الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
کتاب خوابوں کے بیان میں
13. باب في الْقُمُصِ وَالْبِئْرِ وَاللَّبَنِ وَالْعَسَلِ وَالسَّمْنِ وَالْقَمَرِ وَغَيْرِ ذَلِكَ في النَّوْمِ:
13. قمیص، کنواں، دودھ، شہد، گھی، کھجور وغیرہ خواب میں دیکھنے کا بیان
حدیث نمبر: 2193
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن كثير، حدثنا سليمان هو ابن كثير، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان مما يقول لاصحابه: "من راى منكم رؤيا، فليقصها علي فاعبرها له". قال: فجاء رجل فقال: يا رسول الله، رايت ظلة بين السماء والارض تنطف عسلا وسمنا، ورايت سببا واصلا من السماء إلى الارض، ورايت اناسا يتكففون منها، فمستكثر ومستقل، فاخذت به فعلوت، فاعلاك الله، ثم اخذ به الذي بعدك فعلا، فاعلاه الله، ثم اخذه الذي بعده فعلا، فاعلاه الله، ثم اخذه الذي بعده فقطع به، ثم وصل فاتصل. فقال ابو بكر: يا رسول الله، ائذن لي فاعبرها، فقال: اعبرها. وكان اعبر الناس للرؤيا بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: اما الظلة فالإسلام، واما العسل والسمن فالقرآن: حلاوة العسل ولين السمن، واما الذين يتكففون منه، فمستكثر ومستقل فهم حملة القرآن، واما السبب الواصل من السماء إلى الارض فالحق الذي انت عليه، تاخذ به فيعليك الله به، ثم ياخذ به رجل من بعدك فيعلو به، ثم ياخذ به رجل آخر فيعلو به، ثم ياخذ به رجل آخر فينقطع به، ثم يوصل له فيعلو به، فاخبرني يا رسول الله بابي انت اصبت ام اخطات، فقال صلى الله عليه وسلم:"اصبت واخطات". فقال: فما الذي اصبت وما الذي اخطات؟ فابى ان يخبره.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ هُوَ ابْنُ كَثِيرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ مِمَّا يَقُولُ لِأَصْحَابِهِ: "مَنْ رَأَى مِنْكُمْ رُؤْيَا، فَلْيَقُصَّهَا عَلَيَّ فَأَعْبُرَهَا لَهُ". قَالَ: فَجَاءَ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَأَيْتُ ظُلَّةً بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ تَنْطِفُ عَسَلًا وَسَمْنًا، وَرَأَيْتُ سَبَبًا وَاصِلًا مِنْ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ، وَرَأَيْتُ أُنَاسًا يَتَكَفَّفُونَ مِنْهَا، فَمُسْتَكْثِرٌ وَمُسْتَقِلٌّ، فَأَخَذْتَ بِهِ فَعَلَوْتَ، فَأَعْلَاكَ اللَّهُ، ثُمَّ أَخَذَ بِهِ الَّذِي بَعْدَكَ فَعَلَا، فَأَعْلَاهُ اللَّهُ، ثُمَّ أَخَذَهُ الَّذِي بَعْدَهُ فَعَلَا، فَأَعْلَاهُ اللَّهُ، ثُمَّ أَخَذَهُ الَّذِي بَعْدَهُ فَقُطِعَ بِهِ، ثُمَّ وُصِلَ فَاتَّصَلَ. فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ائْذَنْ لِي فَأَعْبُرَهَا، فَقَالَ: اعْبُرْهَا. وَكَانَ أَعْبَرَ النَّاسِ لِلرُّؤْيَا بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَمَّا الظُّلَّةُ فَالْإِسْلَامُ، وَأَمَّا الْعَسَلُ وَالسَّمْنُ فَالْقُرْآنُ: حَلَاوَةُ الْعَسَلِ وَلِينُ السَّمْنِ، وَأَمَّا الَّذِينَ يَتَكَفَّفُونَ مِنْهُ، فَمُسْتَكْثِرٌ وَمُسْتَقِلٌّ فَهُمْ حَمَلَةُ الْقُرْآنِ، وَأَمَّا السَّبَبُ الْوَاصِلُ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الأَرْضِ فَالْحَقُّ الَّذِي أَنْتَ عَلَيْهِ، تَأْخُذُ بِهِ فَيُعْليكَ اللهُ بِهِ، ثُمَّ يَأْخُذُ بِهِ رَجُلٌ مِنْ بَعْدِكَ فَيَعْلُو بِهِ، ثُمَّ يَأَخُذُ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَيَعْلُو بِهِ، ثُمَّ يَأْخُذُ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَيَنْقَطِعُ بِهِ، ثُمَّ يُوصَلُ لَهُ فَيَعْلُو بِهِ، فَأَخْبِرْني يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ أَصَبْتُ أَمْ أَخْطَأْتُ، فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"أَصَبْتَ وَأَخْطَأْتَ". فَقَالَ: فَمَا الَّذِي أَصَبْتُ وَمَا الَّذِي أَخْطَأْتُ؟ فَأَبَى أَنْ يُخْبِرَهُ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ سے فرماتے تھے: تم میں سے کسی نے خواب دیکھا ہو تو بتائے تاکہ میں اس کی تعبیر بتا دوں، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: چنانچہ ایک صحابی تشریف لائے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے زمین و آسمان کے بیچ ابر (بدلی) دیکھی جس سے شہد اور گھی ٹپک رہا ہے، اور دیکھتا ہوں کہ ایک رسی آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے، میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا وہ اس (گھی اور شہد) کو اپنے ہاتھوں میں لے رہے ہیں، کوئی زیادہ لے رہا ہے اور کوئی کم پا رہا ہے، دیکھا کہ آپ نے اس رسی کو پکڑا اور اوپر چڑھے، الله تعالیٰ نے آپ کو اوپر چڑھا دیا، پھر آپ کے بعد ایک اور شخص نے اس رسی کو پکڑا اور اوپر چڑھے، الله تعالیٰ نے انہیں بھی اوپر چڑھا دیا، پھر ان کے بعد ایک اور شخص نے اس رسی کو تھاما لیکن وہ رسی کٹ گئی پھر جڑ گئی اور وہ بھی اوپر چلے گئے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئے میں اس خواب کی تعبیر بیان کروں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چلو بیان کرو، اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تعبیر الرویا کا سب سے زیادہ علم رکھتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اس سایہ یا ابر سے مراد اسلام ہے، اور ٹپکتا ہوا شہد و گھی قرآن پاک ہے جس میں شہد کی سی مٹھاس اور دودھ کی سی نرمی ہے، اور جو اس کو اپنے ہاتھوں میں لے رہے ہیں کسی کو زیادہ حصہ مل رہا ہے اور کسی کو کم سو یہ قرآن کے حاملین ہیں۔ ایک نسخہ میں یہ اضافہ ہے: رہی آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی رسی تو وہ سچائی و سرداری ہے جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قائم ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے تھامے ہوئے ہیں اور اس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تبارک سے جا ملیں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو اس رسی کو تھامے گا وہ بھی اس کے ساتھ اللہ سے جا ملے گا۔ پھر ان کے بعد دوسرا آدمی اس کو پکڑے گا اور اللہ سے جا ملے گا، پھر اس کے بعد جو شخص اس کو تھامے گا وہ رسی اس سے ٹوٹ جائے گی، پھر اس کو جوڑ دیا جائے گا اور وہ اس کے ساتھ اللہ سے جا ملے گا۔ اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان، بتایئے، میں نے صحیح کہا یا غلط؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے بعض حصے کی صحیح تعبیر بتائی اور بعض کی غلط، عرض کیا: پھر بتایئے، میں نے کہاں صحیح کہا ہے اور کیا غلط بیانی کی ہے؟ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتانے سے انکار کر دیا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2202]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 7046]، [مسلم 2269]، [أبوداؤد 3269]، [ابن ماجه 3918]، [أبويعلی 2565]، [ابن حبان 1111]، [الحميدي 546]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2191 سے 2193)
بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ تم نے صحیح کہا اور کچھ غلط۔
اس وقت سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ آپ مجھے بتائیں میں نے کیا غلطی کی؟ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا تقسم» ..... قسم مت کھاؤ ....... إلخ۔
اس خواب کی تشریح بیان کرنے میں برے اندیشے تھے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکوت مناسب سمجھا، اس خواب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رنج ہوا کہ میرا ایک خلیفہ آفتوں میں گرفتار ہوگا، بخاری شریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چار اشخاص کے اس رسی کو پکڑنے کا ذکر ہے جس سے مراد خلفائے اربعہ ہیں جن کا دورِ حکومت علی منہاج النبوہ تھا، اسی حدیث سے ثابت ہوا کہ دوسروں کی بابت خواب کا دیکھا جانا بھی صحیح ہے۔
اس حدیث کی تشریح میں مہلب نے کہا: سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی توجیہ یہ ہے کہ سایہ یا ابرِ رحمت اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔
جبکہ بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ نے بادلوں کا سایہ ڈالا ایسا ہی اہلِ جنّت پر سایہ ہو گا۔
اسلام ایسا ہی مبارک سایہ ہے جس سائے میں مسلمانوں کو تکالیف سے نجات اور راحت ملتی ہے اور اس کو آخرت میں نعمتوں سے نوازا جاتا ہے۔
اسی طرح شہد میں شفا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے ایسا ہی قرآن مجید بھی شفا ہے «(شفاء ورحمة للمؤمنين)» وہ سننے میں بھی شہد جیسی حلاوت و شیرینی رکھتا ہے۔
(راز رحمہ اللہ)۔
واضح رہے کہ اس سچے خواب میں نبوت و خلافت اور خلفائے کرام کا ذکر ہے، حق سے مراد نبوت اور خلافت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو لیا اور اسی پر وفات پا کر اللہ سے جا ملے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بارِ خلافت سنبھالا اور وفات پائی، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی علی منہاج النبوہ خلافت کرتے ہوئے وفات پا گئے، تیسرے خلیفہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے خلافت سنبھالی لیکن مفسدین کے فساد کے سبب خلافت کی رسی ٹوٹی اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے خلافت چھوڑ دینا چاہی لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو ثابت قدم رکھا اور وہ رسی جڑی رہی حتیٰ کہ آپ کی شہادت کا حادثہ پیش آیا۔
اس خواب میں ناگواری کے پہلو تھے اس لئے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کرنا مناسب نہ سمجھا، اور علماء کرام نے فرمایا: سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے تعبیر بتانے میں غلطی یہ کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں تعبیر بتائی اور ترکِ ادب کیا۔
بعض نے کہا: غلطی کی کہ شہد اور گھی دونوں سے قرآن کی تعبیر کی، صحیح یوں تھا کہ قرآن اور حدیث سے تعبیر کرتے، واللہ اعلم۔
(وحیدی)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.