سنت نبوی ﷺ کے مطابق ایک ہی اذان کہنا زیادہ بہتر ہے البتہ بعض اہل علم کے نزدیک لاؤڈ اسپیکر اور گھڑیوں کے عام ہونے کی وجہ سے موجودہ دور میں پہلی اذان کا جواز بھی باقی نہیں رہتا۔
تاہم جہاں یہ چیزیں نہ ہوں۔
تو وہاں ضرورت کے مطابق اس پر عمل کرنا جائز ہوگا۔
واللہ أعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1135   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.