الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
موطا امام مالك رواية يحييٰ کل احادیث 1852 :حدیث نمبر
موطا امام مالك رواية يحييٰ
کتاب: عتق اور ولاء کے بیان میں
1. بَابُ مَا جَاءَ فِيمَنْ أَعْتَقَ شِرْكًا لَهُ فِي عَبْدٍ
1. جو شخص غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے اس کا بیان
حدیث نمبر: 1268
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني مالك، عن نافع ، عن عبد الله بن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " من اعتق شركا له في عبد، فكان له مال يبلغ ثمن العبد قوم عليه قيمة العدل، فاعطى شركاءه حصصهم، وعتق عليه العبد، وإلا فقد عتق منه ما عتق" . حَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ أَعْتَقَ شِرْكًا لَهُ فِي عَبْدٍ، فَكَانَ لَهُ مَالٌ يَبْلُغُ ثَمَنَ الْعَبْدِ قُوِّمَ عَلَيْهِ قِيمَةَ الْعَدْلِ، فَأَعْطَى شُرَكَاءَهُ حِصَصَهُمْ، وَعَتَقَ عَلَيْهِ الْعَبْدُ، وَإِلَّا فَقَدْ عَتَقَ مِنْهُ مَا عَتَقَ" .
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص مشترک غلام میں سے اپنا حصّہ آزاد کر دے، اور اس شخص کے پاس اتنا مال ہو کہ غلام کی قیمت دے سکے، تو اس غلام کی قیمت لگا کر ہر ایک شریک کو موافق حصّہ ادا کرے گا، اور غلام اس کی طرف سے آزاد ہو جائے گا، اور اگر اس کے پاس مال نہیں ہے تو جس قدر اس غلام میں سے آزاد ہوا ہے، اتنا ہی حصّہ آزاد رہے گا۔

تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2491، 2503، 2521، 2522، 2523، 2524، 2525، 2553، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1501، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4315، 4316، 4317، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4702، 4703، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4917، 4918، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3940، الترمذي فى «جامعه» برقم: 1346، 1347، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2528، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11636، 21377، وأحمد فى «مسنده» برقم: 5920، والحميدي فى «مسنده» برقم: 686، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 16712، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 22148، فواد عبدالباقي نمبر: 38 - كِتَابُ الْعِتْقِ وَالْوَلَاءِ-ح: 1»

حدیث نمبر: 1268ب1
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال مالك: والامر المجتمع عليه عندنا في العبد يعتق سيده منه شقصا ثلثه او ربعه او نصفه او سهما من الاسهم بعد موته، انه لا يعتق منه إلا ما اعتق سيده، وسمى من ذلك الشقص، وذلك ان عتاقة ذلك الشقص إنما وجبت وكانت بعد وفاة الميت، وان سيده كان مخيرا في ذلك ما عاش، فلما وقع العتق للعبد على سيده الموصي، لم يكن للموصي إلا ما اخذ من ماله، ولم يعتق ما بقي من العبد، لان ماله قد صار لغيره، فكيف يعتق ما بقي من العبد على قوم آخرين ليسوا هم ابتدءوا العتاقة ولا اثبتوها ولا لهم الولاء ولا يثبت لهم، وإنما صنع ذلك الميت هو الذي اعتق واثبت له الولاء، فلا يحمل ذلك في مال غيره إلا ان يوصي بان يعتق ما بقي منه في ماله، فإن ذلك لازم لشركائه وورثته، وليس لشركائه ان يابوا ذلك عليه وهو في ثلث مال الميت، لانه ليس على ورثته في ذلك ضرر. قَالَ مَالِك: وَالْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا فِي الْعَبْدِ يُعْتِقُ سَيِّدُهُ مِنْهُ شِقْصًا ثُلُثَهُ أَوْ رُبُعَهُ أَوْ نِصْفَهُ أَوْ سَهْمًا مِنَ الْأَسْهُمِ بَعْدَ مَوْتِهِ، أَنَّهُ لَا يَعْتِقُ مِنْهُ إِلَّا مَا أَعْتَقَ سَيِّدُهُ، وَسَمَّى مِنْ ذَلِكَ الشِّقْصِ، وَذَلِكَ أَنَّ عَتَاقَةَ ذَلِكَ الشِّقْصِ إِنَّمَا وَجَبَتْ وَكَانَتْ بَعْدَ وَفَاةِ الْمَيِّتِ، وَأَنَّ سَيِّدَهُ كَانَ مُخَيَّرًا فِي ذَلِكَ مَا عَاشَ، فَلَمَّا وَقَعَ الْعِتْقُ لِلْعَبْدِ عَلَى سَيِّدِهِ الْمُوصِي، لَمْ يَكُنْ لِلْمُوصِي إِلَّا مَا أَخَذَ مِنْ مَالِهِ، وَلَمْ يَعْتِقْ مَا بَقِيَ مِنَ الْعَبْدِ، لِأَنَّ مَالَهُ قَدْ صَارَ لِغَيْرِهِ، فَكَيْفَ يَعْتِقُ مَا بَقِيَ مِنَ الْعَبْدِ عَلَى قَوْمٍ آخَرِينَ لَيْسُوا هُمُ ابْتَدَءُوا الْعَتَاقَةَ وَلَا أَثْبَتُوهَا وَلَا لَهُمُ الْوَلَاءُ وَلَا يَثْبُتُ لَهُمْ، وَإِنَّمَا صَنَعَ ذَلِكَ الْمَيِّتُ هُوَ الَّذِي أَعْتَقَ وَأُثْبِتَ لَهُ الْوَلَاءُ، فَلَا يُحْمَلُ ذَلِكَ فِي مَالِ غَيْرِهِ إِلَّا أَنْ يُوصِيَ بِأَنْ يَعْتِقَ مَا بَقِيَ مِنْهُ فِي مَالِهِ، فَإِنَّ ذَلِكَ لَازِمٌ لِشُرَكَائِهِ وَوَرَثَتِهِ، وَلَيْسَ لِشُرَكَائِهِ أَنْ يَأْبَوْا ذَلِكَ عَلَيْهِ وَهُوَ فِي ثُلُثِ مَالِ الْمَيِّتِ، لِأَنَّهُ لَيْسَ عَلَى وَرَثَتِهِ فِي ذَلِكَ ضَرَرٌ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ مولیٰ اگر اپنے مرنے کے بعد اپنے غلام کا ایک حصّہ جیسے تہائی یا چوتھائی یا آدھا آزاد کر جائے، تو بعد مولیٰ کے مرجانے کے اسی قدر حصّہ جتنا مولیٰ نےآزاد کیا تھا آزاد ہوجائے گا، کیونکہ اس حصّے کی آزادی بعد مولیٰ کے مرجانے کے لازم ہوئی، اور جب تک مولیٰ زندہ تھا اس کو اختیار تھا، جب مر گیا تو موافق اس کی وصیت کے اسی قدرحصّہ آزاد ہوگا، اور باقی غلام آزاد نہ ہوگا، اس واسطے کہ وہ غیر کی ملک ہوگیا، تو باقی غلام غیر کی طرف سے کیونکر آزاد ہوگا، نہ اس نے آزادی شروع کی اور نہ ثابت کی، اور نہ اس کے واسطے ولاء ہے، بلکہ یہ میت کا فعل ہے، اسی نے آزاد کیا اور اسی نے اپنے لیے ولاء ثابت کی، تو غیر کے مال میں کیونکر درست ہوگا، البتہ اگر یہ وصیت کر جائے کہ باقی غلام بھی اس کے مال میں سے آزاد کردیا جائے گا، اور تہائی مال میں سے وہ غلام آزاد ہو سکتا ہو تو آزاد ہوجائے گا، پھر اس کے شریکوں یا وارثوں کو تعرض نہیں پہنچتا، کیونکہ ان کا کچھ ضرر نہیں۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 38 - كِتَابُ الْعِتْقِ وَالْوَلَاءِ-ح: 1»

حدیث نمبر: 1268ب2
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
. قال مالك: ولو اعتق رجل ثلث عبده وهو مريض، فبت عتقه عتق عليه كله في ثلثه، وذلك انه ليس بمنزلة الرجل يعتق ثلث عبده بعد موته، لان الذي يعتق ثلث عبده بعد موته لو عاش رجع فيه ولم ينفذ عتقه، وان العبد الذي يبت سيده عتق ثلثه في مرضه يعتق عليه كله إن عاش، وإن مات عتق عليه في ثلثه، وذلك ان امر الميت جائز في ثلثه، كما ان امر الصحيح جائز في ماله كله. قَالَ مَالِك: وَلَوْ أَعْتَقَ رَجُلٌ ثُلُثَ عَبْدِهِ وَهُوَ مَرِيضٌ، فَبَتَّ عِتْقَهُ عَتَقَ عَلَيْهِ كُلُّهُ فِي ثُلُثِهِ، وَذَلِكَ أَنَّهُ لَيْسَ بِمَنْزِلَةِ الرَّجُلِ يُعْتِقُ ثُلُثَ عَبْدِهِ بَعْدَ مَوْتِهِ، لِأَنَّ الَّذِي يُعْتِقُ ثُلُثَ عَبْدِهِ بَعْدَ مَوْتِهِ لَوْ عَاشَ رَجَعَ فِيهِ وَلَمْ يَنْفُذْ عِتْقُهُ، وَأَنَّ الْعَبْدَ الَّذِي يَبِتُّ سَيِّدُهُ عِتْقَ ثُلُثِهِ فِي مَرَضِهِ يَعْتِقُ عَلَيْهِ كُلُّهُ إِنْ عَاشَ، وَإِنْ مَاتَ عَتَقَ عَلَيْهِ فِي ثُلُثِهِ، وَذَلِكَ أَنَّ أَمْرَ الْمَيِّتِ جَائِزٌ فِي ثُلُثِهِ، كَمَا أَنَّ أَمْرَ الصَّحِيحِ جَائِزٌ فِي مَالِهِ كُلِّهِ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیماری میں تہائی غلام آزاد کردیا، تو وہ تہائی مال میں سے پورا آزاد ہو جائے گا، کیونکہ یہ مثل اس شخص کے نہیں ہے جو اپنی تہائی غلام کی آزادی اپنی موت پر معلق کر دے، اس واسطے کہ اس کی آزادی قطعی نہیں جب تک زندہ ہے رجوع کرسکتا ہے، اور جس نے اپنے مرض میں تہائی غلام قطعاً آزاد کردیا، اگر وہ زندہ رہ گیا تو کل غلام آزاد ہوجائے گا، کیونکہ میت کا تہائی مال میں وصیت درست ہے، جیسے صحیح سالم کا تصرف کل مال میں درست ہے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 38 - كِتَابُ الْعِتْقِ وَالْوَلَاءِ-ح: 2»


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.